La Alma
لائبریرین
یہ معاملہ تو وقتی معاشرتی رجحانات کا ہو گیا جو بدلتے رہتے ہیں۔ اس شے کو خالصتاً جنس کے زیر اثر فنکشن (purely a function of gender) تو نہیں کہا جا سکتا۔
اس بات کی آفاقیت تو اپنی جگہ مسلمہ ہے البتہ بدلتے حالات کے تناظر میں اس کی ضرورت محدود سے محدود تر ہو گئی ہے۔ اب صرف یادداشت پر انحصار کرنے کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسے معاملات کی شفافیت کو زیادہ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ وہ زمانہ نہیں رہا جب سادہ کاغذ پر تحریر لکھ کر صرف گواہان کی یادداشت پر بھروسہ کیا جاتا تھا۔ جہاں مکمل ڈاکومینٹیشن، فریقین اور گواہان کا باقاعدہ ریکارڈ اور اس کی ویریفیکیشن کی سہولت میسر ہو وہاں دیگر ذرائع اختیار کرنے کی خاص ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن جہاں حالات مختلف ہونگے وہاں پھر اسی طریقہءکار سے استفادہ کیا جائے گا۔اگر بات خاص معاشرے اور عصر کے رجحانات کی ہے تو یونیورسلزم کا دعوی تو لایعنی ہے۔
اگر اس ایشو کو لے کر یونیورسلزم کی بات کی جائے تو عصرِ حاضر میں بھی ایسے معاملات کی اہمیت اپنی جگہ بدستور قائم ہے۔ اسلام میں تو خیر عورت پر معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی، اگرچہ اس پر کوئی قید بھی نہیں لگائی، لیکن اگر عالمی سطح پر اعداد و شمار اکھٹے کیے جائیں تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ معیشت پر آج تک مردوں کی ہی اجارہ داری رہی ہے۔ حالات اور واقعات کے تناظر میں رحجانات کو لے کر تاحال کوئی ایسا role reversal بھی دکھائی نہیں دیتا جس کو بنیاد بنا کر ہم کہہ سکیں کہ عورت مستقبل میں معاشی میدان میں مردوں کو کلی طور پر supersede کر دے گی۔
یادداشت کے حوالے سے میرا موقف جو پہلے تھا اب بھی وہی ہے کہ یہ جینڈر بیسڈ نہیں اور نہ ہی بالخصوص کسی ایک جنس کی ذہانت سے مشروط ہے۔ اس کا تعلق فرد کے عمومی رحجانات سے ہی ہے۔ البتہ کسی کو Alzheimer's ہو تو الگ بات ہے۔ ویسے عورتوں میں اس کی شرح مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔
آخری تدوین: