میرا نہیں خیال کہ حقیقی دنیا سے ہی سینکڑوں سٹڈیز میں اکٹھے کیے گئے ڈیٹا کو نظر انداز کر کے آپ اس کے بالکل الٹ بات کو "ایک حقیقت" قرر دینے پر اصرار کر سکتے ہیں۔
حصولِ علم کے پانچ ذرائع ظاہری ہیں، جنہیں حواسِ خمسہ (فائیو سنسز) کہا جاتا ہے۔ ایک ذریعہ باطنی ہے جسے عقل کہتے ہیں جو بنیادی طور پر مذکورہ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کو پراسس کر کے نتائج اخذ کرتی ہے۔ حواسِ خمسہ کی بھی ایک حد ہے اور عقل کی بھی۔ جہاں ان تمام ذرائع کی حدود اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اس سے آگے رہنمائی کا ذریعہ وحیِ اِلٰہی ہے۔ جنت، دوزخ، مرنے کے بعد کی زندگی، میدانِ حشر، پل صراط، یہ تمام چیزیں وحی سے معلوم ہوئی ہیں۔
اسی طرح دنیوی معاملات میں بھی انسان نے اپنے حواس سے کام لے کر بہت سی چیزیں ایجاد کر لیں، لیکن ان چیزوں کا استعمال کہاں جائز اور کہاں ناجائز ہے اس کا صحیح فیصلہ وحی کے ذریعے ہم تک پہنچایا گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال کیمرے کی لے لیں، ہر شخص اپنی عقل اور اپنے مفادات اور اپنے رجحانات کو بنیاد بنا کر اس کے کسی استعمال کو صحیح اور کسی کو غلط قرار دے سکتا ہے۔ لیکن جو فیصلہ وحیِ اِلٰہی کے ذریعے ہم تک پہنچا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے وہی فیصلہ حق و باطل میں امتیاز کی بنیاد ہے۔
اپنی پوسٹ میں جو میں نے عرض کیا تھا کہ:
دو جمع دو چار جیسی سادہ سی بات ہے کہ جب ایک صحیح ترین حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے ہماری انتہائی قابلِ احترام ماؤں ، بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے بارے میں ’’ناقصات العقل والدین‘‘ کے الفاظ استعمال فرما لئے تو اصولی طور پر عقل کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی برتری تسلیم کرنے والوں کے لئے اس باب میں بحث کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
اس کی بنیاد یہی مذکورہ بالا تفصیل تھی جس میں کسی قسم کا کوئی تعصب، جانبداری یا مباحثے میں جیت کی خواہش شامل نہیں تھی۔ ہاں! اگر کوئی اپنی عقل کو خدانخواستہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کردہ معلومات (یعنی وحی سے) برتر سمجھتا ہو تو اس سے بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی، کیونکہ بحث کے اصولوں میں ہی فرق آگیا۔ لہذا پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عقلِ انسانی برتر ہے یا عقلِ الٰہی جس کا ظہور ہم پر وحی کے ذریعے ہوا ہے۔
جہاں تک سائنسی تحقیقات کی بات ہے تو مجھے نہیں سمجھ آتی کہ جب ایک چیز عقلِ عام (کامن سینس) سے سمجھ میں آسکتی ہے تو اس کے لئے اتنی اسٹڈیز کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ آپ تاریخ میں موجود بڑے بڑے سائنس دانوں کا جائزہ لے لیں، بڑے بڑے لیڈرز کے بارے میں سرچ کر لیں، بڑے بڑے تاجروں کی تاریخ دیکھ لیں۔ آپ کو اکثریت مردوں کی دکھائی دے گی۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ اس سے کلی طور پر تمام مردوں کا ہر حال میں بہتر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ چونکہ بہت سی خواتین بھی تقریبا ہر میدان میں اپنا ایک نام رکھتی ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی خواتین ان میدانوں میں بے شمار مردوں سے بہتر رہی ہیں۔
چلئے تھوڑی دیر کے لئے ہم عقل سے متعلق بحث کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور جسمانی طاقت اور مضبوطی کی طرف آجاتے ہیں۔ یقینا دنیا میں ایسی بہت سی خواتین ہوں گی جو بہت سے مردوں سے زیادہ طاقتور ہوں گی، لیکن کیا اکثریت کی یہ صورتِحال ہے؟ ہر گز نہیں۔ آپ اپنے اطراف اکناف میں ہی نظر دوڑا کر دیکھ لیں مردوں کی جسمانی قوت اور مضبوطی آپ کو خواتین سے زیادہ نظر آئے گی۔ اس کے بر عکس خواتین کی جسمانی ساخت میں نزاکت، نرمی اور لطافت رکھی گئی ہے۔ اب اس فرق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت مرد سے کمتر ثابت ہوگئی۔ بلکہ دونوں کی تخلیق کے مقاصد مختلف ہیں، اس لئے جسمانی ساخت بھی مختلف ہے۔
آخری بات ایک مرتبہ پھر عرض کروں گا اور
زکریا بھائی کی پوسٹ کے جواب میں بھی عرض کیا ہے کہ کسی ایک صلاحیت میں کمی ہونا کمتر ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ بالخصوص اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اور فرمانِ اِلٰہی إنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ کی رو سے بہتری اور برتری کا معیار دنیا میں صرف ایک ہے اور وہ ہے نیکی، پارسائی اور تقویٰ۔ اس میں جو شخص آگے ہے وہ بلا تمیزِ مرد و زن آگے ہے اور جو اس میں پیچھے ہے وہ بلا تمیزِ مرد و زن کمتر ہے۔