مری والو اپنا رویہ بدلو ۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟

شہزاد وحید

محفلین
شہر سے ہٹ کر کہیں بھی کوئی سہولت پوائنٹ ملے گا تو وہاں کچھ ایسا تلخ تجربہ ہی ہوگا۔مری وغیرہ تو ایسےہی بدنام ہیں۔ ایک دفعہ میں کلر کہار سے واپسی پہ موٹروے پر سفر کر رہا تھا کہ گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا۔ نزدیکی سروس سٹیشن پہ مدد لینے پہنچا تو جو ٹائر شہر میں 200 روپے کا نہ لے کوئی یعنی 12 عدد پنکچرز والا، اس کی قیمت بتائی 4000روپے۔اسے بہت سمجھایا کہ جناب اللہ کا خوف کھاؤ ٹائر پاکستان میں خراب ہوا ہے انڈیا یا اسرائیل میں نہیں جو دشمنوں والا ریٹ لگا رہے۔ 4000 کا بلکل نیا پیک ٹائر ملتا ہے مہنگی کمپنی کا۔ لیکن وہ انتہائی بے رخی سے بولا کہ نہیں یہ فرعون کے زمانے کا ٹائر 4000 کا اور انتہائی گھٹیا کمپنی نیا ٹائر 9000 کا۔ بہت دکھ ہواتب۔
 
موٹروے پر قیمتوں کا یہی حال ہے-
یعنی بیکار سی چائے جسکو پینا تو دور دیکھنا بھی گوارا نہ ہو 50 کا کپ ملتا ہے-
شہر سے ہٹ کر کہیں بھی کوئی سہولت پوائنٹ ملے گا تو وہاں کچھ ایسا تلخ تجربہ ہی ہوگا۔مری وغیرہ تو ایسےہی بدنام ہیں۔ ایک دفعہ میں کلر کہار سے واپسی پہ موٹروے پر سفر کر رہا تھا کہ گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا۔ نزدیکی سروس سٹیشن پہ مدد لینے پہنچا تو جو ٹائر شہر میں 200 روپے کا نہ لے کوئی یعنی 12 عدد پنکچرز والا، اس کی قیمت بتائی 4000روپے۔اسے بہت سمجھایا کہ جناب اللہ کا خوف کھاؤ ٹائر پاکستان میں خراب ہوا ہے انڈیا یا اسرائیل میں نہیں جو دشمنوں والا ریٹ لگا رہے۔ 4000 کا بلکل نیا پیک ٹائر ملتا ہے مہنگی کمپنی کا۔ لیکن وہ انتہائی بے رخی سے بولا کہ نہیں یہ فرعون کے زمانے کا ٹائر 4000 کا اور انتہائی گھٹیا کمپنی نیا ٹائر 9000 کا۔ بہت دکھ ہواتب۔
 
پچھلے رمضان 25ویں روزے رات کو بذریعہ بس لاہور جارہا تھا۔ ڈرائیور نے سحری کے لیے گاڑی بھیرہ سروس سٹیشن پر روک دی۔ اتر کر ایک ریسٹورنٹ میں گیا تو پہلے سے رکی کسی گاڑی کے چار مسافروں کو بیروں اور کیشئر سے ایک ایسی بحث میں الجھا پایا جو لمحہ با لمحہ تلخ ہوتی جا رہی تھی۔

بیشتر اس کے کہ دونوں اطراف سے نوبت بجنا شروع ہوجاتی، ریسٹورنٹ میں بیٹھے دو بڑی عمر کے افراد نے مداخلت کی اور معاملے کی تفصیل پوچھی۔ مسافر جو حلیوں سے ہی مزدور اور دیہاڑی دار طبقے سے لگ رہے تھے تقریباً روہانسے انداز میں بتانے لگے کہ ایک پلیٹ دال ماش، اور ایک پلیٹ چکن قورمہ معہ 6 روٹیوں کا بل 1550 روپے مانگ رہے جو ان بیچاروں کی سمجھ سے بالاتر تھا۔

بزرگوں نے بیروں سے بل کی تفصیلات پوچھیں تو پتہ لگا، دال ماش ایک پلیٹ 500 روپے, چکن قورمہ ایک پلیٹ 800 روپے, 6 روٹیاں 150روپے اور پانی کی بوتل 100 روپے۔

ایک بزرگوار نے مزدور مسافروں سے پوچھا کہ آپ کے حساب سے کتنا بل بننا چاہییے؟ تو ایک بولا جی ڈھائی سو تک بنتا ہے۔ انھوں نے کیشئر کو مسافروں سے نظر بچا کر اشارہ کرتے ہوکہا کہ بھئی ڈھائی سو لے لیں یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ کشئیر نے مزید کوئی بات کیے مزدوروں سے ڈھائی سو روپیہ لے لیا۔دوسرے بزرگوار مزدوروں سے باتیں کرتے کرتے ان کے ساتھ ہی باہر نکل گئے اور پہلے والے بزرگ نے اپنی جیب سے باقی رقم ادا کر دی۔

بعد میں دوسرے بزرگوار واپس آئے تو بتانے لگے کہ یہ مزدور پورے سال بعد اپنے آبائی علاقے جا رہے ہیں اور ان میں سے تین کا موٹر وے پر سفر کا پہلا تجربہ تھا۔
 

سید عمران

محفلین
ویسے یہ تھریڈ اور #بائیکاٹ مری میں اپنی بیوی کو پڑھاؤں گا، پچھلے اٹھارہ سال سے میرے پیچھے لگی ہوئی ہے بلکہ مری کے لیے مری جا رہی ہے! :)
مزید اٹھارہ سال بعد دکھائیے گا شاید نہ جانے کا موڈ بن جائے!!!
:cool: :cool: :cool:
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اگر شروع میں ہی مری والوں کے سفاکانہ روئیے کا دفاع کرنے کے بجائے بائیکاٹ کرکے ردعمل ظاہر کیا جاتا تو شاید قیمتی انسانی جانیں جانے کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔۔۔
بات صرف قیمتوں میں اضافہ کی ہی نہیں ہے ان کے سفاکانہ روئیے کی بھی ہے جو اب بھی سرنگوں ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں!!!
 

جاسمن

لائبریرین
یہ کسی نے مری کے ایک ہوٹل کا بِل شیئر کیا ہے۔ پکوڑے 600 روپے کلو، اور کوک جس کی قیمت 80 روپے ہے وہ 160 کی۔ اس پر مستزاد یہ کہ سروس چارجز بھی ڈالے گئے ہیں!

31957824_10204554263572290_4045125367604707328_n.jpg
الامان!!
 

علی وقار

محفلین
مری میں مقامی لوگوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں۔ شاید بیس پچیس ہزار افراد آباد ہیں۔ ان کے علاوہ عسکری پیشہ افراد بھی مری میں بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔ مقامی آبادی پر سارا ملبہ گرا دینا غلط رویہ ہے اور اس طرح مسائل بھی حل نہیں ہوں گے۔ ہر جگہ اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ کاروباری افراد بھی سبھی مری سے تعلق نہیں رکھتے، اس لیے محض مری کے باسیوں کو نشانہ بنانا درست نہیں۔ بحیثیت مجموعی ہمارے رویے اچھے نہیں بالخصوص جب معاملہ کاروبار اور لین دین کا ہو اور اگر مری کے کاروباری افراد ایسا کرتے ہیں تو غلط کرتے ہیں مگر یہ غلط رویے ہمیں ہر جگہ ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک مثال رمضان المبارک میں گرانی کی ہے تو کیا ایسا ہر جگہ نہیں ہوتا؟ یوں بھی حکومت نے مری میں سیاحوں کی سہولت کے لیے مناسب انتظامات نہ کیے تھے اور ریسکیو وغیرہ کا انتظام تو سرے سے تھا ہی نہیں اور اس کے علاوہ ہمارا اپنا قصور یہ ہے کہ بغیر ریسرچ کیے سیاحتی مقامات کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر وہیکل اس سفر کے لیے مناسب نہیں۔ اور، جب ایک بڑی تعداد سیاحتی مقام کی طرف نکل کھڑی ہو تو پھر بقیہ کو وہاں جانے سے گریز کرنا چاہیے تھا اور بھیڑ چال کا شکار نہیں ہونا چاہیے تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک بات کی وضاحت یہ بھی ہے کہ مری والوں پر جو تنقید ہو رہی ہے وہ مری کے مقامی باشندوں پر ان کے شناختی کارڈ کے ایڈریس کے مطابق نہیں ہورہی بلکہ ایک عام سی بات ہے کہ مری والے یعنی وہاں کاروبار کرنے جو کچھ کر رہے ہیں اس پر ہو رہی ہے چاہے وہ خود وہاں رہتے ہیں یا نہیں رہتے۔ کاروباری افراد کا تو حال ہی کوئی نہیں ہے انہیں تو سات خون معاف ہیں لیکن ہمارے عام آدمی بھی کسی سے کم نہیں، اگر مری کے مقامی باشندوں کی ایسی چند ایک مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ وہ لاچار سیاحوں کو اپنے گھر لے گئے اور پناہ دی تو ایسی بھی بے شمار مثالیں سامنے آئی ہیں کہ برف میں پھنسی گاڑی کو دھکا لگانے کے کئی ہزار طلب کیے گئے، ظاہر ہے یہ مقامی ہی تھے جو اپنی دیہاڑی لگا رہے تھے۔

باقی پاکستان میں دیہاڑی ہر کوئی لگاتا ہے بقول شخصے صرف برف گرنے کی دیر ہے!
 
Top