مزاحیہ اشعار

سارہ خان

محفلین
میرے دوست تم بھی لکھا کرو شاعری

تمھارا بھی میری طرح نام ہو جائے گا

جب تم پر بھی پڑیں گے انڈے اور ٹماٹر

تو شام کی سبزی کا انتظام ہو جائے گا
 

نوید ملک

محفلین
لکس سے نکلے نہا کر کوئی صاحب ایک دن
کچھ تو نیلی، کچھ تو ریما ، کچھ عتیقہ بن گئے
آئینے میں خود کو دیکھا انکی گھگی بندھ گئی
لکس سے پہلے تھے حامد اب حمیدہ بن گئے
 

عمر سیف

محفلین
عشق ٹیلی فون پر، بیوپار ٹیلی فون پر
کیا نہیں ہوتا ہے میرے یار ٹیلی فون پر
حد تو یہ ہے،رات آپریشن کرا کے چل دیا
ڈاکٹر صاحب سے اک بیمار ٹیلی فون پر۔
 

حجاب

محفلین
میکے اور سسرال کا تضاد
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
جب بھی دیکھو بر سرِ پیکار ہے
ساس میری تیر ہے تلوار ہے
ہے سسر مٹی کے مادھو کی طرح
بیوی کے آگے بہت لاچار ہے
نند کی بابت ہے کچھ کہنا فضول
فیشنوں میں مست ہے سرشار ہے
دیکھ کر دیور کو لگتا ہے مجھے
چور اُچکّوں کا کوئی سالار ہے
کیا شریفوں سے ہے اُس کو واسطہ
ہر بڑا مجرم اُسی کا یار ہے
کس قدر کنجوس ہے شوہر میرا
خرچ کرنے سے بہت بیزار ہے
میری امّاں سے ہے وحشت سی اُسے
جانے کیا اُس کو خدا کی مار ہے
کیا بتاؤں اُس کا ہر ایک رشتہ دار
پتھروں کے دور کا اوزار ہے
ناک میں دم ہے میرا سسرال میں
اُن کے دم سے زندگی آزار ہے
دوسری جانب میری امّاں عظیم
جن کے قدموں میں گل و گلزار ہے
کس قدر معصوم ہے بہنا میری
بھولی بھالی مشرقی سی نار ہے
کیا کروں تعریف بھیّا کی بھلا
کار ہے قدموں میں خود بیکار ہے
میکے والے روز آتے ہیں ادھر
اُن کو مجھ سے بے تحاشا پیار ہے (فاخرہ بتول )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عمر سیف

محفلین
حجاب نے کہا:
میکے اور سسرال کا تضاد
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
جب بھی دیکھو بر سرِ پیکار ہے
ساس میری تیر ہے تلوار ہے
ہے سسر مٹی کے مادھو کی طرح
بیوی کے آگے بہت لاچار ہے
نند کی بابت ہے کچھ کہنا فضول
فیشنوں میں مست ہے سرشار ہے
دیکھ کر دیور کو لگتا ہے مجھے
چور اُچکّوں کا کوئی سالار ہے
کیا شریفوں سے ہے اُس کو واسطہ
ہر بڑا مجرم اُسی کا یار ہے
کس قدر کنجوس ہے شوہر میرا
خرچ کرنے سے بہت بیزار ہے
میری امّاں سے ہے وحشت سی اُسے
جانے کیا اُس کو خدا کی مار ہے
کیا بتاؤں اُس کا ہر ایک رشتہ دار
پتھروں کے دور کا اوزار ہے
ناک میں دم ہے میرا سسرال میں
اُن کے دم سے زندگی آزار ہے
دوسری جانب میری امّاں عظیم
جن کے قدموں میں گل و گلزار ہے
کس قدر معصوم ہے بہنا میری
بھولی بھالی مشرقی سی نار ہے
کیا کروں تعریف بھیّا کی بھلا
کار ہے قدموں میں خود بیکار ہے
میکے والے روز آتے ہیں ادھر
اُن کو مجھ سے بے تحاشا پیار ہے (فاخرہ بتول )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
:D
 

نوید ملک

محفلین
قبل شادی کے اسے کہتا تھا “جانِ غزل“
چاند تاروں میں ، نہ پھولوں میں جس کا بدل
جانے کیا بات ہے جب سے بنی وہ گھر والی
جان تو وہ اب بھی کہتا ہے مگر “جانِ اجل“

(فاخرہ بتول)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ تیری زلف کا کنڈل تو مجھے مار چلا
جس پہ قانون بھی لاگو ہو وہ ہتھیار چلا

پیٹ ہی پھول گیا اتنے خمیرے کھا کر
تیری حکمت نہ چلی اور تیرا بیمار چلا

بیویاں چار ہیں اور پھر بھی حسینوں سے شغف
بھائی تو بیٹھ کے آرام سے گھر بار چلا

اجرتِ عشق نہیں دیتا نہ دے بھاڑ میں جا
لے تیرے دام سے اب تیرا گرفتار چلا

سنسنی خیز اسے اور کوئی شئے نہ ملی
میری تصویر سے وہ شام کا اخبار چلا

یہ بھی اچھا ہے کہ صحرا میں بنایا ہے مکاں
اب کرائے پہ یہاں سایہِ دیوار چلا

چھیڑ محبوب سے لے ڈوبے گی کشتی ‘جیدی‘
آنکھ سے دیکھ اسے ہاتھ سے پتوار چلا
(اطہر شاہ خان جیدی)
 

پاکستانی

محفلین
میں تو شعر ہُوں کسی اور کا،مِری شاعرہ کوئی اور ہے
نہ ردیف تھوڑا سا مختلف،نہ ہی قافیہ کوئی اور ہے
میں تو سمجھی میرا جمال ہے،جسے شاعری میں کمال ہے
مُجھے پاس جا کے خبر ہُوئی کہ یہ کلمُووا کوئی اور ہے
مجھے ایک چڑیل نے آ لیا،تبھی جا کے مجھ کو خبر ہُوئی
مجھے جس میں چِلاّ تھا کاٹنا وہ تو دائرہ کوئی اور ہے
مُجھے مِل گیا وہ نصیب سے،ہُوئی گرم بحث رقیب سے
تیری نازیہ کوئی اور ہے،میری شازیہ کوئی اور ہے
وہ اپنے صحن میں تھی کھڑی،مَیں بھی اپنی چھت پہ کھڑا رہا
ذرا دِن چڑھا تو پتہ چلا کہ وہ دِل رُبا کوئی اور ہے
یہ تو بِل ہے بجلی کا،گیس کا،جو تھما گیا مِرے ہاتھ میں
مُجھے لا کے جس نے دیا تھا خط،وہ تو ڈاکیا کوئی اور ہے
میں چلا تھا جانبِ شُوگراں،تو پتہ چلا کہ ہُوں لودھراں
مجھے راستے میں خبر ہُوئی، میرا راستہ کوئی اور ہے
مُجھے اپنے جال میں پھانس کر،جو بنا رہا بڑا معتبَر
مُجھے مُفت میں جو پھنسا گیا،وہ فراڈیا کوئی اور ہے

جمال عبدالناصر)​
 

پاکستانی

محفلین
پھول،کلیاں اور غنچوں کو چٹکتے دیکھنا
زیرِپا کچھ خشک پتے بھی سسکتے دیکھنا
ہے طلوعِ خاورِ ہستی امید افزا ضرور
پر کسی کی عمر کا سورج بھی ڈھلتے دیکھنا
دودھ کی نہریں نکالو گے مگر کب! اس گھڑی
چند بوندوں کے لیے بچے بلکتے دیکھنا
آتشِ ظاہر پہ قابو پانے والے دوستو
شدتِ گریہ سے سینے بھی سلگتے دیکھنا
لطفِ باراں پختہ ایوانوں میں ہے! لیکن حضور
کچا کوٹھا ایک مفلس کا ٹپکتے دیکھنا
ایک رنگین،چند پیسوں کے کھلونے کی طرف
بیوہ کے ننھے سے بچے کو اچھلتے دیکھنا
چشمِ گریاں،دست و پا لرزیدہ بوڑھے کو فراق
اپنے افسر بیٹے کے گھر سے نکلتے دیکھنا
 

پاکستانی

محفلین
تجھے مجھ سے مجھ کو تجھ سے جو بہت ہی پیار ہوتا
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
تیرا ہر مرض الجھتا مری جانِ ناتواں سے
جو تجھے زکام ہوتا تو مجھے بخار ہوتا
جو میں تجھ کو یاد کرتا تجھے چھینکنا بھی پڑتا
مرے ساتھ بھی یقیناً یہی بار بار ہوتا
کسی چوک میں لگاتے کوئی چوڑیوں کا کھوکھا
ترے شہر میں بھی اپنا کوئی کاروبار ہوتا
غم و رنجِ عاشقانہ نہیں کیلکولیٹرانہ
اسے میں شمار کرتا جو نہ بے شمار ہوتا
وہاں زیرِ بحث آتے خط و خال و خائے خوباں
غمِ عشق پر جو انور کوئی سیمینار ہوتا

انور مسعود
 

شمشاد

لائبریرین
اس کا رشتہ نہ ہونے کا باعث اس کی منجھلی چچی تھی
سب حیران تھے اس کی چچی کس شیطان کی بچی تھی
اپنے بونگے بھائی کی تعریفیں کرتی نہ تھکتی تھی
اندر سے وہ بالکل جھوٹی اوپر سے کتنی سچی تھی
 

نوید ملک

محفلین
حج ادا کرنے گیا تھا قوم کا لیڈر کوئی
سنگ باری کیلئے شیطان کی جانب گیا
ایک کنکر پھینکنے پر یہ ندا اس نے سنی
تم تو اپنے آدمی تھے تم کو آخر کیا ہوا

(ضیا الحق قاسمی)
 
Top