مزاحیہ اشعار

سارا

محفلین
خطا تو ہو گئی پر آپ نے بھی
ذرا سی بات پر ڈانٹا بہت ہے

کلاشنکوف سے تو مت ڈراؤ
مجھے تو ایک ہی چانٹا بہت ہے۔۔
 

سارا

محفلین
ان کو شوگر کا مرض لاحق ہوا ہے دوستو!
تلخیوں سے دامن پھر رہے ہیں آج کل

ڈاکٹر نے کر دیا ہے چینی کھانے سے منع
نکتہ چینی پر گزارہ کر ہے ہیں آج کل۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
کہا ہے مجنوں سے يہ ليلي کي ماں نے
کہ بيٹا تو اگر ايم اے کر لے پاس

تو فورا بياہ دوں ليلي کو تجھ سے
بلاوقت ميں بن جاؤں تري ساس
 

شمشاد

لائبریرین
رنگ خوشبو گلاب دے مجھ کو
اس دعا ميں عجب اثر آيا
ميں نے پھولوں کي آرزو کي تھي
آنکھ ميں موتيا اتر آيا۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
برا شعر کہنے کي گر کچھ سزا ہے
عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے

تو وہ محکمہ جس کا قاضي خدا ہے
مقرر جہاں نيک و بد کي سزا ہے

گنہگار واں چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھر ديں گے شاعر ہمارے
 

شمشاد

لائبریرین
شیخ رندوں میں بھي ہیں کچھ پاکباز
سب کو ملزم تو نے ٹہرايا عبث

آنکلتے تھے کبھي مسجد میں ہم
تو نے زاہد ہم کوشرمايا عبث
 

شمشاد

لائبریرین
اس سے پہلے

اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے
ٹيڈي پتلون کوئي سلوا لوں
اس سے پہلے کہ تجھ کو دے کر دل
ترے کوچے ميں خود کو پٹوا لوں
اس سے پہلے کہ تيري فرقت میں
خود کشي کي سکیم اپنا لوں
اس سے پہلے کہ اک تيري خاطر میں
نام غنڈوں ميں اپنا لکھوا لوں

ميں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا

اس سے پہلے کہ کہ وہ عدو کمبخت
تيرے گھر جا کر چغلياں کھائے
اس سے پہلے کر دیں رپٹ جا کر
تيرے میرے شريف ہمسائے
اس سے پہلے کہ تيري فرمائش
مجھ سے چوري کا جرم کروائے
اس سے پہلے کہ اپنا تھانيدار
مرغ تھانے کا مجھ کو بنوائے

ميں تيرا شہر چھوڑ جاؤں گا

تجھ کو آگاہ کيوں نہ کر دوں میں
اپنے اس انتطام سے پہلے
مشورہ بھي تجھي سے کرنا ہے
اپني مرگ حرام سے پہلے
کوئي ايسي ٹرين بتلا دے
جائے جو تيز گام سے پہلے
آج کے اس ڈنر کو بھگتا کر
کل کسي وقت شام سے پہلے

ميں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
دل کي گردن مروڑ جاؤں گا
 

ظفری

لائبریرین
ناکام محبت کا ہر دُکھ سہنا
ہر حال میں انجام سے ڈرتے رہنا
قدرت کا بڑا انتقام ہے یہ “ جیدی“
محبوبہ کی اولاد کا ماموں کہنا

( اطہر شاہ خان جیدی)
 

ظفری

لائبریرین
فقط اس آس پہ بیٹھیں رہیں لڑکی کی مائیں برسوں
کہ بیٹی کے لیئے کوئی اونچا سا پیغام آجائے
نہ شاہین زیرِ دام آیا تو اس حد تک اُتر آئیں
کوئی موچی ، کوئی دھوبی ، کوئی حجام آجائے

( اطہر شاہ خان جیدی)
 

راجہ صاحب

محفلین
گھونگھٹ اٹھتے ہی دلہن خوشی سے چیخ اٹھی
بالکل اسی شکل کے جوان ہیں
مجھ کو مرحوم کتنے پیارے تھے
ہوبہو میرے بھائی جان ہیں آپ

:D
 

توقیر

محفلین
.
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار میں روزے سے ہوں
ہر اِک شے سے کرب کا اظہار میں روزے سے ہوں
دو کسی اخبار کو یہ تار میں روزے سے ہوں
میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگوں کےسر
مجھ کو ڈالو موتئے کے ہار میں روزے سے ہوں
میں نے ہر فائل کی دمچی پر مصرعہ لکھ دیا
کام ہوسکتا نہیں سرکار میں روزے سے ہوں
اے مری بیوی مرے رستے سے کترا کے چل
اے مرے بچو ذرا ہوشیار میں روزے سے ہوں
شام کو بہرِ زیارت آ تو سکتا ہوں مگر
نوٹ کرلیں دوست رشتہ دارمیں روزے سے ہوں
تو یہ کہتا ہے لحن تر ہو کوئ تازہ غزل
میں یہ کہتا ہوں کہ برخوردار میں روزے سے ہوں​
.
 

عمر سیف

محفلین
جس شخص کی اوپر کی کمائی نہیں ہوتی
سوسائٹی اس کی کبھی “ ہائی “ نہیں ہوتی

تب تک تو بھری بزم میں لگتا ہے معزز
جب تک کہ غزل اس نے سنائی نہیں‌ہوتی

پولیس کرا لیتی ہے ہر چیز برآمد
اس سے بھی کہ جس نے چُرائی نہیں ہوتی

دھوکہ و فریب اس میں ہے بس اس کے علاوہ
اس شہر میں کوئی بھی بُرائی نہیں ہوتی

کرتا ہے اسی روز وہ شاپنگ کا تقاضہ
جس روز میری جیب میں پائی نہیں ہوتی

انعام الحق جاوید
 

توقیر

محفلین
.
ہمیں اس سے کوئ غرض نہیں
جین پہنو یا شلوار پہن کے رہو

بھائ لندن میں کوئ پوچھتا نہیں
جھاڑو لگاو یا جمادار بن کےرہو
.
 

عمر سیف

محفلین
ہر بال و پر بیچ ڈالا ہے
ٹال کا ٹال بیچ ڈالا ہے
تم خودی کو تلاش کرتے ہو
ہم نے اقبال بیچ ڈالا ہے
 

توقیر

محفلین
.
آنکھ جو کچھ ديکھتي ہے لب پہ آسکتا نہيں
( روح اقبال سے معذرت کے ساتھ )

زمانہ آيا ہے بے حجابي کا عام ديدار ہے يار ہوگا
بس اور کپڑا نہ سل سکے گا، جو تن پہ ہے تار تار ہوگا

تلاش گندم کو گھر سے نکلے گا قافلہ، مور نوتواں کا
پلٹ کے آيا توسب کے پہلو ميں اک دل داغدار ہوگا

قصائي بکرے کا گوشت لے کر، سبھي ہمالہ پہ جا چڑھيں گے
جو ان کا پيچھا کرے گا گھس پس کے ايک مشت غبار ہوگا

مٹھائي اس روپے کي سير اور لاٹري بھي ملا کرے گي
جو عہد حلوائيوں سے باندھا گيا تھا، وہ استوار ہوگا

چڑھے گي قيمت وہ جوتيوں کي نہ ان کئي ان تک پہنچ سکے گا
برہنہ پائي وہي رہے گي مگر دنيا خارزار ہوگا

کفن کي قيمت سنيں گے مردے تو اس کے صدمے سے جي اٹھيں گے
جنازہ اٹھے گا اب کسي نہ اب کسي کا مزار ہوگا

کچل کر سرجس کا چور بازار بند کرنےکي آرزو تھي
سنا ہے اک آڑھتي سے ميں نے وہ سانپ پھر ہوشيار ہوگا

نہ پوچھو اکبر کا کچھ ٹھکانہ، ابھي وہ ہي کيفيت ہے اس کي
يہ ہي کہيں چوک ميں کھڑا قيمتوں کا شکوہ گزار ہوگا

- اکبرالابادی​
 

عبدالجبار

محفلین
تحفے نہ لے کے جا تُو حسینوں کے واسطے
ان کو تُو اپنے پاس ہی اب میرے یار رکھ
تحفوں کے مستحق ہیں حسینوں کے والدین
“پیوسہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ“​
 

توقیر

محفلین
.
ہر ايک شہر تماشا دکھائي ديتا ہے
تمام ملک سنيما دکھائي ديتا ہے

اب آئے بھي تو کہاں سے صدائے ککڑوں کوں
نہ مرغياں ہيں نہ مرغا دکھائي ديتا ہے

جو پوچھا غير نے ہلکہ مرا تو فرمايا
ہے پوسٹ کارڈ لفافہ دکھائي ديتا ہے

وہ خود کو رشک مسيحا سمجھ رہا ہے يہاں
جو شکل سے خر عيسي دکھائي ديتا ہے

اسي حسيں نے اڑايا ہے ميرا دل بيدل
وہي حسيں جو پٹاخا دکھائي ديتا ہے

- بيدل جونپوري
.
 

توقیر

محفلین
تھا وہ چپراسي مگر ديکھا تو افسر سا لگا
رشوتوں کا مال اس کو شير مادر سا لگا
اس کا بھدا سا بدن ميک اپ ميں مرمر سا لگا
غازہ اس کثرت سے تھوپا تھا کہ پلستر سا لگا

قيس کس ارمان سے آيا تھا دولہا بن کے آج
ماڈرن ليلي کو ليکن ايک جوکر سا لگا
کل نئي بيگم جو شاپنگ کے لئے گھر سے چليں
شوہر بيچارہ ان کے ساتھ شوفر سا لگا

کيسي حيرتناک ہيں واعظ کي نو سر بازياں
مولوي کو مولوي مسٹر کو مسٹر سا لگا
-بيدل جونپوري
 

توقیر

محفلین
ہمارا ذکر تک اس بے وفا کو کب گوارا تھا
بصد وقت پسند آيا بصد مشکل پسند آيا

محبت ميں اب ميرٹ پہ شايد کام مشکل ہے
ميں بي اے تھا مگر اس شوخ کو جاہل پسند آيا

يقينا وہ سراپا حسن ہے شہکار قدرت ہے
مگر ہم کو اس قاتل کا خالي تل پسند آيا

- بيدل جونپوري
 
Top