حاتم راجپوت

لائبریرین
اس نے سوچا کہ کہانی بتدریج بورنگ اور سست ہوتی جا رہی ہے۔
سو کہانی کو بہتر بنانے کا سوچا گیا اور بس ایک ڈھابے پر روک دی گئی۔
”ایداں اسی پنج ست منٹ رکنا آ تے جنیں جنیں فریش ہونا تے کج کھانا پینا او لتھ جاوے غر غر غر آخ تھو“ بس ڈرائیور نے پیچھے بکریوں اور مرغیوں کو دیکھتے ہوئے پان کا غرارہ کیا ۔اور موقع غنیمت جانتے ہوئے چرس والاسگریٹ بنانا شروع کر دیا۔
بکریاں اور مرغیاں بڑی نفاست سے نیچے اتریں۔ سندھی اور اڑن شاہ نیچے اتر کر بنچ پر بیٹھ گئے جبکہ جن اڑ کر ایک کیکر پر جا بیٹھا۔ اڑن شاہ نے فرار کی ترکیبیں سوچتے ہوئے سندھی سے اجازت مانگی کہ اے بد بخت انسان، اگر تو اجازت دے تو میں ذرا فراغت حاصل کر لوں!
سندھی کی فرہنگ چونکہ کمزور تھی اس لئے اس نے اجازت دے دی۔
اڑن شاہ ڈھابے کے پیچھے ایک جھاڑی کے پاس آیا اور ابھی وہ جھاڑی کو سیراب کرنے کے بارے سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک فضا میں جھماکہ ہوا اور کچھ اونچائی پرایک بزرگ کا مسکراتا چہرہ ظاہر ہوا۔
اڑن شاہ ابھی ہکا بکا ہو کر انہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک بزرگ کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے۔انہوں نے حواس باختہ انداز میں ہاتھ چلائے اور اگلے ہی لمحے دھڑام کر کے نیچے آ رہے۔
اپنے بوڑھے اور توانا گھٹنے پکڑ کر جلد ہی اٹھ کھڑے ہوئے ، اپنا سر پیٹنے لگے اور خود کو خاصی بھاری بھرکم اور ثقیل قسم کی معرب اور نستعلیق گالیاں دینے میں مصروف ہو گئے۔ اچانک ان کی نظر اڑن شاہ پر پڑی جو ہونق انداز میں کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا،بزرگ کی نظروں کے زاویے نے کچھ اور نزول کیا تو اچانک شرم سے سرخ ہو گئے۔
”لاحول ولا۔۔میاں کچھ عقل کرو، یہ آسٹریلیا کا بونڈائی بیچ نہیں اور نہ ہی ابھی تم یورپ کی حدود میں داخل ہوئے ہو“
اڑن شاہ نے ہڑبڑا کر خود پر نظر دوڑائی اور کھسیا کر جلدی جلدی ازار بند باندھنے لگ گیا۔

یہ ایک نورانی صورت والے بزرگ تھے جن کے چہرے پر داڑھی بھی تھی۔ان کے کپڑے بے داغ سفید رنگ کے تھے اور کلف سے خوب اکڑے ہوئے تھے۔ کلائیوں میں ہیرے کے بیش قیمتی کف لنکس، ہاتھ میں رولیکس کی گھڑی پہنی ہوئی تھی اور پاؤں میں Grenson کے بوٹ تھے جن پر قیمت کا ٹیگ ابھی بھی لٹک رہا تھا۔
بزرگ نے جیب سے ایک گولڈ لیف کا مڑا تڑا سگریٹ اور دس روپے والا لائیٹر نکال کر سگریٹ سلگایا اور ایک طویل کش لگاتے ہوئے دھواں اڑن شاہ کے منہ پر چھوڑا۔
”پریشان مت ہو بچہ۔۔۔ ! ہم تیری مدد کے لئے آئے ہیں۔“ بزرگ نے باوقار انداز میں اڑن شاہ کو مخاطب کیا۔
”میں کوئی پریشان وریشان نہیں ہوں“ اڑن شاہ نے برا سا منہ بنایا۔ ”تم ہو کون۔۔۔؟ اور اپنا لہجہ ذرا درست کرو۔۔میں تمہیں بچہ نظر آ رہا ہوں۔۔۔؟
”جہاں جن اور آسیب ہوں، وہاں میں ضرور ہوتا ہوں۔ اپنے متعلق بس اتنا ہی بتاؤں گا۔“ بزرگ نے جواب دیا۔
”اوئے۔۔ ذرا زبان سنبھال کے۔۔۔“ اڑن شاہ کے تیور بدلے۔ ”میں تمہیں جن اور آسیب نظر آتا ہوں۔۔۔ہیں۔۔۔؟“
”ان سے بھی بڑھ کر“ بزرگ نے آہستہ سے کہا اور پھر بلند آواز سے بولے۔ ”تم نے ہماری بات کا غلط مطلب نکالا ہے۔چھوڑو۔۔ تم نہیں سمجھو گے۔تم میرا حلیہ نہیں دیکھ رہے ہو؟۔۔میں بزرگ ہوں“
”مجھے تو تم مشکل سے چونسا آم لگ رہے ہو“ اڑن شاہ طنزیہ انداز میں مسکرایا۔ ”کسی سڑے ہوئے پھل کی طرح تو گرے ہو تم۔۔۔ہونہہ۔۔“
یہ سن کر بزرگ کو غصہ آگیا۔ ”گستاخ۔۔۔بے ادب۔۔۔! ہم تجھے بھسم کر دیں گے، راکھ کر دیں گے۔“
”ابے او۔۔۔۔۔ ماچس کی تیلی۔۔۔ ہلکا رہ۔۔ہلکا۔۔۔ہاں۔۔“ اڑن شاہ نے پھر چڑایا۔
بزرگ نے جھنجھلا کر اپنے پاؤں پٹخے۔ ”کیا ہوا۔۔۔۔؟“ اڑن شاہ نے حیرت سے پوچھا۔ ”چیونٹیاں چڑھ گئیں۔۔؟“
”اوہ۔۔۔او۔۔۔“ بزرگ دانت پیس کر غرائے۔ ”اگر مجھے تمہاری مدد کرنے کے لئے نہ بھیجا گیا ہوتا تو میں تجھے ابھی مزہ چکھا دیتا۔“
”کس نے بھیجا ہے۔۔؟“ اڑن شاہ نے چونک کر پوچھا۔
”دس از ٹاپ سیکرٹ“ بزرگ نے اکڑ کر کہا۔
”کیا تم فرنگیوں کے ایجنٹ ہو۔۔۔؟“ اڑن شاہ نے محتاط انداز میں پوچھا۔
”یا خدا۔۔“ بزرگ نے رو دینے والے انداز میں آسمان کی طرف دیکھا۔ ”مجھے اس پاگل خانے سے نجات دلا“
”پاگل بھی ہو؟“ اڑن شاہ کا سوال تھا۔
”نہیں۔۔۔“ بزرگ زور سے چلائے۔ ”نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں۔۔“
”یہ کوئی نیا گانا ہے کیا۔۔؟“ اڑن شاہ کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ارے میرے باپ۔۔۔!“ بزرگ نے ہاتھ جوڑ دیے۔ ”میں یہ ٹھیکا ہی چھوڑ دوں گا۔ میرے دادا۔۔۔پردادا کی بھی توبہ، جو اب میں نے کسی کی مدد کی۔۔۔ اب تم ذرا غور سے سنو۔۔۔! تم سندھی اور جن کی وجہ سے پریشان ہو نا۔۔۔؟“
”تمہیں کیسے معلوم“ اڑن شاہ اچھل پڑا۔
”ابے۔۔۔ جو پوچھ رہا ہوں۔۔۔وہ بتا۔۔۔“ بزرگ تنک کر بولے۔
”ذرا۔۔۔ تمیز سے بات کرو۔۔۔ہاں۔۔۔“ اڑن شاہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔
”اچھا بھائی جان۔۔۔ معاف کر دیجیئے۔۔۔اب بتائیے۔۔ آپ ان سے پریشان ہیں کہ نہیں؟“ بزرگ نے مجبوراً اپنا لہجہ بدلا۔
اڑن شاہ نے فوراً جواب نہیں دیا۔ پہلے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بزرگ کے جھریوں بھرے کان میں سرگوشی کی۔
”ہاں یار۔۔۔پریشان تو ہوں۔۔“
”ہاہاہاہا۔۔۔۔“ بزرگ نے ایک بلند و بانگ قہقہہ لگایا۔ ”بس اب تمہیں پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔“
”کیوں۔۔۔۔ کیا جن سندھی کو کھا گیا یا سندھی جن کو کھا گیا، یا کہ تم اکیلے ہی اُن دونوں کو کھا گئے“ اڑن شاہ کے لہجے میں مسرت تھی۔ ”ویسے تم اتنے پیٹو لگتے تو نہیں ہو۔۔“
 
ابھی اڑن شاہ نے بات مکمل بھی نا کی تھی کہ بزرگ کا پارہ گرم ہو گیا اور چیختے ہوئے کہا ۔کان میں کیا پھسر پھسر کرتا ہے ۔زور سے بول یہاں پر اور کون ہے تیرا باپ جو ڈر رہا ۔بول نہیں تو گلا دبائے دیتا ہوں ابھی تیرا ۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اڑن شاہ نے ایک اداس نظر "مزاحیہ کہانی بنائیں" کی لڑی پر ڈالی کہ ”کوئی لفٹ ای نئیں“ اور اپنی بھونڈی آواز میں چلا چلا کر ”اچھا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا“ گانے لگ گیا۔
 
”کہانی ختم۔۔۔۔“ ابوجی نے مسکراتے ہوئے بچوں کو دیکھا پھر کہنے لگے:
”چلو اب سب سوجاؤ ، صبح اسکول جانا ہے۔۔۔“
مگر اتنی مزے دار کہانی سن کر بچوں کی آنکھوں سے نیند ”اڑن شاہ“ بن چکی تھی۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
لیکن بچے اس نامعقو ل اور اچانک اختتام سے سخت ناخوش نظر آئے ،اور پوری کہانی سُننے کا مطالبہ کرنے لگے۔
 
ابوجی نے تھکی تھکی سی نظر سے انھیں دیکھا پھر گلا کھنکھار کر گویا ہوئے:
”چلو میں تمھیں ایک اس سے بھی اچھی کہانی سناتا ہوں۔“
سارے بچے خوشی خوشی قریب آجاتے ہیں۔
”سنو بچو۔۔۔۔“ ابو نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہانی سنانا شروع کیا۔
”ایک آدمی تھا۔۔۔۔ اسے بھولنے کی بیماری تھی۔۔۔۔۔۔۔“
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دن وہ ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہنے لگا "ڈاکٹر صاحب میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں کہ مجھے بھولنے کی بیماری ہے۔"

ڈاکٹر نے غالباً غور سے سُنا نہیں تھا، اس نے پوچھا "ہاں تو آپ کون سی بتانا چاہ رہے ہیں؟"

ڈاکٹر کی بات سُن کر کہنےلگا "کون سی بات جناب؟"
 

بھلکڑ

لائبریرین
حکیم صاحب نے اپنے موٹے سے چشمے کو درست کرتے ہوئے اُس سے بازو آگے بڑھانے کا کہا اور نبض دیکھنے لگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
نبض کی ہر دھڑکن کو محسوس کرتے ہوئے حکیم صاحب اچھل اچھل جاتے۔ نجانے انہیں اس کی نبض کے ابھرنے اور ڈوبنے میں کیا مزہ آ رہا تھا۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اصل میں انہیں خوشی اس بات کی تھی کہ انہیں ایک مریض میسر آ گیا تھا۔۔۔ آج کل کے زمانے میں حکیموں کے پاس کون جاتا ہے۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
نبض چیک کرتے کرتے بھولنے کی بیماری مریض سے ڈاکٹر کو لگ گئی اور وہ بھول ہی گیا کہ آج کیا پکا کھانے میں اس لیئے اس نے مریض کو اپنا جوتا اتار کر دیا اور خود منہ ہاتھ دھو کر سو گیا :battingeyelashes:
 

ابن رضا

لائبریرین
نبض کی ہر دھڑکن کو محسوس کرتے ہوئے حکیم صاحب اچھل اچھل جاتے۔ نجانے انہیں اس کی نبض کے ابھرنے اور ڈوبنے میں کیا مزہ آ رہا تھا۔
دراصل مریض کو یہ حیرت تھی کہ دل کی دھڑکن تو اس نے سن رکھی تھی مگر ڈاکٹر کی زبانی نبض بھی دھڑکتی سنی تو اور پریشان ہو گیا۔ کہ اب اس کے علاج کا کیا ہوگا؟؟:eek:
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
پریشان ہو کر دوبارہ سے حیران ہوا اور پھر حیرت سے دنگ رہ گیا۔ کہ اچھے کہانی کار ملے ہیں مجھے کہ اس کہانی کی جڑی پانی دیتے جارہے ہیں۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
دراصل مریض کو یہ حیرت تھی کہ دل کی دھڑکن تو اس نے سن رکھی تھی مگر ڈاکٹر کی زبانی نبض بھی دھڑکتی سنی تو اور پریشان ہو گیا۔ کہ اب اس کے علاج کا کیا ہوگا؟؟:eek:
صبح دوپہر شام کوچہ شاپرآں کا ایک چکر
5 دن تک لگاتار، فرق نہ پڑے تو نہا لیں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
پھر ڈاکٹر کو خیال آیا کہ ایسا نہ ہو کہ مریض ہی بھاگ جائے تو اس نے ذرا سنجیدگی اختیار کر لی اور گویا ہوا کہ
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
کہ بیٹا میں ڈاکٹر نہیں حکیم ہوں۔۔ اگر یقین نہیں آتا تو اس دھاگے کا مراسلہ نمبر 128 دیکھو،یہ چشمہ بھی میں نے کرائے پر لیا ہے۔ مزید یہ کہ دماغی طور پر کھسکا ہوا ہوں اس لئے تمہیں بتانے کی کوشش کرنے لگا ہوں کہ اب تمہارا مرض ناقابل علاج ہے۔ تمہیں افریقہ کے کالے جنگلات کی پیلی بیماری چغڑبتی لاحق ہو گئی ہے۔
نہی ی ی ی یں۔۔۔ مریض نے کانوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر ایک ٹھیٹھ نسوانی چیخ ماری۔۔ اور چیخ کی بازگشت کے انتظار میں بیٹھ کر سگریٹ پینے لگ گیا۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
مریض کی یوں بے ساختہ چیخ نے حکیم صاحب کو سیخ پا کر دیا۔ کہ اس کے دیگر مریض چیخ سن کر بھاگ چکے تھے اور اس کا دھندہ چوپٹ ہو چکا تھا۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
مریض کی یوں بے ساختہ چیخ نے حکیم صاحب کو سیخ پا کر دیا۔ کہ اس کے دیگر مریض چیخ سن کر بھاگ چکے تھے اور اس کا دھندہ چوپٹ ہو چکا تھا۔
حکیم نے کوئی اور بزنس شروع کرنے کا سوچنا شروع کر دیا۔ اور پھر بس سوچتا ہی رہا۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
کیونکہ اس کا شجرہ نصب جا کر شیخ چلی سے ملتا تھا۔
اچانک اس کے کان میں کسی نے سرگوشی کی کہ چھوڑ اس مادی دنیا کو۔۔ یہ سب تو مایا کے کھیل ہیں، کیوں دولت اور پیسے کی فکر کرتا ہے۔ ہالی وڈ جا۔۔!! کسی فلم میں کام مل گیا تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔۔
 
Top