اس نے اڑن شاہ کولے کر شیطانوں اورچڑیلوں کی بستیوں کی طرف لے جانے لگا۔ اڑن شاہ نے ہمیشہ ہی کی طرح سندھی کو یہ کہہ کر اڑن چھو ہوگیا
 
اس پر جہاز باد سندھی نے کہا "میں مانتا ہوں کہ میرا نام آپ کے نام کے مشابہ ہے لیکن میرے پاس تو اونٹ تک نہیں ہے چہ جائکہ بڑا بحری جہاز "
اس نے اپنے چراغ کو رگڑا جس میں سے ایک جن اور اس کے ساتھ ساتھ سو اور جن نمودار ہوئے اس نے جنوں کے اس فوج کو سندھی کے حوالہ کرتے ہوئے کہا لے جا یہ فوج اسے تو جو حکم کرے گا تمہارے حکم کی تعمیل یہ کریں گے تو ان سب کا کمانڈر ان چیف ہوا یہ سار کے سارے تیرے ما تحتی میں کام کریں گے ۔لیکن ہاں سن ! جاتے وقت بستی والوں کو گزند نہ پہنچانا اور اڑن شاہ کو بستی میں سے ہر گز نہ لے جانا ورنہ بستی والے بھی تمہارے پیچھے ہو لیں گے ۔سندھی کو اپنے آقا سند باد جہازی کی بات یاد ہی نہ رہی اور وہ بستی سے اڑن شاہ کو لیکر گذرنے لگا بستی والوں نے جو اڑن شاہ کو اڑتے دیکھا آسمان میں تو سب کے سب حیرت زدہ ہو گئے اور پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ساری بستی سندھی کے پیچھے ہو لی
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اڑن چھو دراصل اس کی محبوبہ تھی جو اس کو جس وقت جہاں بھی آواز دیتی تو یہ حاضر ہو جاتا۔
لیکن اڑن شاہ کو اکثر یہ حاضری مہنگی پڑتی کیوں کہ اڑن چھو کھانے پینے کی انتہائی شوقین تھی اور بھینس کی طرح موٹی ہو گئی تھی اور ہر وقت اڑن شاہ سے نت نئی فرمائشیں کیا کرتی۔ اسوقت بھی وہ اڑن شاہ سے میکڈانلڈز کی نئی ڈیل ”نگٹس اور اعریبین پراٹھا“ کھانے کے موڈ میں تھی۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
لیکن اڑن شاہ کو اکثر یہ حاضری مہنگی پڑتی کیوں کہ اڑن چھو کھانے پینے کی انتہائی شوقین تھی اور بھینس کی طرح موٹی ہو گئی تھی اور ہر وقت اڑن شاہ سے نت نئی فرمائشیں کیا کرتی۔ اسوقت بھی وہ اڑن شاہ سے میکڈانلڈز کی نئی ڈیل ”نگٹس اور اعریبین پراٹھا“ کھانے کے موڈ میں تھی۔۔

مرتا کیا نہ کرتا اڑن شاہ کو محبوبہ کی فرمائش پوری کرنی پڑی۔
 

سید ذیشان

محفلین
اڑن چھو نے کھانے سے فارغ ہو کر اڑن شاہ کو واپس جہاز باد سندھی کے پاس بجھوا دیا جہاں گھمسان کی جنگ چل رہی تھی۔۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
جِنوں کے آگے جُنوں کی کیا مجال، طیارے چشمِ زدن میں رفو چکر ہو گئے، جب ایک جن نے زور دار دھماکہ کیا۔ باقی جنوں کی البتہ ہنسی چھوٹ گئی۔
 
سندھی کو جنوں کا یہ ہنسنا پسند نہیں آیا اس نے اسے بے عزتی پر محمول کیا اور جنوں کو سارے جنوں کو جنھوں نے دھماکہ کے بعد ہنس دیا تھا سزا صادر کرتے ہوئے وہیں پر 100 سال ایک ہی جگہ کھڑے رہنے کا حکم دیا اور تنہا صرف ایک جن کے ساتھ جس نے دھماکہ کیا تھا لیکر ساتھ چل پڑا۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
آخر کار اڑن شاہ کو ایک ترکیب سوجھی۔۔ لیکن پھر ٹھنڈی سانس لے کر چپ ہو گیا کیونکہ تدبیر قابلِ عمل نہ تھی اور پھر سے نگری نگری گھومتے رہے۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
پھر خیال آیا کہ ہم تو ابن انشا کی غزل "نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا" کے مصداق بن گئے ہیں۔ ذی ہوش انسانوں اور ایک عدد جن کو ایک بے جان تحریر کی ہوبہو مثال بن کر رہ جانا اور وہ بھی اتنے عرصے تک،اس پر ان کو توہین محسوس ہوئی اور وہ ایک جگہ بیٹھ کر اپنے اپنے محبوب کو یاد کرنے لگے۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
یاد کرتے کرتے انہیں ایک جگہ سے بڑی بھونڈی، بے سُری اور کرخت قسم کی آواز سُنائی دی جیسے کوئی چڑیل بین کر رہی ہو۔۔۔ یہ اٹھ کے آواز کی سمت چلے تو کیا پایا کہ ایک سٹوڈیو میں ایک موٹی اور گندی سی عورت میلے چکٹ بالوں کو پھیلائے منہ سے پھٹے ڈھول کی سی آوازیں نکال رہی تھی اور پاؤں اس کے الٹے تھے۔۔ سندھی نے کان لگا کر سنا تو اسے آوازوں کا کچھ مفہوم سمجھ میں آیا۔۔
یہ کوئی کانوں کو ٹارچر اور آنکھوں کو اندھا کرنے والا انگلش منتر تھا۔ eye to eye ۔۔ اور چڑیل کی شرٹ کے پیچھے ایک نام لکھا تھا۔۔۔ ”طاہر شا“
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
طاہر شاہ نے اپنے بالوں کو جھٹکا دیا تو تینوں دم بخود رہ گئے اور بے اختیار انگلیاں دانتوں تلے دب گئیں۔ جن کے منہ سے بے اختیار نکلا "باپ رے! یہ تو ابرار الحق کا بھی پاپ میں باپ نکلا"
 

قیصرانی

لائبریرین
طاہر شاہ نے اپنے بالوں کو جھٹکا دیا تو تینوں دم بخود رہ گئے اور بے اختیار انگلیاں دانتوں تلے دب گئیں۔ جن کے منہ سے بے اختیار نکلا "باپ رے! یہ تو ابرار الحق کا بھی پاپ میں باپ نکلا"
یہ بات سنتے ہی ابرار الحق نے جوتا اتارا اور پیچھے لپکا کہ ہر ایرے غیرے کو میرا باپ بنائے جا رہے ہو؟
 
Top