ناعمہ عزیز
لائبریرین
میرے تو ڈھیر سارے مسائل ہوں گے میں ذرا گن گن کر لکھتی ہوں
باس کو کہیے کہ تنخواہ روک دے ۔ امید ہے اس شکایت کا ازالہ ہوجائے گامیرا مسئلہ یہ ہے ہے کہ میرا آجکل کام کرنے کا دل نہیں کرتا روزانہ 4-5 گھنٹے مشکل سے کام کرتے ہیں ہم
یہ ضروری نہیں ہے بھائی جیجو مشورہ ملے اس پر عمل بھی کرنا ہوگا
اس کی اتنی جرات نہیں ہے ہیڈ آفس میں کہنا پڑے گاباس کو کہیے کہ تنخواہ روک دے ۔ امید ہے اس شکایت کا ازالہ ہوجائے گا
اچھا نہیں لگتا یار کسی سے کچھ مانگنا رہنے دیتے ہیںہیڈ آفس میں جو ہیڈ بیٹھا ہے اسے کہیے نا
میرا مسئلہ یہ ہے کہ نیرنگ خیال جب محفل میں نہیں آتا یعنی پتہ نئیں کہڑے گل کھلاتا پھرتا ہے
تو میں بورہوجاتا ہوں
آپ خود بھی اس معاشرے کی عورت ہیں۔ اس حوالے سے بات کیجیے کہ اس معاشرے میں عورت کو عورت سے کس قدر خطرہ ہے۔ ہمیں بنیادی طور پر شاید عورتوں کو شدید قسم کا شعور دینے کی ضرورت ہے۔شمشاد پیارے بھیا
ہمارا معاشرتی مسلۂ انتہائی گھمبیر ہے اور ہم سب سے اُسکا تعلق ہے ۔جسکا تعلق بچیوں کی نمائش سے ۔کہ چار عورتیں آجاتیں ہیں دیکھینے بچیوں کو پھر بھری ٹرالی خالی کرکے جاتے ہوئے کبھی بچی کا رنگ پسند نہیں آتا کبھی قد کبھی بال غرض مختلف قسم کے بیہودہ اعتراضات ۔پروردگار ہدایت دے ایسی تمام خواتین کو بچیوں کی نمائش سے باز رہیں ۔
کبھی نہیں خیال کرتیں کہ اُنکا یہ سلوک بچیوں پر کسقدر برُا اثر ڈالتا ہے ۔۔
بھیا آپکی بہن سبین ہماری بڑی بیٹی کی کی منگنی ایسے ہوئی کہ ساس اُنکی امریکہ میں تھیں ،اپنی بڑی بیٹی کو بھیج کر ہمارے گھر بات پکی کردی خود آئیں بھی نہیں ۔اور اپنی تینوں بہویئں اسی طرح پسند کیں تینوں غیر ہیں ایک مرتبہ بھی دیکھنے نہیں آئیں ۔اس قدر قابل احترام شخصیت ہے اُنکی، کہتی ہمارے بیٹیاں اور بہوئیں برابر ہیں جب ہم۔ یہ پسند نہیں کرتے ہماری بیٹیوں کی نمائش ہو تو کسی کی بیٹی کی نمائش کیوں کریں۔۔۔اور معاشرے کو بدلنے کے لئے اسی سوچ کی ضرورت ہے ہم سب کو مل کےہمیں بنیادی طور پر شاید عورتوں کو شدید قسم کا شعور دینے کی ضرورت ہے۔
اگر یہ " نمائش" ایک معاشرتی مسئلہ ہے تو اس کا کیا حل ہونا چاہیے۔ہمارا معاشرتی مسلۂ انتہائی گھمبیر ہے اور ہم سب سے اُسکا تعلق ہے ۔جسکا تعلق بچیوں کی نمائش سے
ان کی قسمت اچھی تھی جو ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ وگرنہ رشتوں کےانتخاب کے معاملے میں والدین کی جلد بازی اور غیر سنجیدہ طرز عمل، بعد میں ان کی اولاد کے لئے بہت سی پچیدگیوں اور مسائل کو جنم دینے کا باعث ہوتا ہے۔اپنی تینوں بہویئں اسی طرح پسند کیں تینوں غیر ہیں ایک مرتبہ بھی دیکھنے نہیں آئیں ۔
بٹیا بہت شکریہ آپ کے جواب کا بالکل درست کہا آپ نے دراصل اس طریقہ کا سوشل سیٹ آپ ایسا ہونا چاہیے جو لڑکے لڑکیوں دونوں کے لئے سازگار ہو۔بس تھوڑی کوشش کرنا ہے ہر ایک کو اپنے گھر سے شروع کرنے اور پڑھے لکھے ذہن سے سوچنے کی !!!کیونکہ خصوصاً لڑکیوں پر زور اس لئیے دیا کہ وہ بے حد حساس ہوتیں ہیں اور رجیکٹ ہونے کا trauma انکی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے !اور اُن گھرانوں میں اور بھی تکلیف دہ ہے جہاں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے !!!5- معاشرے میں ایسے ذرائع یا سوشل سیٹ اپ کو فروغ دینا چاہیے جہاں اس نمائشی طریقہء کار سے گزرے بغیرباآسانی اپنی پسند کے شخص کو اپروچ کیا جا سکے؟
تمام برُائیوں کی جڑ ہی مادیت پرستی ہی ہے !اور دن بہ دن یہ چیزیں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہیں!لیکن اس بات سے تو آپ اختلاف نہیں کریں گی کہ خواتین کو چالیس سالہ بیٹے کے لئیے بیس سالہ بہو چاہیے ۔ہمارا اپنی خالہ زاد بہن سے اس بات پہ سنگیں اختلاف ہے دوسروں کی بیٹیوں کئ عمروں کا ایک ایک سال کا حساب کریںویسے یہ نمائش تو لڑکے کی بھی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کی شکل وصورت پر زیادہ فوکس ہوتا ہے اور لڑکے کے بینک بیلنس پر۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اصل مسئلہ رشتے کے انتخاب کا طریقہء کار نہیں، بلکہ معاشرے میں حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مادیت پرستی کا رحجان ہے۔ شادی بیاہ کے تمام معاملات کو صرف اور صرف “خواتین” سے نتھی کر دینا بھی درست نہیں۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں عمومی طور پر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ بہو کی تلاش میں گھر کی عورتوں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ جبکہ داماد کے انتخاب میں زیادہ تر لڑکی کے باپ، بھائی اور خاندان کے دیگر مرد حضرات کی رائے کواہمیت دی جاتی ہے۔