مسلمانوں کے تخلیقی اذہان کی مغرب منتقلی (برین ڈرین)۔۔۔ غزالی فاروق

JYGxSi2.jpg
چند دن قبل امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا (NASA) نے خلائی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا جب اس نے مریخ کی سطح پر ایک چھوٹے ہیلی کاپٹر کو کامیابی سے پرواز کرایا ۔ یہ بجلی کی مدد سے ہونے والی پہلی اڑان تھی جسے 225 ملین کلومیٹر دور کسی دوسرے سیارے سے کنٹرول کیا جارہا تھا۔ انجینئر لوئے الباسیونی (Loay Elbasyouni) نے اس عظیم سائنسی پیشرفت میں نمایاں ترین کردار ادا کیا جو فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں پل بڑھ کر جوان ہوئے جس پر اسرائیل اس وقت بھی کھل کر بمباری کر رہا ہے۔ اور پھر وہ یونیورسٹی کی تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ گئے۔ انہوں نے ایروسپیس کمپنی، انجنیوٹی (Ingenuity) میں ملازمت اختیار کی جس نے انہیں ناسا کےایک تجرباتی منصوبے کے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی جس کے تحت مریخ پر پرواز کرنے کے لیے ایک طیارہ بنانا تھا۔ یہ ہیلی کاپٹر لوئے اور اس کے ساتھیوں کے خیالات ، تصوراتی دستاویزات اور تعمیراتی کوششوں سے تیار ہوا۔ لوئے نے انجنیوٹی کے الیکٹریکل اور پاور الیکٹرانکس لیڈ کے طور پر کام کیا ، جس میں پروپلشن سسٹم کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ اس میں موٹر کنٹرولر ، انورٹر ، سروو کنٹرولر ، موٹر، اور سگنلنگ سسٹم کی ڈیزائننگ شامل تھی۔ دنیا نے ہیلی کاپٹر کی خبر میں بہت دلچسپی لی جسے ناسا نے مریخ پر بڑے جوش و خروش سے لانچ کیا تھا۔ ناسا نے اسے مریخ کے منصوبے میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ اس حوالے سے یہ بات جلد ہی واضح ہوگئی کہ ہیلی کاپٹر کے پیچھے تخلیقی ذہن اسلامی امت کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا ہے۔

اسی تناظر میں ،مشہور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ (GIKI)آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طلباء کی ایک ٹیم نے ایروناٹکس اینڈ ایسٹورنوٹکس (Aeronautics & Astronautics)میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) اور اسٹین فورڈیونیورسٹی کو شکست دی۔ ان طلباء نے دونوں تعلیمی اداروں کے طلباء کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے بھی طیاروں اور فلائٹ ڈیزائن اور تعمیر کے مقابلے میں ایم آئی ٹی (MIT) اور اسٹین فورڈ کے خلاف عمدہ کارکردگی پر ان طلباء کی تعریف کی۔

تخلیقی ذہنوں کی مسلم دنیا سے مغربی دنیا کی جانب منتقلی کا مسٔلہ جسے اصطلاح میں برین ڈرین (brain drain) بھی کہا جاتا ہے، امت کو اس وقت سے اپنی پوری شدت کے ساتھ در پیش چلا آ رہا ہے جب سے امت کی آخری نظریاتی ریاست، خلافت عثمانیہ کی صورت میں، اختتام پذیر ہوئی۔ بصیرت رکھنے والے کسی شخص کے لئے بھی یہ بات راز نہیں کہ تخلیقی اذہان کی یہ منتقلی مسلمانوں کے علاقوں میں سیاسی ابتری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشی بدحالی کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ قابل ترین مسلمان سائنس اور علم کے مختلف شعبوں میں اپنے تخلیقی ذہنوں کو بروئے کار لانے کے مواقع کی تلاش میں مغرب کی جانب منتقل ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ مسلم علاقوں میں موجود حکومتوں کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ یا تو امت کی دولت سے اپنی جیبیں اور بینک کھاتوں کو بھرتی ہیں یا پھر اپنے مغربی آقاؤں کے آگے امت کے بیش بہا وسائل ، معدنیات اور دولت کو پیش کردیتی ہیں جسے مغربی ملٹی نیشنل کمپنیاں سستے داموں لوٹ کر لے جاتی ہیں۔ پھرمغرب کی جانب سے مسلمانوں کو انہی کے لٹے ہوئے وسائل پر مبنی اشیاء کئی گناہ مہنگے داموں پر واپس فروخت کی جاتی ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم مسلم دنیا سے مغربی دنیا میں منتقل ہونے والے اسلامی اذہان کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں تو حیرت سے دنگ رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طو رپر ترقی پذیر ممالک سے مغربی ممالک کی جانب دماغ کی منتقلی کا ایک تہائی حصہ صرف عرب ممالک کی جانب سے ہے۔ عرب ممالک کے 50 فیصد ڈاکٹر، 23 فیصد انجینئر اور 15 فیصد سائنسدان یورپ، امریکہ اور کینیڈا کی جانب منتقل ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ میں اس وقت جتنے بھی ڈاکٹرز موجود ہیں ان میں سے 34 فیصد کا تعلق صرف عرب ممالک سے ہے۔ عرب ممالک سے بیرون ملک منتقل ہونے والے لوگوں میں سے 75 فیصد امریکہ ، کینیڈا اور برطانیہ میں جاتے ہیں۔ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے عراق پر کڑی پابندیاں (sanctions) عائد کیے جانے کے نتیجہ میں 1991 سے لے کر 1998کے عرصہ میں 7,350 عراقی سائنسدانوں نے مغرب کی جانب منتقلی کی۔ اسی طرح عراق پر امریکی قبضہ کے پہلے تین سالوں میں یعنی 2003 سے 2006 کے عرصہ میں عراقی یونیورسٹیوں کے 89 پروفیسروں کو موت کی گھاٹ اتارا گیا۔عرب لیبر آرگینائزیشن (Arab Labor Organization)کے مطابق 2004 سے لے کر2013 کے دس سالہ عرصہ میں صرف دنیائے عرب کے 450,000 گریجویٹس امریکہ اور یورپ کی جانب منتقل ہوئے۔ مزید یہ کہ بیرونی ممالک میں اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے عرب طلباء میں سے آدھے سے زیادہ طلباء تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس نہیں لوٹتے۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو مغربی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی تعداد بھی بے انتہا زیادہ ہے۔ ذرائع کے مطابق صرف 2013 میں تین لاکھ سے زیادہ پاکستانی جو کہ تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور اعلیٰ مہارت یافتہ افراد پر مشتمل تھے، کام کی خاطر بیرون ملک روانہ ہوئے۔ حال ہی میں فرانس کے جنوبی شہر مارسیل کے ایک طبی مرکز کے دورے کے موقع پر جب فرانس کے صدر میکرون نے مرکز کی لیبارٹریوں میں ڈاکٹروں سے ان علاقوں کے بارے میں پوچھا جہاں سے وہ آئے ہیں تو وہ متعدد ماہرین کے جوابات سے حیران رہ گیا جنہوں نے کہا: "میں الجزائر سے ہوں" ، "میں تیونس سے ہوں" ، "میں لبنان سے ہوں "اور" میں فلاں مسلم علاقے سے ہوں" وغیرہ۔

یہ اور ایسے تمام اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کے حکمران اپنے علاقوں میں سائنس اور اس جیسے دیگر علوم سے متعلق خاطر خواہ مواقع پیدا کر نے میں پوری طرح سے ناکام رہے ہیں ۔اس میں ان مسلمانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا جو بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک منتقل ہوئے کیونکہ یہ انسان کی جبلت بقاء کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی تگ و دو کرتا ہے۔ لیکن اگر اس کا سامان اپنے ملک میں ہی پیدا کر دیا جائے تو کسی کو بیرون ملک منتقل ہونے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

پھر ان مغرب نواز مسلم حکمرانوں کے علاوہ مغرب کی مسلم ممالک سے متعلق خود اپنی پالیسیاں بھی مسلمانوں کی پسماندگی کی بڑی وجہ ہیں۔ امریکا خطرناک ہتھیاروں کے ذریعے اس یہودی وجود کی حمایت اور سرپرستی کرتا ہے، جس وجود کو اس ہیلی کاپٹر کے مسلم موجد( لوئے الباسیونی )کے خاندان اور لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ مغربی دنیا، جس کی سربراہی امریکا کررہا ہے، اس میں انڈسٹری ، ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ اور طب کے شعبوں میں مسلمانوں کے انتہائی قابل بیٹوں اور بیٹیوں نے یونیورسٹیوں میں اپنےتحقیقی کاموں کے ذریعے ہزاروں کارنامے انجام دیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ، بدلے میں مغرب پوری دنیا میں مسلمانوں پر حملہ آور ہے اور ان کا قتل و غارت جاری رکھتا ہے۔

انجینئر ، لوئے البیسیوانی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ کے طلباء کی ٹیم ،ایسی بےشمار مثالوں میں سے محض صرف دو مثالیں ہیں۔ امت کی قابلیت اور صلاحیتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اس کو صرف ایک اسلامی نظریاتی ریاست کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس کی وسیع قابلیت کو امت مسلمہ اور ساری انسانیت کے حق میں استعمال کرے۔ان صلاحیتوں کو ایک ایسی اسلامی ریاست کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جو خلائی تحقیق کے میدان میں بھی سب سے آگے ہو اور لوگوں کی زندگی کو راحت بخشتے ہوئے اسے محفوظ بنا کر لوگوں کو مطمئن بھی کرے، بجائے اس کے کہ امت کی صلاحیتیں ضائع ہوں اور ہنر مند مسلمان اس مغربی تہذیب کے مفاد کے لئے استعمال ہوں جو انسانیت کو تکلیف پہنچاتی ہے۔

ماضی میں ہیولٹ پیکارڈ (HP) کی سی ای او (CEO) کارلے فیورینا (Carly Fiorina)نے 2001 میں تبصرہ کیا تھا ، "ایک زمانے میں ایک ایسی تہذیب تھی جو دنیا کی سب سے عظیم تہذیب تھی۔۔۔ اور کسی بھی اور چیز کے مقابلے میں ایجادات اس تہذیب کو آگے لے کر گئیں ۔ اس کے معماروں نے ایسی عمارتیں ڈیزائن کیں جو کشش ثقل کے اثر سے آزاد تھیں ۔ اس کے ریاضی دانوں نے الجبرا اور الگورتھم تخلیق کیے جو کمپیوٹر کی تعمیر اور انکرپشن (Encryption)کا باعث بنے ۔ اس کے ڈاکٹروں نے انسانی جسم کا معائنہ کیا ، اور بیماری کے نئے علاج ڈھونڈے۔ اس کے ماہرین فلکیات نے آسمانوں کی طرف دیکھا ، ستاروں کو نام دیا ، اور خلائی سفر اور تلاش کی راہ ہموار کردی۔۔۔، جس تہذیب کی میں بات کر رہی ہوں وہ 800 سے 1600 عیسوی تک کی اسلامی دنیا تھی ، جس میں سلطنت عثمانیہ اور بغداد، دمشق اور قاہرہ کی عدالتیں اور سلیمان عظیم جیسے روشن خیال حکمران شامل تھے "۔

بلاگ: غزالی بلاگ

ای میل: {حذف کیا گیا}
http
 
مدیر کی آخری تدوین:
یہ اور ایسے تمام اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کے حکمران اپنے علاقوں میں سائنس اور اس جیسے دیگر علوم سے متعلق خاطر خواہ مواقع پیدا کر نے میں پوری طرح سے ناکام رہے ہیں ۔اس میں ان مسلمانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا جو بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک منتقل ہوئے کیونکہ یہ انسان کی جبلت بقاء کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی تگ و دو کرتا ہے۔ لیکن اگر اس کا سامان اپنے ملک میں ہی پیدا کر دیا جائے تو کسی کو بیرون ملک منتقل ہونے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

متفق!

امت کی قابلیت اور صلاحیتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اس کو صرف ایک اسلامی نظریاتی ریاست کی ضرورت ہے
فی الوقت دنیاء میں کئی "اسلامی نظریاتی ریاستیں" موجود ہیں جن میں سعودی عرب، ایران اور پاکستان نمایاں نام ہیں، لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک میں سے کسی میں جمہوریت نہیں۔ کہیں بادشاہت ہے، کہیں مذہبی آمریت ہے تو کہیں فوجی آمریت۔ ایسے میں صحت مند مقابلے کی فضاء کہیں نہیں۔ ہر جگہ اقربا پروری زوروں پر ہے۔ ایسے میں طلباء ان ممالک کی جانب رخ کرنے میں حق بجانب ہیں جہاں صحت مند مقابلے کا رجحان ہے، جہاں ان کی صلاحیتوں کو سراہا جاتا ہے۔

کیا خلافتِ راشدہ کے بعد قائم ہونے والی مسلمان بادشاہتیں "اسلامی نظریاتی ریاستیں تھیں؟ کیا موجودہ دور میں کوئی بادشاہ اسلامی نظریاتی ریاست قائم کرے گا یا کوئی فوجی آمر یا کسی فرقہ کا مذہبی رہنما؟
 
آخری تدوین:
اگر ایسا ہوا تو ہر ذہین انسان ایسی ریاست فوراً چھوڑ دے گا اور آپ سوچیں گے ایسا برین ڈرین تاریخ میں نہ دیکھا گیا

تاریخی حقائق اس کے برعکس کا پتہ دیتے ہیں۔ جب اسلامی نظریاتی ریاست نے ۷۵۰ء میں بغداد شہر کی بنیاد رکھی اور اس میں دار الحکمہ کا ادارہ قائم کیا تو پوری دنیا سے قابل ترین لوگوں کا برین ڈرین اپنے علاقوں سے اس اسلامی ریاست کی جانب ہوا۔ اس وقت جب مسلمان اپنے سنہری دور سے گزر رہے تھے تو یورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا اور ان کے بادشاہ اور ان کی ملکائیں اپنے شہزادوں اور شہزادیوں کو مسلمانوں کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے لیے بیتاب تھے۔
 
اگر ایسا ہوا تو ہر ذہین انسان ایسی ریاست فوراً چھوڑ دے گا اور آپ سوچیں گے ایسا برین ڈرین تاریخ میں نہ دیکھا گیا

مسلمانوں کے سنہری دور سے متعلق چند مفید اور مستند ڈاکومنٹریز ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ یہ تمام یوٹیوب پر موجود ہیں:

*What the Ancients Did for Us۱*
2005 BBC documentary series presented by Adam Hart-Davis that examines the impact of ancient civilizations on modern society. Adam John Hart-Davis is an English scientist, author, photographer, historian and broadcaster.
What the Ancients Did for Us - Wikipedia

*Science and Islam*
2009 BBC documentary by Jim Al Khalili, an Iraqi-British theoretical physicist, author and broadcaster. He is professor of theoretical physics and chair in the public engagement in science at the University of Surrey. He is a regular broadcaster and presenter of science programmes on BBC radio and television, and a frequent commentator about science in other British media.
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Science_and_Islam_(TV_series)

*When the Moors Ruled in Europe*
By a famous British non-Muslim historian Bettany Hughes in 2005 for Channel 4. Bettany Mary Hughes is an English historian, author and broadcaster, specialising in classical history. Her published books cover classical antiquity and myth, and the history of Istanbul.
When the Moors Ruled in Europe - Wikipedia
 
متفق!


فی الوقت دنیاء میں کئی "اسلامی نظریاتی ریاستیں" موجود ہیں جن میں سعودی عرب، ایران اور پاکستان نمایاں نام ہیں، لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک میں سے کسی میں جمہوریت نہیں۔ کہیں بادشاہت ہے، کہیں مذہبی آمریت ہے تو کہیں فوجی آمریت۔ ایسے میں صحت مند مقابلے کی فضاء کہیں نہیں۔ ہر جگہ اقربا پروری زوروں پر ہے۔ ایسے میں طلباء ان ممالک کی جانب رخ کرنے میں حق بجانب ہیں جہاں صحت مند مقابلے کا رجحان ہے، جہاں ان کی صلاحیتوں کو سراہا جاتا ہے۔

کیا خلافتِ راشدہ کے بعد قائم ہونے والی مسلمان بادشاہتیں "اسلامی نظریاتی ریاستیں تھیں؟ کیا موجودہ دور میں کوئی بادشاہ اسلامی نظریاتی ریاست قائم کرے گا یا کوئی فوجی آمر یا کسی فرقہ کا مذہبی رہنما؟

آپ کے کمنٹ کے لیے نہایت مشکور ہوں۔

"اسلامی نظریاتی ریاست" سے مراد وہ ریاست نہیں جس میں محض مقابلے کی فضا موجود ہو۔ اس سے مراد وہ ریاست ہے جو اسلامی نظریے اور اس کے متعین کردہ اہداف کو اپنائے ہوئے ہو اور ان اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہو۔ اسلام ایک اسلامی ریاست کے لیے جو اہداف متعین کرتا ہے وہ یہ ہیں کہ وہ ریاست پوری دنیا میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ نظام عدل کے نفاذ کو یقینی بنانے والی ہو۔ اس ہدف کے حصول کے لیے وہ ریاست سب سے پہلے اپنے علاقے میں اسلام کا مکمل اور ہماگیر نفاذ کرتی ہے اور اسے ایک مثالی اسلامی ریاست بناتی ہے۔ اور پھر وہ اسلام کی دعوت دوسرے علاقوں میں لے کر جاتی ہے اور اس راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو اپنے زور بازو سے ہٹاتی ہے۔ لیکن اسلام کی دعوت کامیابی کے ساتھ پوری دنیا تک لے جانے کے لیے اسے ایک ایسی ریاست بننا ہوتا ہے جو خود محتار ہو اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت دنیا کے ہر اہم میدان میں پوری دنیا کی رہنمائی کرنے والی ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ یہ کام سر انجام دینا تو درکنار خود اپنے آپ کو بمشکل سنبھال پائے گی جیسا کہ آج پاکستان، ایران اور سعودی عرب سمیت تمام مسلم ممالک کا حال ہے۔

لہٰذا سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق انفرا اسٹرکچر، انڈسٹری، تحقیقی ادارے اور مقابلے کی فضا کا قیام اس ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ سب ان اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے جو وہ نظریہ متعین کرتا ہے جس کو وہ ریاست اپنائے ہوئے ہوتی ہے۔ اس لیے امت کے برین ڈرین کے مسٔلے کا حل ایک "اسلامی نظریاتی ریاست" ہے۔
 
متفق!


فی الوقت دنیاء میں کئی "اسلامی نظریاتی ریاستیں" موجود ہیں جن میں سعودی عرب، ایران اور پاکستان نمایاں نام ہیں، لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک میں سے کسی میں جمہوریت نہیں۔ کہیں بادشاہت ہے، کہیں مذہبی آمریت ہے تو کہیں فوجی آمریت۔ ایسے میں صحت مند مقابلے کی فضاء کہیں نہیں۔ ہر جگہ اقربا پروری زوروں پر ہے۔ ایسے میں طلباء ان ممالک کی جانب رخ کرنے میں حق بجانب ہیں جہاں صحت مند مقابلے کا رجحان ہے، جہاں ان کی صلاحیتوں کو سراہا جاتا ہے۔

کیا خلافتِ راشدہ کے بعد قائم ہونے والی مسلمان بادشاہتیں "اسلامی نظریاتی ریاستیں تھیں؟ کیا موجودہ دور میں کوئی بادشاہ اسلامی نظریاتی ریاست قائم کرے گا یا کوئی فوجی آمر یا کسی فرقہ کا مذہبی رہنما؟

خلافت راشدہ کے بعد کے ادوار خلافت یعنی خلافت بنو امیہ، خلافت عباسیہ اور خلافت عثمانیہ البتہ مثالی اسلامی ریاستیں تو نہیں تھیں کیونکہ ان میں بادشاہت کی آمیزش تھی لیکن وہ اس اعتبار سے نظریاتی اسلامی ریاستیں ضرور تھیں کہ انہوں نے اسلامی نظریے اور اس کے متعین کردہ ہدف کو اپنا رکھا تھا۔ یعنی اسلام کی دعوت پوری دنیا تک لے کر جانا۔ تبھی اسلام ان تمام علاقوں میں پھیلا جن میں پھیلا۔ یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ نے یورپ میں ویینا تک کے دروازے جا کھٹکھٹائے۔ لیکن چونکہ اس وقت تک مسلمان اپنی فکر میں کمزور ہو چکے تھے لہٰذا وہ اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ پوری دنیا کی قیادت کرنے کے لیے انہیں دنیا کے ہر اہم میدان میں آگے آگے ہونا ہے۔ یوں وہ علمی اعتبار سے پیچھے رہ گئے جبکہ مغرب ترقی کر گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کے کمنٹ کے لیے نہایت مشکور ہوں۔

"اسلامی نظریاتی ریاست" سے مراد وہ ریاست نہیں جس میں محض مقابلے کی فضا موجود ہو۔ اس سے مراد وہ ریاست ہے جو اسلامی نظریے اور اس کے متعین کردہ اہداف کو اپنائے ہوئے ہو اور ان اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہو۔ اسلام ایک اسلامی ریاست کے لیے جو اہداف متعین کرتا ہے وہ یہ ہیں کہ وہ ریاست پوری دنیا میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ نظام عدل کے نفاذ کو یقینی بنانے والی ہو۔ اس ہدف کے حصول کے لیے وہ ریاست سب سے پہلے اپنے علاقے میں اسلام کا مکمل اور ہماگیر نفاذ کرتی ہے اور اسے ایک مثالی اسلامی ریاست بناتی ہے۔ اور پھر وہ اسلام کی دعوت دوسرے علاقوں میں لے کر جاتی ہے اور اس راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو اپنے زور بازو سے ہٹاتی ہے۔ لیکن اسلام کی دعوت کامیابی کے ساتھ پوری دنیا تک لے جانے کے لیے اسے ایک ایسی ریاست بننا ہوتا ہے جو خود محتار ہو اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت دنیا کے ہر اہم میدان میں پوری دنیا کی رہنمائی کرنے والی ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ یہ کام سر انجام دینا تو درکنار خود اپنے آپ کو بمشکل سنبھال پائے گی جیسا کہ آج پاکستان، ایران اور سعودی عرب سمیت تمام مسلم ممالک کا حال ہے۔

لہٰذا سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق انفرا اسٹرکچر، انڈسٹری، تحقیقی ادارے اور مقابلے کی فضا کا قیام اس ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ سب ان اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے جو وہ نظریہ متعین کرتا ہے جس کو وہ ریاست اپنائے ہوئے ہوتی ہے۔ اس لیے امت کے برین ڈرین کے مسٔلے کا حل ایک "اسلامی نظریاتی ریاست" ہے۔
اسلامی ریاست کے اہداف مساجد، مدرسے بنانا ہے یا سائنسی و تکنیکی درسگاہیں کھولنا؟ آپ تو خود کنفیوژن کا شکار ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
خلافت راشدہ کے بعد کے ادوار خلافت یعنی خلافت بنو امیہ، خلافت عباسیہ اور خلافت عثمانیہ البتہ مثالی اسلامی ریاستیں تو نہیں تھیں کیونکہ ان میں بادشاہت کی آمیزش تھی لیکن وہ اس اعتبار سے نظریاتی اسلامی ریاستیں ضرور تھیں کہ انہوں نے اسلامی نظریے اور اس کے متعین کردہ ہدف کو اپنا رکھا تھا۔ یعنی اسلام کی دعوت پوری دنیا تک لے کر جانا۔ تبھی اسلام ان تمام علاقوں میں پھیلا جن میں پھیلا۔ یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ نے یورپ میں ویینا تک کے دروازے جا کھٹکھٹائے۔ لیکن چونکہ اس وقت تک مسلمان اپنی فکر میں کمزور ہو چکے تھے لہٰذا وہ اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ پوری دنیا کی قیادت کرنے کے لیے انہیں دنیا کے ہر اہم میدان میں آگے آگے ہونا ہے۔ یوں وہ علمی اعتبار سے پیچھے رہ گئے جبکہ مغرب ترقی کر گیا۔
اسلام کی دعوت آج آپ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دنیا کے کسی بھی کونے میں دے سکتے ہیں۔ اس کیلئے اسلامی ریاست کیوں ضروری ہے؟
 
اسلامی ریاست کے اہداف مساجد، مدرسے بنانا ہے یا سائنسی و تکنیکی درسگاہیں کھولنا؟ آپ تو خود کنفیوژن کا شکار ہیں

اس بات کی یقین دہانی کرنا کہ ریاست میں اتنی سائنسی و تکنیکی درسگاہیں موجود ہیں جو ریاست کی سائنسی ترقی کے لیے کافی ہیں، یہ اسلامی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔کیونکہ سائنسی ترقی اس ہدف کے لیے ضروری ہے جو اسلامی نظریے نے اس ریاست کے لیے متعین کیا ہے۔ یعنی پوری دنیا پر اسلام کی حکومت قائم کرنا۔ اس ہدف کو پورا کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ریاست سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا میں ترقی یافتہ ترین ریاستوں میں شامل نہ ہو۔
 
اسلام کی دعوت آج آپ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دنیا کے کسی بھی کونے میں دے سکتے ہیں۔ اس کیلئے اسلامی ریاست کیوں ضروری ہے؟

ریاست کی جانب سے اسلام کی دعوت صرف اس لیے نہیں ہوتی کہ افراد اسلام قبول کر لیں۔ بلکہ اس لیے بھی ہوتی ہے کہ تمام علاقوں کو اسلام کی حکومت کے تلے لے کر آیا جائے۔ اور اگر کوئی ریاست اسلام کی حکومت کو قبول نہ کرے اور مزاحمت کرے تو اسلامی ریاست اس رکاوٹ کو ہٹانے کے لیے اپنی افواج کے ذریعے اقدامی جہاد کرتی ہے۔ اور ایک ایک کر کے تمام علاقوں کو اسلامی حکومت کے زیر اثر لاتی ہے۔ یہ کام محض سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن نہیں۔
 

حسرت جاوید

محفلین
میں اس پہ تفصیل پہ شاید کبھی لکھوں لیکن فی الوقت اتنا کافی ہے کہ مسئلہ نظریاتی ریاست کا نہیں بلکہ شخصی آزادی کا ہے۔ جس ریاست میں مذہبی و معاشرتی قدغن انتہائی شدید ہو، جہاں تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کی بجائے ادب کے نام پر غلام بنائے جاتے ہوں، جہاں اکژیت انتہا پسندوں کا ہجوم ہو، وہاں ایک قابل دماغ نے رہ کر کیا کرنا ہے؟ امریکہ میں ایک یہودی کے نیچے ہمارا ایک کٹر اسلامی دوست پی ایچ ڈی کر رہا ہے، وہاں نہ یہودی کو مسئلہ ہے نہ اسلامی بھائی کو۔ اسی صورت حال کا عکس یہاں پاکستان میں دیکھیں تو سب کے ایمان کو فورا خطرہ لا حق ہو جانا ہے۔ جہاں ترقی اور بڑائی کا معیار مذہب اور غلامی ہو، جس ملک کے ہیرو مذہب اور ملوکیت کو فروغ دینے کی بنیاد پہ طے ہوتے ہوں، وہاں یہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
امریکہ و دیگر یورپی ممالک میں کام کا انسان وہی ہے جو کام کرتا ہے وہ چاہے مسلمان ہو، یہودی ہو، عیسائی ہو، مرزائی ہو، اور سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایک قابل دماغ کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ انہیں اپنے حساس اداروں میں کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں صرف اُسی امریکی یا دیگر ریاستی باشندوں کو سراہا جاتا ہے جو اسلام قبول کر کے اپنی داستانِ قبولِ اسلام سنا کر ہمیں خوش کرتا رہے۔
جہاں تک لوٹنے والے حکمرانوں کی بات آپ نے کی ہے تو عرض ہے کہ حکمران عوام کا عکس ہوتے ہیں۔ جیسی عوام ہو گی ویسے حکمران ہونگے، نہ زیادہ نہ کم۔ اس لیے ذمہ داری کو حکمرانوں پہ ڈالنے سے مسائل حل نہ ہونگے۔ حکمران اس معاشرے میں چاہ کر بھی سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ نہیں دے سکتے جب تک معاشرہ اپنے معیارات نہ بدل لے۔
 
اسلامی ریاست کے اہداف مساجد، مدرسے بنانا ہے یا سائنسی و تکنیکی درسگاہیں کھولنا؟ آپ تو خود کنفیوژن کا شکار ہیں

"اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔" (قرآن ۸:۶۰)

اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی ریاست کو سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں سر فہرست رہنا ہے۔

تفسیر: "اس سے مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس سامان ِ جنگ اور ایک مستقل فوج(Standing army ) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کاروائی کر سکو۔ یہ نہ ہو کہ خطرہ سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضا کار اور اسلحہ اور سامان رسد جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اس اثنا میں کہ یہ تیاری مکمل ہو، دشمن اپنا کام کر جائے۔"
 

زیک

مسافر
"اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔" (قرآن ۸:۶۰)

اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی ریاست کو سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں سر فہرست رہنا ہے۔

تفسیر: "اس سے مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس سامان ِ جنگ اور ایک مستقل فوج(Standing army ) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کاروائی کر سکو۔ یہ نہ ہو کہ خطرہ سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضا کار اور اسلحہ اور سامان رسد جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اس اثنا میں کہ یہ تیاری مکمل ہو، دشمن اپنا کام کر جائے۔"
اس کا سائنس اور ٹیکنالوجی سے کیا لینا دینا۔ یہ تو سیدھا سادا جنگ و جدل کا سامان ہے۔ پاکستان، سعودیہ، ایران اس پر پوری طرح عمل پیرا ہیں
 
اس کا سائنس اور ٹیکنالوجی سے کیا لینا دینا۔ یہ تو سیدھا سادا جنگ و جدل کا سامان ہے۔ پاکستان، سعودیہ، ایران اس پر پوری طرح عمل پیرا ہیں

کیا جنگ و جدل کے سامان میں جدید ترین تکنیکی اسلحہ شامل نہیں؟ کیا آج جدید ترین اسلحے کے بغیر بڑی قوتوں کے خلاف جنگیں جیتی جا سکتی ہیں؟
 
میں اس پہ تفصیل پہ شاید کبھی لکھوں لیکن فی الوقت اتنا کافی ہے کہ مسئلہ نظریاتی ریاست کا نہیں بلکہ شخصی آزادی کا ہے۔ جس ریاست میں مذہبی و معاشرتی قدغن انتہائی شدید ہو، جہاں تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کی بجائے ادب کے نام پر غلام بنائے جاتے ہوں، جہاں اکژیت انتہا پسندوں کا ہجوم ہو، وہاں ایک قابل دماغ نے رہ کر کیا کرنا ہے؟ امریکہ میں ایک یہودی کے نیچے ہمارا ایک کٹر اسلامی دوست پی ایچ ڈی کر رہا ہے، وہاں نہ یہودی کو مسئلہ ہے نہ اسلامی بھائی کو۔ اسی صورت حال کا عکس یہاں پاکستان میں دیکھیں تو سب کے ایمان کو فورا خطرہ لا حق ہو جانا ہے۔ جہاں ترقی اور بڑائی کا معیار مذہب اور غلامی ہو، جس ملک کے ہیرو مذہب اور ملوکیت کو فروغ دینے کی بنیاد پہ طے ہوتے ہوں، وہاں یہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
امریکہ و دیگر یورپی ممالک میں کام کا انسان وہی ہے جو کام کرتا ہے وہ چاہے مسلمان ہو، یہودی ہو، عیسائی ہو، مرزائی ہو، اور سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایک قابل دماغ کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ انہیں اپنے حساس اداروں میں کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں صرف اُسی امریکی یا دیگر ریاستی باشندوں کو سراہا جاتا ہے جو اسلام قبول کر کے اپنی داستانِ قبولِ اسلام سنا کر ہمیں خوش کرتا رہے۔
جہاں تک لوٹنے والے حکمرانوں کی بات آپ نے کی ہے تو عرض ہے کہ حکمران عوام کا عکس ہوتے ہیں۔ جیسی عوام ہو گی ویسے حکمران ہونگے، نہ زیادہ نہ کم۔ اس لیے ذمہ داری کو حکمرانوں پہ ڈالنے سے مسائل حل نہ ہونگے۔ حکمران اس معاشرے میں چاہ کر بھی سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ نہیں دے سکتے جب تک معاشرہ اپنے معیارات نہ بدل لے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ نہیں کیونکہ یہاں اسلامی نظام رائج نہیں۔ انگریز کا چھوڑا ہوا نظام چند ترمیمات کے ساتھ نافذ ہے جو ہرگز اسلام سے ماخوذ نہیں۔ لہٰذا پاکستان کے معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہہ کر رد کرنا درست نہیں۔ اسلامی معاشرہ وہ تھا جو اسلام کے سنہری دور میں موجود تھا جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ حاصل تھا۔ سائنس اور دیگر علوم میں تحقیق اپنی عروج پر تھی۔ اور یہ سب کسی قسم کے "شخصی آزادی" کے تصور کے بغیر تھا۔ معلوم ہوا کہ آزادیوں کے نظریے کے بغیر اور اسلام کے نظریے کی موجودگی میں بھی سائنسی ترقی ممکن ہے اور ہو بھی چکی ہے۔

تو مسلمان کیوں اس سائنسی ترقی کے لیے اپنے نظریے کو چھوڑ کر مغرب کے اس ناکام اور فرسودہ آزادیوں کے نظریے کو اپنائیں ، جس سائنسی ترقی کا حصول اسلام کے نظریے کے ساتھ بھی عین ممکن ہے؟ کیا ہم پر آزادیوں کے اس نظریے کے مسائل اور نقصانات بھرپور طریقے سے عیاں ہو نہیں چکے جن کو اس وقت مغرب بھگت رہا ہے؟ ان کا خاندان کا نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ معاشرے میں حیا باقی نہیں رہی، عریانی اور فحاشی عام ہے۔ ہم جنس پرستی تو دور کی بات جانوروں سے اور بچوں سے اور اپنے ماں باپ بہن بھائی جیسے مقدس ترین رشتوں کے ساتھ بھی جنس پرستی اسی عین" شخصی آزادی "کے نظریے کے تحت جائز ہے۔ جنسی جرائم کی کوئی گنتی ممکن نہیں۔ ڈرگز عام ہیں۔"آزادیٔ اظہار رائے" کے تحت ایک دوسرے کی مذہبی شخصیات کی توہین کر کے ایک دوسرےکے جذبات کو ٹھیس پہنچانا جائز ہے۔ "آزادیٔ ملکیت" کے تحت سرمایہ دارانہ نظام کو ترویج دینا اور دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر کے عوام کو اس سے محروم کر دینا جائز ہے۔

کیا ایسے غلیظ نظریے اور اس سے قائم ہونے والے معاشرے کو اختیار کر لیا جائے؟ اور وہ بھی کسی ایسی چیز کے حصول کی خاطر جو اس غلاظت کو اختیار کیے بغیر بھی احسن طریقے سے حاصل کی جا سکے؟
 

حسرت جاوید

محفلین
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ نہیں
ہٰذا پاکستان کے معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہہ کر رد کرنا درست نہیں
کیا آپ نشاندہی کریں گے کہ میں نے کہاں یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے؟ دوم یہ کہ میں نے اسے کہاں رد فرمایا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ نہیں کیونکہ یہاں اسلامی نظام رائج نہیں۔ انگریز کا چھوڑا ہوا نظام چند ترمیمات کے ساتھ نافذ ہے جو ہرگز اسلام سے ماخوذ نہیں۔ لہٰذا پاکستان کے معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہہ کر رد کرنا درست نہیں۔
آپ معاشرتی رجحانات کو حکومتی نظام سے مکس اپ کر رہے ہیں۔ کیا ریاستِ پاکستان میں معاشرتی طور پر مذہبی قدغن انتہائی شدید نہیں؟ کیا معاشرتی طور پر تنقیدی سوچ اور تجسس کو پروان چڑھانے کی بجائے نظریہ ادب کے تحت غلام نہیں بنایا جاتا؟ کیا یہاں اکثریت انتہا پسند نہیں؟ میرا اول مراسلہ تو حکومتی نظام پہ ہے ہی نہیں بلکہ وہ معاشرتی سوچ کی عکاسی کر رہا ہے۔
اگر بالفرض حکومتی نظام ہی کی بات کریں تو آپ کے بقول انگریز کا چھوڑا ہوا نظام چند ترامیم کے ساتھ نافذ ہے تو جہاں ہمارا قابل دماغ یہاں سے نکل کر جا رہا ہے وہاں پہ بھی تو اسی انگریز کا نظام ہے۔ اگر پاکستان چھوڑ کر جانے والے کو پاکستانی نظام سے مسئلہ ہے تو پھر اس نظام سے کیوں نہیں جبکہ آپ کے بقول دونوں ہی ایک ہیں؟ میں نے اس لیے یہودی اور مسلمان کے ساتھ کام کرنے کی مثال بھی دی کہ مسئلہ معاشرتی رجحانات و روایات میں ہے اور سٹیٹ آف پاکستان خود اس کے آگے بے بس ہے جب تک کہ تعلیم کو فروغ دے کر سوچ کو وسعت دینے کے اقدامات نہیں کرتی۔
آخری بات یہ ہے قبلہ کہ 'اسلامی نظام' نامی کوئی شے دنیا میں موجود نہیں۔ اللہ نے پورے قران میں ایسی کوئی بات نہیں کی۔ اگر کوئی نظام دینا مقصود ہوتا تو واضح آیات آتیں اور صحابہ کو حکومت کے حصول کے لیے تلواریں نہ چلانی پڑتیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ حتیٰ کہ حضور کی رحلت کے بعد 'خلفائے' راشدین میں سے کسی بھی صحابی نے کسی مخصوص 'نظام' کے تحت نہ تو حکومت بنائی اور نہ حکومت چلائی، ان کو جو اپنے حساب سے بہتر لگا انہوں نے کیا۔ اُس دور میں بھی صحابہ کے درمیان وہی طاقت کے حصول کے لیے کھیل کھیلے گئے جو آج کھیلے جا رہے ہیں، ان میں ذرا بھی فرق نہیں، پھر چاہے آپ جمہوریت سے کھیلیں یا ملوکیت سے یا اللہ کا نام لے کر۔
اسلامی معاشرہ وہ تھا جو اسلام کے سنہری دور میں موجود تھا جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ حاصل تھا۔ سائنس اور دیگر علوم میں تحقیق اپنی عروج پر تھی۔ اور یہ سب کسی قسم کے "شخصی آزادی" کے تصور کے بغیر تھا۔ معلوم ہوا کہ آزادیوں کے نظریے کے بغیر اور اسلام کے نظریے کی موجودگی میں بھی سائنسی ترقی ممکن ہے اور ہو بھی چکی ہے۔
اسلام میں کہاں شخصی آزادی پہ قدغن ہے؟ اسلام نے کہاں شدت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کو کہا ہے؟ اسلام نے کہاں مذہبی رواداری کے خلاف تبلیغ کی ہے؟ اسلام نے کہاں مجھے انصاف دینے سے منع فرمایا ہے؟ اگر مجھے یہ عناصر ایک ایسے نظام سے مل رہے ہوں جو کہ ایک سو کالڈ اسلامی معاشرہ نہیں تو میرے لیے تو وہی نظام ہی اسلامی نظام ہے۔ جس معاشرے کو آپ 'اسلامی معاشرے' کا لیبل لگا رہے ہیں وہ در حقیقت انہی خوبیوں پر مشتمل تھا جن کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔
تو مسلمان کیوں اس سائنسی ترقی کے لیے اپنے نظریے کو چھوڑ کر مغرب کے اس ناکام اور فرسودہ آزادیوں کے نظریے کو اپنائیں ، جس سائنسی ترقی کا حصول اسلام کے نظریے کے ساتھ بھی عین ممکن ہے؟
اگر وہ نظریہ آپ کی نظر میں ناکام اور فرسودہ ہے تو وہاں جانے والا قابل دماغ تو بہت پاگل ہے جو ہمارے اس بہترین 'معاشرتی اور خاندانی نظام' کو چھوڑ کر اس ناکام اور فرسودہ نظام میں جانے کو فوقیت دیتا ہے۔
کیا ہم پر آزادیوں کے اس نظریے کے مسائل اور نقصانات بھرپور طریقے سے عیاں ہو نہیں چکے جن کو اس وقت مغرب بھگت رہا ہے؟ ان کا خاندان کا نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ معاشرے میں حیا باقی نہیں رہی، عریانی اور فحاشی عام ہے۔ ہم جنس پرستی تو دور کی بات جانوروں سے اور بچوں سے اور اپنے ماں باپ بہن بھائی جیسے مقدس ترین رشتوں کے ساتھ بھی جنس پرستی اسی عین" شخصی آزادی "کے نظریے کے تحت جائز ہے۔ جنسی جرائم کی کوئی گنتی ممکن نہیں۔ ڈرگز عام ہیں۔"آزادیٔ اظہار رائے" کے تحت ایک دوسرے کی مذہبی شخصیات کی توہین کر کے ایک دوسرےکے جذبات کو ٹھیس پہنچانا جائز ہے۔ "آزادیٔ ملکیت" کے تحت سرمایہ دارانہ نظام کو ترویج دینا اور دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر کے عوام کو اس سے محروم کر دینا جائز ہے۔
یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ شخصی آزادی کا نام لیتے ہی ہمارے معاشرے میں عریانی، فحاشی اور خاندانی نطام ہی فورا ذہن میں کیوں آتا ہے؟ کیا بغیر کسی قدغن کے سوچنے اور اظہارِ خیال کرنے کی آزادی دینا شخصی آزادی نہیں ہے؟ یہاں جنسی آزادی کی تو بات ہو ہی نہیں رہی بلکہ ایسے معاشرے کی بات ہو رہی ہے جہاں بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب کے آپ کو سوچنے اور اپنا کام کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو۔ جنسی آزادی اور خاندانی نظام پہ ایک الگ کالم لکھیے وہاں اس پہ بحث کر لیتے ہیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
کیا آپ نشاندہی کریں گے کہ میں نے کہاں یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے؟ دوم یہ کہ میں نے اسے کہاں رد فرمایا ہے؟
آپ پاکستان کے معاشرے کوغلط قرار ردے کر اس کا رد کر رہے ہیں۔ اور مجھے اس سے اتفاق ہے۔ لیکن اسے اسلامی معاشرہ سمجھنے پر اعتراض ہے ۔ اگر آپ بھی پاکستان کے معاشرے کو اسلامی معاشرہ نہیں سمجھتے تو پاکستانی معاشرے کا ذکر آیا ہی کہاں سے؟ میں تو شروع سے ہی اسلامی معاشرے کی بات کر رہا ہوں۔ اگر آپ جواباً پاکستانی معاشرے کے اغلاط بیان فرمانا شروع کر دیں تو مجھے تو یہی لگے گا کہ شاید آپ اسلامی معاشرے سے میری مراد پاکستان کا معاشرہ لے رہے ہیں۔ اس لیے پاکستانی معاشرے کو بحث سے خارج کریں اور اسلامی نظریے اور معاشرے اور مغربی نظریے اور معاشرے کا تقابلی جائزہ لیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
آپ معاشرتی رجحانات کو حکومتی نظام سے مکس اپ کر رہے ہیں۔ کیا ریاستِ پاکستان میں معاشرتی طور پر مذہبی قدغن انتہائی شدید نہیں؟ کیا معاشرتی طور پر تنقیدی سوچ اور تجسس کو پروان چڑھانے کی بجائے نظریہ ادب کے تحت غلام نہیں بنایا جاتا؟ کیا یہاں اکثریت انتہا پسند نہیں؟ میرا اول مراسلہ تو حکومتی نظام پہ ہے ہی نہیں بلکہ وہ معاشرتی سوچ کی عکاسی کر رہا ہے۔

یہاں انتہا پسندی اس لیے ہے کہ عدالتیں اپنا کام نہیں کرتیں اس لیے لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں۔باقی اسلامی ذہنیت سائنس کے شعبے میں تنقیدی سوچ کے خلاف نہیں بلکہ اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔اور یہاں سے برین ڈرین اس وجہ سے نہیں کہ لوگ مذہب کے خلاف بات کرنا چاہتے ہیں اور یہاں اس کی اآزادی نہیں۔ بلکہ اس لیے ہے کہ یہاں سائنس کے شعبے میں اتنے مواقع موجود نہیں، انڈسٹری اور انفرااسٹرکچر موجود نہیں۔اور یہی اس کالم کا موضوع ہے۔
 
Top