غزالی_فاروق
محفلین
پاکستان میں کتنے ہزار مدرسے ہیں؟ اور کتنے مدرسوں میں معیاری سائنسی تعلیم دی جاتی ہے یا کم از کم مشاہدوں پہ اکسایا جاتا ہے؟ کیا وہاں یہ تعلیم نہیں دی جاتی کہ جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہی حتمی ہے؟ سائنس کی بنیاد تشکیک سے اور مذہب کی بنیاد ایمان سے شروع ہوتی ہے، کیا اس گیپ کو بھرنے کی صلاحیت ہے ہمارے اساتذہ اور علماء میں؟ لازم نہیں کہ اس کے خلاف دھرنے ہی ہوں یا اس کے خلاف بات ہو تو یہ کہا جائے کہ مشاہداتی ترویج سے روکا جا رہا ہے بلکہ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس کی ترویج ہو کتنی رہی ہے؟ یہ ترویج کسی باہر سے آئے فرد نے تو نہیں کرنی بلکہ اسی معاشرے سے پروان چڑھنی ہے اور معاشرے کی اکثریت کی سوچ ابھی مذہبی تاویلات میں دھنسی ہوئی ہے، ادھر سے فرصت ملے گی تو ادھر کچھ سوچے گی۔
جہاں تک سٹیٹ آف پاکستان کی بات ہے تو وہ ایک حد تک بے بس ہے۔ ملک میں کسی بھی مواقع پیدا کرنے، انڈسٹری لگانے میں حکومت درج ذیل اقدامات کرتی ہے۔
اول یہ کہ حکومت کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ اس کے تین بڑے ذرائع ہیں۔
- حکومتی کے پاس وسائل ملکی پروڈکشن سے منلسلک ہوتے ہیں اور حکومت انہیں مختلف شعبوں میں بلحاظ ضرورت خرچ کرتی ہے۔
- حکومتی سرمایہ داروں کو دعوت دیتی ہے اور ان کو لیول پلے فیلڈ مہیا کرتی ہے اور ملک میں امن قائم کرتی ہیں۔
پہلے نقطے میں حکومتی مشینری کے شعبوں میں کتنے ادارے ہیں جو پیداوار دے رہے ہیں؟ فوج جو بجٹ کا اتنا بڑا حصہ لیتی ہے اس سے کیا پیداوار ہے اور روزگار کے کیا مواقع پیدا کرتی ہے؟ اس کے علاوہ دیگر سرکاری شعبوں میں بھی پیداوار کی کیا شرح ہے؟ بوجہ مجبوری حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے۔ حکومت کو یقینا چاہیے کہ اس طرح کے اداروں کے اخراجات کو کم سے کم کر کے صنعتی اور سائنسی اداروں کو فروغ دے لیکن جونہی ان ڈیڈ اداروں کے بجٹ پہ کٹ لگتا ہے حکومت 'کرپشن'، 'ملک' اور 'عوام دشمنی کی نذر ہو جاتی ہے اور سول اداروں کے ملازمین بھی لٹھ لے کر میدان میں اتر پڑتے ہیں۔ حکومت بھارت اور دیگر ملکوں کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھاتی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کم سے کم ہو جائیں تو دفاعی اداروں کا اسلامی پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا ہے اور مذہبی جماعتیں انقلاب کی کال لیے میدان میں اتر آتی ہیں۔ اب اس ساری صورت حال کو باہر کے سرمایہ دار بہت قریب سے مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ معیشت ملکی امن سے منسلک ہے اور سرمایہ داری اسی 'ایکسپیکٹیشن' پہ چل رہی ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں کوئی بھی سرمایہ دار یہ نہیں چاہتا کہ اس کا سرمایہ ڈوب جائے اس لیے یہاں سرمایہ داری بہت محدود ہوتی ہے۔ دوسرا ذریعہ ٹیکس کا ہے تو اس ملک میں کتنے فیصد افراد ملکی ہمدردی کے تحت ٹیکس دیتے ہیں؟ پاکستانی معاشرے کے تناظر میں کما کر کھانے کو شاید ایک قسم کی توہین سمجھا جاتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے جو کرنا ہے حکومت کرے۔ حکومت ایک حد تک تعاون کر سکتی ہے اگر معاشرے میں پہلے ہی اس طرح کی فضا قائم ہو۔ یہاں فضا اس کے بالکل بر عکس ہے۔
- حکومت خود سرمایہ کاری کرے اور منافع کمائے۔
- اندرونی نجی شعبوں کی پیداوار کی فروخت پہ ٹیکس اکٹھا کرے۔
- باہر سے آنے والی چیزوں پر ٹیکس وصول کرے۔
آپ کے تفصیلی کمنٹ کے لیے نہایت مشکور ہوں۔اس وقت مدارس اسلام کے مطابق کام نہیں کر رہے۔ اسلام میں دنیاوی اور دینی تعلیم اکٹھی دی جاتی ہے۔ ایک ہی ادارے میں۔ الگ الگ نہیں۔ انہیں الگ الگ انگریزوں نے آ کر کیا تھا جس وجہ سے دینی علم سے عاری دنیاوی لوگ اور دنیاوی علم سے عاری دینی لوگ بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ اسلام کے سنہری دور میں ایک شخص عالم بھی ہوتا تھا اور سائنسدان بھی۔
مذہب کی بنیاد (عقیدہ) بھی عقلی تشکیک و تنقید پر مبنی ہے۔ ایک مسلمان کو اپنے عقیدے پر غور و فکر کرنا چاہیئے کہ آیا اس کا عقیدہ درست ہے یا نہیں۔ اگر درست ہے تو اس کے کیا دلائل ہیں اور وہ دلائل درست ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں تو کیسے درست ہیں۔ اور اسی غور و فکر کی قرآن ترغیب دیتا ہے اور اپنے اباؤ اجداد کے عقیدے کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کے بعد درست عقیدے کو اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن جب ایک عقیدہ درست تسلیم کر لیا جاتا ہے اور اس پر ایمان لے آیا جاتا ہے تو اس سے آگے کا سفر ایمان کا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ پھر یہ کہنا ایک شخض کے لیے نامعقول ہو گا کہ میں زکاۃ کو تو مانتا ہوں لیکن اڑھائی فیصد کو نہیں۔ بلکہ یہ پانچ فیصد یا ایک فیصد ہونی چاہییے۔ یا نماز میں تین سجدے ہونے چاہیئں۔ یا اسلام میں دولت کے ارتکاز کو جائز ہونا چاہیئے۔ یا زنا بالرضا جائز ہونا چاہئیے۔ یا ہم جنس پرستی جائز ہونی چاہیئے۔ یا ایکسٹرا میریٹل سیکس وغیرہ۔ یہ سب کہنا غیر معقول ہو گا۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے خدا کو خدا تسلیم کیا ہی نہیں۔ خدا کو تسلیم کرنے کا لازمی تقاضا یہ ہونا چاہیئے کہ وہ خدا کے احکامات کو بلا چون و چرا درست تسلیم کرے۔ اور پھر جہاں تک ممکن ہو ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے۔
جہاں تک ریاست کے لیئے محصولات اکٹھے کرنے کی بات ہے تو اسلام نے اس کے لیے واضح احکامات دیئے ہیں جن سے غریب پر ٹیکسوں کا بوجھ سرے سے پڑتا ہی نہیں ، موجودہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے بالکل برعکس، جس میں ایک بھوک سے مرنے والا شخص بھی تمام اشیاء اور خدمات پر جی ایس ٹی ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔اسلام میں حکومت کا بڑا ذریعہ معاش خود سرمایہ کاری کرنا اور منافع کمانا ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے پہلے نکتے میں لکھا۔ لیکن موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ریاست کے بڑے بڑے اور بھاری منافع والے اداروں کی نجکاری کروا کر انہیں چند غیر ملکی سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور کرتا ہے جو ریاست کو جانے والے تمام منافع کا خود حقدار بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ سرکاری ادارہ خسارے میں تھا۔ سوال یہ ہے کہ اب وہ ادارہ انہی کام کرنے والے افراد کے ساتھ نجکاری کے بعد کیسے منافع بخش ہو گیا؟ معلوم ہوا کہ سرکار کی پولیسیوں میں مسٔلہ ہے جو اداروں کو چلانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ تو کیا ریاست ان پالیسیوں کو درست کرنے کی ذمہ دار نہیں تا کہ اسے ان اداروں کی نجکاری نہ کرنی پڑے؟ کیا ریاست سرکاری اداروں کو ان پالیسیوں کے تحت نہیں چلا سکتی جن کے تحت نجی ادارے چلاتے ہیں؟
اسلامی ریاست میں دفاعی بجٹ زیادہ ہی ہوتاہے کیونکہ اسلامی ریاست ایک غیرت مند ریاست ہوتی ہے جو اپنے مقبوضہ علاقوں کا دفاع کرتی ہے اور استعمار کے ہاتھوں مس یوز نہیں ہوتی۔موجودہ پاکستانی ریاست سے بالکل برعکس جس میں دفاعی بجٹ تو بہت زیادہ ہے لیکن ریاست پھر بھی کشمیر کا سودا کر دیتی ہے اور اس کی بجائے مغربی طاقتوں کی جنگیں لڑتی ہے۔ دفاعی طور پر مضبوط ریاست پر سرمایہ کار وں کا ٹرسٹ بڑھتا ہے اور ریاست میں سرمایہ کاری کے مواقع بڑھتے ہیں۔ اور خوشحالی آتی ہے۔ اور برین ڈرین کم ہوتا ہے۔
ان سب پولیسیاں کو اختیار کرنا اور ان کا نفاذ ریاست کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ اس لیے ریاست کی ترقی ریاست کے حکمرانوں کی پالیسیوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اس کا دوش عوام کو دینا ظلم ہے جو پہلے ہی ریاست کی غلط پالیسیوں کی بدولت ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔