مسٹر چپس کو ہمیشہ کے لیے گڈ بائے

زیک

مسافر
کیوں کہ بات رسمی تعلیم کی ہو رہی ہے تو کیا کسی بھی لیول پر ہمارے نصاب میں انگریزی ادب کی کوئی ایسی مثال شامل ہے جس میں ان کے کلچر میں ڈھلنے کا خطرہ پیدا ہوتا ہو؟ اگر ہاں تو میرا خیال ہے کہ اسے سامنے لانا چاہیے اور اگر نہیں تو پھر کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس لڑی میں اس پہلو کو شامل نہ کریں؟
یہ خطرہ تو “معتدل” پاکستانیوں کے دل میں بھی ہے۔ اسی لڑی میں گڈبائے مسٹر چپس کے حق میں ایک مضمون میں کئی انگریزی ناولوں کے بارے میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے۔ فلسفی امید ہے اب بات کچھ واضح ہو گئی ہو گی۔

میرے خیال میں ایسا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے اور اگر کچھ اثر ہو بھی سکتا ہے تو وہ اردگرد کے ماحول کی برائیوں سے انتہائی کم ہے۔ یہ سوچ ہی عبث ہے کہ انگریزی ادب کی کلاس کے لئے کتاب کا انتخاب اخلاقی اقدار کی بنیاد پر کیا جائے۔
 

فلسفی

محفلین
آپ بھی مجھے دکھا دیجئے کہ میں نے آپ کو یہ بتایا ہو کہ آپ نے یہ کہا ہے۔ میں نے ایک سوال کیا تھا وہ بھی اس لڑی کے موضوع کے تناظر میں۔ بات وہی ہے کہ جس کی رائے ہمیں پسند نہ آ رہی ہے ہم اس کی سادہ سی بات سے بھی کوئی مشکل سے معانی اخذ کر لیتے ہیں۔
بہرحال میں اس سوال کو یوں پوچھ لیتی ہوں۔ آپ نے کہا کہ زبان سیکھنے کے لیے زبان کے کلچر میں ڈھلنا ضروری نہیں۔ درست بات ہے لیکن کیوں کہ بات رسمی تعلیم کی ہو رہی ہے تو کیا کسی بھی لیول پر ہمارے نصاب میں انگریزی ادب کی کوئی ایسی مثال شامل ہے جس میں ان کے کلچر میں ڈھلنے کا خطرہ پیدا ہوتا ہو؟ اگر ہاں تو میرا خیال ہے کہ اسے سامنے لانا چاہیے اور اگر نہیں تو پھر کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس لڑی میں اس پہلو کو شامل نہ کریں؟

ضرورت اس بات کی ہے ہمیں بطور ایک اسلامی و مشرقی معاشرے کے اپنی بنیادوں کو اتنا بہتر کرنا چاہیے کہ چاہے دنیا بھر کے کلچر کی گہرائیوں میں اتر جائیں تو بھی کسی بگاڑ کا خطرہ نہ ہو۔
یہ کوئی حل و علاج نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک ایسے کمرے میں بند کر دیں جہاں اسے دنیا کے بارے میں کچھ علم نہ ہو اور پھر یہ بھی توقع کریں کہ ہم علم و عمل میں دوسروں سے آگے بھی نکل جائیں۔
آپ نے میرے مراسلے کا اقتباس لے کر سوال فقط اس بارے میں کیا جس کے بارے میں، میں لکھ چکا تھا کہ یہ علیحدہ موضوع ہے۔ اب آپ کے اسی مراسلے میں آخری سطریں بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ پھر بھی میں اگر غلط سمجھا ہوں تو اپنے الفاظ سے رجوع کرتا ہوں۔

جس بارے میں میرے پاس معلومات نہیں اس پر میں بحث سے اجتناب کرتا ہوں۔ پچھلے مراسلوں میں بھی میں نے کسی خاص کتاب کے اچھے یا برے ہونے کے حوالے سے کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ میں اگر بات واضح نہیں کر پایا تو شاید یہ میرے الفاظ کی کمزوری ہے۔
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
یہ سوچ ہی عبث ہے کہ انگریزی ادب کی کلاس کے لئے کتاب کا انتخاب اخلاقی اقدار کی بنیاد پر کیا جائے۔
آپ کی رائے کا احترم، لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ بحیثیت مسلمان ۔۔۔ بلکہ بحیثیت ایک انسان کے اخلاقی قدریں میری نزدیک زیادہ اہم ہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین
رسمی طور پر مسٹر چپس کو اب گڈ بائے کہا گیا حالانکہ یہ بیچارہ ہمیشہ سے ہی گڈ بائے تھا!
امتحانوں کے لیے رٹا نوٹس کو لگایا جاتا ہے، ناول کو کون منہ لگاتا ہے!
 
غلط کو غلط کہنے کی بجائے اعتدال کا نعرہ بلند کر کے چپ رہنا بھی ایک عجب معاملہ ہے۔

یہ انگریزی ادب کی کلاس کو اسلامیات بنایا ہی معتدل لوگوں نے ہے۔
میرا تبصرہ کمنٹ میں کی گئی بات پر عمومی طور پر رویوں کے متعلق ہے۔ اور اس بات سے مذکورہ اقدام کی نفی ہی ہو رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسٹر چپس اور اسلام
چراغ جان جمع۔ء 12 اپريل 2019
1627496-mrchips-1554966295-351-640x480.jpg

پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ نے مسٹر چپس کو سلیبس سے نکالنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مسٹر چپس بارہویں جماعت میں پڑھایا جانے والا انگریزی ناول ہے، جس پر کچھ دنوں سے بہت گرما گرم بحث ہورہی ہے۔ پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ (پی سی ٹی بی) نے اس ناول کو اسلام اور نوجوانوں کےلیے خطرہ سمجھتے ہوئے اور طلبا کےلیے مطالعے میں پیش آنے والی مشکلات کی وجہ کہتے ہوئے اس کو سلیبس سے باہر نکالنے اور اس کی جگہ آپﷺ کی زندگی سے متعلقہ اسباق شامل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ مسٹر چپس ہو یا کوئی اور انسان، کوئی بھی آپﷺ کے قدموں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ آئیے ہم درج ذیل باتوں کو زیر بحث لاتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ (پی سی ٹی بی) کا یہ فیصلہ درست ہے یا پھر پی سی ٹی بی سمیت ہماری دقیانوس سوچ اور بورڈ کی عوام کو بیوقوف بناکر خود کر اچھا دکھانے کی ایک چال ہے؟

ہمیں تو یہ دقیانوسی سوچ اور بورڈ کی عوام کو بیوقوف بنانےکی سوچ ہی لگتی ہے، باقی ہر انسان اپنی رائے رکھتا ہے۔

نرسری سے مڈل تک کے سلیبس میں تقریباً سب سے چھوٹی کتاب اسلامیات کی ہے اور ویسے ہم مسلمان ہیں اور اسلام سے ہمیں محبت ہے۔ میٹرک (نویں اور دسویں) کی بات کریں تو کچھ سال پہلے صرف نویں میں اسلامیات کی چھوٹی سی کتاب پڑھائی جاتی تھی اور اب ایک ہی اسلامیات کی کتاب ہے جو آدھی نویں میں اور آدھی دسویں میں پڑھائی جاتی ہے۔ شاید اسلامیات باقی مضامین (میتھ، فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی وغیرہ) سے زیادہ مشکل ہے، جن كى نویں اور دسویں میں ملا کر دو دو کتابیں ہیں۔ گیارہویں اور بارہویں میں بھی صرف گیارہویں میں اسلامیات کی ایک کتاب پڑھائی جاتی ہے۔ شاید گیارہویں میں اسلامیات پڑھنے کے بعد طالب علم عالم دین بن جاتا ہے جس کی وجہ سے پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ (پی سی ٹی بی) بارہویں جماعت میں اسلامیات پڑھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور تو اور میٹرک میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان 50,50 نمبر کے اور باقی مضامیں میں سے ہر ایک 150 نمبر کا ہے۔ تو یہ مسٹر چیپس کی جگہ آپﷺ کی زندگی سے متعلق اسباق ڈالنے کے بجائے اسلامیات کی کتاب میں کیوں نہیں شامل کرتے اور اسلامیات کا سلیبس زیادہ کیوں نہیں کرتے؟ کیوں اسے ایک چھوٹی سی کتاب رکھتے ہیں۔

یہاں ان کی اسلام کے لیے کاوش دیکھ کر ہماری تو عقل ہی دنگ رہ جاتی ہے۔ واہ! مسلمان ہوں تو پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ جیسے۔ انٹرمیڈیٹ میں بھی اسلامیات صرف 50 نمبر کی ہے جبکہ باقی مضامین 200 نمبرز رکھتے ہیں۔ ہم یہاں کہہ دیتے ہیں سبحان اللہ۔

اگر انٹرمیڈیٹ میں انگریزی اور اردو کا موازنہ کیا جائے تو اردو کے پورے سلیبس میں کوئی ایک بھی انگریز لکھاری/مصنف کا سبق نہیں ہے، لیکن انگریزی ادب میں علامہ اقبالؒ سمیت صوفیانہ بزرگوں کی شاعری بھی شامل ہے اور باقی اسباق بھی سارے کے سارے انگریزی ادب میں سے نہیں ہیں۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم اپنے آپ کو صرف اپنے ادب تک محدود کیے بغیر دوسرے کے ادب کے بارے میں بھی جان سکیں۔ صرف مسٹر چپس ہی تھا؛ جو انگریزی ناول تھا۔ اسے بھی سلیبس سے باہر نکالنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مسٹر چپس پچھلے 55 سال سے سلیبس میں شامل ہے، اس لیے یہ ضرورت محسوس ہوئی۔ تو کیا سب طالب علم پچھلے 55 سال سے صرف انٹر کی کلاس میں ہی ہیں؟ ہر طالب علم کے لیے نئی کلاس کی کتاب نئی ہوتی ہے، چاہے وہ 100 سال پرانی ہو۔ اگر ایسا ہے تو علامہ اقبالؒ، مرزا غالب اور باقی اردو کے لکھاریوں کی لکھت تو صدیوں پرانی ہے اور شروع سے ہی ہمارے سلیبس کا حصہ ہے۔ کیا اسے ہم نے سلیبس سے نکال دیا؟ نہیں! کیوں کہ ان سب کی لکھت ایسے ہی لگتی ہے جیسے آج لکھی گئی ہو۔ اسی طرح مسٹر چپس بھی ایسے ہی لگتا ہے، جیسا کہ آج لکھا گیا ہو۔ کیونکہ کچھ لکھت بین الاقوامی معیار کی اور سدا بہار ہوتی ہیں۔ پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ نے کیا بہانہ لگایا ہے۔ تو ہم پھر کہہ دیتے ہیں پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ واہ صدقے تیرے!

اب جو مرچ مسالے والی باتیں کی جارہی ہیں، وہ سن لیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ ناول مسٹر چپس اور کیتھرین کی لو اسٹوری ہے۔ جبکہ اکثر لوگ اس ناول کی اصلیت سے ناواقف ہیں۔ یہ ناول ایک اسکول ٹیچر کی زندگی کو بیان کرتا ہے، جس میں اس کو تدریس (ٹیچنگ) میں پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر ہے۔ کیتھرین سے شادی کرنے سے پہلے مسٹر چپس خشک مزاج کا انسان ہوتا ہے لیکن شادی کے بعد اس کی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں آتی ہیں۔ بالفرض اگر کم فہم لوگوں کی یہ بات مان بھی لی جائے تو پھر بھی اس ناول میں میاں بیوی کی محبت کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سے شادی کے بعد کیتھرین مسٹر چپس کی زندگی میں روشن اور مثبت تبدیلیاں لے کر آتی ہے؛ جو کہ ہر بیوی کو لانی چاہیے۔ اور پھر کیتھرین کی اپنے بچے کے ساتھ موت کے بعد مسٹر چپس انہیں یاد کرتا ہے جو ایک خاوند کی بیوی کے لیے محبت ہے؛ جو کہ ہر خاوند کو بیوی سے محبت کرنی چاہیے۔

لیکن ہمارے پاکستان اور ایشیا میں تو بیوی سے محبت کا اظہار کرنے اور بیوی کی بات ماننے والے کو رن مرید کہتے ہیں، جبکہ کسی نامحرم عورت یا لڑکی کی جھوٹی عاشقی معشوقی کی باتیں کرنا اور سنانا فخر سمجھا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکے یونیورسٹیوں میں اور گلی بازاروں میں لڑکیوں کے پیچھے پیچھے دوڑتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاکستان اور ایشیا میں بیوی سے محبت کرنے والے شادی شدہ لوگ رن مرید اور کنوارے زن مرید ہیں اور کنوارے غلطی پر ہیں۔

آپﷺ کے ہدایت پھیلانے سے پہلے بھی عرب میں بیوی سے اظہار محبت برائی اور عیب سمجھا جاتا تھا اور نامحرم لڑکی سے حبس بھری محبت کا اظہار کرنا فخر اور خوبی بھی سمجھا جاتا تھا۔ کہیں ہم اسی دور جہالت میں تو نہیں؟ مسٹر چپس میں پکے کنواروں کے لیے بھی سبق ہے جو شادی کو ایک بوجھ سمجھتے ہوئے کنوارے رہتے ہیں۔ اس میں بتایا جارہا ہے کہ کس طرح شادی انسان کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مسٹر چپس پڑھ کر نوجوان لڑکے لڑکیاں خراب ہوتے ہیں۔ جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔

سعادت حسن منٹو ہمارے ہیروز میں سے ہیں اور جس کھلے انداز سے انہوں نے لکھا ہے، اس سے کون واقف نہیں۔ سعادت حسن منٹو کی لکھت کو ایک طرف چھوڑئیے۔ آئیے ذرا گیارہویں اور بارہویں کلاس میں دیکھیں۔ اُدو سلیبس میں موجود رائٹرز نے کیا طوفان اٹھا رکھا ہے۔ درج ذیل اشعار انٹرمیڈیٹ کے اردو سلیبس میں غزل میں شامل ہیں اور غزل کا معنی ہے عورتوں کی باتیں کرنا یا عورتوں سے بات کرنا۔ اب سنیے۔

ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

….

دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا

شاید ایسے اشعار پڑھنے کے بعد نوجوان لڑکے لڑکیاں عالم دین بنیں گے؟

ذرا پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ سے پوچھیے کہ کس کو مفت میں دل دے دیا اور کس کے لبوں کی تعریف کی جارہی ہے؟ خیر ہم کہہ دیتے ہیں پنجاب کریکیولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ واہ صدقے تیرے۔ مسٹر چپس میں ان اشعار جیسا کوئی ایک جملہ بھی نہیں۔

ہم تو آخر میں یہی کہیں گے کہ اسلامیات کی کتاب کو گیارہویں کے ساتھ ساتھ بارہویں میں بھی پڑھایا جائے، بلکہ ایم اے، ایم ایس سی تک ہر کلاس میں اسلامیات پڑھائی جائے اور آپﷺ کی زندگی سے متعلق جتنے بھی اسباق شامل کرنے چاہئیں وہ اسلامیات کی کتاب میں شامل کیے جائیں اور اسلامیات کے مضمون کو بھی باقی مضامین کے برابر نمبر دیے جائیں۔ نرسری تا میٹرک اسلامیات کی کتاب میں باقی موضوعات کے ساتھ ساتھ آپﷺ کا بچپن اور انٹر اور گریجویشن میں آپﷺ کی جوانی اور ہر ایم اے، ایم ایس سی کی کتابوں میں آپ ﷺ کی جوانی سے بعد والی زندگی کو اسلامیات کے باقی موضوعات کے ساتھ شامل کیا جائے اور انگریزی مضمون میں ناول مسٹر چپس کو شامل رکھا جائے یا مسٹر چپس سے بہتر کوئی سبق آموز انگریزی ناول یا کسی بھی بین الاقوامی معیار کی ادب سے متعلقہ کتاب کو شامل کیا جائے، تا کہ ہم لوگ باقی قوموں کے ادب کو بھی جان سکیں۔

مسٹر چپس ناول ہو یا کوئی اور انسان؛ کوئی بھی آپﷺ کے قدموں کی دھول کے بھی برابر نہ تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے۔ ہمیں بس یہ دیکھنا ہے کہ کس چیز کو کس نصاب میں اور کہاں شامل کرنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آئیے ذرا گیارہویں اور بارہویں کلاس میں دیکھیں۔ اُدو سلیبس میں موجود رائٹرز نے کیا طوفان اٹھا رکھا ہے۔ درج ذیل اشعار انٹرمیڈیٹ کے اردو سلیبس میں غزل میں شامل ہیں اور غزل کا معنی ہے عورتوں کی باتیں کرنا یا عورتوں سے بات کرنا۔ اب سنیے۔

ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
بالکل غلط۔ یہ شعر اور غزل انٹر کے سلیبس میں شامل نہیں ہے، حیرت ہے مضمون نگار نے کتاب تک دیکھنی گوارا نہیں کی۔

یہ غزل اور شعر تو پنجاب کے جماعت نہم کی اردو سلیبس میں ہے۔ (ربط صفحہ 125) اور اسی غزل کا یہ مقطع بھی

میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

چودہ پندرہ سال کے لڑکے یا لڑکی کو اس غزل کی تشریح سمجھاتے ہوئے دانتوں تلے پسینہ تو آتا ہوگا۔ :)
 
Top