امجد علی راجا
محفلین
مسٹیک کر رہا ہے تُو مجھ پر اٹھا کے ہاتھ
مجھ سا بُرا نہ ہوگا دِکھا اب لگا کے ہاتھ
دعوت سا اہتمام تھا، ہم خوب خوش ہوئے
چائے پہ اِکتفا کیا اس نے دھلا کے ہاتھ
شرما دیا اسے، ہو پسینے کا بیڑہ غرق
"انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ"
"ای میل" اِس زمانے کی "شی میل" تھی کبھی
پیغام آتے جاتے تھے خواجہ سرا کے ہاتھ
تم سا بھی لعنتی نہ کوئی ہوگا دوستو
پکڑا دیا ہے جام جو اٹھے دعا کے ہاتھ
کیا تھی خبر رقیب مرا "باکسر" بھی ہے
پچھتا رہا ہوں ہائے میں اس پر اٹھا کے ہاتھ
بیگم کے نام کردی تھی کوٹھی نکاح میں
بیٹھا ہوں میں بھی جوش میں اپنے کٹا کے ہاتھ
ہم ووٹ دینے والے لٹیرے ہیں قوم کے
کرسی لگے بھی کیسے کسی پارسا کے ہاتھ
آپس کا اختلاف سیاست کا ڈھونگ ہے
لُوٹیں گے قوم کو سبھی مل کے، ملا کے ہاتھ
اصلاح کے لئے استادِ محترم الف عین کا شکرگزار ہوں
محمد یعقوب آسی امجد میانداد انیس الرحمن باباجی درویش خُراسانی ذوالقرنین سید زبیر سید شہزاد ناصر الشفاء شوکت پرویز شیزان عبدالروف اعوان عمراعظم قیصرانی متلاشی محسن وقار علی محمد اسامہ سَرسَری محمد بلال اعظم محمد خلیل الرحمٰن محمد احمد محمود احمد غزنوی مزمل شیخ بسمل مقدس ملائکہ مہ جبین نایاب نیرنگ خیال نیلم یوسف-2