غزل
ہم اپنی حقیقت کس سے کہیں، ہیں پیاسے کہ سیراب ہیں ہم
ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں، ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم
اب غم ہے کوئی، نہ سرشاری، بس چلنے کی ہے تیاری
اب دھوپ ہے پھیلی آنگن میں، اور کچی نیند کے خواب ہیں ہم
ہاں شمعِ تمنّا بجھ بھی گئی، اب دل تِیرہ، تاریک بہت
اب حدّتِ غم، نہ جوشِ جنوں، اے دشتِ طلب! برفاب ہیں ہم
یہ تنہائی، یہ خاموشی، تارا بھی نہیں اِس شام کوئی
کچھ داغ سمیٹے سینے میں، تنہا تنہا مہتاب ہیں ہم
ہم جس میں ڈوب کے اُبھرے ہیں، وہ دریا کیسا دریا تھا؟
یہ کیسا اُفق ہے جس کی اتھاہ گہرائی میں غرقاب ہیں ہم
ہم مثلِ شرر ہیں ، جگنو ہیں، ہم تِیرہ شب کے آنسو ہیں
ہم نجمِ سحر، ہم رشکِ قمر، ہاں ہر صورت شب تاب ہیں ہم
ایک حزن و ملال کا سیلِ بلا، سب خواب بہا کر لے بھی گیا
پھر پھول کھلے من آنگن میں، پھر دیکھ ہمیں شاداب ہیں ہم
لاکھوں ہم جیسے ملتے ہیں، نایاب نہیں ہیں ہم احمدؔ
ہاں اُن کے لئے، جو دل سے ملے، وہ جانتے ہیں، کمیاب ہیں ہم