محمد یعقوب آسی
محفلین
اے دستِ ستم چھونا نہ ہمیں ہم زہر میں ڈوبے کانٹے ہیں
درویش منش یاروں کے لئے ہم ریشم ہیں، کمخاب ہیں ہم
اے پیر مغاں اک عمر ہوئی گوشے میں پڑے میخانے کے
آج ابر کرم کی تجھ کو قسم کیوں سمجھا تو ۔زہراب ہیں ہم
دو چار قدم ہی کافی ہیں ۔۔تم۔۔ ساحل چھوڑ کے دیکھو تو
سوئی ہیں یہ بپھری موجیں بھی ۔آسانی سے پایاب ہیں ہم
گرچہ ہیں مسافر ہستی کے ، بے سود و زیاں ، بے آہ و فغاںگزرے ہی چلے جاتے ہیں یہاں ، کچھ بھرم رکھو، کمیاب ہیں ہم
اے دستِ ستم چھونا نہ ہمیں ہم زہر میں ڈوبے کانٹے ہیںدرویش منش یاروں کے لئے ہم ریشم ہیں، کمخاب ہیں ہم
اے پیر مغاں اک عمر ہوئی گوشے میں پڑے میخانے کے
آج ابر کرم کی تجھ کو قسم کیوں سمجھا تو ۔زہراب ہیں ہم
دو چار قدم ہی کافی ہیں ۔۔تم۔۔ ساحل چھوڑ کے دیکھو تو
سوئی ہیں یہ بپھری موجیں بھی ۔آسانی سے پایاب ہیں ہم
ہم تشنہ جنوں کے صحرا ہیں ، رنج و غم کے طوفان بھی ہیں
ہمیں خشک سمجھ کر دور نہ جاؤ ، اشکوں کے سیلاب ہیں ہم
(اس وزن پر پہلی بار تک بندی کی ہے، اصلاح فرمادیجیے۔)
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرماے دستِ ستم چھونا نہ ہمیں ہم زہر میں ڈوبے کانٹے ہیںدرویش منش یاروں کے لئے ہم ریشم ہیں، کمخاب ہیں ہم
جب شعر کی گنگا سوکھ گئی، تخلیق کے سوتے خشک ہوئے
اب تم سے کیا ہم جھوٹ کہیں، کیسے کہہ دیں شاداب ہیں ہم
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن (اقبال)
شعر بھی اپنا، تبصرہ بھی خود ۔۔۔۔ سو ہماری خاموشی کو ہی ’’نیم رضا‘‘ سمجھ لیجئے اس شعر کے جواب میں ۔۔۔۔اے گردشِ دوراں ٹھہر ذرا، دیدار سے جی کو بھرنے دے
سورج کو ابھی واپس لوٹا، کچھ دیر کو محوِ خواب ہیں ہم
سونے دے بھئی، تھک ہار کے سوئے ہیں اور ’’وہ‘‘ خواب میں چلے آئے ہیں!