آپ مولانا صاحب پر کچھ زیادہ ہی سخت ہو گئے ہیں۔ اگر کسی کا طرزِ سیاست اور نظریاتِ سیاست آپ سے جدا ہیں تو یہ ضروری نہیں کہ ایسے شخص کو ایسے القاب سے نوازا جائے۔
میری ناقص رائے میں مولانا صاحب نے سیاست کے ذریعے نہ حرام پیسا کمایا ہے اور نہ ہی حرام پیسے کے لیے دین کو بیچا ہے جو انہیں ننگ دین کا خطاب دیا جائے۔ اگر وہ نظریہ یہ رکھتے ہیں کہ جو بھی حکمران ہو اُس کے ساتھ لچک رکھی جائے (اور ہر حکومت کے خلاف، ہر صورت میں، صرف اور صرف پہیہ جام ہڑتالیں جاری رکھی جائیں تاکہ ملک کی مشینری ہی نہ چل سکے اور یہ وہ طرزِ عمل جو باقی سیاسی جماعتیں پہلے ہی بدرجہ اتم انجام دے رہی ہیں) تو آپ ان پر ننگ دین کا فتوی تو نہ لگائیں۔
مجھے اگر مولانا صاحب سے انصاف کرنا ہے تو مجھے یہ نظر آتا ہے کہ وہ اپنے طریقے کے مطابق نرمی سے، بنا ہتھیار اٹھائے یا لوگوں کو مروائے ملک میں اسلام کے قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ کہ مولانا صاحب کرپٹ نہیں ہیں اور انہوں نے دین کو کبھی پیسوں کے لیے نہیں بیچا ہے۔
میں مولانا پر زیادہ سخت نہیں ہوا بلکہ مولانا کی سیاست کو پچھلے سات سال سے بہت غور سے دیکھنے کے بعد متعدد مواقع پر طرز عمل کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں جس سے اکثریت متفق ہے۔
مہوش شاید آپ کو علم نہیں مگر مولانا کی مشہور عرفیت مولانا ڈیزل ہے جو بینظیر کے دور میں ڈیزل کے ناجائز پرمٹ حاصل کرنے کی وجہ سے پڑی اور یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ وہ پیسہ کتنا حرام تھا اور دین بیچنے کی بات رہی جہاں تک وہ تو قدم قدم پر بیچا۔
لال مسجد کے سانحے پر مولانا صاحب لندن میں تشریف فرما تھے اور سانحہ ہونے کے بعد بھی چند دن ٹھہر کر آئے اور صرف اتنا بیان دیا کہ مجھے ڈر ہے کہ سرحد میں احتجاج سخت ہوگا یعنی اتنا لگاؤ اور فکر تھی انہیں ان لوگوں سے جن کے نظریات کے مولانا بھی ہمنوا ہیں۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں بل پر مولانا نے شدید مخالفت کی اور بارہا یہ دہرایا کہ اگر یہ بل پاس ہوا تو وہ مستعفی ہو جائیں گے اور جب یہ بل پاس ہوا تو کہا کہ شوری طلب کی ہے اور پھر استعفی دینے سے صاف مکر گئے اور پوری قوم اس کی گواہ ہے اس کے لیے میرا خیال ہے آپ کو ثبوت دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ ایک واقع ہی مولانا کے کھلے جھوٹ اور موقع پرستی کی اتنی کریہہ مثال ہے کہ کوئی اور مثال ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔ کسی ایک موقع پر بھی مولانا نے اصولی موقف نہیں اپنایا اور ہر ہر موقع پر منافقت کی زبردست مثالیں قائم کی ہیں جس پر ایک حلقہ انہیں رئیس المنافقین کا خطاب بھی دیتا ہے جس کے وہ صحیح معنوں میں مستحق ہیں۔ عبداللہ بن ابی کو زندہ شکل میں دیکھنا ہو تو مولانا فضل الرحمن کو دیکھ لیں آپ کو تمام جملہ خصوصیات اور کردار مجسم نظر آ جائے گا۔
جنرل مشرف کی صدارت کے موقع پر مولانا نے خود مستعفی ہونے اور سرحد اسمبلی توڑنے کا اعلان کیا اور پھر جس منافقت اور جھوٹ کے ساتھ اس سے پہلو تہی کی وہ بھی ساری قوم کے سامنے ہے اور اس پر ان پر بجا طور پر خوب لعن طعن ہوئی۔ انسان اپنے اعمال سے ہی جانا جاتا ہے اب اگر مولانا کے اعمال ایسے ہیں تو ان کے لیے القاب بھی ایسے ہی ہوں گے یقین نہیں آتا تو باقی لوگوں کی رائے لے لیں۔