لگتا ہے موصوف کسی خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔۔۔ ۔ ایران کے اندر جا کر کبھی ملاحظہ کریں۔۔۔ ۔ ان پابندیوں سے وہاں کی حکومت اور عوام کتنی مشکلات میں ہیں۔۔۔
کتنے ایسے آئٹمز ہیں جو ایران دنیا کے ممالک سے نہیں خرید سکتا۔۔۔ اور تیل بھی بلیک کے علاوہ نہیں بک رہا۔۔۔ وہ بھی چند ممالک کو۔۔
البتہ ان پابندیوں کا ایران کو اک لحاظ سے فائدہ ہی ہوا ہے۔۔۔ سب کچھ ایران میں بننے لگا ہے۔۔
یہ انہی پابندیوں کا نتیجہ ہے کہ ایرانی تومان جو کچھ سال پہلے 12 روپے پاکستانی کا تھا جو اب 33 تک گر گیا ہے۔۔
ایران کی حکومت اور عوام دونوں امریکہ سے نفرت کر تے ہیں۔۔۔ اور مرگ بر امریکہ کا نعرہ ایران نے ہی دنیا کو دیا ہے۔۔ اور امریکہ کو شیطان بزرگ سمجھتا ہے۔۔۔
اور اسی شیطان بزرگ کے گھٹنوں سے لگا موت کے ہرکارے کے پیچھے اسلامی دنیا میں گھوم پھر کر تفریح بھی کر رہا ہے،
یہ امریکہ شیطان بزرگ کی ایران سے دشمنی ہی تھی جو دونوں کے اتحاد نے وہاں سے صدام کی حکومت ختم کر کے ایران کی من پسند حکومت قائم کی،
یہ ایران اور امریکہ شیطان بزرگ کی دشمنی ہی ہے جو شام میں ایرانی اقلیت کی چیرہ دستیاں جاری ہیں اور اکثریت کو کاٹ کاٹ کر پھینکا جا رہا ہے۔
یہ ایران کی شیطان بزرگ سے دشمنی ہی تو ہے کہ لبنان میں عیسائی اور اہلِ تشیع اتحاد ہے اور دونوں مل کر سنیوں کا قلع قمع کر رہے ہیں۔
ایران اور اس کے شیطان بزرگ کی دشمنی کی حد دیکھیے کہ جب افغانستان سے ایرانی اثر رسوخ کم ہونے کے بعد پاکستانی اثرو رسوخ جب ایران کو افغانستان کے راستے سے بھی اپنی سرحد تک آتا محسوس ہوا تو کون سا طریقہ اس نے شیطان بزرگ کے لیے وا نہیں کیا افغانستان میں اپنی حمایتی حکومت لانے کے لیے۔
یہ ایران کی اپنے بزرگ شیطان سے دشمنی اور دیگر مسلمانوں سے محبت ہی ہے جو یمن میں باغیوں کو اسلحے سے لیس کرتی جا رہی ہے۔ اور حکومت کے خلاف اٹھاتی ہے۔
یہ ایران کی مسلمانوں سے محبت اور بزرگ شیطان سے نفرت اور دشمنی ہے کہ ایران دنیا بھر کو تو یہ باور کرواتا رہا کہ فلسطینی کاز کا سب سے بڑا سپورٹر ہے لیکن خفیہ طور پر اسرائیل سے بھی گہرے مراسم تھے، کوئی ایسا کام نہیں کیا گیا جس سے اسرائیل کو نقصان پہنچ سکے زبانی توپیں تو یہاں سے میں بھی چلا لوں۔ دنیا نے اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھا جب اسرائیل عرب جنگ میں ایران نے فلسطینی مجاہدین کی مدد سے انکارہاتھ کھنچتےہوئے فلسطینی جنگ متاثرین کی مدد کرنے اور پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ایران کے علاوہ یہ کون ہے جو اتحاد کے بجائے اور فلسطین کی آزادی کے بجائے ان میں نفاق پیدا کر رہا ہے ایک دھڑے کی سپورٹ تو دوسرے کی بیخ کنی کروا رہا ہے۔
پاکستان میں ایران کے ہاتھ کہاں تک ملوث ہیں مفاد پرست عناصر نہ بولیں لیکن حقیقت ٹالے نہیں ٹل سکتی۔
یہ ایران کی غلاظت نہیں کہ یہاں آپ پاکستانی ہو کر بھی پاکستانی نہیں بلکہ اس سے زیادہ ایرانی دماغ رکھتے ہیں۔ ہم آپ سب یہاں پاکستان کے اوپر کھلی تنقید کر تے ہیں ، کر سکتے ہیں لیکن ایران کی بات اٹھے تو آپ کی روح تڑپ اٹھتی ہے۔ ہر طرح سے آپ ایران کی پالیسیوں اور اس کے مفادات کا دفاع کرتے ہیں بھلے وہ پاکستان کے خلاف ہی کیوں نہ جا رہی ہو بات آپ پاکستان کو برا بھلا کہہ لیں گے لیکن ایران کے بارے میں ایک لفظ آپ کو گوارا نہیں۔ یہاں کتنے ہی لوگ ہیں جو کسی بھی حکومتی یا شخصی معاملے میں کھل کر تنقید کرتے ہیں لیکن اگر تنقید میں کہیں اہلِ تشیع یا ایران آ جائے تو رویے بدل جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے درخواست ہے کہ اگر آپ کو ایران پہ یا اہلِ تشیع کسی شخص یا گروہ پہ تنقید برداشت نہیں تو آپ کسی بھی حیثیت میں پاکستانی کی کسی سیاسی پارٹی، پاکستانی کی کسی شخصیت یا کسی معاملے میں کسی قسم کی رائے دینے سے اجتناب کریں۔ یہ کیا کہ یہاں تو آپ اس ایشو کے مخالفین کے ساتھ مل کر اپنا بغض نکالیں لیکن جہاں کسی مراسلے میں ایران یا اہلِ تشیع کی کوئی بات ہو وہاں آپ نشتر لے کر کھڑے ہو جائیں۔
ویسے تو آپ رواداری کی علم برداری کا پرچار کریں لیکن وہاں آپ کو آگ لگ جائے۔ کیا تنقید صرف باقی انسانوں ، گروہوں اور ممالک پر ہی ہو سکتی ہے ایران یا اہلِ تشیع پر نہیں۔
اگر ہم یہاں ایک شہری کی حثیت سے سیاسی مذہبی ، ثقافتی اور شہری مباحثے کرتے ہیں اور اس میں سبھی پہ بعض اوقات تنقید ہو رہی ہوتی ہے چاہیے سیاست دان ہو، کوئی ملک ہو یا ہماری فوج ہو ادارے ہوں یا پالیسیاں ہم اور آپ کھل کر بول سکتے ہیں اور مخالفت بھی برداشت کر جاتے ہیں تو ایران اور اہلِ تشیع کے معاملے پر آپ ایک عام شہری کی حیثیت سے بات کیوں نہیں کر سکتے آپ ایران اورفقہ کا ڈنڈہ لے کر کیوں مارنے آ جاتے ہیں۔
اگر آپ لوگوں سے ایسی تنقید برداشت نہیں ہوتی تو آپ کو بھی کوئی حق نہیں کے ان موضوعات پر اپنی تنقید یا رائے دیں جہاں کسی سنی جماعت، سیاسی پارٹی ملک ، اداکار، فنکار، پالیسی، ادارے یا واقعے کی بات ہو رہی ہو۔