مصطفیٰ دہشت گرد ہے

کہانی کا اس قدر مختصر ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے اور اس قدر اختصار گراں بھی گزرتا ہے؛ یہ افسانہ بھی تو نہیں ہے نا!
گراں کی وضاحت ہو گی؟ بہت طویل کہانیاں آجکل کوئی پڑھتا ہے؟ میں تو واٹس ایپ سائز کی کہانی لکھنا چاہتا ہوں، جس میں ایک مکمل پیغام ہو۔
 

علی وقار

محفلین
اس کہانی میں قوت کا شدید عدم توازن دکھایا گیا ہے جس کی وجہ سےمخلصین قلیل ہو کر سکڑ کر رہے گئے ہیں۔ بڑے بھائی کا حکم دنیا میں چلتا ہے۔ بڑے بھائی کے پاس دینی اور تعلیمی انتظام ہے ، فوج کا کنٹرول ہے اور تجارت پر مکمل قبضہ۔ ایسے حالات میں مخلصین یا تو ہجرت کر کے غار میں جا سکتے ہیں یا پھر چپ سادھ کر شہر کے پرانے علاقوں میں رہ سکتے ہیں۔ اور وہاں بھی بڑے بھائی کے کارندنے فرعون کے کارندوں کی طرح گلی گلی نطر رکھے ہیں۔ ایسے میں مخلصین کیا کریں؟
ایک دنیا تو وہ ہوتی ہے رافع صاحب جہاں بڑے بھائی کا حکم چلتا ہے، ایک دنیا وہ بھی ہوتی ہے، جسے احساسات و جذبات کی دنیا کہتے ہیں۔

کہانی کے کردار جان بوجھ کر کھاتے پیتے، سفر کرتے، نوکریوں پر جاتے روبوٹ دکھائے گئے ہیں تاکہ بڑے بھائی کے شدید کنٹرول کو واضح کیا جا سکے۔
یہ کرداد پھسپھسے اور بے جان ہیں، یعنی کہ روبوٹ ہیں، اسی لیے بطور ایک انسان مجھے بے جان ہی معلوم ہوئے۔ کہانی بہت جنرلائزڈ قسم کی لگ رہی ہے؟ ایک مثالی دنیا، اچھی ہو یا بری ہو، ہر ایک کو فیسنیٹ نہیں کر سکتی۔ میرے خیال میں، جیتے جاگتے انسان روبوٹ نہیں ہو سکتے۔ کہانی کار کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ سانس لیتا فرد روبوٹ نہیں بن سکتا۔ ایسے روبوٹ معاشرے کے اندر، دم گھٹ سماج کے اندر تو کہانیاں زیادہ تر احساسات کو مرکز میں رکھ کر تشکیل پاتی ہیں۔
شہر کے لوگوں کو دیکھنےسےلگتا ہے کہ گویا تمام شہری اکہری سوچ رکھنے والے، جذبات و احساسات سے عاری انسان ہیں۔
انہی احساسات و جذبات کو سامنے لانا ہی تو کہانی لکھنے والے کا اصل کام ہے۔
انہوں نے اصل خیر و شر کے پیمانے کو چھوڑ دیا تو وہ شر ہی کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ خیر ان میں کم سے کم ہو گیا ہے۔
یہی کہانی کا مقصد ہے کہ بڑے بھائی نے شہر کو اس شدت سے کنٹرول کیا ہے کہ ہر شناخت غیر اہم ہو گئی ہے۔ سب ایک ہی طرح کے لگ رہے ہیں۔
اس یک رخے معاشرے میں جہاں شہر میں صرف مائل بہ شر لوگ ہوں اور غاروں میں محض مائل بہ خیر لوگ ہوں، کیا مثبت نتیجہ برآمد کیا جا سکتا ہے؟ شہر کے باسیوں کو جو چیلنجز درپیش ہیں، کیا وہ مائل بہ شر ہیں تو ان سے خیر کی توقع عبث ہے؟ کیا غار کے باسی ہمیشہ باعث خیر کثیر رہیں گے؟
گراں کی وضاحت ہو گی؟ بہت طویل کہانیاں آجکل کوئی پڑھتا ہے۔ میں تو واٹس ایپ سائز کی کہانی لکھنا چاہتا ہوں، جس میں ایک مکمل پیغام ہو۔
کوئی ایسی کہانی یا مصنف بتائیں جو ریختہ وغیرہ پر میسر ہوں اور جو خیر و شر کے موضوعات کو بہترین انداز میں بیان کرتے ہوں۔
یہ تو پی پی ایس سی کے سوال لگ رہے ہیں۔ بہت سے مصنفین ہیں۔ اردو کے صف اول کے ادیبوں کے ناول پڑھ لیجیے۔ یا منٹو کی کہانیاں دیکھ لیں۔
 
ایک دنیا وہ بھی ہوتی ہے، جسے احساسات و جذبات کی دنیا کہتے ہیں۔
متفق۔

میرے خیال میں، جیتے جاگتے انسان روبوٹ نہیں ہو سکتے۔ کہانی کار کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ سانس لیتا فرد روبوٹ نہیں بن سکتا۔
متفق۔

اس یک رخے معاشرے میں جہاں شہر میں صرف مائل بہ شر لوگ ہوں اور غاروں میں محض مائل بہ خیر لوگ ہوں، کیا مثبت نتیجہ برآمد کیا جا سکتا ہے؟
اے کاش کہ مجھ کو بھی عطا ہو وہ حقیقت
بس میں ہوں مرا یار ہو اور غار حرا ہو

غار والے دراصل شر سے دور بھاگ گئے ہیں تاکہ سوچ بچار کر کے ایک مشن کے تحت اس عظیم شر کی سرکوبی کریں۔ اگر وہ بھی خالص نہ رہے تو پھر شر کیونکر رفع ہو گا؟

اردو کے صف اول کے ادیبوں کے ناول پڑھ لیجیے۔
ایک دو آپ بتا دیں نا! پلیز
 
یہ بات ہے تو پھر سارا قصور آپ کے ۔۔۔ ٰجاری ہےٰ ۔۔۔ کا ہے۔ :)
:) اصل میں اختتام دو طرح سے ہو سکتا تھا ایک سے واٹس ایپ سائز کہانی بن جائے گی کہ مصطفی مخلصین کی بات مان کر واپس غار میں چلا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ مخلصین کی جماعت کو محتاط خاموش تبلیغ سے بڑھائے اور بڑے بھائی کی تمام چالوں کو الٹ کر رکھ دے۔ اس سے کہانی کا سائز بہت بڑا ہو جائے گا۔ یہی کنفیوژن ہے۔ :roll:
 

علی وقار

محفلین
متفق۔


متفق۔


اے کاش کہ مجھ کو بھی عطا ہو وہ حقیقت
بس میں ہوں مرا یار ہو اور غار حرا ہو

غار والے دراصل شر سے دور بھاگ گئے ہیں تاکہ سوچ بچار کر کے ایک مشن کے تحت اس عظیم شر کی سرکوبی کریں۔ اگر وہ بھی خالص نہ رہے تو پھر شر کیونکر رفع ہو گا؟


ایک دو آپ بتا دیں نا! پلیز
منٹو، غلام عباس، قاسمی کے افسانے پڑھ لیجیے۔ اور بھی کئی ہوں گے۔ میں ادب کاباقاعدہ طالب علم نہیں ہوں۔ تاہم، جو بنیادی باتیں معلوم ہیں، وہ اپنے خیالات میں آپ کے سامنے رکھ دی ہیں۔ جہاں تک غاروں میں بسنے والوں کی بات ہے تو غاروں میں بھی ہر طرح کے افراد مقیم رہے ہیں، اور آبادیوں میں بھی۔ کیا ایسا نہیں ہے؟
 

علی وقار

محفلین
:) اصل میں اختتام دو طرح سے ہو سکتا تھا ایک سے واٹس ایپ سائز کہانی بن جائے گی کہ مصطفی مخلصین کی بات مان کر واپس غار میں چلا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ مخلصین کی جماعت کو محتاط خاموش تبلیغ سے بڑھائے اور بڑے بھائی کی تمام چالوں کو الٹ کر رکھ دے۔ اس سے کہانی کا سائز بہت بڑا ہو جائے گا۔ یہی کنفیوژن ہے۔ :roll:
مصطفٰی مرکزی کردار ہے جس کو تقریباً مقدس بنا کر پیش کیا گیا ہے اور غار میں مقیم ہونے کے علاوہ کوئی خاص وجہ بھی معلوم نہیں ہو پا رہی ہے۔ تقدیس کا یہ ہالہ جو کہ مرکزی کردار کے گرد تشکیل دیا گیا ہے، بظاہر اس کی کوئی ٹھوس وجہ بھی معلوم نہیں ہو پا رہی ہے۔ مخلصین مرکزی کردار سے زیادہ سیانے اور پہنچے ہوئے معلوم ہو رہے ہیں تو مصطفیٰ کو ان سے کیوں ممیز و ممتاز تصور کیا جائے۔ مزید یہ کہ کہانی کے مرکزی کردار کی طرح کہانی کار بھی تذبذب کا شکار ہے!
اور، اب اس کنفیوژن میں مصنف قاری کو شریک کر کے داد کا بھی طلب گار ہے۔ دلچسپ بات ہے نا سر!
 
آخری تدوین:
جہاں تک غاروں میں بسنے والوں کی بات ہے تو غاروں میں بھی ہر طرح کے افراد مقیم رہے ہیں، اور آبادیوں میں بھی۔ کیا ایسا نہیں ہے؟
غار میں رہنا تو ظاہر ہے کہ چنداں اہم نہیں۔ جیسا کہ آپ نے کہا غار میں رہنا خیر و شر کا پیمانہ نہیں۔ البتہ ماحول کے اثر سے متاثر ہونے سے تو آپ بھی متفق ہوں گے ہی؟
 
غار میں مقیم ہونے کے علاوہ کوئی خاص وجہ بھی معلوم نہیں ہو پا رہی ہے۔
کیونکہ
بڑے بھائی کی نظر میں مصطفیٰ ایک دشمن تھا، ایک ایسا دہشت گرد جو شہر کا انتظام برباد کرنا چاہتا ہو۔ گھروں میں فساد برپا کرنا چاہتا ہو۔ بڑے بھائی نے اکبر، قمر اور ثمر کو حکم دیا تھا کہ مصطفیٰ جہاں ملے اسے گولی مار دو۔

تقدیس کا یہ ہالہ جو کہ مرکزی کردار کے گرد تشکیل دیا گیا ہے، بظاہر اس کی کوئی ٹھوس وجہ بھی معلوم نہیں ہو پا رہی ہے۔
کیونکہ
ولی نے پہلی بار مصطفیٰ کو تین باتیں دے کر شہر کی جانب بھیجا تھا۔
مخلصین مرکزی کردار سے زیادہ سیانے اور پہنچے ہوئے معلوم ہو رہے ہیں تو مصطفیٰ کو ان سے کیوں ممیز و ممتاز تصور کیا جائے۔
کیونکہ وہ ولی کا چنیدہ تھا
ولی نے پہلی بار مصطفیٰ کو تین باتیں دے کر شہر کی جانب بھیجا تھا۔
مزید یہ کہ کہانی کے مرکزی کردار کی طرح کہانی کار بھی تذبذب کا شکار ہے!
نہیں ایسی بات نہیں۔

اور، اب اس کنفیوژن میں قاری کو شریک کر کے داد کا بھی طلب گار ہے۔ دلچسپ بات ہے نا سر!
داد کے لیے میں لکھتا نہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
وقار علی بھیا بطور شاگرد اور رافع بھیا بطور استاد کے کیونکہ ، کیونکہ والے مراسلات پڑھنے کے بعد یہی ذہن میں آیا کہ جب لکھنے والے کو اپنی کہانی سمجھا سمجھا کر دوسرے کے ذہن میں بٹھانی پڑے تو پھر وہ کہانی نہیں بلکہ سلیبس کا ایک حصہ لگتی ہے۔ اور ہم ٹہرے بغیر مغز کی کھوپڑی والے۔ اس لیے چلتے ہیں۔
کہا سنا معاف۔۔اس لیے نہ کہیں گے کہ ہم نے نہ کچھ کہا اور نہ کچھ سنا۔ بس لکھا ہے۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
وقار علی بھیا بطور شاگرد اور رافع بھیا بطور استاد کے کیونکہ ، کیونکہ والے مراسلات پڑھنے کے بعد یہی ذہن میں آیا کہ جب لکھنے والے کو اپنی کہانی سمجھا سمجھا کر دوسرے کے ذہن میں بٹھانی پڑے تو پھر وہ کہانی نہیں بلکہ سلیبس کا ایک حصہ لگتی ہے۔ اور ہم ٹہرے بغیر مغز کی کھوپڑی والے۔ اس لیے چلتے ہیں۔
کہا سنا معاف۔۔اس لیے نہ کہیں گے کہ ہم نے نہ کچھ کہا اور نہ کچھ سنا۔ بس لکھا یے۔
کہانی تو سمجھ آ ہی رہی ہوتی ہے، یہ تو مصنف کو تنگ کرنے کے طریقے ہیں جس کو تنقید بھی کہا جاتا ہے۔
 
Top