سید رافع
محفلین
حد عمر کیا ہے؟مشاغل کی تو عمر گذر گئی ہے ۔ بس اب اللہ اللہ کرتے ہیں ۔
حد عمر کیا ہے؟مشاغل کی تو عمر گذر گئی ہے ۔ بس اب اللہ اللہ کرتے ہیں ۔
ہمیں تو یوں سمجھ آئی کہ علی وقار بھیا نے منٹو کو صرف پڑھنے کی حد تک کا بولا ہو گا۔ ہماری سمجھ غلط بھی تو ہو سکتی ہے ۔پھر کس پر لکھوں؟ علی وقار کہہ رہے تھے کہ منٹو کو پڑھیں اور ویسا لکھیں تب بات بنے گی۔
منٹو کو نہ پڑھنا بھائی ۔ اس کو پڑھنے کے بعد اگر آپ نے کچھ لکھا تو مجھے تو نہیں لگتا کہ آپ کی کوئی تحریر اپرو ہوگی ۔پھر کس پر لکھوں؟ علی وقار کہہ رہے تھے کہ منٹو کو پڑھیں اور ویسا لکھیں تب بات بنے گی۔
محفلیں اس وجہ سے تھوڑی پیچھے پڑے رہتے۔ وہ تو اس وجہ سے کہ عادت سے مجبور ہیں۔ اپنےسے زیادہ سیانا تو کسی کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔قسم لے لیں پہلی بار آپ سے کوئی کام کی بات سنی ہے ۔ محفلین تو بس آپ کے پیچھے ایسے ہی پڑے رہتےہیں ۔
بس شناختی کارڈ بننے ہی والا ہے ۔حد عمر کیا ہے؟
بلکل بلکل ۔۔۔۔ آج کے دور میں تو کوئی سچ چھپا ہی نہیں سکتا ۔محفلیں اس وجہ سے تھوڑی پیچھے پڑے رہتے۔ وہ تو اس وجہ سے کہ عادت سے مجبور ہیں۔ اپنےسے زیادہ سیانا تو کسی کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔
وہی تو۔ اسی لیے اب ہم نے پرواہ کرنا ہی چھوڑ دی ہے۔بلکل بلکل ۔۔۔۔ آج کے دور میں تو کوئی سچ چھپا ہی نہیں سکتا ۔
منٹو کو پڑھنے کو کہا ہے، وہ اپنے جیسا لکھنے نہیں دیں گے۔ آپ کا اپنا اسلوب ہے۔ میں آپ کے لکھے کی تعریف بھی کر چکا ہوں۔پھر کس پر لکھوں؟ علی وقار کہہ رہے تھے کہ منٹو کو پڑھیں اور ویسا لکھیں تب بات بنے گی۔
گل رانی کو جو جوابات دیے جاتے ہیں، اُن میں مزاح کا عنصر بھی ہوتا ہے۔ یہ بات پیش نظر رکھا کیجیے۔اخلاص اصل صفت بنا لیں، پھر مزہ دیکھیں۔
بلکل صحیح کیا آپ نے ۔۔۔۔ نہ کریں پرواہ ۔ بھئی اب کوئی سیانا نہیں ہے تو پھر سیاناپن آخر بندہ کہاں سے لائے ۔ ہے ناں ۔وہی تو۔ اسی لیے اب ہم نے پرواہ کرنا ہی چھوڑ دی ہے۔
آپ نے صحیح سمجھا۔ منٹو کو پڑھنے کے لیے ہی کہا تھا۔ ظاہر ہے پڑھنے کے لیے یونہی تو نہیں کہہ دیا۔ کہنے کی کوئی وجہ ہوگی۔ وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ وہ اردو کے صف اول کے ناول نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے خیر و شر کے موضوع پر لکھا۔ وہ زیادہ خیر اور زیادہ شر کے انسانوں کے تصادم پر مبنی تحریروں کے بجائے ایسی تحریر دیکھنا چاہتے ہیں کہ سب ایک جیسے لگیں، یعنی خیر اور شر کے مرکب انسان۔ اب ناجانے میں اب بھی صحیح سمجھا کہ نہیں۔ہمیں تو یوں سمجھ آئی کہ علی وقار بھیا نے منٹو کو صرف پڑھنے کی حد تک کا بولا ہو گا۔ ہماری سمجھ غلط بھی تو ہو سکتی ہے ۔
پر سانوں کی۔
ہم تو جانتے ہیں اس بات کو۔ باقی لوگ نجانے کیوں سنجیدگی سے لیتے ہیں یہ بات۔منٹو کو پڑھنے کو کہا ہے، وہ اپنے جیسا لکھنے نہیں دیں گے۔ آپ کا اپنا اسلوب ہے۔ میں آپ کے لکھے کی تعریف بھی کر چکا ہوں۔
گل رانی کو جو جوابات دیے جاتے ہیں، اُن میں مزاح کا عنصر بھی ہوتا ہے۔ یہ بات پیش نظر رکھا کیجیے۔
باقی لوگ آپ جیسے سیانے نہیں ہیں نا!ہم تو جانتے ہیں اس بات کو۔ باقی لوگ نجانے کیوں سنجیدگی سے لیتے ہیں یہ بات۔
صحیح کہہ رہیں بھائی! وہ تو اس حد تک جاتے ہیں کہ انسان کو بس انسان سمجھا جائے۔ کسی خیر اور کسی شر کی تصیح نہ کی جائے۔ ورنہ جس نے تصیح کی وہ ہی شر ہے۔ اصل جرم اخلاص کی کمی ہے۔منٹو کو نہ پڑھنا بھائی ۔ اس کو پڑھنے کے بعد اگر آپ نے کچھ لکھا تو مجھے تو نہیں لگتا کہ آپ کی کوئی تحریر اپرو ہوگی ۔
نیستی کو ایک مُکّی ماریں، مک جائے گی۔نیستی مکی کہ کوئی ناں؟
کیسی ہے طبیعت اب؟
اچھااااااااا۔ُ۔آپ نے صحیح سمجھا۔ منٹو کو پڑھنے کے لیے ہی کہا تھا۔ ظاہر ہے پڑھنے کے لیے یونہی تو نہیں کہہ دیا۔ کہنے کی کوئی وجہ ہوگی۔ وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ وہ اردو کے صف اول کے ناول نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے خیر و شر کے موضوع پر لکھا۔ وہ زیادہ خیر اور زیادہ شر کے انسانوں کے تصادم پر مبنی تحریروں کے بجائے ایسی تحریر دیکھنا چاہتے ہیں کہ سب ایک جیسے لگیں، یعنی خیر اور شر کے مرکب انسان۔ اب ناجانے میں اب بھی صحیح سمجھا کہ نہیں۔
آہ عنصر!گل رانی کو جو جوابات دیے جاتے ہیں، اُن میں مزاح کا عنصر بھی ہوتا ہے۔
ایک زمانے میں، اردو میں اسلامی ادب کی تحریک بھی آئی تھی، اس کا مطالعہ کر لیجیے اور وہ کیوں کر ناکام ہو گئی، یہ بھی دیکھ لیجیے۔ دراصل، آپ جو کچھ لکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے فکشن بہتر نہیں ہے ؛ نان فکشن بہتر ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ اصلاحی مضامین تحریر کریں اور براہ راست اپنی بات قارئین تک پہنچائیں۔ رمزیت و ایمائیت، ابہام و ایہام کا ایسی تحاریر سے کیا علاقہ جس کا تعلق دین کے بنیادی عقائد اور فلسفے سے ہو۔صحیح کہہ رہیں بھائی! وہ تو اس حد تک جاتے ہیں کہ انسان کو بس انسان سمجھا جائے۔ کسی خیر اور کسی شر کی تصیح نہ کی جائے۔ ورنہ جس نے تصیح کی وہ ہی شر ہے۔ اصل جرم اخلاص کی کمی ہے۔
آپ کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ ڈنڈی ماری ہے ہم نے، اس لیے وضاحت دے دی۔ ورنہ آپ تو اڑتی چڑیا۔۔۔اچھااااااااا۔ُ۔
ہمیں تو یہ سمجھ آئی تھی جیسے کہ بس پڑھتے رہیں منٹو کو۔۔۔ اور لکھنے والا کام مستقبل بعید میں کیجئیے گا۔ یہ دوسری بات ہم نے اپنی عقل سے سمجھی ہے اس محاورے کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ " عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ " نجانے کس رو میں آج ہم نے خود کو عقلمند سمجھ ہی لیا۔
یہ شر و خیر کی تفریق اپنے ہاتھ میں نہ رکھو بھائی ۔ اللہ نے جس بات کا ہمیں مکلف نہیں بنایا ۔ ہم اس ڈومین میں جاتے ہی کیوں ہیں ۔ ہدایت و تلقین ہی اصلاح کی جاسکتی ہے ۔ زبردستی کرنی ہے تو اللہ کو انسانوں کی ضرورت نہیں ۔ وہ زبردستی خود بھی کر سکتا تھا ۔ مگر اللہ نے جس اصول کے تحت یہ دنیا بنائی ہے ۔اس کے مطابق ہدایت و تلقین ہی اس آزمائش و امتحان میں روشنی کی کرن ہے ۔صحیح کہہ رہیں بھائی! وہ تو اس حد تک جاتے ہیں کہ انسان کو بس انسان سمجھا جائے۔ کسی خیر اور کسی شر کی تصیح نہ کی جائے۔ ورنہ جس نے تصیح کی وہ ہی شر ہے۔ اصل جرم اخلاص کی کمی ہے۔
شاید آپ نسیم حجازی جیسے مصنفین کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ ویسے کہہ آپ صحیح رہے ہیں۔ اب کبھی ساس بھی بہو تھی اور کبھی ہم کبھی تم جیسے ڈراموں کا دور دورہ ہے۔ زیادہ طویل اور زیادہ مشکل بات لوگ ویسے بھی سمجھ نہیں پاتے۔ رومانس، تھریلر یا سائنس فکشن وغیرہ زیادہ شوق سے آج کے لوگ پڑھتے ہیں۔ اصلاحی مضامین اب لوگ نہیں پڑھتے چاہے براہ راست ہوں یا فکشن کی صورت میں۔ اب لوگ کسی کا کوئی سچا واقعہ چاہے عام سا ہی کیوں نہ ہو غور سے سنتے ہیں۔ایک زمانے میں، اردو میں اسلامی ادب کی تحریک بھی آئی تھی، اس کا مطالعہ کر لیجیے اور وہ کیوں کر ناکام ہو گئی، یہ بھی دیکھ لیجیے۔ دراصل، آپ جو کچھ لکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے فکشن بہتر نہیں ہے ؛ نان فکشن بہتر ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ اصلاحی مضامین تحریر کریں اور براہ راست اپنی بات قارئین تک پہنچائیں۔ رمزیت و ایمائیت، ابہام و ایہام کا ایسی تحاریر سے کیا علاقہ جس کا تعلق دین کے بنیادی عقائد اور فلسفے سے ہو۔