حمیرا عدنان
محفلین
عمدہ کاوش ہے جناب۔
یہاں تک تو درست ہے، لیکن جواب ادھورا ہے۔ ابو محجن ثقفی کی وجۂ شہرت اس سے کہیں بڑھ کے ہے۔اس بابت بھی تلاش فرماویں۔
مسلمان اہل فارس سے جنگ کرنے قادسیہ کی طرف نکلے تو ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ زاد راہ میں شراب بھی چھپا لائے تھے۔ اسلامی لشکر قادسیہ پہنچا۔ فارسیوں کے سپہ سالار رستم نے مسلمانوں کے کماندار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنا چاہی۔ دونوں طرف پیغامات کا تبادلہ ہوا۔
ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ نے موقع غنیمت جانا۔ پڑاؤ سے دور ایک جگہ چھپ کر شراب پی۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو سخت ناراض ہوئے۔ انھیں جنگ میں شامل ہونے سے منع کر دیا اور حکم دیا کہ پیروں میں بیڑیاں پہنا کر ایک خیمے میں قید کر دیا جائے۔
لڑائی کا آغاز ہوا۔ ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ اگرچہ گنہگار تھے، لیکن مسلمان بھی تو تھے۔ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ خدمت دین کے جذبے سے سرشار تھے۔ اپنی حالت زار پر حسرت کے آنسو بہانے لگے۔
"غم کرنے کو یہ بات بہت کافی ہے کہ گھڑ سوار نیزے لیے آ گے ہی آ گے بڑھتے جاتے ہیں، گھوڑے زمین پر پاؤں مار مار کر کنکر اڑاتے ہیں اور مجھے زنجیروں میں جکڑ کر یہاں چھوڑ دیا گیا۔"
"کھڑا ہوتا ہوں تو پاؤں کی بیڑیاں بیٹھنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ مجھے یہاں قید کر کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں کہ جسے پکارتا ہوں اسے سنائی ہی نہیں دیتا۔"
"میں تو بڑا مال دار اور دوست دار تھا۔ لیکن انہوں نے مجھے یوں اکیلا چھوڑ دیا ہے کہ میرا کوئی دوست ہی نہیں۔"
"اللہ سے میرا وعدہ ہے جس سے میں وعدہ خلافی نہیں کرتا کہ اس بار آزاد کر دیا گیا تو شراب کا منہ بھی نہیں دیکھوں گا۔"
یہ دردناک شعر کہے اور اونچی آواز سے پکارا۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے جو قریب ہی کہیں موجود تھیں، ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو ادھر گئیں۔
بولیں کیا بات ہے۔ چلاتے کیوں ہو؟
ابو محجن تقفی رضی اللہ عنہ نے ملتجیانہ لہجے میں کہا:
"خدا کے لیے میری بیڑیاں کھول دیجیئے اور سعد کی گھوڑی بلقاء مجھے عنایت کیجیئے۔ میں بھی جنگ کروں گا۔ اللہ نے شہادت سے نواز دیا تو میری تمنا بر آئے گی۔ زندہ رہا تو اللہ کو گواہ بنا کر آپ سے عہد کرتا ہوں کہ لوٹ آؤں گا اور آپ مجھے یہ بیڑیاں دوبارہ پہنا دیجیئے گا۔"
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا دل پسیج گیا۔ بیڑیاں کھول دیں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی گھوڑی بلقاء حوالے کی۔ ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ نے زرہ پہنی، سر اور چہرے کو خود سے ڈھانپا، چیتے کی سی پھرتی سے گھوڑے پر سوار ہوئے اور میدان جنگ میں کود پڑے۔
جی ہاں! ارتکاب گناہ کے باوجود شیطان ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کو اپنا آلہ کار بنانے میں ناکام رہا، اس لیے کہ ان کی نظر آخرت پر تھی۔ دنیا اور اس کے مال و متاع کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔
ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ نے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ لوگ ان کی دلیری پر حیرت زدہ تھے۔ لوگوں نے انہیں نہیں پہچانا، اس لیے کہ وہ دن چڑھے جنگ کے آغاز پر موجود نہیں تھے۔
سپہ سالار اعلی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی ٹانگوں پر پھوڑے تھے، اس لیے وہ میدان جنگ میں نہیں آئے تھے لیکن دور سے میدان جنگ کا برابر معائنہ کر رہے تھے۔
ایک شہ سوار کو بڑی بے جگری سے دشمن کی صفیں درہم برہم کرتے دیکھا تو بہت تعجب کیا۔
بولے: "وار تو ابو محجن کا ہے اور جھپٹ بلقاء کی ہے۔ لیکن ابو محجن یہاں کہاں۔ وہ تو قید میں ہے اور بلقاء بھی بندھی ہوئی ہے۔"
لڑائی اختتام کو پہنچی تو ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ قید خانے میں لوٹ آئے اور بیڑیاں پہن لیں۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نیچے آئے تو گھوڑی کو عرق آلود پایا۔ پوچھا یہ کیا۔ گھوڑی پسینہ میں شرابور کیوں ہے۔
لوگوں نے ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کی بات بتائی تو خوش ہوئے۔ ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کو آزاد کر دیا اور کہا:
"واللہ! میں آج کے بعد تمہیں شراب نوشی پر سزا نہیں دوں گا۔ "
اس پر ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ نے کہا: " واللہ! میں آج کے بعد شراب نوشی نہیں کروں گا۔"
[الاصابتہ لا بن حجر: 298/7 ترجمہ ابو محجن روایت کی سند صحیح ہے۔
شیخ محمد عبدالرحمن العریفی کی کتاب سے ماخوذ