ناصر علی مرزا
معطل
معلومات تک رسائی کا قانون
ڈاکٹر خالد مشتاق
یہ قیام پاکستان کے اوّلین برسوں کی بات ہے، جب کراچی پاکستان کا دارالحکومت ہوتا تھا۔ کراچی اور دیگر علاقوں میں مہاجرین آرہے تھے۔ یہ لوگ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اپنا گھر بار چھوڑ کر پہنچ رہے تھے۔ کراچی اُس وقت ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا مقبرہ جس جگہ ہے اُس کے قریب تک کراچی تھا۔ پھر مضافاتی علاقے تھے۔ خواجہ ناظم الدین کے نام پر لسبیلہ سے آگے نئی آبادی بسائی گئی جسے ناظم آباد کا نام دیا گیا۔ ڈاکٹر کوثر بخاری صاحب اُن دنوں کے واقعات سنا رہے تھے۔ ناظم آباد مین روڈ کے قریب بقائی اسپتال کے پیچھے کے علاقے میں سڑک تعمیر ہوئی۔ یہ سڑک بہت ہی خستہ حال تعمیر کی گئی۔ ڈاکٹر کوثر بخاری صاحب نے بتایا کہ میں اُن دنوں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور چھٹیوں میں کراچی آیا ہوا تھا۔ میرے کچھ دوست NED میں، کچھ لاء کالج میں پڑھتے تھے۔ ہم نے ٹھیکیدار سے کہا کہ ہمیں کنٹریکٹ کی کاپی دکھائو۔ جو میٹریل تم نے بلدیہ سے معاہدے میں لکھا ہے، یہ سڑک اسی کے مطابق بنائو۔ ٹھیکیدار نے مجسٹریٹ اور پولیس کو بلالیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم اس محلے ناظم آباد کے رہنے والے ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جو تفصیلات سڑک بنانے کے لیے حکومت کو انہوں نے دی ہیں وہ ہمیں بتادیں، ہمارے ساتھ انجینئر طالب علموں کی ٹیم ہے، وہ یہ دیکھے گی کہ آیا وہی میٹریل استعمال ہوا ہے جس کا معاہدہ کیا گیا ہے! ان طلبہ کو بتایا گیا کہ یہ سرکاری کام میں مداخلت ہے، حکومت کے معاہدے آپ کو بتائے نہیں جاسکتے، بلدیہ کے دو انجینئرز کے ذریعے سڑک کا معائنہ کیا گیا جنہوں نے اسے بالکل صحیح قرار دے دیا۔ یہ طلبہ ہائی کورٹ میں چلے گئے۔ ہائی کورٹ کے جج عبداللہ صاحب کی عدالت میں یہ مقدمہ گیا۔ پہلی پیشی پر انہوں نے نوٹس جاری کیے، دوسری پر معائنے کے لیے کورٹ کا نمائندہ بھیجا۔ بلدیہ اور ٹھیکیدار نے بہت دلیلیں دیں کہ یہ تکنیکی معاملہ ہے، لیکن ہائی کورٹ کے جج صاحب نے کہا کہ یہ باشعور طالب علم ہیں، اصولی بات کررہے ہیں، یہ خفیہ معلومات نہیں، عوام کے ٹیکس کی رقم سے یہ سڑک بن رہی ہے، سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں کیا میٹریل استعمال ہورہا ہے۔ ہائی کورٹ کے نمائندہ انجینئر نے معائنہ کیا، سڑک غیر معیاری پائی گئی جس پر ٹھیکیدار کو سزا ہوئی، بلدیہ کے انجینئر نکالے گئے، اور تیسری پیشی پر جو 15 دن میں ہوگئی مقدمہ کا فیصلہ سنادیا گیا۔ یہ سڑکیں دوبارہ ٹینڈر ہوئیں، اور پھر سب کو معلومات تھیں کہ کیا معاہدہ ہوا ہے، کیا میٹریل لگنا ہے۔
ڈاکٹر بخاری صاحب نے بتایا کہ عوامی آگہی‘ پبلک کی نگرانی‘ نوجوانوں کی شمولیت نے کرپشن کو روک دیا، مضبوط سڑکیں بنیں اور 30۔40 سال تک سلامت رہیں۔ ہائی کورٹ کے جج نے طلبہ کے اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ اگر معاشرے کے نوجوانوں تک اسی طرح معلومات کی رسائی ہو اور چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے قوم کا پیسہ قوم کی سڑکوں پر خرچ ہو… طلبہ، نوجوان اور قانون مل کر کام کریں تو کرپشن کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر کوثر بخاری صاحب نے بریلی سے میٹرک کیا۔ وہ بتانے لگے کہ شروع کے دنوں میں تو ہمارے پاکستان سیکریٹریٹ میں پن تک نہیں ہوتی تھی۔ بچے کانٹے جمع کرکے دیتے جو بطور پن استعمال ہوتے۔ ان بزرگوں کی محنت نے پاکستان کو ترقی دی۔ ان نوجوانوں کی کوششوں‘ جذبات اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی آبزرویشن کی ترجمانی 60 سال بعد خیبر پختون خوا حکومت نے کی ہے۔ ’’حکومتی معاہدوں اور دستاویزات‘‘ کی رسائی سب تک ہو۔ یہ آرڈیننس اپنے نفاذ کے بعد وہی ماحول پیدا کرے گا جو پاکستان قائم کرنے والے بزرگوں نے کیا تھا۔ ہر فرد کو اختیار ہوگا کہ وہ قوم کی امانت خرچ کرنے والوں کی نگرانی کرے۔
جب اتنے لوگ نگرانی کرنے والے ہوں گے جس میں تکنیکی مہارت بھی ہوگی… وہ علاقہ، محلہ یا شہر جہاں کوئی سڑک بنائی جارہی ہو، کوئی پل تعمیر ہو، کسی اسکول، کالج، اسپتال کی عمارت تعمیر کی جارہی ہو، اس علاقے کے ماہر نوجوانوں کو معلومات ہوں گی۔ وہ اس کی نگرانی کرسکیں گے تو کرپشناور غلط میٹریل استعمال کرنے کے امکانات بہت کم ہوجائیں گے۔ ٹھیکیدار اور حکومت دونوں پر اخلاقی‘ قانونی‘ عوامی دبائو ہوگا۔
خیبر پختون خوا کی حکومت نے Right of information ایکٹ نافذ کیا ہے جسے اسمبلی کے اگلے اجلاس میں بل کی صورت میں پاس کرالیا جائے گا۔
اس قانون کے تحت کوئی بھی شہری حکومت کے کسی بھی ٹھیکے‘ صحت‘ تعلیم‘ مالیاتی مسائل سے متعلق ایک خط یا Email کے ذریعے معلومات حاصل کرسکے گا۔
متعلقہ محکمہ کا سربراہ یہ معلومات تین دن میں یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں مہیا کرے گا۔ ہر محکمہ کا ایک انفارمیشن افسر ہوگا۔ جب تک یہ افسر تعینات نہیں ہوجاتا محکمہ کا سربراہ معلومات مہیا کرے گا۔ اگر کسی محکمہ کا افسر یہ معلومات نہیں دے گا تو اس پر 250 روپے روزانہ کے حساب سے جرمانہ عائد کیا جائے گا جو 25 ہزارروپے تک ہوسکتا ہے۔ جان بوجھ کر معلومات نہ دینے والے کو دیگر سزائیں بھی ہوسکتی ہیں جس میں جرمانے کے ساتھ قید کی سزا بھی شامل ہے۔
اس قانون کے نفاذ سے معلومات کو خفیہ رکھنا ممکن نہ ہوگا۔
اس قانون کے آنے سے بلیک میلنگ کا کلچر کم ہوگا۔ کیونکہ بلیک میلر معلومات عام کرنے کا خوف دلاکر بلیک میل کرتے ہیں۔چند بااثر اخباروں‘ میڈیا گروپس اور صحافیوں کی اجارہ داری ختم ہوگی اور کوئی بھی فرد بغیر رقم خرچ کیے ای میل پر بھی معلومات حاصل کرسکے گا۔
ایک ضمنی فائدے کے لیے میں پریس کلب کے ایک ساتھی کا واقعہ سناتا ہوں۔ کراچی پریس کلب اور اسلام آباد کے قیام کے زمانے میں نیشنل پریس کلب جانا ہوتا۔ ایک صحافی مریض نے مجھے بتایا کہ سینے میں جلن رہتی ہے۔ تفصیل پر اس نے بتایا کہ کئی سینئر افراد کے ساتھ معلومات کے لیے رات کی نشست میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ اس میٹنگ میں شراب لازمی ہوتی ہے، اس لیے مجبوری میں پینا پڑتی ہے۔ یہ لوگ پی کر نشے کی حالت میں بہت سی اہم باتیں بتا جاتے ہیں جو حکومت کے ریکارڈ سے لینا ناممکن ہے۔ ایسی ایسی غلطیاں‘ غلط ٹھیکوں کی معلومات دے جاتے ہیں جن کا حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
خیبر پختون خوا کے اس قانون کے نفاذ سے چونکہ صرف ای میل پر ہی یہ معلومات مل جائیں گی اس لیے اخبار کے نمائندوں کے لیے خاص خبریں نکالنے کے لیے اب مجبوراً شراب کی محفل میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور مجبوراً گناہ کرنے سے بہت سے صحافی بچ جائیں گے۔
معلومات کی فراہمی کو آسان بنانے کے لیے کمیشن کا شعبہ ہر ڈپارٹمنٹ میں ہوگا۔ جو انفارمیشن افسر ہوگا اسے محکمے کے تمام مالیاتی ٹھیکوں اور دیگر معاہدوں کا ڈیٹا دینا ہوگا۔ یہ کمیشن حکومت کے محکموں کو ریکارڈ رکھنے کی تربیت بھی دے گا۔
محکموں میں بھرتیوں اور ترقی کا ریکارڈ، طریقہ کار،‘ افرا دکی قابلیت (ڈگریاں) سب کچھ معلومات دینا ہوں گی۔
خیبرپختون خوا کے اس معلومات کو عام کرنے کے قانون سے کرپشن کوروکنے میں مدد ملے گی۔
یہ انقلابی قدم صرف خیبرپختون خوا تک ہی محدود نہیں رہے گا، بلکہ آگے چل کر پورے پاکستان میں کرپشن کو روکنے کے لیے سنگ ِمیل ثابت ہوگا۔
اس قانون کی مخالفت کیوں ہورہی ہے؟
(جاری ہے)
ڈاکٹر خالد مشتاق
ڈاکٹر خالد مشتاق
یہ قیام پاکستان کے اوّلین برسوں کی بات ہے، جب کراچی پاکستان کا دارالحکومت ہوتا تھا۔ کراچی اور دیگر علاقوں میں مہاجرین آرہے تھے۔ یہ لوگ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اپنا گھر بار چھوڑ کر پہنچ رہے تھے۔ کراچی اُس وقت ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا مقبرہ جس جگہ ہے اُس کے قریب تک کراچی تھا۔ پھر مضافاتی علاقے تھے۔ خواجہ ناظم الدین کے نام پر لسبیلہ سے آگے نئی آبادی بسائی گئی جسے ناظم آباد کا نام دیا گیا۔ ڈاکٹر کوثر بخاری صاحب اُن دنوں کے واقعات سنا رہے تھے۔ ناظم آباد مین روڈ کے قریب بقائی اسپتال کے پیچھے کے علاقے میں سڑک تعمیر ہوئی۔ یہ سڑک بہت ہی خستہ حال تعمیر کی گئی۔ ڈاکٹر کوثر بخاری صاحب نے بتایا کہ میں اُن دنوں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور چھٹیوں میں کراچی آیا ہوا تھا۔ میرے کچھ دوست NED میں، کچھ لاء کالج میں پڑھتے تھے۔ ہم نے ٹھیکیدار سے کہا کہ ہمیں کنٹریکٹ کی کاپی دکھائو۔ جو میٹریل تم نے بلدیہ سے معاہدے میں لکھا ہے، یہ سڑک اسی کے مطابق بنائو۔ ٹھیکیدار نے مجسٹریٹ اور پولیس کو بلالیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم اس محلے ناظم آباد کے رہنے والے ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جو تفصیلات سڑک بنانے کے لیے حکومت کو انہوں نے دی ہیں وہ ہمیں بتادیں، ہمارے ساتھ انجینئر طالب علموں کی ٹیم ہے، وہ یہ دیکھے گی کہ آیا وہی میٹریل استعمال ہوا ہے جس کا معاہدہ کیا گیا ہے! ان طلبہ کو بتایا گیا کہ یہ سرکاری کام میں مداخلت ہے، حکومت کے معاہدے آپ کو بتائے نہیں جاسکتے، بلدیہ کے دو انجینئرز کے ذریعے سڑک کا معائنہ کیا گیا جنہوں نے اسے بالکل صحیح قرار دے دیا۔ یہ طلبہ ہائی کورٹ میں چلے گئے۔ ہائی کورٹ کے جج عبداللہ صاحب کی عدالت میں یہ مقدمہ گیا۔ پہلی پیشی پر انہوں نے نوٹس جاری کیے، دوسری پر معائنے کے لیے کورٹ کا نمائندہ بھیجا۔ بلدیہ اور ٹھیکیدار نے بہت دلیلیں دیں کہ یہ تکنیکی معاملہ ہے، لیکن ہائی کورٹ کے جج صاحب نے کہا کہ یہ باشعور طالب علم ہیں، اصولی بات کررہے ہیں، یہ خفیہ معلومات نہیں، عوام کے ٹیکس کی رقم سے یہ سڑک بن رہی ہے، سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں کیا میٹریل استعمال ہورہا ہے۔ ہائی کورٹ کے نمائندہ انجینئر نے معائنہ کیا، سڑک غیر معیاری پائی گئی جس پر ٹھیکیدار کو سزا ہوئی، بلدیہ کے انجینئر نکالے گئے، اور تیسری پیشی پر جو 15 دن میں ہوگئی مقدمہ کا فیصلہ سنادیا گیا۔ یہ سڑکیں دوبارہ ٹینڈر ہوئیں، اور پھر سب کو معلومات تھیں کہ کیا معاہدہ ہوا ہے، کیا میٹریل لگنا ہے۔
ڈاکٹر بخاری صاحب نے بتایا کہ عوامی آگہی‘ پبلک کی نگرانی‘ نوجوانوں کی شمولیت نے کرپشن کو روک دیا، مضبوط سڑکیں بنیں اور 30۔40 سال تک سلامت رہیں۔ ہائی کورٹ کے جج نے طلبہ کے اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ اگر معاشرے کے نوجوانوں تک اسی طرح معلومات کی رسائی ہو اور چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے قوم کا پیسہ قوم کی سڑکوں پر خرچ ہو… طلبہ، نوجوان اور قانون مل کر کام کریں تو کرپشن کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر کوثر بخاری صاحب نے بریلی سے میٹرک کیا۔ وہ بتانے لگے کہ شروع کے دنوں میں تو ہمارے پاکستان سیکریٹریٹ میں پن تک نہیں ہوتی تھی۔ بچے کانٹے جمع کرکے دیتے جو بطور پن استعمال ہوتے۔ ان بزرگوں کی محنت نے پاکستان کو ترقی دی۔ ان نوجوانوں کی کوششوں‘ جذبات اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی آبزرویشن کی ترجمانی 60 سال بعد خیبر پختون خوا حکومت نے کی ہے۔ ’’حکومتی معاہدوں اور دستاویزات‘‘ کی رسائی سب تک ہو۔ یہ آرڈیننس اپنے نفاذ کے بعد وہی ماحول پیدا کرے گا جو پاکستان قائم کرنے والے بزرگوں نے کیا تھا۔ ہر فرد کو اختیار ہوگا کہ وہ قوم کی امانت خرچ کرنے والوں کی نگرانی کرے۔
جب اتنے لوگ نگرانی کرنے والے ہوں گے جس میں تکنیکی مہارت بھی ہوگی… وہ علاقہ، محلہ یا شہر جہاں کوئی سڑک بنائی جارہی ہو، کوئی پل تعمیر ہو، کسی اسکول، کالج، اسپتال کی عمارت تعمیر کی جارہی ہو، اس علاقے کے ماہر نوجوانوں کو معلومات ہوں گی۔ وہ اس کی نگرانی کرسکیں گے تو کرپشناور غلط میٹریل استعمال کرنے کے امکانات بہت کم ہوجائیں گے۔ ٹھیکیدار اور حکومت دونوں پر اخلاقی‘ قانونی‘ عوامی دبائو ہوگا۔
خیبر پختون خوا کی حکومت نے Right of information ایکٹ نافذ کیا ہے جسے اسمبلی کے اگلے اجلاس میں بل کی صورت میں پاس کرالیا جائے گا۔
اس قانون کے تحت کوئی بھی شہری حکومت کے کسی بھی ٹھیکے‘ صحت‘ تعلیم‘ مالیاتی مسائل سے متعلق ایک خط یا Email کے ذریعے معلومات حاصل کرسکے گا۔
متعلقہ محکمہ کا سربراہ یہ معلومات تین دن میں یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں مہیا کرے گا۔ ہر محکمہ کا ایک انفارمیشن افسر ہوگا۔ جب تک یہ افسر تعینات نہیں ہوجاتا محکمہ کا سربراہ معلومات مہیا کرے گا۔ اگر کسی محکمہ کا افسر یہ معلومات نہیں دے گا تو اس پر 250 روپے روزانہ کے حساب سے جرمانہ عائد کیا جائے گا جو 25 ہزارروپے تک ہوسکتا ہے۔ جان بوجھ کر معلومات نہ دینے والے کو دیگر سزائیں بھی ہوسکتی ہیں جس میں جرمانے کے ساتھ قید کی سزا بھی شامل ہے۔
اس قانون کے نفاذ سے معلومات کو خفیہ رکھنا ممکن نہ ہوگا۔
اس قانون کے آنے سے بلیک میلنگ کا کلچر کم ہوگا۔ کیونکہ بلیک میلر معلومات عام کرنے کا خوف دلاکر بلیک میل کرتے ہیں۔چند بااثر اخباروں‘ میڈیا گروپس اور صحافیوں کی اجارہ داری ختم ہوگی اور کوئی بھی فرد بغیر رقم خرچ کیے ای میل پر بھی معلومات حاصل کرسکے گا۔
ایک ضمنی فائدے کے لیے میں پریس کلب کے ایک ساتھی کا واقعہ سناتا ہوں۔ کراچی پریس کلب اور اسلام آباد کے قیام کے زمانے میں نیشنل پریس کلب جانا ہوتا۔ ایک صحافی مریض نے مجھے بتایا کہ سینے میں جلن رہتی ہے۔ تفصیل پر اس نے بتایا کہ کئی سینئر افراد کے ساتھ معلومات کے لیے رات کی نشست میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ اس میٹنگ میں شراب لازمی ہوتی ہے، اس لیے مجبوری میں پینا پڑتی ہے۔ یہ لوگ پی کر نشے کی حالت میں بہت سی اہم باتیں بتا جاتے ہیں جو حکومت کے ریکارڈ سے لینا ناممکن ہے۔ ایسی ایسی غلطیاں‘ غلط ٹھیکوں کی معلومات دے جاتے ہیں جن کا حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
خیبر پختون خوا کے اس قانون کے نفاذ سے چونکہ صرف ای میل پر ہی یہ معلومات مل جائیں گی اس لیے اخبار کے نمائندوں کے لیے خاص خبریں نکالنے کے لیے اب مجبوراً شراب کی محفل میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور مجبوراً گناہ کرنے سے بہت سے صحافی بچ جائیں گے۔
معلومات کی فراہمی کو آسان بنانے کے لیے کمیشن کا شعبہ ہر ڈپارٹمنٹ میں ہوگا۔ جو انفارمیشن افسر ہوگا اسے محکمے کے تمام مالیاتی ٹھیکوں اور دیگر معاہدوں کا ڈیٹا دینا ہوگا۔ یہ کمیشن حکومت کے محکموں کو ریکارڈ رکھنے کی تربیت بھی دے گا۔
محکموں میں بھرتیوں اور ترقی کا ریکارڈ، طریقہ کار،‘ افرا دکی قابلیت (ڈگریاں) سب کچھ معلومات دینا ہوں گی۔
خیبرپختون خوا کے اس معلومات کو عام کرنے کے قانون سے کرپشن کوروکنے میں مدد ملے گی۔
یہ انقلابی قدم صرف خیبرپختون خوا تک ہی محدود نہیں رہے گا، بلکہ آگے چل کر پورے پاکستان میں کرپشن کو روکنے کے لیے سنگ ِمیل ثابت ہوگا۔
اس قانون کی مخالفت کیوں ہورہی ہے؟
(جاری ہے)
ڈاکٹر خالد مشتاق