معلومات تک رسائی کا قانون ( خیبر پختون خوا کی حکومت نے Right of information ایکٹ نافذ کیا ہے )

معلومات تک رسائی کا قانون
ڈاکٹر خالد مشتاق
یہ قیام پاکستان کے اوّلین برسوں کی بات ہے، جب کراچی پاکستان کا دارالحکومت ہوتا تھا۔ کراچی اور دیگر علاقوں میں مہاجرین آرہے تھے۔ یہ لوگ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اپنا گھر بار چھوڑ کر پہنچ رہے تھے۔ کراچی اُس وقت ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا مقبرہ جس جگہ ہے اُس کے قریب تک کراچی تھا۔ پھر مضافاتی علاقے تھے۔ خواجہ ناظم الدین کے نام پر لسبیلہ سے آگے نئی آبادی بسائی گئی جسے ناظم آباد کا نام دیا گیا۔ ڈاکٹر کوثر بخاری صاحب اُن دنوں کے واقعات سنا رہے تھے۔ ناظم آباد مین روڈ کے قریب بقائی اسپتال کے پیچھے کے علاقے میں سڑک تعمیر ہوئی۔ یہ سڑک بہت ہی خستہ حال تعمیر کی گئی۔ ڈاکٹر کوثر بخاری صاحب نے بتایا کہ میں اُن دنوں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور چھٹیوں میں کراچی آیا ہوا تھا۔ میرے کچھ دوست NED میں، کچھ لاء کالج میں پڑھتے تھے۔ ہم نے ٹھیکیدار سے کہا کہ ہمیں کنٹریکٹ کی کاپی دکھائو۔ جو میٹریل تم نے بلدیہ سے معاہدے میں لکھا ہے، یہ سڑک اسی کے مطابق بنائو۔ ٹھیکیدار نے مجسٹریٹ اور پولیس کو بلالیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم اس محلے ناظم آباد کے رہنے والے ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جو تفصیلات سڑک بنانے کے لیے حکومت کو انہوں نے دی ہیں وہ ہمیں بتادیں، ہمارے ساتھ انجینئر طالب علموں کی ٹیم ہے، وہ یہ دیکھے گی کہ آیا وہی میٹریل استعمال ہوا ہے جس کا معاہدہ کیا گیا ہے! ان طلبہ کو بتایا گیا کہ یہ سرکاری کام میں مداخلت ہے، حکومت کے معاہدے آپ کو بتائے نہیں جاسکتے، بلدیہ کے دو انجینئرز کے ذریعے سڑک کا معائنہ کیا گیا جنہوں نے اسے بالکل صحیح قرار دے دیا۔ یہ طلبہ ہائی کورٹ میں چلے گئے۔ ہائی کورٹ کے جج عبداللہ صاحب کی عدالت میں یہ مقدمہ گیا۔ پہلی پیشی پر انہوں نے نوٹس جاری کیے، دوسری پر معائنے کے لیے کورٹ کا نمائندہ بھیجا۔ بلدیہ اور ٹھیکیدار نے بہت دلیلیں دیں کہ یہ تکنیکی معاملہ ہے، لیکن ہائی کورٹ کے جج صاحب نے کہا کہ یہ باشعور طالب علم ہیں، اصولی بات کررہے ہیں، یہ خفیہ معلومات نہیں، عوام کے ٹیکس کی رقم سے یہ سڑک بن رہی ہے، سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں کیا میٹریل استعمال ہورہا ہے۔ ہائی کورٹ کے نمائندہ انجینئر نے معائنہ کیا، سڑک غیر معیاری پائی گئی جس پر ٹھیکیدار کو سزا ہوئی، بلدیہ کے انجینئر نکالے گئے، اور تیسری پیشی پر جو 15 دن میں ہوگئی مقدمہ کا فیصلہ سنادیا گیا۔ یہ سڑکیں دوبارہ ٹینڈر ہوئیں، اور پھر سب کو معلومات تھیں کہ کیا معاہدہ ہوا ہے، کیا میٹریل لگنا ہے۔
ڈاکٹر بخاری صاحب نے بتایا کہ عوامی آگہی‘ پبلک کی نگرانی‘ نوجوانوں کی شمولیت نے کرپشن کو روک دیا، مضبوط سڑکیں بنیں اور 30۔40 سال تک سلامت رہیں۔ ہائی کورٹ کے جج نے طلبہ کے اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ اگر معاشرے کے نوجوانوں تک اسی طرح معلومات کی رسائی ہو اور چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے قوم کا پیسہ قوم کی سڑکوں پر خرچ ہو… طلبہ، نوجوان اور قانون مل کر کام کریں تو کرپشن کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر کوثر بخاری صاحب نے بریلی سے میٹرک کیا۔ وہ بتانے لگے کہ شروع کے دنوں میں تو ہمارے پاکستان سیکریٹریٹ میں پن تک نہیں ہوتی تھی۔ بچے کانٹے جمع کرکے دیتے جو بطور پن استعمال ہوتے۔ ان بزرگوں کی محنت نے پاکستان کو ترقی دی۔ ان نوجوانوں کی کوششوں‘ جذبات اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی آبزرویشن کی ترجمانی 60 سال بعد خیبر پختون خوا حکومت نے کی ہے۔ ’’حکومتی معاہدوں اور دستاویزات‘‘ کی رسائی سب تک ہو۔ یہ آرڈیننس اپنے نفاذ کے بعد وہی ماحول پیدا کرے گا جو پاکستان قائم کرنے والے بزرگوں نے کیا تھا۔ ہر فرد کو اختیار ہوگا کہ وہ قوم کی امانت خرچ کرنے والوں کی نگرانی کرے۔
جب اتنے لوگ نگرانی کرنے والے ہوں گے جس میں تکنیکی مہارت بھی ہوگی… وہ علاقہ، محلہ یا شہر جہاں کوئی سڑک بنائی جارہی ہو، کوئی پل تعمیر ہو، کسی اسکول، کالج، اسپتال کی عمارت تعمیر کی جارہی ہو، اس علاقے کے ماہر نوجوانوں کو معلومات ہوں گی۔ وہ اس کی نگرانی کرسکیں گے تو کرپشناور غلط میٹریل استعمال کرنے کے امکانات بہت کم ہوجائیں گے۔ ٹھیکیدار اور حکومت دونوں پر اخلاقی‘ قانونی‘ عوامی دبائو ہوگا۔
خیبر پختون خوا کی حکومت نے Right of information ایکٹ نافذ کیا ہے جسے اسمبلی کے اگلے اجلاس میں بل کی صورت میں پاس کرالیا جائے گا۔
اس قانون کے تحت کوئی بھی شہری حکومت کے کسی بھی ٹھیکے‘ صحت‘ تعلیم‘ مالیاتی مسائل سے متعلق ایک خط یا Email کے ذریعے معلومات حاصل کرسکے گا۔

متعلقہ محکمہ کا سربراہ یہ معلومات تین دن میں یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں مہیا کرے گا۔ ہر محکمہ کا ایک انفارمیشن افسر ہوگا۔ جب تک یہ افسر تعینات نہیں ہوجاتا محکمہ کا سربراہ معلومات مہیا کرے گا۔ اگر کسی محکمہ کا افسر یہ معلومات نہیں دے گا تو اس پر 250 روپے روزانہ کے حساب سے جرمانہ عائد کیا جائے گا جو 25 ہزارروپے تک ہوسکتا ہے۔ جان بوجھ کر معلومات نہ دینے والے کو دیگر سزائیں بھی ہوسکتی ہیں جس میں جرمانے کے ساتھ قید کی سزا بھی شامل ہے۔
اس قانون کے نفاذ سے معلومات کو خفیہ رکھنا ممکن نہ ہوگا۔
اس قانون کے آنے سے بلیک میلنگ کا کلچر کم ہوگا۔ کیونکہ بلیک میلر معلومات عام کرنے کا خوف دلاکر بلیک میل کرتے ہیں۔چند بااثر اخباروں‘ میڈیا گروپس اور صحافیوں کی اجارہ داری ختم ہوگی اور کوئی بھی فرد بغیر رقم خرچ کیے ای میل پر بھی معلومات حاصل کرسکے گا۔
ایک ضمنی فائدے کے لیے میں پریس کلب کے ایک ساتھی کا واقعہ سناتا ہوں۔ کراچی پریس کلب اور اسلام آباد کے قیام کے زمانے میں نیشنل پریس کلب جانا ہوتا۔ ایک صحافی مریض نے مجھے بتایا کہ سینے میں جلن رہتی ہے۔ تفصیل پر اس نے بتایا کہ کئی سینئر افراد کے ساتھ معلومات کے لیے رات کی نشست میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ اس میٹنگ میں شراب لازمی ہوتی ہے، اس لیے مجبوری میں پینا پڑتی ہے۔ یہ لوگ پی کر نشے کی حالت میں بہت سی اہم باتیں بتا جاتے ہیں جو حکومت کے ریکارڈ سے لینا ناممکن ہے۔ ایسی ایسی غلطیاں‘ غلط ٹھیکوں کی معلومات دے جاتے ہیں جن کا حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
خیبر پختون خوا کے اس قانون کے نفاذ سے چونکہ صرف ای میل پر ہی یہ معلومات مل جائیں گی اس لیے اخبار کے نمائندوں کے لیے خاص خبریں نکالنے کے لیے اب مجبوراً شراب کی محفل میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور مجبوراً گناہ کرنے سے بہت سے صحافی بچ جائیں گے۔
معلومات کی فراہمی کو آسان بنانے کے لیے کمیشن کا شعبہ ہر ڈپارٹمنٹ میں ہوگا۔ جو انفارمیشن افسر ہوگا اسے محکمے کے تمام مالیاتی ٹھیکوں اور دیگر معاہدوں کا ڈیٹا دینا ہوگا۔ یہ کمیشن حکومت کے محکموں کو ریکارڈ رکھنے کی تربیت بھی دے گا۔
محکموں میں بھرتیوں اور ترقی کا ریکارڈ، طریقہ کار،‘ افرا دکی قابلیت (ڈگریاں) سب کچھ معلومات دینا ہوں گی۔
خیبرپختون خوا کے اس معلومات کو عام کرنے کے قانون سے کرپشن کوروکنے میں مدد ملے گی۔
یہ انقلابی قدم صرف خیبرپختون خوا تک ہی محدود نہیں رہے گا، بلکہ آگے چل کر پورے پاکستان میں کرپشن کو روکنے کے لیے سنگ ِمیل ثابت ہوگا۔
اس قانون کی مخالفت کیوں ہورہی ہے؟
(جاری ہے)
ڈاکٹر خالد مشتاق
 
عمدہ قدم ہے۔ بہتری کی امید ہے

کی جگہ مریض صحافی بہتر رہے گا شاید :)
انہوں نے زور صحافی ہونے پر دیا ہے اور اس کے مریض ہونے کو انہوں نے ثانوی اہمیت دی ہے
روزمرہ استعمال کے لحاظ سے میں آپ سے متفق ہوں کہ " مریض صحافی " بہتر ہے
 
بہت اچھا قدم ہے :) کاش تمام صوبائی حکومتیں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کو خوش کرنے کی کوشش کریں نا کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر وقت ضایع کریں۔
 
ان آٹھ ماہ میں اس قانون کے ذریعہ عام شہریوں، اداروں اور صحافیوں نے کتنی حکومتی معلومات حاصل کیں؟
ایسے میں وہ قصہ یادآتا ہے کہ ایک گاؤں میں بجلی مہیا کی گئی لیکن جب اگلے مہینے میٹر ریڈر نے ریڈنگ لی تو معلوم ہوا کہ نہ استعمال کئے جانے کے مترادف بجلی استعمال کی گئی ہے۔ میٹر ریڈر کے استفسار پر گاؤں والوں نے بتایا کہ ہم صرف اتنی دیر بجلی استعمال کرتے ہیں کہ موم بتی تلاش کر کے روشن کرلیں اس کے بعد بجلی بند کر دیتے ہیں۔۔۔گویا ٹیکنولوجی تو پہنچ گئی لیکن گاؤں والوں کو بجلی کے استعمال اور اس کے فوائد سے آگاہی نہیں تھی لہذا ٹیکنولوجی نے ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
 
ڈاکٹر خالد مشتاق
گزشتہ سے پیوستہ
چوری، ڈاکے اور اکثر جرائم رات کی تاریکی میں زیادہ ہوتے ہیں۔ آپ اخبارات پر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ دن میں ڈاکے، قتل و غارت گری اور دیگر برے کام عام طورپر سنسان جگہوں یا ایسی جگہ ہوتے ہیں جہاں لوگوں کا آنا جانا کم ہو۔ یہ حقائق ہمیں سکھاتے ہیں کہ شیطانی کاموں کی فطرت ہے کہ انہیں چھپایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے روشنی، نور، چراغ سے اپنی مثال دی ہے، اور اپنے تمام نبیوں کے بارے میں بتایا ہے کہ سب روشن نشانیاں لے کر آئے ہیں۔ اگر چیزوں کو خفیہ رکھا جائے تو خرابیاں ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اداروں اور حکومتی سطح پر کرپشن اور بدعنوانی کو روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ معلومات کو عام کردیا جائے۔ اس راستے کو جو بھی اختیار کرے گا وہ دنیا میں ترقی کرے گا… ادارہ ہو یا قوم۔ اللہ کی بتائی ہوئی ہدایت پر جو بھی عمل کرے تو اسے دنیا میں ترقی ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سویڈن، ڈنمارک، جرمنی جیسے چھوٹے ممالک معلومات کو عام کرنے اور ’احتساب سب کے لیے‘ کے قانون پر عمل کرکے دنیا میں ترقی کررہے ہیں۔
سوئیڈن نے معلومات کو عام کرنے کا قانون 1776ء میں بنایا تھا جبکہ دیگر ممالک نے یہ نظام 20 سال پہلے اور بعض نے 15-10 سال پہلے بنایا۔ دنیا کے اکثر اسلامی ممالک میں یہ نظام موجود نہیں ہے۔ اسلامی ممالک میں بوسنیا پہلا ملک ہے جس نے 2000ء میں یہ قانون بنایا۔
بھارت نے 2005ء میں یہ قانون بنایا اور اس پر سختی سے عمل کیا۔ نیپال اور بنگلہ دیش نے بھارت کی پیروی میں اس قانون کو نافذ کردیا ہے۔ دنیا کے 90 ممالک میں شفاف نظام حکومت کے حوالے سے بھارت کا دوسرا، بنگلہ دیش کا 15 واں اور پاکستان کا 76 واں نمبر ہے۔
ہمارے ہاں 2002ء میں معلومات کو عام کرنے کے حوالے سے ایک قانون لایا گیا، لیکن بہت کمزور۔
2010ء کی اٹھارویں ترمیم میں اسے صوبوں تک منتقل کیا گیا، لیکن بہت کمزور صورت میں۔
خیبر پختون خوا کی موجودہ حکومت دنیا کی اُن چند حکومتوں میں شامل ہوگئی ہے جو مضبوط اور جامع قانون لائی ہے۔
ایشیا اور افریقہ کے مسلم ممالک کے بدعنوان حکمران حکومتی اور مالی معاملات اور معاہدے خفیہ رکھ کر کرپشن کرتے ہیں۔ بلکہ ان ممالک میں کام کرنے والی این جی اوز اور تعلیمی ادارے بھی معاملات کو خفیہ رکھ کر کرپشن میں ملوث ہیں۔
ان حالات میں خیبر پختون خوا کی حکومت کا کرپشن کو روکنے کے لیے ایسا قانون بنانا جس کے نتیجے میں حکومتی معاملات صحافی اور عام شہری معلوم کرسکیں، اور کوئی ٹھیکہ، سرکاری خزانے اور وسائل کا استعمال خفیہ نہ رہے، ایک انقلابی قدم ہے۔
معلومات کو خفیہ رکھنے پر اصرار اور اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں، اس کی چند مثالیں آپ کو بتاتے ہیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ یہ اقدامات جو خیبر پختون خوا کی حکومت کررہی ہے کتنے اہم ہیں۔
ہمارے ایک دوست اسلام آباد میں ایک بڑی این جی او میں تھے۔ انہیں کام کے دوران پتا چلا کہ ادارے کی اکائونٹ برانچ اور ایک عہدیدار نے ریلیف کے حوالے سے بہت ہی نامناسب کام کیا ہے، اور یہ کام این جی او کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ انہوں نے خیرخواہی کے جذبے سے یہ بات این جی او کے دیگر لوگوں کو بتادی۔ لوگوں کی صحت کے حوالے سے بھلائی کرنے کے اس کام کو عرفِ عام میں Whistle Blowing کہتے ہیں۔ اس پر ان کو دھمکیاں دی گئیں، ان سے برا سلوک کیا گیا اور مجبور کیا گیا کہ وہ این جی او چھوڑ دیں۔ اس طرح نیکی کرنے کے ’’جرم‘‘ میں نیک کام کرنے والی این جی او سے نکال دیے گئے۔
دوسری مثال: کشمیر کی ایک این جی او کے اسپتال میں ادویات کی خریداری بہت مہنگے داموں کی جارہی تھی۔ اکائونٹس برانچ کے ایک فرد نے ضمیر کے بوجھ کو برداشت نہ کیا اور یہ بات ڈونرز میں سے کسی کو بتادی کہ جو گولی پچاس پیسے کی مل سکتی ہے وہ 4 روپے کی خریدی جارہی ہے۔ اسپتال کے ذمہ داران اور این جی او میں سے چند لوگوں نے اسے نوکری سے نکلوا دیا اور الزامات بھی لگا دیے۔
کراچی کے ایک مالیاتی ادارے میں ایک صاحب کام کرتے تھے۔ ان کی آواز اچھی ہے۔ انہوں نے ترجمہ قرآن (اردو)، حدیث کی کتب اور اسلامی کتابوں کی آڈیو ریکارڈنگ کرائی۔ ان صاحب کا جذبہ ایمان ان کاموں سے بڑھا اور انہوں نے کچھ نامناسب چیزوں کے بارے میں سچ بیان کردیا۔ اس پر انہیں نہ صرف ادارے سے نکال دیا گیا بلکہ ان کی تنخواہ روک دی گئی اور ان کے واجبات بھی ادا نہیں کیے گئے۔ انہیں اس عبرتناک انجام سے دوچار کیا گیا کہ آئندہ کوئی Whistle Blowing (حق گوئی) نہ کرسکے۔
خیبر پختون خوا حکومت کا یہ قانون اگر موجود ہوتا تو حق گوئی کرنے والے ان تمام افراد کو جن کی مثال دی گئی ہے، نوکری کا تحفظ حاصل ہوتا، نہ انہیں کوئی مالی نقصان پہنچا سکتا، نہ کوئی اظہار وجوہ (شوکاز) کا نوٹس دے سکتا، نہ دھمکیاں… اگر ان میں سے کوئی بھی حرکت کرنے کی کوشش کرتا تو قانون کے تحت ایسا کرنے والے کو سزا ملتی اور Whistle Blow کرنے والے کو تحفظ حاصل ہوتا۔
ہم نے خیبر پختون خوا کے سینئر وزیر سراج الحق صاحب سے اس حوالے سے گفتگو کی۔
سراج الحق صاحب نے بتایا کہ ہم اسمبلی کے اگلے سیشن میں احتساب کمیشن کا بل لا رہے ہیں، یہ ہمارا بنیادی ہدف ہے کہ نیکی کرنا آسان ہو اور بدی کرنا مشکل ہو، ہم یہ چاہتے ہیں کہ سرکاری اداروں کے افسران ایمانداری کے مطلوبہ معیار پر نہ بھی ہوں اور کرپشن کرنا چاہیں تو نظام اتنا مضبوط ہو کہ وہ ایسا نہ کر سکیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ معاشرتی اور معاشی انصاف قائم ہو وہ لوگ جنہوں نے اس ملک کا پیسہ لوٹا ہے ان سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائیں۔
Whistle Blowing (خرابی بیان کرنے والے سرکاری ملازم کو ہر طرح کا تحفظ ملے)
خیبر پختون خوا کی حکومت نے ایک Corruption Eradication Commission بنایا ہے، جس کے ذریعے حکومت کے افسران (Civil Servent) جنہیں بیوروکریٹ کہتے ہیں، اپنی شکایات یا جو خرابیاں وہ اپنے محکمہ میں دیکھیں، محکمہ میں اور صوبائی حکومت تک ان کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت 7 وزارتوں میں اس کا سافٹ ویئر لگا دیا گیا ہے: 1۔ وزارت صحت، 2۔ محکمہ پبلک ورکس، 3۔ وزارتِ داخلہ، 4۔محکمہ جنگلات، 5۔وزارتِ تعلیم، 6۔وزارتِ زراعت، 7۔ وزارتِ خزانہ۔
اس کے بعد یہ دوسرے محکموں میں بھی لگایا جائے گا۔ سرکاری افسران اس سافٹ ویئر کے ذریعے اپنی وزارت کے انسپکٹر جنرل کو بتا سکتے ہیں جو براہ راست حکومت ِخیبر پختون خوا سے بھی لنک ہوگا۔
کمیشن انسپکٹر جنرل کے ساتھ مل کر ان شکایتوں کو آگے بڑھائے گا۔ تحقیق کرے گا۔
اس نظام کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ رپورٹ کرنے والے آفیسر کا نام ظاہر نہیں ہوگا (وہ گمنام رہے گا)۔ سسٹم کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے کسی کو بدنام نہیں کیا جا سکتا۔
ان رپورٹس کے متعلق چند سوالات کا متعلقہ افسر جواب دے گا۔
مثال: متعلقہ افسر کے متعلق یہ شکایت آئی کہ اس نے کسی کلائنٹ سے تحفے، شادی پر جہاز کا ٹکٹ، زمین، کار وغیرہ لی ہے۔ وہ 30 دن میںکلیئر کرے گا۔ ورنہ اسے رشوت سمجھا جائے گا۔
یہ سافٹ ویئر 30 ہزار ڈالر کا ہے۔
اس میں پہلے سال جرمن سوسائٹی تیکنیکی تعاون کرے گی۔ یہ جرمن کمپنی دیگر ممالک میں بھی Anti Corruption Clearing House کامیاب طور پر انجام دے چکی ہے۔
(آرٹیکل 30) Whistle Blowing
اگر ایک فرد اپنے ادارے میں خرابیاں دیکھے بد عنوانی دیکھے وہ ادارے کو آگاہ کرے۔ اسے Whistle Blowing کہتے ہیں۔
کسی ایسے فرد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی، نہ ہی قانونی، نوکری پر پابندی، نہ ہی Administration پابندی لگائی جاسکتی ہے، چاہے کتنا ہی بڑا مسئلہ ہو۔
جو شخص غلط کام کی معلومات بتائے، یا ایسی معلومات کے متعلق بتائے، جس سے انسانی صحت کو خطرات ہوں۔ جان کی حفاظت کا مسئلہ ہو۔ ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ ہو۔
یہ سمجھا جائے کہ یہ اس نے اچھا خیال رکھتے ہوئے انسانوں کے فائدے کے لیے بیان کیا ہے۔
ایسی معلومات دینے والے کو قانونی طور پر تحفظ دیا گیا ہے۔
(اس تحریر کی تیاری میں معاونت کرنے پر ہم پروفیسر سید محمد عباس اور محمد ارسلان اکبر ایڈوکیٹ کے شکر گزار ہیں۔)
 
ان آٹھ ماہ میں اس قانون کے ذریعہ عام شہریوں، اداروں اور صحافیوں نے کتنی حکومتی معلومات حاصل کیں؟

معلومات تک رسائی کا حق اور عوام کی دلچسپی
عنبر شمسی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: جمع۔ء 4 اکتوبر 2013 ,‭
گذشتہ برس صحافی عمر چیمہ نے وفاقی سطح پر معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2002 کے تحت سابق وزیرِ قانون بابر اعوان کے بارے میں وزارتِ قانون سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی کہ وہ بطور سرکاری وکیل کے کتنی فیس وصول کرتے تھے۔
’جب بابر اعوان صاحب وزیر نہیں تھے تو وہ بہت سارے سرکاری کیس لیتے تھے اور ان کی فیس مبینہ طور پر پچاس لاکھ سے کم نہیں ہوتی تھی۔ میں نے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت درخواست بھیجی کہ ان کو کتنے کیس ملے، تو خفیہ قرار دے کر میری درخواست رد کر دی گئی‘۔
عمر چیمہ کے بقول یہ قانون ( معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2002) غیر موثر ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ خفیہ معلومات چھوڑ دیں، عام معلومات بھی نہیں مل پاتی۔
کئی دہائیوں تک پاکستان میں سول سوسائٹی اور صحافی فریڈم آف انفارمیشن سے متعلق قوانین کا مطالبہ کرتے رہے ہیں تاہم سابق فوجی صدر مشرف کے دور میں ایک قانون بنا لیکن یہ بھی ایشین ڈولپمنٹ بینک کی قرض دینے کی ایک شرط تھی۔
اس قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اسے نافذ کرنے کا عمل کمزور ہے کیونکہ سرکاری معلومات حاصل کرنے پر بہت پابندیاں ہیں۔ جو وفاق نہ کر سکی وہ اب ملک کے دو صوبے کر رہے ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں جمعہ کو معلومات تک رسائی کے حق کا آرڈیننس نافذ ہو گیا ہے۔
اس سے قبل صوبہ خبر پختونخوا نے بھی اس قانون کو اگست میں متعارف کرایا تھا۔ تاہم، بلوچستان اور سندھ میں ان قوانین سے متعلق کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے قوانین سے پاکستان میں رازداری کا رواج ختم ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق دونوں صوبوں نے ماہرین اور سول سوسائٹی کی مشاورت کے بعد یہ قوانین متعارف کرائے اور اس میں درخواست بھیجنے کے عمل کو نہایت آسان بنا دیا گیا۔
تھنک ٹینک سینٹر فور پیس اینڈ ڈولپمنٹ انیشیٹوز کے اہلکار زاہد عبداللہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ معلومات کی درخواستیں ای میل، فیکس یا خط کے ذریعے متعلقہ سرکاری اداروں کو بھیجی جا سکتی ہیں۔’اس درخواست کی کوئی فیس نہیں ہے اور طلب کئے گئے دستاویزات کے پہلے بیس صفحے بھی مفت فراہم کیے جائیں گے‘۔
انہوں نے بتایا کہ اگر درخواست کو مثال کے طور پر قومی سلامتی کی وجہ سے رد کیا جاتا ہے تو اپیل کرنے کا طریقہ کار بھی زیادہ شفاف بنا دیا گیا ہے۔
’ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں چار ر کنی آزاد کمیشن قائم کیا جائے گا اور یہ کمیشن نامنظور ہونے والی درخواستوں کی جانچ پڑتال کریں کا کہ کیا مانگی گئی معلومات سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گا کہ نہیں‘۔
’ہم نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے قوانین کے مسودے دیکھیں ہیں اور ان میں کسی بھی معاملے میں استثنیٰ نہیں ہے، چاہے وہ سکیورٹی ہو یا قومی سلامتی۔ کمیشن فیصلہ کرے گا کہ اگر معلومات سے عوام کو نقصان سے زیادہ فائدہ ہو گا تو یہ منظرِ عام پر ضرور آنی چاہیے‘۔
ریاست اور عوام کے درمیان ایک تنازع ہے، ریاست وہ معلومات خفیہ رکھنا چاہتی ہے جو عام لوگ جاننا چاہتے ہیں اور اس کے بیچ صحافی ہیں، جن کا کام معلومات تک رسائی حاصل کر کے انہیں عوام تک پہنچانا ہے۔ لیکن اگر صحافی کو نکال دیا جائے تو کیا ہو گا؟
ذرائع ابلاغ کے ماہر عدنان رحمت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں رازداری کا رواج تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک عوام خود تحقیق نہیں کرے گی۔
’ہمارے شہریوں میں اتنی آگاہی نہیں ہے کہ وہ اس معلومات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ کردار میڈیا ادا کرتا ہے لیکن نجی میڈیا کاروبار بھی ہے اور ضروری نہیں کہ وہ عوام کے مفاد پر توجہ دیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے باوجود کہ بھارت میں رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون پاکستان کے قانون کے چار سال بعد متعارف کروایا گیا، وہاں عام شہریوں اور کارکنوں میں زیادہ آگاہی ہے اور اسی لیے معلومات تک رسائی کا حق بھی زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
تو کیا ان قوانین سے پاکستانی معاشرے میں تبدیلی آئے گی؟ زاہد عبداللہ کہتے ہیں کہ بنیاد اب ڈل گئی ہے۔
’ہم نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ضلعی انتظامیہ کو سرکاری گاڑیوں کے لاگ بکس کی تفصیلات کی درخواست کی۔ پنجاب میں ایک ہی جواب آیا جبکہ رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے بعد، خیبر پختونخوا کے پچیس ضلعوں سے چار کا جواب آیا۔ یہ مثبت پیش رفت ہے‘۔
اب تک پاکستان میں معلومات ایک مخصوص طبقے تک محدود رہی ہے۔ اب اسے عام کرنے کے لیے صحافی نہیں بلکہ عام لوگوں کی دلچسپی بھی ضروری ہے۔
 
ان آٹھ ماہ میں اس قانون کے ذریعہ عام شہریوں، اداروں اور صحافیوں نے کتنی حکومتی معلومات حاصل کیں؟
ایک اچھے کام کا آغاز تو ہوا ہے۔ قانون بن گیا ہے تو آہستہ آہستہ لوگ اس سے فائدہ بھی اٹھانے لگیں گے۔ میرا خیال ہے اچھے کام پر حکومتوں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
 
ایک اچھے کام کا آغاز تو ہوا ہے۔ قانون بن گیا ہے تو آہستہ آہستہ لوگ اس سے فائدہ بھی اٹھانے لگیں گے۔ میرا خیال ہے اچھے کام پر حکومتوں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
لئیق احمد صاحب، اب بات کو آگے بڑھانا چاہیے، خود بخود کچھ بھی بہتر نہیں ہوتا، اس کے لیے پیہم جدوجہد کرنی پڑتی ہے، اس قانون کے حوالے سے اگاہی پھیلانا اور اس کے مفید استعمال پر بات ضرور کی جانئ چاہیے


معلومات تک رسائی کا حق دینے کے واسطے نافذ کردہ یہ آرڈیننس شہریوں کو ایسا آلہ فراہم کرتا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے وہ بے عمل انتظامیہ کو حرکت میں لاسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، ہندوستان میں جہاں معلومات تک رسائی کا قانون بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے، متعدد دوسروں کی طرح، پاسپورٹ اجرا کے منتظر ایک شہری نے درخواست دی کی کہ وہ اجرا کی رفتار اور اس وقت مراکز پر کتنے پاسپورٹ تاخیر کا شکار ہیں، یہ جاننے کا خواہشمند ہے۔
اس کے بعد کام چور عملے نے نہایت تیزی سے پاسپورٹ اجرا کا عمل شروع کردیا تاکہ جب ان کی کام چوری کا پردہ فاش ہو تو وہ شرمندگی یا مشکل سمیت اپنے اعلیٰ افسران کی باز پرس اور جواب طلبی سے بچ سکیں۔

وہ پاکستانی جو گزشتہ مہینوں کے دوران پاسپورٹ کے حصول کی جدوجہد کرتے رہے ہیں، وہ دباؤ ڈالنے والے ایسے طریقہ کار کی اہمیت کو ضرور سراہیں گے۔
اگرچہ پاسپورٹ اجرا کا معاملہ وفاق کے تحت آتا ہے جب کہ خیبر پختون خواہ کے اس قانون کا اطلاق صوبے پر ہوتا ہے، لہٰذا ایسے میں یہ دیکھنا مشکل نہیں ہوگا کہ اس قانون کا مختلف النوع صورتوں پر کس طرح نفاذ ہوتا ہے۔
خیبر پختون خواہ کے اس قانون میں ایک بات خاصی حوصلہ افزا ہے، وہ یہ کہ اسے بنانے والوں نے معلومات تک رسائی کا حق دینے والے تمام نافذ کردہ قوانین کے بارے میں پہلے سروے کیا اور اُن میں جو مسائل یا خامیاں پائی گئی تھیں، انہیں اپنے مسودہ قانون میں دورکردیا ہے۔
لہٰذا، خیبر پختون خواہ کے اس قانون میں اطلاع دینے والے کے لیے بھی تحفظ شامل کیا گیا ہے، خاص طور پر ایک اہم تحفظ ایسی غلطیوں کے نشاندہی کرنے والوں کو حاصل ہوگا، جنہیں اکثر میڈیا اور عوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ساتھ ہی اضافی طور پر، ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بھی قائم ہوگا جو اس قانون کے تحت فراہم کردہ حق کو استعمال کرتے ہوئے، دی گئی درخواست پر کارروائی میں غیر ضروری تاخیر یا اس سے صرفِ نظر کے معاملات دیکھے گا۔
قومی سلامتی کی بنیاد پر شراکتِ اطلاعات سے چھوٹ کے ریاستی دعوے کے مقابلے میں، درخواست گزار کے حق کو مضبوط تر کرنے کے لیے خیبر پختون خواہ کے اس قانون کے تحت، ایک افسرِ اطلاعات درکار ہوگا جو چھوٹ دینے کے معاملات کی تنگ نظری کے بجائے وسیع تر تشریح کرے گا۔
صوبے کا یہ قانون پُرمغز اور شہریوں کے موافق ہے تاہم زیادہ سے زیادہ بہتری اس کے نفاذ پر منحصر ہوگی۔
عالمی سطح پر رائج اس طرح کے قوانین کا عملی تجربہ ظاہر کرتا ہےکہ ان کا نفاذ دو عناصر پر منحصر ہے، اول ایسی آگاہی مہم جو شہریوں کو اس نئے قانون سے متعلق آگاہ کرسکے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں اطلاعات تک رسائی کا حق دینے کی شکل میں کئی قوانین نافذ کیے گئے لیکن تعلیم کی طرف کم توجہ اور عدم آگاہی کی بنا پر، اب صرف چند ہی لوگ ان کے بارے میں جانتے ہوں گے۔
دوئم، اس قانون کے تحت جن مختلف سرکاری محکموں میں افسرِ اطلاعات کا تقرر ہوگا، ضروری ہے کہ انہیں متعلقہ طریقہ کار کے بارے میں نہ صرف تربیت فراہم کی جائے بلکہ اس قانون کے پیچھے جو روح پوشید ہے، وہ اس سے بھی اچھی طرح آگاہ ہوں۔
ایک لائق اور ہمدرد افسرِ اطلاعات ہی بہتر طور پر عوام کی خدمت کے ساتھ، قانون اور اس کے غیر موثر ہونے کے درمیان فرق لاسکتا ہے۔

http://urdu.dawn.com/news/117656/kp-sets-an-example-right-to-information-law
 
ان آٹھ ماہ میں اس قانون کے ذریعہ عام شہریوں، اداروں اور صحافیوں نے کتنی حکومتی معلومات حاصل کیں؟

سوال بہت عمدہ ہے اور مجھے افسوس ہے کہ تحریک انصاف نے قانون بنانے کے بعد اس سے فائدے اٹھانے کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں دلائی۔
 

زیک

مسافر
ایک اچھے کام کا آغاز تو ہوا ہے۔ قانون بن گیا ہے تو آہستہ آہستہ لوگ اس سے فائدہ بھی اٹھانے لگیں گے۔ میرا خیال ہے اچھے کام پر حکومتوں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
بات صرف قانون بنانے کی نہیں ایک کلچر بنانے کی ہے۔
 
سوال بہت عمدہ ہے اور مجھے افسوس ہے کہ تحریک انصاف نے قانون بنانے کے بعد اس سے فائدے اٹھانے کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں دلائی۔
متفق ، لیکن معاشرے کے تعلیم یافتہ افراد اور ذرائع ابلاغ کے ذمہ بھی کچھ کام ہوتا ہے
 
ہمارے ساتھ اور سامنے یہ سب کچھ روز ہوتا ہے کہ ہم کسی سبزی فروش کے ہاں جائیں یا کریانہ کی دکان پر وہ ہمیں کس معیار کی چیز اور کن داموں پر فروخت کر رہا ہے اس کا کبھی بھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا ،اور اگر آپ عام آدمی ہو اور کسی جرنل اور میڈیکل اسٹور سے کچھ خریدیں اور ان سے معیار اور نرخوں کے بارے میں پوچھیں تواکثر دوچار باتیں سُنا کر سامان واپس لے لیا جائے گا مگر کبھی بھی تسلی بخش جواب نہیں ملے گا،شہروں میں صفائی کے کام پر مامور بلدیہ کا عملہ افسران ، نمائندگان کے گھروں کی صفائی میں لگے ہونگے مگر شہروں میں کچرے کے ڈہیروں اور گندگی میں روز اضافہ ہوگا پر آپ کو اس بارے میں معلومات نہیں ملے گی کہ اس محکمہ میں کتنے خاکروب کام کرتے ہیں اور کہاں کہاں صفائی کے کاموں پر مامور ہیں یہ رکارڈ میسر نہیں ہوگا،ضلعی سطح پر سالانہ اربوں روپوں کا بجٹ ملتا ہے،مگر اکثرآپ کو ٹوٹی سڑکیں ، پینے کے پانی کی شکایات ، نکاسی آب کا بوسیدہ نظام ، تفریحی پارکوں کی خستہ حالت ،کھیلوں کے اُجڑے ہوئے میدان ہی نظر آتے ہیں ، ترقیاتی کاموں پر ملنے والی بجٹ کا آدھا بھی خرچ ہوجائے تو شاید کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں ، مگر آخر کام کیوں نہیں ہوتے اور وہ رقم کتنی اور کہاں جاتی ہے اس بارے میں معلومات ملنا بہت مشکل ہے ، ان سب مسائل کی جہاں دوسری وجوہات ہیں وہیں سب سے اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ایک عام آدمی کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے علاقے میں کتنی رقم کن کاموں کے لئے خرچ ہوئی ہے، اسی لئے اب یہ ضروری بن چکا ہے کہ عام آدمی کو معلومات تک رسائی کا حق ملے تاکہ وہ اپنے اس حق کو استعمال کرکے اپنے علاقوں میں ہونے والے کام اور ان پر کئے جانے والے اخراجا ت سے واقف ہو،دنیا میں جہاں دیگر انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے وہیں معلومات تک رسائی کے حق کو بھی بنیادی حق تسلیم کیا جاتاہے،

آج کی دنیا میں 1946 ع میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ معلومات تک رسائی انسان کا بنیادی حق ہے، پاکستان میں 2002 میں فریڈم آف انفارمیشن کے نام سے آرڈیننس لایا گیا،جس کے بعد 2013 میں ایکٹ کی صورت میں سامنے آیا،اب اسے قومی اور صوبائی اسمبلی میں سے پاس ہوکر قانونی شکل اختیار کرنی ہے،پاکستان کے 1973 کے آئین میںسیکشن 7 ( اٹھارویں ترمیم) ایکٹ 2010 ( 2010 کا دسواں نمبر) میں نئی شق 19(A) شامل کرکے ہر شہری کے معلومات تک رسائی کے حق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ” قانون کے لاگو کئے گئے ضابطوں میں رہ کر عوامی اہمیت کی ہر معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے“

پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون مختلف مراحل سے گذرا ہے،اور اب پاکستان معلومات تک رسائی ایکٹ 2013 پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پڑا ہے،پاکستان میں معلومات تک رسائی کو کبھی بھی خاص اہمیت نہیں دی گئی ہے،اسی وجہ سے اب تک اس سلسلے میں کی گئی قانون سازی پر عمل درآمد ایک مسئلہ بنا ہوا ہے،معلومات تک رسائی بھی دیگر سماجی حقوق کی طرح اہم ہے مگر اس کے بارے میں عوام کو آگاہی کی بہت ضرورت ہے،
اس سلسلے میں سندہ کے شروعاتی طور پر دو اضلاع دادو اور سانگھڑ میں سماجی تنظیم آکسفیم جی بی کے تعاون سے سافکو آگاہی کا کام کررہی ہے، کیونکہ اس قانون کا اصل مقصد عام عوام کو فائدہ پہچانا ہے اور وہ سب جو کہ ان سے وابستہ ہے اُس کے بارے میں ان کو معلومات دی جائے، مگر اس کے لئے لوگوں کو آگاہی کی بھی ضرورت ہے، پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون بن رہا ہے اور بن بھی جائے گامگر اُس کا حشر کرپشن کے خلاف بنائے گئے اینٹی کرپشن کے محکمے جیسا تو نہیں ہوگا،

قانون اور ادارے بننا تو اچھی بات ہے مگر جب تک ان اداروں میں ایمانداری اور مخلصی نہیں ہوگی ان کا فائدہ عام عوام تک نہیں پہچ سکے گا، لیکن معلومات تک رسائی کو اور بھی آسان بنایا جائے تو شاید مسائل بہتری کی جانب جا سکیں گے ،ضلعی سطح پر ترقاتی کاموں اور دیگر عوام سے متعلقہ ادارے اگر اپنا مکمل رکارڈ کمپیوٹرائزڈ کریں اور اس کے بارے میں ہر معلومات اگر وہاں موجود ہو تو شاید کچھ بہتری ممکن ہے ،
جہاں تک معلومات تک رسائی کا حق اور اس کے بارے میں قانون اور ادارے بنانے کے بعد بھی اگر عوام نے اس میں دلچسپی نہیں لی تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ لوگوں میں شعور کو بیدار کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے، کیونکہ اب تک عام عوام کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا معلومات کس طرح حاصل کرسکتے ہیں، اور ہو سکے تو اس قانون کو جتنا ہوسکے آسان اور شفاف بنایا جائے تاکہ عام لوگ نہ صرف اس سے مستفید ہوں بلکہ اس قانون سے رشوت خوری ، لُوٹ مار ، غیر معیاری ترقیاتی کاموں کا خاتمہ بھی ہوسکے۔
http://m.hamariweb.com/articles/detail.aspx?id=39991
 
Top