حسرت جاوید
محفلین
کب کریں گے؟ فی الحال تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی ریاست پاکستان کو کوئی بیرونی ریاست للکارتی ہے تو ہم ریاست پاکستان کا ہی دھبڑ دھوس کر دیتے ہیں۔ریاستِ پاکستان کو بیرونی ریاست للکارے تو اس کا دھبڑ دھوس کر دیا جائے گا
کب کریں گے؟ فی الحال تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی ریاست پاکستان کو کوئی بیرونی ریاست للکارتی ہے تو ہم ریاست پاکستان کا ہی دھبڑ دھوس کر دیتے ہیں۔ریاستِ پاکستان کو بیرونی ریاست للکارے تو اس کا دھبڑ دھوس کر دیا جائے گا
آپ کی بات میں اچھا خاصا وزن ہے۔ ویسے ریاست جس بنیاد پر بھی قائم ہو اس کی مضبوط رٹ ہی وہاں رہنے والوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے اور اگر یوں محسوس ہونے لگ جائے کہ ریاست کمزور ہو چکی ہے اور ہر دوسرے تیسرے سال اس کو فتح کرنے کے لیے جتھے اور لشکر میدان میں اترتے ہیں اور ریاستی ادارے ان کے سامنے ہاتھ پاؤں جوڑ دیتے ہیں تو خاموش رہا نہیں جاتا ہے۔ریاست مضبوط کب ہوئی ہے؟ ریاست میں شروع سے ہی قومیت کا کوئی بنیادی مضبوط تصور نہ تھا، اسے زبردستی مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ روٹ لیول پہ لسانی اور ثقافتی بنیادوں پہ انتہا درجے کی تقسیم و تفریق اول دن سے موجود ہے۔ اس صورتحال میں ہر طبقہ دوسرے طبقے کے خلاف زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے چکر میں ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل پہ قبضہ کیا جا سکے۔ اب جبکہ قومیت کا تصور مذہب سے جوڑ دیا گیا تو ملک کے مضبوط ترین ادارے نے بھی اول دن سے اسے ایک آلے کے طور پر استعمال کر کے اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہوئی ہے۔ اگر آپ اس سارے منظر نامے کو باہر سے بیٹھ کر دیکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ خواہ کوئی جمہوری انقلابی ہو یا مذہب پرست، سندھی، پنجابی، بلوچی ہو یا مہاجر، ہر طبقہ وسائل پہ زیادہ سے زیادہ قبضے میں مگن ہے۔ ریاست وہاں مضبوط ہوتی ہے جہاں قومیت کا بنیادی تصور اس قدر مضبوط ہو کہ ریاست اور شہری کا مفاد یکجان ہو۔ موجودہ عالمی تناظر میں قومیت کے تصور میں محض مذہب کی بنیاد پر قومیت کی تعریف کرنا کافی نہیں کیونکہ مذہب چاہے انسان کی کتنی ہی بڑی ضرورت کیوں نہ ہو لوگوں کے پیٹ نہیں بھر سکتا، معاشرے سے مذہبی و غیر مذہبی طبقے میں اور جغرافیائی و علاقی تفریق ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا بلکہ تقسیم در تقسیم میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہر طبقہ مذہب کی تشریح اپنی معاشرت اور ضرورت کے حساب سے کرتا ہے اور اسی کو کامل سچائی تصور کرتا ہے۔ اب آپ مثالی طور پر چاہے یہ کہتے رہیں کہ کابل میں رہنے والا مسلمان اور یورپ میں رہنے مسلمان بھائی بھائی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جہاں جغرافیے کا اظہار ہو گا وہاں زبان و ثقافت کو ہمیشہ پہلا درجہ حاصل ہے اور یہ صدیوں سے یونہی چلا آیا ہے۔ زبان و ثقافت لوگوں میں اپنائیت کا احساس لاتی ہے، مذہب چاہے جتنی ہی زبردست جوڑنے والی طاقت ہو وہ زبان و ثقافت سے آگے نہیں نکل سکتی۔ یہ ریاست ایسے ہی رہنی ہے ہمیشہ، اس لیے اس پہ تنقید کرنا اور اس کو صحیح کرنے کی کوشش کرنا اپنا وقت برباد کرنے کے مترادف ہے۔
یہ ریاست وہ ریاست ہے جہاں اکثریت کام نہیں کرنا چاہتی لیکن آسائشیں ساری لینا چاہتی ہے، اس لیے ہر طبقہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی بجائے وسائل پہ قبضے کی جد و جہد میں مصروف ہے اور مذہب کی خاطر کسی شارٹ کٹ راستے سے جنت کے حصول کا ہمیشہ سے خواہش مند ہے حالانکہ جنت کا حصول بھی محنت مانگتا ہے۔ یہ وہ نقصان ہوتا ہے جب آپ شہریت میں میرٹ کو محنت سے نہیں بلکہ مذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ریاست میں ہمہ وقت یہ تناؤ موجود رہتا ہے کہ اب ہندو کیوں اوپر آ گیا ہے یہ ہمارے عقائد خراب کرے گا، اب قادیانی کیوں اوپر آ گیا ہے یہ ہمارے لوگوں کو گمراہ کرے گا یعنی اس ریاست میں شہریت کا درجہ صرف مسلمان کو حاصل ہے باقیوں کو ہم یہاں رہنے دے رہے ہیں وہی کافی ہے۔ اب مختصراً صورت حال یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھیک پہ ساری آسائشیں بھی حاصل کریں اور اس پر فخر بھی کریں اور بھیک دینے والا ہمارا ادب و احترام بھی کرے حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں عزت صرف اپنے زور بازو پہ خود کو کھڑا کے حاصل کی جا سکتی ہے نہ کہ بیساکھی کے سہارے۔
جمہوری ریاست افراد کی ترجمان ہوتی ہے اور اس کی مضبوط رٹ اسی صورت قائم ہو سکتی ہے جب ریاست کا مفاد افراد کے مفاد سے میل کھاتا ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب افراد کے ذہنوں میں موجودہ عالمی تناظر میں قومیت کا جدید تصور موجود ہو۔ جب آپ قوم کو مذہب سے جوڑتے ہیں تو پھر اس طرح کے مذہبی جتھوں کے سامنے ریاستی رٹ کبھی قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں مذہبی طبقہ یہ دعوی کرتا ہے کہ ریاست کا شہری ٖصرف وہی ہے اور ریاست اس کے مفادات کی صحیح نمائندگی نہیں کر رہی۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ رہے ہونگے۔ رٹ قائم کرنے کا دوسرا طریقہ پھر آمریت و بادشاہت ہی ہے۔ویسے ریاست جس بنیاد پر بھی قائم ہو اس کی مضبوط رٹ ہی وہاں رہنے والوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے
سال کا بہترین تجزیہ۔ شاباش!ریاست مضبوط کب ہوئی ہے؟ ریاست میں شروع سے ہی قومیت کا کوئی بنیادی مضبوط تصور نہ تھا، اسے زبردستی مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ روٹ لیول پہ لسانی اور ثقافتی بنیادوں پہ انتہا درجے کی تقسیم و تفریق اول دن سے موجود ہے۔ اس صورتحال میں ہر طبقہ دوسرے طبقے کے خلاف زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے چکر میں ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل پہ قبضہ کیا جا سکے۔ اب جبکہ قومیت کا تصور مذہب سے جوڑ دیا گیا تو ملک کے مضبوط ترین ادارے نے بھی اول دن سے اسے ایک آلے کے طور پر استعمال کر کے اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہوئی ہے۔ اگر آپ اس سارے منظر نامے کو باہر سے بیٹھ کر دیکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ خواہ کوئی جمہوری انقلابی ہو یا مذہب پرست، سندھی، پنجابی، بلوچی ہو یا مہاجر، ہر طبقہ وسائل پہ زیادہ سے زیادہ قبضے میں مگن ہے۔ ریاست وہاں مضبوط ہوتی ہے جہاں قومیت کا بنیادی تصور اس قدر مضبوط ہو کہ ریاست اور شہری کا مفاد یکجان ہو۔ موجودہ عالمی تناظر میں قومیت کے تصور میں محض مذہب کی بنیاد پر قومیت کی تعریف کرنا کافی نہیں کیونکہ مذہب چاہے انسان کی کتنی ہی بڑی ضرورت کیوں نہ ہو لوگوں کے پیٹ نہیں بھر سکتا، معاشرے سے مذہبی و غیر مذہبی طبقے میں اور جغرافیائی و علاقی تفریق ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا بلکہ تقسیم در تقسیم میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہر طبقہ مذہب کی تشریح اپنی معاشرت اور ضرورت کے حساب سے کرتا ہے اور اسی کو کامل سچائی تصور کرتا ہے۔ اب آپ مثالی طور پر چاہے یہ کہتے رہیں کہ کابل میں رہنے والا مسلمان اور یورپ میں رہنے مسلمان بھائی بھائی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جہاں جغرافیے کا اظہار ہو گا وہاں زبان و ثقافت کو ہمیشہ پہلا درجہ حاصل ہے اور یہ صدیوں سے یونہی چلا آیا ہے۔ زبان و ثقافت لوگوں میں اپنائیت کا احساس لاتی ہے، مذہب چاہے جتنی ہی زبردست جوڑنے والی طاقت ہو وہ زبان و ثقافت سے آگے نہیں نکل سکتی۔ یہ ریاست ایسے ہی رہنی ہے ہمیشہ، اس لیے اس پہ تنقید کرنا اور اس کو صحیح کرنے کی کوشش کرنا اپنا وقت برباد کرنے کے مترادف ہے۔
یہ ریاست وہ ریاست ہے جہاں اکثریت کام نہیں کرنا چاہتی لیکن آسائشیں ساری لینا چاہتی ہے، اس لیے ہر طبقہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی بجائے وسائل پہ قبضے کی جد و جہد میں مصروف ہے اور مذہب کی خاطر کسی شارٹ کٹ راستے سے جنت کے حصول کا ہمیشہ سے خواہش مند ہے حالانکہ جنت کا حصول بھی محنت مانگتا ہے۔ یہ وہ نقصان ہوتا ہے جب آپ شہریت میں میرٹ کو محنت سے نہیں بلکہ مذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ریاست میں ہمہ وقت یہ تناؤ موجود رہتا ہے کہ اب ہندو کیوں اوپر آ گیا ہے یہ ہمارے عقائد خراب کرے گا، اب قادیانی کیوں اوپر آ گیا ہے یہ ہمارے لوگوں کو گمراہ کرے گا یعنی اس ریاست میں شہریت کا درجہ صرف مسلمان کو حاصل ہے باقیوں کو ہم یہاں رہنے دے رہے ہیں وہی کافی ہے۔ اب مختصراً صورت حال یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھیک پہ ساری آسائشیں بھی حاصل کریں اور اس پر فخر بھی کریں اور بھیک دینے والا ہمارا ادب و احترام بھی کرے حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں عزت صرف اپنے زور بازو پہ خود کو کھڑا کے حاصل کی جا سکتی ہے نہ کہ بیساکھی کے سہارے۔
آئی ایم ایف سے ۲۲ بار بھیک مانگنے کے بعد بھی قوم ایسے اکڑتی ہے جیسے پاکستان آئی ایم ایف کو قرضہ دے رہا ہو!اب مختصراً صورت حال یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھیک پہ ساری آسائشیں بھی حاصل کریں اور اس پر فخر بھی کریں اور بھیک دینے والا ہمارا ادب و احترام بھی کرے حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں عزت صرف اپنے زور بازو پہ خود کو کھڑا کے حاصل کی جا سکتی ہے نہ کہ بیساکھی کے سہارے۔
کوئی ریاست کس مقصد سے وجود میں آئی ہے، یہ بات بھی تو پیش نظر رکھنی پڑتی ہے۔ قومیت کا جدید تصور بعینہ یہاں پر فٹ کرنا مجھے مشکل لگتا ہے کہ اس ریاست کی تشکیل میں مذہب کا عنصر بھی بہرصورت شامل رہا ہے یا رفتہ رفتہ یہ بات راسخ کر دی گئی ہے اور نسل در نسل یہ بات گویا ہمارے اجتماعی لاشعور میں سرایت کر گئی ہے۔ فی زمانہ، ایسی ریاستیں چل پائیں یا خرابی کی طرف بڑھ جائیں، اس پر الگ سے بحث ممکن ہے۔ میرے خیال میں جناح نے یہ بات سکھانے کی کوشش کی تھی کہ جب پاکستان بن گیا تو اب یہاں رہنے والا ہر باشندہ پاکستانی ہے چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو، رنگ ہو یا ثقافتی شناخت ہو مگر ہم یہ سبق بھلا چکے ہیں۔ آپ کی بات سے اصولی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر برصغیر کے تناظر میں مذہب کی جو حیثیت ہے، مجھے تو قیامت تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے کہ ریاست مذہب سے 'فیض' پائے بغیر چل بھی سکے۔جمہوری ریاست افراد کی ترجمان ہوتی ہے اور اس کی مضبوط رٹ اسی صورت قائم ہو سکتی ہے جب ریاست کا مفاد افراد کے مفاد سے میل کھاتا ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب افراد کے ذہنوں میں موجودہ عالمی تناظر میں قومیت کا صحیح تصور موجود ہو۔ جب آپ قوم کو مذہب سے جوڑتے ہیں تو پھر اس طرح کے مذہبی جتھوں کے سامنے ریاستی رٹ کبھی قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں مذہبی طبقہ یہ دعوی کرتا ہے کہ ریاست کا شہری ٖصرف وہی ہے اور ریاست اس کی صحیح نمائندگی نہیں کر رہی۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ رہے ہونگے۔ رٹ قائم کرنے کا دوسرا طریقہ پھر آمریت و بادشاہت ہی ہے۔
کل ایک صحافی نیب کیسز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد لکھتا ہے کہ ریاست پاکستان احتساب کا ایک اصول اپنا چکی ہے: طاقتور کو چھیڑو نہیں، کمزور کو چھوڑو نہیں!آپ کی بات میں اچھا خاصا وزن ہے۔ ویسے ریاست جس بنیاد پر بھی قائم ہو اس کی مضبوط رٹ ہی وہاں رہنے والوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے اور اگر یوں محسوس ہونے لگ جائے کہ ریاست کمزور ہو چکی ہے اور ہر دوسرے تیسرے سال اس کو فتح کرنے کے لیے جتھے اور لشکر میدان میں اترتے ہیں اور ریاستی ادارے ان کے سامنے ہاتھ پاؤں جوڑ دیتے ہیں تو خاموش رہا نہیں جاتا ہے۔
ریاست سے مراد اگر پنڈی بوائز کا ٹولہ ہے تو ان کا یہ ازلی دستور ہے۔ کمزور سے ڈرو نہیں، طاقتور سے لڑو نہیں۔کل ایک صحافی نیب کیسز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد لکھتا ہے کہ ریاست پاکستان احتساب کا ایک اصول اپنا چکی ہے: طاقتور کو چھیڑو نہیں، کمزور کو چھوڑو نہیں!
بھارت اور بنگلہ دیش کا آئین کاغذ پر سیکولر ہے البتہ عملا وہاں بھی ہر طرف مذہبی منافرت کے ہی ڈیرے لگے ہوئے ہیں۔ قائد اعظم کی خواہش پر اگر پاکستان کا آئین سیکولر بنا دیا جاتا تو تب بھی موجودہ حالات ہمسایہ ممالک سے زیادہ مختلف نہ ہوتے۔مجھے تو قیامت تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے کہ ریاست مذہب سے 'فیض' پائے بغیر چل بھی سکے۔
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ مذہب کے بغیر ہم سانس نہ لے پائیں گے۔بھارت اور بنگلہ دیش کا آئین کاغذ پر سیکولر ہے البتہ عملا وہاں بھی ہر طرف مذہبی منافرت کے ہی ڈیرے لگے ہوئے ہیں۔ قائد اعظم کی خواہش پر اگر پاکستان کا آئین سیکولر بنا دیا جاتا تو تب بھی موجودہ حالات ہمسایہ ممالک سے زیادہ مختلف نہ ہوتے۔
انفرادی حیثیت میں انتہائی کٹر مذہبی ہونا بھی کوئی بری بات نہیں۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں ملک کا دستور، قانون یا حکومت مذہبی لبادہ اوڑھ لے اور یوں مذہبی طبقہ کی نوکری چاکری شروع کر دے۔ جب تک ریاست اپنے مذہبی و غیر مذہبی شہریوں کو ایک جیسی نگاہ سے نہیں دیکھے گی تب تک مذہبی آزادی کا حصول بھی ممکن نہیں ہے۔ توہین مذہب کا قانون بھی وہیں لانا پڑتا ہے جہاں ریاست ایک مخصوص مذہبی ٹولہ کی یرغمال ہو۔مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ مذہب کے بغیر ہم سانس نہ لے پائیں گے۔
بالکل یہی نقطہ تو اہم کردار ادا کرتا ہے کہ کوئی ریاست کس مقصد سے وجود میں آئی یا وہاں کے افراد کے ذہنوں میں کیا نقش ہے کہ کس مقصد سے وجود میں آئی اور یہی نقش و تصور قوموں کے عروج و زوال طے کرتا ہے۔ ہم راستہ الف پہ چل کر منزل ب پہ کبھی نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی ہمیں اس کی توقع کرنی چاہیے۔ اگر ملک میں جمہوری نظام رائج کیا گیا تھا تو یہ ضروری تھا کہ جمہوریت کی جزیات بھی وہی ہوں جو جمہوریت تقاضا کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ریاستی ڈھانچہ ایک جگہ سے اٹھائیں اور اس کے بنیادی جزیات کسی اور جگہ سے مثلا کہ نظام جمہوری ہو اور شہریت و قومیت مذہبی ہو۔ اگر نظام جمہوری ہے تو ملک کے معاملات جمہور طے کرے گی نہ کہ محض مذہبی لوگ اور جمہور میں شہریت و قومیت کے تصور میں محض مذہب شامل نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو جمہوری ریاست کبھی غیر جانبدار ہی نہیں رہے گی اور ایک خاص مذہب کے ماننے والے شہری کو دوسرے پہ بلا وجہ فوقیت حاصل ہو گی۔کوئی ریاست کس مقصد سے وجود میں آئی ہے، یہ بات بھی تو پیش نظر رکھنی پڑتی ہے۔ قومیت کا جدید تصور بعینہ یہاں پر فٹ کرنا مجھے مشکل لگتا ہے کہ اس ریاست کی تشکیل میں مذہب کا عنصر بھی بہرصورت شامل رہا ہے یا رفتہ رفتہ یہ بات راسخ کر دی گئی ہے اور نسل در نسل یہ بات گویا ہمارے اجتماعی لاشعور میں سرایت کر گئی ہے۔ فی زمانہ، ایسی ریاستیں چل پائیں یا خرابی کی طرف بڑھ جائیں، اس پر الگ سے بحث ممکن ہے۔ میرے خیال میں جناح نے یہ بات سکھانے کی کوشش کی تھی کہ جب پاکستان بن گیا تو اب یہاں رہنے والا ہر باشندہ پاکستانی ہے چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو، رنگ ہو یا ثقافتی شناخت ہو مگر ہم یہ سبق بھلا چکے ہیں۔ آپ کی بات سے اصولی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر برصغیر کے تناظر میں مذہب کی جو حیثیت ہے، مجھے تو قیامت تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے کہ ریاست مذہب سے 'فیض' پائے بغیر چل بھی سکے۔
ریاست پاکستان بنانے والوں سے بالکل یہی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ ملک کا نام اسلامی جمہوریہ رکھا گیا جو کہ اپنے آپ میں سب سے بڑا تضاد ہے۔ جمہوریہ جمہوریہ ہوتی ہے۔ اس میں کسی خاص مذہب کی اجارہ داری قائم نہیں کی جا سکتی۔ آج ۷۰ سال بعد اس زبردستی کے امتزاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان صحیح معنوں میں جمہوریہ بن سکا نہ اسلامی ریاست۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ریاستی ڈھانچہ ایک جگہ سے اٹھائیں اور اس کے بنیادی جزیات کسی اور جگہ سے مثلا کہ نظام جمہوری ہو اور شہریت و قومیت مذہبی ہو۔ اگر نظام جمہوری ہے تو ملک کے معاملات جمہور طے کرے گی نہ کہ محض مذہبی لوگ اور جمہور میں شہریت و قومیت کے تصور میں محض مذہب شامل نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو جمہوری ریاست کبھی غیر جانبدار ہی نہیں رہے گی اور ایک خاص مذہب کے ماننے والے شہری کو دوسرے پہ بلا وجہ فوقیت حاصل ہو گی۔
آپ کی بات میں اچھا خاصا نہیں، بہت زیادہ وزن ہے۔ بس اتنی سی بات ضرور ہے کہ محمد علی جناح روایتی سیاست دان نہیں تھے۔ کافی حد تک قصور کانگریس کا بھی تھا کہ جب انہیں بعض صوبوں میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے مسلمانوں کو قدرے خوف زدہ کر دیا تھا۔ بہرصورت، آپ کے مجموعی تبصرے سے مجھے اختلاف نہیں اور اس کے تاثر کو میں ادھر اُدھر کی باتیں کر کے زائل نہ کرنا چاہوں گا۔بالکل یہی نقطہ تو اہم کردار ادا کرتا ہے کہ کوئی ریاست کس مقصد سے وجود میں آئی یا وہاں کے افراد کے ذہنوں میں کیا نقش ہے کہ کس مقصد سے وجود میں آئی اور یہی نقش و تصور قوموں کے عروج و زوال طے کرتا ہے۔ ہم راستہ الف پہ چل کر منزل ب پہ کبھی نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی ہمیں اس کی توقع کرنی چاہیے۔ اگر ملک میں جمہوری نظام رائج کیا گیا تھا تو یہ ضروری تھا کہ جمہوریت کی جزیات بھی وہی ہوں جو جمہوریت تقاضا کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ریاستی ڈھانچہ ایک جگہ سے اٹھائیں اور اس کے بنیادی جزیات کسی اور جگہ سے مثلا کہ نظام جمہوری ہو اور شہریت و قومیت مذہبی ہو۔ اگر نظام جمہوری ہے تو ملک کے معاملات جمہور طے کرے گی نہ کہ محض مذہبی لوگ اور جمہور میں شہریت و قومیت کے تصور میں محض مذہب شامل نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو جمہوری ریاست کبھی غیر جانبدار ہی نہیں رہے گی اور ایک خاص مذہب کے ماننے والے شہری کو دوسرے پہ بلا وجہ فوقیت حاصل ہو گی۔
اگر قائد نے یہ ملک محض مذہب کی بنیاد پہ حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کا نفاذ ہو گا تو پھر اسی نظام کی تائید کرتے جو اس سے میل کھاتا ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ملک حاصل کرنے کے لیے ان کا نعرہ کچھ اور ہے اور ملک کے ریاستی ڈھانچے کے لیے خواہشات کچھ اور۔ قائد نے جن نظریات پہ ملک حاصل کرنے کی سعی کی، وہی نظریات ملک حاصل کرنے کے بعد بالکل الٹ ہو گئے۔ ملک حاصل کرنے سے پہلے ان کا نعرہ تھا کہ ہندوستان میں کئی قومیں آباد ہیں اس لیے اس کی تقسیم لازم ہے، ملک حاصل کرنے کے بعد ان کا نعرہ تھا پاکستان میں ہر شخص اپنی قوم بھلا کر خود کو محض پاکستانی تصور کرے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ملک محض اسلام کے نفاذ لیے حاصل کیا گیا تھا یا مسلمانوں کے ہندوؤں کے تسلط سے آزاد بنیادی حقوق کے لیے۔ قائد چونکہ ایک سیاستدان تھے اس لیے انہوں نے وہی کیا جو سیاستدان عمومی طور پر کرتے ہیں۔ مذہبی لوگوں کو یہ لالچ دیا گیا کہ ملک اسلام کے نفاذ کے لیے حاصل کر رہے ہیں اس لیے ہمارا ساتھ دو، تاجروں کو اس خوف کا احساس دلایا گیا کہ وہ الگ ملک میں ہندوؤں کے تسلط اور اجارہ داری سے آزاد ہونگے، الغرض ہر طبقے کو ان کے مفاد کے مطابق راضی کیا گیا اور انگریزوں کے سامنے ہندو مسلم تفریق کو بنیاد بنایا گیا۔
ریاست پاکستان اگر اسلام یا مسلمانان ہند کے نام پر بھی حاصل کی گئی تھی تو بانیان کا یہ فرض بنتا تھا کہ یہاں کے شہریوں کو ایک پاکستانی قوم بنا کر جاتے۔ وہ تو الٹا یہاں تقسیم در تقسیم کر کے چلے گئے۔ جیسے قائد اعظم نے مشرقی پاکستان میں دورہ کے دوران اعلان کیا کہ پورے ملک کی قومی زبان اردو ہوگی حالانکہ اکثریت بنگالی بولنے والوں کی تھی۔ یہیں سے بنگالی قوم پرستوں کی ابتدا ہوئی جو سقوط ڈھاکہ پہ جا کر ختم ہوئی۔اگر قائد نے یہ ملک محض مذہب کی بنیاد پہ حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کا نفاذ ہو گا تو پھر اسی نظام کی تائید کرتے جو اس سے میل کھاتا ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ملک حاصل کرنے کے لیے ان کا نعرہ کچھ اور ہے اور ملک کے ریاستی ڈھانچے کے لیے خواہشات کچھ اور۔ قائد نے جن نظریات پہ ملک حاصل کرنے کی سعی کی، وہی نظریات ملک حاصل کرنے کے بعد بالکل الٹ ہو گئے۔ ملک حاصل کرنے سے پہلے ان کا نعرہ تھا کہ ہندوستان میں کئی قومیں آباد ہیں اس لیے اس کی تقسیم لازم ہے، ملک حاصل کرنے کے بعد ان کا نعرہ تھا پاکستان میں ہر شخص اپنی قوم بھلا کر خود کو محض پاکستانی تصور کرے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ملک محض اسلام کے نفاذ لیے حاصل کیا گیا تھا یا مسلمانوں کے ہندوؤں کے تسلط سے آزاد بنیادی حقوق کے لیے۔ قائد چونکہ ایک سیاستدان تھے اس لیے انہوں نے وہی کیا جو سیاستدان عمومی طور پر کرتے ہیں۔ مذہبی لوگوں کو یہ لالچ دیا گیا کہ ملک اسلام کے نفاذ کے لیے حاصل کر رہے ہیں اس لیے ہمارا ساتھ دو، تاجروں کو اس خوف کا احساس دلایا گیا کہ وہ الگ ملک میں ہندوؤں کے تسلط اور اجارہ داری سے آزاد ہونگے، الغرض ہر طبقے کو ان کے مفاد کے مطابق راضی کیا گیا اور انگریزوں کے سامنے ہندو مسلم تفریق کو بنیاد بنایا گیا۔
قائد اعظم کی نیت پر شک نہیں البتہ کانگریس نے بھی تقسیم ہند میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ نہرو اور سردار پٹیل چاہتے تھے کہ برصغیر کے مسلمان تقسیم ہو جائیں اور یوں ہندو اکثریت کا متحد ہو کر مقابلہ نہ کر سکیں۔ جبکہ گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد مرتے دم تک برصغیر کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔کافی حد تک قصور کانگریس کا بھی تھا کہ جب انہیں بعض صوبوں میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے مسلمانوں کو قدرے خوف زدہ کر دیا تھا۔