مغرب ’ہولوکاسٹ‘ کی طرح توہین رسالت کرنے والوں پربھی پابندی لگائے، وزیراعظم

حسرت جاوید

محفلین
ریاستِ پاکستان کو بیرونی ریاست للکارے تو اس کا دھبڑ دھوس کر دیا جائے گا
کب کریں گے؟ فی الحال تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی ریاست پاکستان کو کوئی بیرونی ریاست للکارتی ہے تو ہم ریاست پاکستان کا ہی دھبڑ دھوس کر دیتے ہیں۔
 

علی وقار

محفلین
ریاست مضبوط کب ہوئی ہے؟ ریاست میں شروع سے ہی قومیت کا کوئی بنیادی مضبوط تصور نہ تھا، اسے زبردستی مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ روٹ لیول پہ لسانی اور ثقافتی بنیادوں پہ انتہا درجے کی تقسیم و تفریق اول دن سے موجود ہے۔ اس صورتحال میں ہر طبقہ دوسرے طبقے کے خلاف زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے چکر میں ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل پہ قبضہ کیا جا سکے۔ اب جبکہ قومیت کا تصور مذہب سے جوڑ دیا گیا تو ملک کے مضبوط ترین ادارے نے بھی اول دن سے اسے ایک آلے کے طور پر استعمال کر کے اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہوئی ہے۔ اگر آپ اس سارے منظر نامے کو باہر سے بیٹھ کر دیکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ خواہ کوئی جمہوری انقلابی ہو یا مذہب پرست، سندھی، پنجابی، بلوچی ہو یا مہاجر، ہر طبقہ وسائل پہ زیادہ سے زیادہ قبضے میں مگن ہے۔ ریاست وہاں مضبوط ہوتی ہے جہاں قومیت کا بنیادی تصور اس قدر مضبوط ہو کہ ریاست اور شہری کا مفاد یکجان ہو۔ موجودہ عالمی تناظر میں قومیت کے تصور میں محض مذہب کی بنیاد پر قومیت کی تعریف کرنا کافی نہیں کیونکہ مذہب چاہے انسان کی کتنی ہی بڑی ضرورت کیوں نہ ہو لوگوں کے پیٹ نہیں بھر سکتا، معاشرے سے مذہبی و غیر مذہبی طبقے میں اور جغرافیائی و علاقی تفریق ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا بلکہ تقسیم در تقسیم میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہر طبقہ مذہب کی تشریح اپنی معاشرت اور ضرورت کے حساب سے کرتا ہے اور اسی کو کامل سچائی تصور کرتا ہے۔ اب آپ مثالی طور پر چاہے یہ کہتے رہیں کہ کابل میں رہنے والا مسلمان اور یورپ میں رہنے مسلمان بھائی بھائی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جہاں جغرافیے کا اظہار ہو گا وہاں زبان و ثقافت کو ہمیشہ پہلا درجہ حاصل ہے اور یہ صدیوں سے یونہی چلا آیا ہے۔ زبان و ثقافت لوگوں میں اپنائیت کا احساس لاتی ہے، مذہب چاہے جتنی ہی زبردست جوڑنے والی طاقت ہو وہ زبان و ثقافت سے آگے نہیں نکل سکتی۔ یہ ریاست ایسے ہی رہنی ہے ہمیشہ، اس لیے اس پہ تنقید کرنا اور اس کو صحیح کرنے کی کوشش کرنا اپنا وقت برباد کرنے کے مترادف ہے۔
یہ ریاست وہ ریاست ہے جہاں اکثریت کام نہیں کرنا چاہتی لیکن آسائشیں ساری لینا چاہتی ہے، اس لیے ہر طبقہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی بجائے وسائل پہ قبضے کی جد و جہد میں مصروف ہے اور مذہب کی خاطر کسی شارٹ کٹ راستے سے جنت کے حصول کا ہمیشہ سے خواہش مند ہے حالانکہ جنت کا حصول بھی محنت مانگتا ہے۔ یہ وہ نقصان ہوتا ہے جب آپ شہریت میں میرٹ کو محنت سے نہیں بلکہ مذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ریاست میں ہمہ وقت یہ تناؤ موجود رہتا ہے کہ اب ہندو کیوں اوپر آ گیا ہے یہ ہمارے عقائد خراب کرے گا، اب قادیانی کیوں اوپر آ گیا ہے یہ ہمارے لوگوں کو گمراہ کرے گا یعنی اس ریاست میں شہریت کا درجہ صرف مسلمان کو حاصل ہے باقیوں کو ہم یہاں رہنے دے رہے ہیں وہی کافی ہے۔ اب مختصراً صورت حال یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھیک پہ ساری آسائشیں بھی حاصل کریں اور اس پر فخر بھی کریں اور بھیک دینے والا ہمارا ادب و احترام بھی کرے حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں عزت صرف اپنے زور بازو پہ خود کو کھڑا کے حاصل کی جا سکتی ہے نہ کہ بیساکھی کے سہارے۔
آپ کی بات میں اچھا خاصا وزن ہے۔ ویسے ریاست جس بنیاد پر بھی قائم ہو اس کی مضبوط رٹ ہی وہاں رہنے والوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے اور اگر یوں محسوس ہونے لگ جائے کہ ریاست کمزور ہو چکی ہے اور ہر دوسرے تیسرے سال اس کو فتح کرنے کے لیے جتھے اور لشکر میدان میں اترتے ہیں اور ریاستی ادارے ان کے سامنے ہاتھ پاؤں جوڑ دیتے ہیں تو خاموش رہا نہیں جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین

حسرت جاوید

محفلین
ویسے ریاست جس بنیاد پر بھی قائم ہو اس کی مضبوط رٹ ہی وہاں رہنے والوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے
جمہوری ریاست افراد کی ترجمان ہوتی ہے اور اس کی مضبوط رٹ اسی صورت قائم ہو سکتی ہے جب ریاست کا مفاد افراد کے مفاد سے میل کھاتا ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب افراد کے ذہنوں میں موجودہ عالمی تناظر میں قومیت کا جدید تصور موجود ہو۔ جب آپ قوم کو مذہب سے جوڑتے ہیں تو پھر اس طرح کے مذہبی جتھوں کے سامنے ریاستی رٹ کبھی قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں مذہبی طبقہ یہ دعوی کرتا ہے کہ ریاست کا شہری ٖصرف وہی ہے اور ریاست اس کے مفادات کی صحیح نمائندگی نہیں کر رہی۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ رہے ہونگے۔ رٹ قائم کرنے کا دوسرا طریقہ پھر آمریت و بادشاہت ہی ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ریاست مضبوط کب ہوئی ہے؟ ریاست میں شروع سے ہی قومیت کا کوئی بنیادی مضبوط تصور نہ تھا، اسے زبردستی مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ روٹ لیول پہ لسانی اور ثقافتی بنیادوں پہ انتہا درجے کی تقسیم و تفریق اول دن سے موجود ہے۔ اس صورتحال میں ہر طبقہ دوسرے طبقے کے خلاف زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے چکر میں ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل پہ قبضہ کیا جا سکے۔ اب جبکہ قومیت کا تصور مذہب سے جوڑ دیا گیا تو ملک کے مضبوط ترین ادارے نے بھی اول دن سے اسے ایک آلے کے طور پر استعمال کر کے اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہوئی ہے۔ اگر آپ اس سارے منظر نامے کو باہر سے بیٹھ کر دیکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ خواہ کوئی جمہوری انقلابی ہو یا مذہب پرست، سندھی، پنجابی، بلوچی ہو یا مہاجر، ہر طبقہ وسائل پہ زیادہ سے زیادہ قبضے میں مگن ہے۔ ریاست وہاں مضبوط ہوتی ہے جہاں قومیت کا بنیادی تصور اس قدر مضبوط ہو کہ ریاست اور شہری کا مفاد یکجان ہو۔ موجودہ عالمی تناظر میں قومیت کے تصور میں محض مذہب کی بنیاد پر قومیت کی تعریف کرنا کافی نہیں کیونکہ مذہب چاہے انسان کی کتنی ہی بڑی ضرورت کیوں نہ ہو لوگوں کے پیٹ نہیں بھر سکتا، معاشرے سے مذہبی و غیر مذہبی طبقے میں اور جغرافیائی و علاقی تفریق ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا بلکہ تقسیم در تقسیم میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے کیونکہ ہر طبقہ مذہب کی تشریح اپنی معاشرت اور ضرورت کے حساب سے کرتا ہے اور اسی کو کامل سچائی تصور کرتا ہے۔ اب آپ مثالی طور پر چاہے یہ کہتے رہیں کہ کابل میں رہنے والا مسلمان اور یورپ میں رہنے مسلمان بھائی بھائی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جہاں جغرافیے کا اظہار ہو گا وہاں زبان و ثقافت کو ہمیشہ پہلا درجہ حاصل ہے اور یہ صدیوں سے یونہی چلا آیا ہے۔ زبان و ثقافت لوگوں میں اپنائیت کا احساس لاتی ہے، مذہب چاہے جتنی ہی زبردست جوڑنے والی طاقت ہو وہ زبان و ثقافت سے آگے نہیں نکل سکتی۔ یہ ریاست ایسے ہی رہنی ہے ہمیشہ، اس لیے اس پہ تنقید کرنا اور اس کو صحیح کرنے کی کوشش کرنا اپنا وقت برباد کرنے کے مترادف ہے۔
یہ ریاست وہ ریاست ہے جہاں اکثریت کام نہیں کرنا چاہتی لیکن آسائشیں ساری لینا چاہتی ہے، اس لیے ہر طبقہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی بجائے وسائل پہ قبضے کی جد و جہد میں مصروف ہے اور مذہب کی خاطر کسی شارٹ کٹ راستے سے جنت کے حصول کا ہمیشہ سے خواہش مند ہے حالانکہ جنت کا حصول بھی محنت مانگتا ہے۔ یہ وہ نقصان ہوتا ہے جب آپ شہریت میں میرٹ کو محنت سے نہیں بلکہ مذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ریاست میں ہمہ وقت یہ تناؤ موجود رہتا ہے کہ اب ہندو کیوں اوپر آ گیا ہے یہ ہمارے عقائد خراب کرے گا، اب قادیانی کیوں اوپر آ گیا ہے یہ ہمارے لوگوں کو گمراہ کرے گا یعنی اس ریاست میں شہریت کا درجہ صرف مسلمان کو حاصل ہے باقیوں کو ہم یہاں رہنے دے رہے ہیں وہی کافی ہے۔ اب مختصراً صورت حال یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھیک پہ ساری آسائشیں بھی حاصل کریں اور اس پر فخر بھی کریں اور بھیک دینے والا ہمارا ادب و احترام بھی کرے حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں عزت صرف اپنے زور بازو پہ خود کو کھڑا کے حاصل کی جا سکتی ہے نہ کہ بیساکھی کے سہارے۔
سال کا بہترین تجزیہ۔ شاباش! :lovestruck:
 

جاسم محمد

محفلین
اب مختصراً صورت حال یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھیک پہ ساری آسائشیں بھی حاصل کریں اور اس پر فخر بھی کریں اور بھیک دینے والا ہمارا ادب و احترام بھی کرے حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں عزت صرف اپنے زور بازو پہ خود کو کھڑا کے حاصل کی جا سکتی ہے نہ کہ بیساکھی کے سہارے۔
آئی ایم ایف سے ۲۲ بار بھیک مانگنے کے بعد بھی قوم ایسے اکڑتی ہے جیسے پاکستان آئی ایم ایف کو قرضہ دے رہا ہو! :)
 

علی وقار

محفلین
جمہوری ریاست افراد کی ترجمان ہوتی ہے اور اس کی مضبوط رٹ اسی صورت قائم ہو سکتی ہے جب ریاست کا مفاد افراد کے مفاد سے میل کھاتا ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب افراد کے ذہنوں میں موجودہ عالمی تناظر میں قومیت کا صحیح تصور موجود ہو۔ جب آپ قوم کو مذہب سے جوڑتے ہیں تو پھر اس طرح کے مذہبی جتھوں کے سامنے ریاستی رٹ کبھی قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں مذہبی طبقہ یہ دعوی کرتا ہے کہ ریاست کا شہری ٖصرف وہی ہے اور ریاست اس کی صحیح نمائندگی نہیں کر رہی۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ رہے ہونگے۔ رٹ قائم کرنے کا دوسرا طریقہ پھر آمریت و بادشاہت ہی ہے۔
کوئی ریاست کس مقصد سے وجود میں آئی ہے، یہ بات بھی تو پیش نظر رکھنی پڑتی ہے۔ قومیت کا جدید تصور بعینہ یہاں پر فٹ کرنا مجھے مشکل لگتا ہے کہ اس ریاست کی تشکیل میں مذہب کا عنصر بھی بہرصورت شامل رہا ہے یا رفتہ رفتہ یہ بات راسخ کر دی گئی ہے اور نسل در نسل یہ بات گویا ہمارے اجتماعی لاشعور میں سرایت کر گئی ہے۔ فی زمانہ، ایسی ریاستیں چل پائیں یا خرابی کی طرف بڑھ جائیں، اس پر الگ سے بحث ممکن ہے۔ میرے خیال میں جناح نے یہ بات سکھانے کی کوشش کی تھی کہ جب پاکستان بن گیا تو اب یہاں رہنے والا ہر باشندہ پاکستانی ہے چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو، رنگ ہو یا ثقافتی شناخت ہو مگر ہم یہ سبق بھلا چکے ہیں۔ آپ کی بات سے اصولی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر برصغیر کے تناظر میں مذہب کی جو حیثیت ہے، مجھے تو قیامت تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے کہ ریاست مذہب سے 'فیض' پائے بغیر چل بھی سکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کی بات میں اچھا خاصا وزن ہے۔ ویسے ریاست جس بنیاد پر بھی قائم ہو اس کی مضبوط رٹ ہی وہاں رہنے والوں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے اور اگر یوں محسوس ہونے لگ جائے کہ ریاست کمزور ہو چکی ہے اور ہر دوسرے تیسرے سال اس کو فتح کرنے کے لیے جتھے اور لشکر میدان میں اترتے ہیں اور ریاستی ادارے ان کے سامنے ہاتھ پاؤں جوڑ دیتے ہیں تو خاموش رہا نہیں جاتا ہے۔
کل ایک صحافی نیب کیسز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد لکھتا ہے کہ ریاست پاکستان احتساب کا ایک اصول اپنا چکی ہے: طاقتور کو چھیڑو نہیں، کمزور کو چھوڑو نہیں! :)
 

علی وقار

محفلین
کل ایک صحافی نیب کیسز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد لکھتا ہے کہ ریاست پاکستان احتساب کا ایک اصول اپنا چکی ہے: طاقتور کو چھیڑو نہیں، کمزور کو چھوڑو نہیں! :)
ریاست سے مراد اگر پنڈی بوائز کا ٹولہ ہے تو ان کا یہ ازلی دستور ہے۔ کمزور سے ڈرو نہیں، طاقتور سے لڑو نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مجھے تو قیامت تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے کہ ریاست مذہب سے 'فیض' پائے بغیر چل بھی سکے۔
بھارت اور بنگلہ دیش کا آئین کاغذ پر سیکولر ہے البتہ عملا وہاں بھی ہر طرف مذہبی منافرت کے ہی ڈیرے لگے ہوئے ہیں۔ قائد اعظم کی خواہش پر اگر پاکستان کا آئین سیکولر بنا دیا جاتا تو تب بھی موجودہ حالات ہمسایہ ممالک سے زیادہ مختلف نہ ہوتے۔
 

علی وقار

محفلین
بھارت اور بنگلہ دیش کا آئین کاغذ پر سیکولر ہے البتہ عملا وہاں بھی ہر طرف مذہبی منافرت کے ہی ڈیرے لگے ہوئے ہیں۔ قائد اعظم کی خواہش پر اگر پاکستان کا آئین سیکولر بنا دیا جاتا تو تب بھی موجودہ حالات ہمسایہ ممالک سے زیادہ مختلف نہ ہوتے۔
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ مذہب کے بغیر ہم سانس نہ لے پائیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ مذہب کے بغیر ہم سانس نہ لے پائیں گے۔
انفرادی حیثیت میں انتہائی کٹر مذہبی ہونا بھی کوئی بری بات نہیں۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں ملک کا دستور، قانون یا حکومت مذہبی لبادہ اوڑھ لے اور یوں مذہبی طبقہ کی نوکری چاکری شروع کر دے۔ جب تک ریاست اپنے مذہبی و غیر مذہبی شہریوں کو ایک جیسی نگاہ سے نہیں دیکھے گی تب تک مذہبی آزادی کا حصول بھی ممکن نہیں ہے۔ توہین مذہب کا قانون بھی وہیں لانا پڑتا ہے جہاں ریاست ایک مخصوص مذہبی ٹولہ کی یرغمال ہو۔
 

حسرت جاوید

محفلین
کوئی ریاست کس مقصد سے وجود میں آئی ہے، یہ بات بھی تو پیش نظر رکھنی پڑتی ہے۔ قومیت کا جدید تصور بعینہ یہاں پر فٹ کرنا مجھے مشکل لگتا ہے کہ اس ریاست کی تشکیل میں مذہب کا عنصر بھی بہرصورت شامل رہا ہے یا رفتہ رفتہ یہ بات راسخ کر دی گئی ہے اور نسل در نسل یہ بات گویا ہمارے اجتماعی لاشعور میں سرایت کر گئی ہے۔ فی زمانہ، ایسی ریاستیں چل پائیں یا خرابی کی طرف بڑھ جائیں، اس پر الگ سے بحث ممکن ہے۔ میرے خیال میں جناح نے یہ بات سکھانے کی کوشش کی تھی کہ جب پاکستان بن گیا تو اب یہاں رہنے والا ہر باشندہ پاکستانی ہے چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو، رنگ ہو یا ثقافتی شناخت ہو مگر ہم یہ سبق بھلا چکے ہیں۔ آپ کی بات سے اصولی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر برصغیر کے تناظر میں مذہب کی جو حیثیت ہے، مجھے تو قیامت تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے کہ ریاست مذہب سے 'فیض' پائے بغیر چل بھی سکے۔
بالکل یہی نقطہ تو اہم کردار ادا کرتا ہے کہ کوئی ریاست کس مقصد سے وجود میں آئی یا وہاں کے افراد کے ذہنوں میں کیا نقش ہے کہ کس مقصد سے وجود میں آئی اور یہی نقش و تصور قوموں کے عروج و زوال طے کرتا ہے۔ ہم راستہ الف پہ چل کر منزل ب پہ کبھی نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی ہمیں اس کی توقع کرنی چاہیے۔ اگر ملک میں جمہوری نظام رائج کیا گیا تھا تو یہ ضروری تھا کہ جمہوریت کی جزیات بھی وہی ہوں جو جمہوریت تقاضا کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ریاستی ڈھانچہ ایک جگہ سے اٹھائیں اور اس کے بنیادی جزیات کسی اور جگہ سے مثلا کہ نظام جمہوری ہو اور شہریت و قومیت مذہبی ہو۔ اگر نظام جمہوری ہے تو ملک کے معاملات جمہور طے کرے گی نہ کہ محض مذہبی لوگ اور جمہور میں شہریت و قومیت کے تصور میں محض مذہب شامل نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو جمہوری ریاست کبھی غیر جانبدار ہی نہیں رہے گی اور ایک خاص مذہب کے ماننے والے شہری کو دوسرے پہ بلا وجہ فوقیت حاصل ہو گی۔
اگر قائد نے یہ ملک محض مذہب کی بنیاد پہ حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کا نفاذ ہو گا تو پھر اسی نظام کی تائید کرتے جو اس سے میل کھاتا ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ملک حاصل کرنے کے لیے ان کا نعرہ کچھ اور ہے اور ملک کے ریاستی ڈھانچے کے لیے خواہشات کچھ اور۔ قائد نے جن نظریات پہ ملک حاصل کرنے کی سعی کی، وہی نظریات ملک حاصل کرنے کے بعد بالکل الٹ ہو گئے۔ ملک حاصل کرنے سے پہلے ان کا نعرہ تھا کہ ہندوستان میں کئی قومیں آباد ہیں اس لیے اس کی تقسیم لازم ہے، ملک حاصل کرنے کے بعد ان کا نعرہ تھا پاکستان میں ہر شخص اپنی قوم بھلا کر خود کو محض پاکستانی تصور کرے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ملک محض اسلام کے نفاذ لیے حاصل کیا گیا تھا یا مسلمانوں کے ہندوؤں کے تسلط سے آزاد بنیادی حقوق کے لیے۔ قائد چونکہ ایک سیاستدان تھے اس لیے انہوں نے وہی کیا جو سیاستدان عمومی طور پر کرتے ہیں۔ مذہبی لوگوں کو یہ لالچ دیا گیا کہ ملک اسلام کے نفاذ کے لیے حاصل کر رہے ہیں اس لیے ہمارا ساتھ دو، تاجروں کو اس خوف کا احساس دلایا گیا کہ وہ الگ ملک میں ہندوؤں کے تسلط اور اجارہ داری سے آزاد ہونگے، الغرض ہر طبقے کو ان کے مفاد کے مطابق راضی کیا گیا اور انگریزوں کے سامنے ہندو مسلم تفریق کو بنیاد بنایا گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ریاستی ڈھانچہ ایک جگہ سے اٹھائیں اور اس کے بنیادی جزیات کسی اور جگہ سے مثلا کہ نظام جمہوری ہو اور شہریت و قومیت مذہبی ہو۔ اگر نظام جمہوری ہے تو ملک کے معاملات جمہور طے کرے گی نہ کہ محض مذہبی لوگ اور جمہور میں شہریت و قومیت کے تصور میں محض مذہب شامل نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو جمہوری ریاست کبھی غیر جانبدار ہی نہیں رہے گی اور ایک خاص مذہب کے ماننے والے شہری کو دوسرے پہ بلا وجہ فوقیت حاصل ہو گی۔
ریاست پاکستان بنانے والوں سے بالکل یہی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ ملک کا نام اسلامی جمہوریہ رکھا گیا جو کہ اپنے آپ میں سب سے بڑا تضاد ہے۔ جمہوریہ جمہوریہ ہوتی ہے۔ اس میں کسی خاص مذہب کی اجارہ داری قائم نہیں کی جا سکتی۔ آج ۷۰ سال بعد اس زبردستی کے امتزاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان صحیح معنوں میں جمہوریہ بن سکا نہ اسلامی ریاست۔
 

علی وقار

محفلین
بالکل یہی نقطہ تو اہم کردار ادا کرتا ہے کہ کوئی ریاست کس مقصد سے وجود میں آئی یا وہاں کے افراد کے ذہنوں میں کیا نقش ہے کہ کس مقصد سے وجود میں آئی اور یہی نقش و تصور قوموں کے عروج و زوال طے کرتا ہے۔ ہم راستہ الف پہ چل کر منزل ب پہ کبھی نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی ہمیں اس کی توقع کرنی چاہیے۔ اگر ملک میں جمہوری نظام رائج کیا گیا تھا تو یہ ضروری تھا کہ جمہوریت کی جزیات بھی وہی ہوں جو جمہوریت تقاضا کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ریاستی ڈھانچہ ایک جگہ سے اٹھائیں اور اس کے بنیادی جزیات کسی اور جگہ سے مثلا کہ نظام جمہوری ہو اور شہریت و قومیت مذہبی ہو۔ اگر نظام جمہوری ہے تو ملک کے معاملات جمہور طے کرے گی نہ کہ محض مذہبی لوگ اور جمہور میں شہریت و قومیت کے تصور میں محض مذہب شامل نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو جمہوری ریاست کبھی غیر جانبدار ہی نہیں رہے گی اور ایک خاص مذہب کے ماننے والے شہری کو دوسرے پہ بلا وجہ فوقیت حاصل ہو گی۔
اگر قائد نے یہ ملک محض مذہب کی بنیاد پہ حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کا نفاذ ہو گا تو پھر اسی نظام کی تائید کرتے جو اس سے میل کھاتا ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ملک حاصل کرنے کے لیے ان کا نعرہ کچھ اور ہے اور ملک کے ریاستی ڈھانچے کے لیے خواہشات کچھ اور۔ قائد نے جن نظریات پہ ملک حاصل کرنے کی سعی کی، وہی نظریات ملک حاصل کرنے کے بعد بالکل الٹ ہو گئے۔ ملک حاصل کرنے سے پہلے ان کا نعرہ تھا کہ ہندوستان میں کئی قومیں آباد ہیں اس لیے اس کی تقسیم لازم ہے، ملک حاصل کرنے کے بعد ان کا نعرہ تھا پاکستان میں ہر شخص اپنی قوم بھلا کر خود کو محض پاکستانی تصور کرے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ملک محض اسلام کے نفاذ لیے حاصل کیا گیا تھا یا مسلمانوں کے ہندوؤں کے تسلط سے آزاد بنیادی حقوق کے لیے۔ قائد چونکہ ایک سیاستدان تھے اس لیے انہوں نے وہی کیا جو سیاستدان عمومی طور پر کرتے ہیں۔ مذہبی لوگوں کو یہ لالچ دیا گیا کہ ملک اسلام کے نفاذ کے لیے حاصل کر رہے ہیں اس لیے ہمارا ساتھ دو، تاجروں کو اس خوف کا احساس دلایا گیا کہ وہ الگ ملک میں ہندوؤں کے تسلط اور اجارہ داری سے آزاد ہونگے، الغرض ہر طبقے کو ان کے مفاد کے مطابق راضی کیا گیا اور انگریزوں کے سامنے ہندو مسلم تفریق کو بنیاد بنایا گیا۔
آپ کی بات میں اچھا خاصا نہیں، بہت زیادہ وزن ہے۔ بس اتنی سی بات ضرور ہے کہ محمد علی جناح روایتی سیاست دان نہیں تھے۔ کافی حد تک قصور کانگریس کا بھی تھا کہ جب انہیں بعض صوبوں میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے مسلمانوں کو قدرے خوف زدہ کر دیا تھا۔ بہرصورت، آپ کے مجموعی تبصرے سے مجھے اختلاف نہیں اور اس کے تاثر کو میں ادھر اُدھر کی باتیں کر کے زائل نہ کرنا چاہوں گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر قائد نے یہ ملک محض مذہب کی بنیاد پہ حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کا نفاذ ہو گا تو پھر اسی نظام کی تائید کرتے جو اس سے میل کھاتا ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ملک حاصل کرنے کے لیے ان کا نعرہ کچھ اور ہے اور ملک کے ریاستی ڈھانچے کے لیے خواہشات کچھ اور۔ قائد نے جن نظریات پہ ملک حاصل کرنے کی سعی کی، وہی نظریات ملک حاصل کرنے کے بعد بالکل الٹ ہو گئے۔ ملک حاصل کرنے سے پہلے ان کا نعرہ تھا کہ ہندوستان میں کئی قومیں آباد ہیں اس لیے اس کی تقسیم لازم ہے، ملک حاصل کرنے کے بعد ان کا نعرہ تھا پاکستان میں ہر شخص اپنی قوم بھلا کر خود کو محض پاکستانی تصور کرے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ملک محض اسلام کے نفاذ لیے حاصل کیا گیا تھا یا مسلمانوں کے ہندوؤں کے تسلط سے آزاد بنیادی حقوق کے لیے۔ قائد چونکہ ایک سیاستدان تھے اس لیے انہوں نے وہی کیا جو سیاستدان عمومی طور پر کرتے ہیں۔ مذہبی لوگوں کو یہ لالچ دیا گیا کہ ملک اسلام کے نفاذ کے لیے حاصل کر رہے ہیں اس لیے ہمارا ساتھ دو، تاجروں کو اس خوف کا احساس دلایا گیا کہ وہ الگ ملک میں ہندوؤں کے تسلط اور اجارہ داری سے آزاد ہونگے، الغرض ہر طبقے کو ان کے مفاد کے مطابق راضی کیا گیا اور انگریزوں کے سامنے ہندو مسلم تفریق کو بنیاد بنایا گیا۔
ریاست پاکستان اگر اسلام یا مسلمانان ہند کے نام پر بھی حاصل کی گئی تھی تو بانیان کا یہ فرض بنتا تھا کہ یہاں کے شہریوں کو ایک پاکستانی قوم بنا کر جاتے۔ وہ تو الٹا یہاں تقسیم در تقسیم کر کے چلے گئے۔ جیسے قائد اعظم نے مشرقی پاکستان میں دورہ کے دوران اعلان کیا کہ پورے ملک کی قومی زبان اردو ہوگی حالانکہ اکثریت بنگالی بولنے والوں کی تھی۔ یہیں سے بنگالی قوم پرستوں کی ابتدا ہوئی جو سقوط ڈھاکہ پہ جا کر ختم ہوئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کافی حد تک قصور کانگریس کا بھی تھا کہ جب انہیں بعض صوبوں میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے مسلمانوں کو قدرے خوف زدہ کر دیا تھا۔
قائد اعظم کی نیت پر شک نہیں البتہ کانگریس نے بھی تقسیم ہند میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ نہرو اور سردار پٹیل چاہتے تھے کہ برصغیر کے مسلمان تقسیم ہو جائیں اور یوں ہندو اکثریت کا متحد ہو کر مقابلہ نہ کر سکیں۔ جبکہ گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد مرتے دم تک برصغیر کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مغرب، 'مشرق‘ کے بارے میں ایک رائے رکھتا ہے۔ اس رائے نے ایک شعبہ علم، 'مطالعہ شرق‘ (Orientalism) کی بنیاد رکھی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب 'اورینٹلزم‘ میں اس علم کی اساسات کو واضح کیا ہے۔ 1978ء میں پہلی بار شائع ہونے والی یہ کتاب سماجی علوم میں کلاسک کادرجہ رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ کس طرح یہ مطالعہ نوآبادیاتی سوچ اورغلبے کی نفسیات کے زیرِاثر وجود میں آیا ہے۔
ایڈورڈ سعید نے واضح کیاکہ مطالعہ شرق ایک سادہ علمی معاملہ نہیں ہے۔ یہ علوم و فنون، اداروں، اندازِ نظر اور اسلوبِ تحقیق کا ایک مجموعہ ہے جو علم (knowledge) اور طاقت (Power) کے باہمی تعلق کو بیان کررہا ہے۔ اس تعلق نے مغرب میں ایک علمی روایت کو جنم دیا جس کے زیرِاثر مشرق کا ایک تصور پیدا ہوااور اس نے اس سامراجی غلبے کو مستحکم کرنے میں ایک کردار ادا کیا جو یورپ کو مشرقی ممالک پر حاصل ہوگیا تھا۔ اس مطالعے کے نتیجے میں ایک 'خیالی جغرافیہ‘ (imaginative geography) وجود میں آیا اوراس طرح دنیا دو حصوں میں منقسم کردی گئی: یورپ اور 'دیگر‘ (other)۔ یورپ نے خود کو تہذیب کی علامت قرار دیتے ہوئے اس 'دیگر‘ کا مطالعہ کیا اور اس کے علم، تہذیب، فنون اور روایت کے بارے میں حکم لگایا‘ یوں مشرق کو کم تر سمجھتے ہوئے، اسے مغربی تہذیب کی سطح پر لانے یا بالفاطِ دیگر، مہذب بنانے کواپنے سیاسی اہداف میں شامل کر لیا۔
یہ مطالعۂ شرق انیسویں صدی میں یورپ میں شروع ہوا جسے برطانیہ اور فرانس جیسی سامراجی قوتوں نے اپنے نوآبادیاتی عزائم کی تکمیل کیلئے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ جدید دور میں یہ امریکہ کی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جسے سامراجی تسلط کے لیے اپنالیا گیاہے۔ یوں یورپ اور امریکہ، اس باب میں ہمنوا اورایک ہی تہذیب کے نمائندہ ہیں۔
اورینٹلزم کو معیار ماننے کا مطلب یہ ہے کہ مشرق کی وہی تعبیر معتبر ہوگی جو مغرب کے علمی مراکز میں کی جائے گی۔ اسلام کیا ہے؟ اس کا جواب وہاں سے ملے گا۔ یہ مسلمان نہیں بتائیں گے۔ چینی تہذیب کیا ہے؟ یہ مغرب کے اہلِ علم طے کریں گے۔ اب اس علم اور طاقت کا باہمی تعلق کس طرح وجود میں آتا ہے، اسے برطانیہ کے وزیراعظم آرتھربالفور کی ایک تقریرسے سمجھا جا سکتا۔ 1910ء میں، جب برطانیہ نے مصر پر قبضے کا فیصلہ کیا تو بالفور نے کہا تھا ''برطانیہ مصرکو جانتا ہے اوراب مصروہی ہے جو برطانیہ جانتا ہے۔ برطانیہ جانتا ہے کہ مصرمیں اپنی حکومت بنانے کی صلاحیت نہیں۔ اس پربرطانیہ کا قبضہ اس بات کی تصدیق کررہا ہے۔ اہلِ مصر کیلئے (اب) مصراس ریاست کا نام ہے جس پربرطانیہ کا قبضہ اور حکومت قائم ہوچکی۔ 'غیرملکی تسلط‘ اس لیے معاصر مصری تہذیب کی بنیادی اینٹ ہے‘‘۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ کم وبیش ایک سو سال بعد، 2003 ء میں جب امریکہ نے عراق پرقبضے کا فیصلہ کیاتو اسے 'آزادی آپریشن‘ قراردیا۔ گویا غیرملکی قبضہ اہلِ عراق کیلئے 'آزادی‘ ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ امریکہ طے کرے گاکہ اہلِ عراق کیلئے آزادی کیا ہے؟
ایڈورڈ سعید کے اس نقطہ نظر سے اختلاف بھی کیاگیا۔ مجھے ان کے تجزیے سے اتفاق ہے۔ سامراجی سوچ یہی ہوتی ہے اوریہ مغربی سامراج کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہرسامراج اپنی تہذیب کوغالب سمجھتا اوراس کی روشنی میں دیگر دنیا کو 'مہذب‘ بنانا چاہتا ہے۔ چونکہ اس کے پاس طاقت بھی ہوتی ہے، اس لیے وہ یہ کام قوت کے ساتھ کرنا چاہتا ہے۔ مغلوب قوتوں کی نفسیات منفعلانہ ہوتو یہ کام آسان ہوجاتا ہے۔ "(اپنی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے ترکوں کی طرح اکھڑ ہو جاو)"
 

الف نظامی

لائبریرین
قائدِ اعظم واضح طور پر اسلامی فِکر کے علمبردار تھے۔
(ڈاکٹر طاہرالقادری، لاہور، 24 دسمبر 2004)
 

الف نظامی

لائبریرین
*جنرل راحیل شریف سے ڈاکٹرطاھرالقادری کی ملاقات تبدیلی نظام کے لئے تھی جبکہ عمران خان کی ملاقات تبدیلی نظام نہیں تبدیلی اقتدار کے لئے تھی*
جسکا مزہ آج قوم اور مقتدر ادارے دونوں چکھ رہے ہیں
( *معروف دانشور پروفیسر ڈاکٹرسید محمد ہارون بخاری صاحب نے آخر اس ملاقات سے پردہ اٹھا دیا*)
2014 کے دھرنے میں وہ مقام بھی آیا جب ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقات ہوئی۔ دراصل اسی ملاقات کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے راستے بالکل جدا ہو گئے اور ڈاکٹر قادری آہستہ آہستہ دھرنے سے پیچھے ہٹنے لگے۔ ہمیں تو اس ملاقات کی تفصیل کا حال سے عرصہ سے معلوم تھا لیکن تب بیان کرتے تو یار لوگ مذاق اڑاتے لیکن اب شاید صحیح موقع ہے اس ملاقات کی تفصیل کو آشکار کرنے کا۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ملاقات 3 گھنٹے 20 منٹ پر مشتمل تھی۔ جنرل راحیل کے دریافت کرنے پر کہ آپ کا دھرنے کا ایجنڈہ کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے تبدیلیءِ نظام کا ایجنڈہ بیان کیا۔ جب متبادل نظام پر گفتگو کا آغاز ہوا تو جنرل نے اپنے باقی جنرلز کو بھی بلا لیا اور اپنے سیکرٹری کو بھی اور کہا کہ پوائنٹس کو نوٹ کرتا رہے۔ ڈاکٹر صاحب لگاتار 3 گھنٹے متبادل نظام اور اس کے نفاذ کے طریقوں پر بولتے رہے، جنرلز حیرانی سے سنتے رہے، یہ پہلا موقع تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنا ایجنڈہ ملک کی مقتدر قوتوں کے سامنے رکھنے کا موقع ملا تھا۔ جب ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ختم ہوئی تو انہیں بتایا گیا کہ عالمی قوتوں کے دباؤ کی وجہ سے فی الحال اس ایجنڈے کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ڈاکٹر صاحب کو یہ پیشکش کی گئی کہ ہمیں پتہ ہے کہ اصل دھرنا آپ کا ہے اور آپ کی وجہ سے ہی یہ ساری رونق لگی ہوئی ہے ، انہیں بتایا گیا کہ عوامی رنگ بنانا ہمارا کام ہے جس کے چاہیں حق میں بنا دیں جس کے چاہیں مخالف بنا دیں۔ ڈاکٹر صاحب کو پیشکش کی گئی ہم آپ کو سامنے لے آتے ہیں اقتدار پر لیکن کچھ شرائط کے ساتھ کہ کیبنٹ میں آدھے وزیر ہماری مرضی کے ہوں گے جس میں لال حویلی والے سمیت کئی اور ہوں گے، گجراتیوں سے اتحاد لازمی رکھنا ہو گا، خارجہ اور دفاعی امور میں دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، اور نظام یہی رہے گا ۔۔۔۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس کمپرومائزڈ اقتدار پر معذرت کر لی اور کہا کہ میرا ایجنڈا نظام کی تبدیلی ہے، میں انتظار کر لوں گا، تب تک جب ملک کی مقتدر قوتوں اور عوام کو اس نظام کی خرابیوں کا مکمل شعور نہ آ جائے۔۔۔ یہ ملاقات ناکام ہو گئی۔۔ ڈاکٹر صاحب کو 100 فیصد یقین تھا کہ خان صاحب ضرور اس کمپرومائزڈ اقتدار کو قبول کر چکا ہوگا۔
خان صاحب کی جنرل راحیل سے ملاقات صرف 20 منٹ پر مشتمل تھی جس میں وہی شرائط کی پیشکش تھی جو ڈاکٹر قادری کو پیش کی گئی تھی البتہ ایک اضافی شرط بھی تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر زبان بند رکھنی ہو گی۔ خان صاحب نے اس کمپرمائزڈ اقتدار کو قبول کر لیا۔ پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ رنگ بنا دیا گیا ، لال حویلی سے لیکر گجرات تک سے اتحاد کرنا پڑا، خارجہ امور میں ہر جگہ جنرل صاحب ساتھ ساتھ شامل ہوئے جیسے بچے کا دھیان رکھا جائے کہ ہدایات کے خلاف کوئی غلط بات نہ کر دے، سانحہ ماڈل ٹاؤن پر زبانیں بند کرنا پڑیں۔۔۔۔ اقتدار تو مل گیا لیکن نظام کی تبدیلی کی ہر کوشش دن بدن خواب ہی بنتی گئی۔
اس ملاقات کے بعد دونوں کے راستے جدا ہو گئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے خاموشی سے اپنا دھرنا آہستہ آہستہ لپیٹ دیا۔ انہوں نے طعن و تشنیع کے تیر سہے لیکن ان کو خبر تھی ان کا راستہ اور ہے اور جنابِ خان کا اور۔۔
یہ وہ موقع تھا جو ادھورے اقتدار کی آس اور اپنی ذات پر خوش فہمی کی حد تک زعم نے اصل تبدیلی کا راستہ روک دیا۔ کاش خان صاحب کمپرومائز نہ کرتے اور اپوزیشن میں ہی رہنا قبول کر لیتے، اپوزیشن میں وہ خوب جچتے تھے۔۔ پھر استعفے بھی واپس ہوئے، تھوک کر چاٹنا پڑا لیکن نام نہاد تبدیلی کا خواب کبھی شرمندہءِ تعبیر نہ ہوا۔ اگر وہ 2018 میں بھی اپوزیشن میں ہی رہتے ، ادھوری سی کمزور بے انتہا کمپرومائزڈ حکومت کو قبول نہ کرتے تو آج وہ ایسی قوت بن چکے ہوتے جس کی لکار سے نظام لرزہ براندام ہوا ہوتا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کئی بڑے سر تختہ دار پر لٹکے سامانِ عبرت بنے ہوتے۔
4- الیکشن 2018 کے بعد حکومت میں آ کر جب ایک ڈیڑھ سال میں خان پر واضح ہو چکا تھا کہ وہ اس نظام کے ان دیکھے شکنجے میں پھنس چکے ہیں اور کسی قسم کی کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ گجراتی، ایم۔کیو۔ایم، لال حویلیوں کے اتحاد پر کھڑی، پی۔ٹی۔آئی کی صفوں میں شامل گھاگ نالائق سیاستدانوں میں گھری کمزور سی حکومت ذرا سی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔۔۔۔ تو۔۔ اس وقت خان صاحب ہمت کا مظاہرہ کرتے، عوام کے سامنے آ کر عوام کو آگاہ کرتے کہ اس نظام میں رہ کر اس نظام کو تبدیل کرنا نا ممکن ہے، لہذا میں استعفٰی دے رہا ہوں، اس حکومت کو لات مارتا ہوں اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ میرا ساتھ دے کر اس نظام کو گرانے میں میری مدد کریں۔۔ اس عمل سے خان صاحب کی ساکھ کافی حد تک بحال ہو جاتی اور اسٹیبلشمینٹ کی کٹھ پتلی ہونے کا تاثر گہرا نہ ہوتا۔
لیکن خان صاحب کے ارد گرد گھاگ سیاستدانوں نے ان کو سب اچھا کی دلنواز لوری ہمیشہ سنائے رکھی۔
5- سینیٹ کے حالیہ الیکشن کے بعد بھی ایک موقع آ گیا تھا کہ خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے کے راستے پر چلنے کی بجائے عوام کو اعتماد میں لیکر استعفٰی دے دیتے یا اسمبلیاں توڑ دیتے۔ لیکن وہ اس موقع پر بھی کوئی بڑا قدم اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔۔ ۔۔۔ اب تو وہ ایسے راستے پر چل پڑے ہیں جہاں قدم قدم پر وہ نئی سے نئی ذلتوں سے آشنا کیے جائیں گے، مزید بے بس کیے جائیں گے اور ان کے تڑپنے کا تماشا دیکھ کر نظام کے رکھوالے حظ اٹھائیں گے۔
منجانب:
*پروفیسر ڈاکٹر سید محمد ہارون بخاری* آف گجرات
 
Top