عبد السمیع عرف عاصمؔ
محفلین
کوئی تعریف کر جائے تو اکثر پھول جاتا ہوں،
میں بھولا ہوں، ستم ڈھایا ہوا بھی بھول جاتا ہوں۔
ہر اک نعمت پہ نازاں ہوں فقط اپنی ہی محنت پر،
لگی جنکی دعائیں ہو، انہیں کو بھول جاتا ہوں۔
خدا ڈھا دے مری یہ کاش اب ثابت قدم فطرت ،
قسَم کھاتا ہوں توبہ کی قسَم ہی بھول جاتا ہوں۔
ہے غرّاتا تو کتّا بھی، جو ڈھیلا مارتا اس پر،
مجھے ڈھیلے پہ تو شکوہ، خدا کو بھول جاتا ہوں۔
میں بتلاؤں بھی کیسے میری وجْہِ بے رخی عاصمؔ،
ستمگر مسکرا دے تو ستم ہی بھول جاتا ہوں۔
میں بھولا ہوں، ستم ڈھایا ہوا بھی بھول جاتا ہوں۔
ہر اک نعمت پہ نازاں ہوں فقط اپنی ہی محنت پر،
لگی جنکی دعائیں ہو، انہیں کو بھول جاتا ہوں۔
خدا ڈھا دے مری یہ کاش اب ثابت قدم فطرت ،
قسَم کھاتا ہوں توبہ کی قسَم ہی بھول جاتا ہوں۔
ہے غرّاتا تو کتّا بھی، جو ڈھیلا مارتا اس پر،
مجھے ڈھیلے پہ تو شکوہ، خدا کو بھول جاتا ہوں۔
میں بتلاؤں بھی کیسے میری وجْہِ بے رخی عاصمؔ،
ستمگر مسکرا دے تو ستم ہی بھول جاتا ہوں۔