مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

کوئی تعریف کر جائے تو اکثر پھول جاتا ہوں،
میں بھولا ہوں، ستم ڈھایا ہوا بھی بھول جاتا ہوں۔

ہر اک نعمت پہ نازاں ہوں فقط اپنی ہی محنت پر،
لگی جنکی دعائیں ہو، انہیں کو بھول جاتا ہوں۔

خدا ڈھا دے مری یہ کاش اب ثابت قدم فطرت ،
قسَم کھاتا ہوں توبہ کی قسَم ہی بھول جاتا ہوں۔

ہے غرّاتا تو کتّا بھی، جو ڈھیلا مارتا اس پر،
مجھے ڈھیلے پہ تو شکوہ، خدا کو بھول جاتا ہوں۔

میں بتلاؤں بھی کیسے میری وجْہِ بے رخی عاصمؔ،
ستمگر مسکرا دے تو ستم ہی بھول جاتا ہوں۔
 
بھول جاتا ہوں ردیف ہے، قافیہ ہم آواز الفاظ کو کہا جاتا ہے جو ردیف سے قبل آتے ہیں۔ ردیف کے بغیر غزل لکھ سکتے ہیں لیکن قافیے کے بغیر مشکل ہے۔ :)
مطلع میں پھول جاتا ہوں بھی استعمال ہوا ہے۔
اس لیے ردیف جاتا ہوں ہے
پھول اور بھول قافیہ ہیں۔ مگر بھول کے بعد اور کوئی قافیہ استعمال کرنا بھول گئے ہیں۔ :)
 
ھول کو قافیہ باندھا ہوں، کیا یہ درست نہیں۔۔۔؟
اس غزل میں آپ نے محض دو قافیے بھول اور پھول استعمال کیے ہیں۔
اور پھول بھی محض مطلع میں استعمال کیا ہے، باقی تمام جگہ صرف بھول ہی استعمال کیا ہے۔
بہتر ہوتا کہ مزید قافیے بھی استعمال کیے جاتے جو کہ یہاں مشکل معلوم ہوتا ہے۔ یا بھول جاتا ہوں کو ردیف بنا کر اس سے پہلے کوئی قافیہ لاتے۔
 
کوئی تعریف کر جائے تو اکثر پھول جاتا ہوں،
میں بھولا ہوں، ستم ڈھایا ہوا سو بھول جاتا ہوں۔

ہر اک نعمت پہ نازاں ہوں فقط اپنی ہی محنت پر،
لگی جنکی دعائیں ہو، انہیں کو بھول جاتا ہوں۔

خدا ڈھا دے مری یہ کاش اب ثابت قدم فطرت ،
قسَم کھاتا ہوں توبہ کی قسَم کو بھول جاتا ہوں۔

ہے غرّاتا تو کتّا بھی، جو ڈھیلا مارتا اس پر،
مجھے ڈھیلے پہ تو شکوہ، خدا کو بھول جاتا ہوں۔

میں بتلاؤں بھی کیسے میری وجْہِ بے رخی عاصمؔ،
ستمگر مسکرا دے تو ستم کو بھول جاتا ہوں۔
 
کوئی تعریف کر جائے ذرا بھی، پھول جاتا ہوں،
میں بھولا ہوں، ستم ڈھایا ہوا بھی بھول جاتا ہوں۔

ہر اک نعمت پہ نازاں ہوں فقط اپنی ہی محنت پر،
لگی جنکی دعائیں ہو، انہیں ہی بھول جاتا ہوں۔

خدا ڈھا دے مری یہ کاش اب ثابت قدم فطرت ،
قسَم کھاتا ہوں توبہ کی قسَم ہی بھول جاتا ہوں۔

ہے غرّاتا تو کتّا بھی، جو ڈھیلا مارتا اس پر،
میں ڈھیلا یاد کر شکوہ، خدا ہی بھول جاتا ہوں۔

میں بتلاؤں بھی کیسے میری وجْہِ بے رخی عاصمؔ،
ستمگر مسکرا دے تو ستم ہی بھول جاتا ہوں۔
 
محترمی! ان اشعار میں قوافی کی نشاندہی بھی فرمائیں۔
کوئی تعریف کر جائے ذرا بھی، پھول جاتا ہوں،
میں بھولا ہوں، ستم ڈھایا ہوا بھی بھول جاتا ہوں۔

ہر اک نعمت پہ نازاں ہوں فقط اپنی ہی محنت پر،
لگی جنکی دعائیں ہو، انہیں ہی بھول جاتا ہوں۔

خدا ڈھا دے مری یہ کاش اب ثابت قدم فطرت ،
قسَم کھاتا ہوں توبہ کی قسَم ہی بھول جاتا ہوں۔

ہے غرّاتا تو کتّا بھی، جو ڈھیلا مارتا اس پر،
میں ڈھیلا یاد کر شکوہ، خدا ہی بھول جاتا ہوں۔

میں بتلاؤں بھی کیسے میری وجْہِ بے رخی عاصمؔ،
ستمگر مسکرا دے تو ستم ہی بھول جاتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں غزل کا قافیہ درست ہے یعنی مطلع میں "پھول" اور "بھول" کو قافیہ بنایا گیا ہے جو کہ درست ہے، ہاں، دیگر اشعار میں بھول قافیہ بار بار لایا گیا ہے جو قافیہ تنگ ہونے کی نشانی اور شاعر کی عجز بیانی پر دال ہے!
 
میرے خیال میں غزل کا قافیہ درست ہے یعنی مطلع میں "پھول" اور "بھول" کو قافیہ بنایا گیا ہے جو کہ درست ہے، ہاں، دیگر اشعار میں بھول قافیہ بار بار لایا گیا ہے جو قافیہ تنگ ہونے کی نشانی اور شاعر کی عجز بیانی پر دال ہے!
صحیح فرمایا آپ نے۔ ہی بھول کی تکرار کو توڑنے سے عاجز ہوں۔
 

انیس جان

محفلین
پھول یعنی گلاب،، رسول،، مہجول،، اصول،، قبول،، حصول،، فضول،،، ملول،، معمول،، معقول،، دھول،، حلول،، نزول،، کنول،،
 
Top