محب علوی
مدیر
مقدمہ فسانہ وعجائب از رشید حسن خاں گفتگو ربط
مقدمہ
مرزا رجب علی بیگ سرور 1 کی کتاب فسانہ عجائب مختصر داستانوں کے سلسلے کی مشہور کتاب ہے۔ یہ ہمارے کلاسیکی ادب کا حصہ بن چکی ہے۔ آج اس کتاب کے متعلق [تاریخی حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کرکے] بعض حضرات جو رائے بھی ظاہر کریں اور اس پر جس قدر اعتراضات کریں ؛ لیکن یہ واقعہ ہے کہ جس زمانے میں یہ کتاب سامنے آئی تھی، اس زمانے میں اس کی یکتائی کی دھوم مچ گئی تھی اور بہت جلد اس کو دبستان لکھنو کی نمایندہ تصنیف کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا۔
صرف داستان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں بہت سی خامیاں نکالی جاسکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر تو یہی بات کہ داستان کا ہیرو ان صفات سے بڑی حد تک محروم ہے جو کسی مرکزی کردار میں دلکشی کی چمک پیدا کیا کرتی ہیں۔ کئی ضمنی کہانیوں کے جوڑ پیوند لگی ہوئی اس داستان کے بوجھ کو سہارنے کی سکت اس میں نظر نہیں آتی۔ سادہ لوحی میں بھی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جان عالم کی تخصیص نہیں، ضمنی کہانیوں کے نمایاں افراد بھی ایسے ہی ہیں۔ مثلا وہ بادشاہ جو ادنا تامل کے بغیر اپنی بیوی کو ایک ان جان سوداگر کے ساتھ بھیج دیتا ہے، جس نے یہ جھوٹ بولا ہے کہ میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے اور وہ سوداگر اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاتا ہے۔
1 فسانہ عجائب کی اشاعت اول (1259ھ) اور اشاعت ثانی (1263ھ) (یعنی نسخہ ح اور نسخہ ض) میں "بیان لکھنو" کے آغاز میں مصنف نے اپنا نام "رجب علی بیگ" لکھا ہے۔ اشاعت 1267ھ (نسخہ ک) اور اشاعت 1280ھ (نسخہ ل) میں "مرزا رجب علی" ملتا ہے۔ اس لیے میں نے مکمل نام "مرزا رجب علی بیگ" لکھا ہے۔
مقدمہ
مرزا رجب علی بیگ سرور 1 کی کتاب فسانہ عجائب مختصر داستانوں کے سلسلے کی مشہور کتاب ہے۔ یہ ہمارے کلاسیکی ادب کا حصہ بن چکی ہے۔ آج اس کتاب کے متعلق [تاریخی حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کرکے] بعض حضرات جو رائے بھی ظاہر کریں اور اس پر جس قدر اعتراضات کریں ؛ لیکن یہ واقعہ ہے کہ جس زمانے میں یہ کتاب سامنے آئی تھی، اس زمانے میں اس کی یکتائی کی دھوم مچ گئی تھی اور بہت جلد اس کو دبستان لکھنو کی نمایندہ تصنیف کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا۔
صرف داستان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں بہت سی خامیاں نکالی جاسکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر تو یہی بات کہ داستان کا ہیرو ان صفات سے بڑی حد تک محروم ہے جو کسی مرکزی کردار میں دلکشی کی چمک پیدا کیا کرتی ہیں۔ کئی ضمنی کہانیوں کے جوڑ پیوند لگی ہوئی اس داستان کے بوجھ کو سہارنے کی سکت اس میں نظر نہیں آتی۔ سادہ لوحی میں بھی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جان عالم کی تخصیص نہیں، ضمنی کہانیوں کے نمایاں افراد بھی ایسے ہی ہیں۔ مثلا وہ بادشاہ جو ادنا تامل کے بغیر اپنی بیوی کو ایک ان جان سوداگر کے ساتھ بھیج دیتا ہے، جس نے یہ جھوٹ بولا ہے کہ میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے اور وہ سوداگر اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاتا ہے۔
1 فسانہ عجائب کی اشاعت اول (1259ھ) اور اشاعت ثانی (1263ھ) (یعنی نسخہ ح اور نسخہ ض) میں "بیان لکھنو" کے آغاز میں مصنف نے اپنا نام "رجب علی بیگ" لکھا ہے۔ اشاعت 1267ھ (نسخہ ک) اور اشاعت 1280ھ (نسخہ ل) میں "مرزا رجب علی" ملتا ہے۔ اس لیے میں نے مکمل نام "مرزا رجب علی بیگ" لکھا ہے۔
آخری تدوین: