مقدمہ فسانہ عجائب از رشید حسن خاں

مقدمہ فسانہ وعجائب از رشید حسن خاں گفتگو ربط

مقدمہ

مرزا رجب علی بیگ سرور 1 کی کتاب فسانہ عجائب مختصر داستانوں کے سلسلے کی مشہور کتاب ہے۔ یہ ہمارے کلاسیکی ادب کا حصہ بن چکی ہے۔ آج اس کتاب کے متعلق [تاریخی حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کرکے] بعض حضرات جو رائے بھی ظاہر کریں اور اس پر جس قدر اعتراضات کریں ؛ لیکن یہ واقعہ ہے کہ جس زمانے میں یہ کتاب سامنے آئی تھی، اس زمانے میں اس کی یکتائی کی دھوم مچ گئی تھی اور بہت جلد اس کو دبستان لکھنو کی نمایندہ تصنیف کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا۔

صرف داستان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں بہت سی خامیاں نکالی جاسکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر تو یہی بات کہ داستان کا ہیرو ان صفات سے بڑی حد تک محروم ہے جو کسی مرکزی کردار میں دلکشی کی چمک پیدا کیا کرتی ہیں۔ کئی ضمنی کہانیوں کے جوڑ پیوند لگی ہوئی اس داستان کے بوجھ کو سہارنے کی سکت اس میں نظر نہیں آتی۔ سادہ لوحی میں بھی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جان عالم کی تخصیص نہیں، ضمنی کہانیوں کے نمایاں افراد بھی ایسے ہی ہیں۔ مثلا وہ بادشاہ جو ادنا تامل کے بغیر اپنی بیوی کو ایک ان جان سوداگر کے ساتھ بھیج دیتا ہے، جس نے یہ جھوٹ بولا ہے کہ میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے اور وہ سوداگر اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاتا ہے۔


1 فسانہ عجائب کی اشاعت اول (1259ھ) اور اشاعت ثانی (1263ھ) (یعنی نسخہ ح اور نسخہ ض) میں "بیان لکھنو" کے آغاز میں مصنف نے اپنا نام "رجب علی بیگ" لکھا ہے۔ اشاعت 1267ھ (نسخہ ک) اور اشاعت 1280ھ (نسخہ ل) میں "مرزا رجب علی" ملتا ہے۔ اس لیے میں نے مکمل نام "مرزا رجب علی بیگ" لکھا ہے۔
 
آخری تدوین:
ص 2

معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی اس قدر کم فہمی کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ اس لیے تو خود سرور نے لکھا ہے کہ "یہ بیچارے اللہ کے ولی"۔ یا مثلا وہ سوداگر جس نے بندر کی صورت میں جان عالم کو اپنے ساتھ رکھا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بادشاہ بندروں کو پکڑوا رہا ہے اور مروا رہا ہے ، اس کے باوجود وہ آنے جانے والوں کو بندر کی باتیں سنواتا ہے۔ اتنا بڑا سوداگر اور اس قدر سادہ لوح! یا مثلا مجسٹن کا لڑکا کہ وہ بھی جان عالم کی طرح سادہ لوحی کا مارا ہوا ہے۔ اسے بھی سرور نے خود ہی بڑھاپے کی اولاد کہا ہے۔ یا وہ بادشاہ جس سے آخر میں جان عالم کی لڑائی ہوتی ہے۔ وہ تو اس قدر احمق ہے کہ اس کی فوج جانِ عالم سے مل گئی ہے، اکیلا رہ گیا ہے لیکن لڑنے چلا آتا ہے تلوار چلا آتا ہے اور قید کر لیا جاتا ہے۔ غرض کہ نمایاں کردار کے مرد تقریبا سب کے سب جان عالم ہی جیسے ہیں۔
یہ بات اگر نظر کے سامنے ہو کہ اودھ کی حکومت میں آصف الدولہ کے زمانے سے مجہولیت نے جس طرح چھاؤنی چھالی تھی اور "شہ زادگان کرام" جس طرح حکم رانی کی صلاحیت اور صفات سے تہی دامن تھے تو پھر اس کی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے۔ سرور نے کہانی کسی بھی خیالی دنیا کی کہی ہو ، داستان کی فضا اور اس کے کردار انھی کے زمانے کے ہیں، اور ان کے زمانے میں اکثر امراء اور ولی عہد صاحبان کا احوال یہی تھا 1۔ البتہ یہ دلچسپ بات ہے کہ اکثر عورتیں سوجھ بوجھ سے اس طرح خالی نہیں : بلکہ نواب مرزا شوق کی مثنویوں کی فعال اور طرار خواتین کی طرح ہیں۔ وجہ اس کی بھی اسی معاشرے کے احوال و کردار میں باآسانی تلاش کی جاسکتی ہے۔
زبان کے لحاظ سے بھی اس میں بہت سے جھول تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اکھڑے اکھڑے جملے تو اچھی خاصی تعداد میں مل جائیں گے۔

1 دہلی میں بھی مغلوں کی حکومت کے آخری زمانے میں یہی احوال تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ پچھلی شاندار روایت کا عکس وہاں آنکھوں میں بسا ہوا اور دلوں میں سمایا ہوا تھا، جس کے اثر سے بیرونی سطح پر کچھ نہ کچھ بھرم رہ گیا تھا۔ لکھنؤ میں یہ بڑی کمی تھی یہاں ایسی کوئی روایت سایہ فگن نہیں تھی۔ اس کے اثرات کئی صورتوں میں نمایاں ہوئے۔


حسن بیان کا رنگ بھی کئی جگہ پڑا ہوا دکھائی دے گا۔ لفظوں کا بے محل صرف بھی ملے گا اور ایسا پیرایہ بیان بھی ملے گا جس کو بے کمالی کی نشانی کہا جاسکتا ہے۔ یہ سب مسلم اور برحق مگر بات وہی ہے کہ یہ کتاب محض ایک داستان نہیں صرف زبان کا نگارخانہ نہیں؛ یہ دراصل ایک اسلوب کا دوسرا نام ہے اور اصل حیثیت اس اسلوب کی تھی اور ہے۔ آج ہم اپنے زمانے اور ذہن کے لحاظ سے جو بھی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کے لکھنؤ کا وہ معاشرہ اسی انداز کا پرستار اور اسی اسلوب کا دل دادہ تھا۔ چکبست کے الفاظ میں "اودھ پنچ کے پہلے رجب علی بیگ سرور کی طرز تحریر کی پرستش ہوتی تھی" (مضامین چک بست انڈین پریس علاوہ سال طبع 940 صفحہ 229 (

زمانہ بدل گیا ذہن بدل گئے انداز نظر بدل گیا؛ ان بہت سی تبدیلیوں کے باوصف یہ کتاب اپنی حیثیت کو اب بھی برقرار رکھے ہوئے ہے [ کلاسکی ادب کی شاید یہی سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے] اب بھی یہ چھپتی رہتی ہے اور پچھلی تین دہائیوں میں تو اس کے متن کو نئے انداز سے پیش کرنے کی کئی قابل ذکر کوششیں بھی کی گئیں ہیں۔ مصنف کے زمانے سے اب تک یہ کتاب اتنی بار اور اتنے اہتمام کے ساتھ چھپی ہے کہ داستانی سلسلے کی کم کتابیں اس باب میں اس کی برابری کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔ باغ و بہار سے مقابلہ کرنا مقصود نہیں رخ روشن کے آگے شمع کون رکھے گا؛ اس کو چھوڑ کر اس انداز کے باقی سبھی داستانی قصوں کو ادبی حیثیت سے بھی اس کے برابر شاید ہی رکھا جاسکے۔

اس کتاب کو ایسے باقی قصصوں کے مقابلے میں ایک اور افضیلت بھی حاصل ہے، کہ اس کی حیثیت صرف ادبی نہیں تاریخی بھی ہے اور یہ تاریخی حیثیت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ دہلی و لکھنؤ کی دبستانی بحث کے فروغ میں اس کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ سرور نے دیباچے میں میر امن اور دہلی دونوں کے متعلق جو کچھ لکھا تھا، اس نے باضابطہ اعلان جنگ کا کام کیا۔ دنوں تک یہ بحث چلتی رہی اور اب بھی اس کی بازگشت سنائی دے جاتی ہے [ مثلا جوش ملیح آبادی اور شاہد احمد دہلوی میں پچھلے دنوں جو بحث چلی تھی اس میں اس پرانے جھگڑے کا بھی حوالہ موجود ہے رسالہ نقوش )لاہور) کے "ادبی معرکے نمبر میں اسے دیکھا جا سکتا ہے]۔

یہاں ضمنی طور پر [اور بطور جملہ معترضہ] یہ وضاحت ضروری ہے کہ دہلی اور لکھنو کا جھگڑا فسانہ عجائب سے شروع نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ یہ کتاب نہ لکھی جاتی تب بھی اختلافات ابھر کر سامنے آتے ضرور۔ اصلاً یہ سیاسی قضیہ تھا۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے ہی سے اختلافات کی بنیاد گہری ہونے لگی تھی۔ پھر جب نواب غازی الدین حیدر نے انگریزوں کے اشارے پر بادشاہت کا اعلان کیا، اس وقت سے وہ جو ایک ظاہری پردہ سا تھا وہ بھی اٹھ گیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اختلافات کی نمود شدت اور وسعت کے ساتھ تہذیبی اور ادبی سطح پر ہوئی۔ چونکہ سیاسی سطح پر مقامی حکومت اگرچہ نام کی خود مختار تھی ، لیکن عملی طور پر وہ بے اختیاری کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی اور دوسری طرف وہ نیا معاشرہ اپنے امتیاز اور اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنے کا بے طرح آرزو مند تھا اسلئے تہذیبی اور ادبی سطحوں ہی پر ایسے اختلافات کی نشونما ہونا تھی اور یہی ہوا۔ ادبی سطح پر اختلافات نے زیادہ شہرت پائی [ دریائے لطافت میں سید انشاء نے جہاں دہلی اور لکھنو کا موازنہ کیا ہے، وہاں بین السطور بہت کچھ پڑھا جا سکتا ہے اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ذہنوں میں کس طرح کے خیالات نشوونما پا رہے تھے]۔

دہلی والوں کو اپنی زبان اور اپنی ادبی روایت پر بہت ناز تھا۔ اس وقت تک سند بھی وہیں سے لی جاتی تھی۔ اگرچہ اجڑی ہوئی دہلی سے ترک وطن کرکے اس شاد و آباد مملکت میں بہت سے دہلی والوں کو پناہ لینا پڑی تھی اس کے باوجود وہ مہاجرین یہاں والوں کو پورب والے کہتے تھے، ان کی نظر میں نا یہاں کی تہذیبی روایت کی کوئی حیثیت تھی نہ یہاں کی زبان کی۔ اب تک اس مملکت کو اسی نظر سے دیکھتے تھے جس نظر سے ایک خودمختار سلطنت اپنے کسی زیرِ نگیں علاقے والوں کو دیکھا کرتی تھی۔ مرزا غالب نے اپنی پنشن کے قضیے میں کلکتہ جاتے ہوئے لکھنؤ میں بھی قیام کیا تھا۔ اس وقت غازی الدین حیدر نواب وزیر نہیں اودھ کے بادشاہ تھے اور معتمدالدولہ آغامیر ان کے وزیراعظم اور نائب السلطنت تھے۔ مرزا صاحب ان سے ملاقات کی خواہش مند ضرور تھے ان کی مدح میں قصیدہ بھی کہ رہے تھے، ایک فارسی نثر بھی لکھی تھی، اور ایک غزل میں تین شعر بھی مدھیہ انداز کے کہے تھے جس کے دو شعر یہ تھے:


لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی

ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو

لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید

جادہ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو


غرض ملاقات طے ہوگئی لیکن ہو نہیں پائی۔ وجہ یہ ہوئی کہ " مرزا صاحب نے ملاقات سے پہلے دو شرطیں ایسی پیش کیں، جو منظور نہ ہوئیں: ایک تو یہ کہ نائب میری تعظیم دیں دوسرے نذر سے مجھے معاف رکھا جائے" [ یادگار غالب، طبع اوّل ، ص 27 [

یہ دراصل اسی روایتی احساس برتری کا مظاہرہ تھا۔ اآپ دیکھیے تو مرزا صاحب مالی امداد کے متمنی ہیں، چاہتی ہیں کہ صلہ ملے، ضرورت مند بھی ہیں؛ لیکن ملاقات کے لیئے اپنی طرف سے یہ شرط لگا دیتے ہیں کہ وزیراعظم ان کی تعظیم کریں۔ اور وہ وزیراعظم کی خدمت میں دستور کے مطابق نذر پیش نہیں کریں گے۔ نذر پیش کرنے کا مطلب ہوتا ہے بالادستی اور برتری کا اعتراف اور اظہار؛ مرزا صاحب اس کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ تھی نا عجیب بلکہ عجیب تر بات! بات وہی تھی کہ دہلی والے آخر تک یہی سمجھتے رہے کہ بادشاہت تو دہلی میں تھی اور وہیں ہے۔ یہاں والوں کو تو سند حکومت اسی دروازے سے ملتی رہی ہے۔

بادشاہت کی طرح زبان کا مرکز بھی دہلی کو مانا جاتا تھا، سند بھی دہلی والوں سے لی جاتی تھی۔ اس کا ردعمل تو ہونا تھا۔ سرور نے دہلی اور میر امن کےمتعلق جو کچھ لکھا ، اس کو اس رد عمل کے فروغ میں بڑا حصہ مل گیا اور اسی نسبت سے شہرت ملی۔ یہ واقعہ ہے کہ سرور سے پہلے لکھنو کے کسی ادیب [ اور شاعر نے اور اس میں ناسخ بھی شامل ہیں ] دہلی اور اہل دہلی کی لسانی بالادستی اور وہاں کی یکتائی اور استناد سے اس طرح علی الاعلان انکار نہیں کیا تھا۔ احتشام صاحب نے بجا طور پر لکھا ہے کہ :


1 بعد میں مرزا صاحب نے اس مصرعے کواس طرح بدل دیا : لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب۔ متداول دیوان میں یہ اسی طرح ہے۔

2 میر مہدی مجروح نے مرزا غالب کو جو یہ لکھا تھا کہ " اگر شرم آئی تو رجب علی سرور کو آئے ۔۔۔۔ ان سے کہا چاہیے کہ ارے بندہ خدا، خدا سے ڈر! لکھنؤ کس بادشاہ کا دارالخلافہ رہا ہے؟"

[رجب علی بیگ سرور، ص 354 [ تو یہ اسی طرف اشارہ تھا۔

3 "عہدِ دولت بابر شاہ سے تا سلطنت اکبر ثانی کہ مثل مشہور ہے: نہ چولھے آگ ، نہ گھڑے میں پانی ، دہلی کی آبادی ویران تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لطافت اور فصاحت اور بلاغت کبھی نہ تھی، نہ اب تک وہاں ہے" (ص 18(

یعنی قصہ ہی ختم کر دیا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔


"تاریخی اعتبار سے سرور کی ادبی زندگی لکھنؤ کی اس عہد سے تعلق رکھتی ہے جب وہاں برائے نام سہی، ایک خود مختار بادشاہت قائم ہو چکی تھی اور وہ اپنی زبان، ادب معاشرت اور طرز فکر میں دہلی سے آزادی حاصل کر رہا تھا۔ لسانی اور ادبی خودمختاری کی خواہش نے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر لکھنو اور دہلی کے اس فرق کو اور زیادہ نمایاں کر دیا جس کے ہلکے نقوش اس سے پہلے ہی ابھرنے لگے تھے۔ رجب علی بیگ سرور کو اس حیثیت سے نئے لکھنوی ادب کا پہلا اہم نمائندہ کہا جا سکتا ہے، جس نے نہ صرف ایک مخصوص اسلوب پیش کرکے اس تفریق اور خودمختاری پر مہر لگا دی، بلکہ واضح طور پر دہلی کے ادبی انداز کو سخن گسترانہ چشمک کا موضوع بھی بنایا۔ اس حیثیت سے بھی سرور کا مطالعہ بڑی تنقیدی اہمیت رکھتا ہے۔"

[ رجب علی بیگ سرور، ص 14[

جس طرح ناسک کی شاعری کی اندرونی فضا اور اس کا مزاج لکھنو کی حسنِ معاشرت کا آئینہ دار ہے؛ اسی طرح سرور کی نثر آرائش پسندی کے وسیلے سے اس معاشرت کے انداز و اطوار کی آئینہ داری کرتی ہے ناسخ اور سرور دونوں اپنے اسالیب بیان کے واسطے سے دبستان لکھنؤ کے نمائندہ افراد ہیں۔ ایک کی شاعری لکھنؤ کی نئی شاعری روایت کا نقطہ آغاز بنی

اور دوسرے کیی نثر فسانہ عجائب کی صورت میں وہاں کے خاص اندازکا پہلا نقش بن کر سامنے آئی یہ دوسری بات ہے کہ شعری روایت نے بہت فروغ پایا اور وہ ایک زمانے تک معیار اور مثال بنی رہی۔ناسخ نے کبھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا لیکن اس مملکت کے لیے جسے نئی نئی بادشاہت ملی تھی نئی شعری روایت اور نئے لسانی تصور کی بنیاد رکھی_ نئی حکومت کے لیے جس طرح نیا سکہ ضروری ہوتا ہے اسی طرح اس نئے معاشرے کو نئی ادبی روایت کی ضرورت تھی جو اس کی پہچان بھی ہو اور جو اس علاقے کو ایک دوسرے ادبی علاقے کی بالادستی سے بھی چھٹکارا دلاکر مستقل لسانی مرکز کی حیثیت دلاسکے_

یہ تاریخ ساز کام تھا اس میں نہ ناسخ اور سرور دونوں شریک تھے البتہ ناسک کی حیثیت شریک غالب کی تھی_

فسانہ عجائب سے جس نثری روایت کا آغاز ہوا تھا اس نے شہرت تو بہت پائی صحیح معنی میں قبول عام بھی پایا وہ بھی مثال اور معیار بن کر ذہنوں کو متاثر کرتی رہی۔لیکن شعری روایت کے مقابلے میں اس کے اثرات کی حکمرانی کی مدت کم رہی

اس فرق کے باوجود تاریخ ادب میں ان دونوں روایتوں کے اثرات ہمیشہ کے لیے اس طرح محفوظ ہوگئے ہیں

کہ ان کو معلوم کئے بغیر ان کو سمجھے بغیر ان کا جائزہ لیے بغیر تاریخ ادب کے اس باب کو نہیں سمجھا جا سکتا جو دبستان لکھنو سے متعلق ہے اس لحاظ سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ فسانہ عجائب کی اہمیت اپنی جگہ پر برقرار ہے اور رہے گی۔

پچھلے صفحے کے حاشیے کا بقیہ :

اس سلسلے میں عام طور پر وہ عبارت نظر میں رہتی ہے جس میں میرامن کا نام آیا ہے : "اس ہیچ میرز کو یہ یارا نہیں کہ دعوی اردو زبان پر لائے ۔۔۔۔ اپنے منہ سے دھنا بائی ( ص 30 ( لیکن واقعہ یہ ہے کہ پورا بیان لکھنؤ اسی جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ جگہ جگہ یہ جذبہ جذبہ بے اختیار بن کر سطح پر ابھر آیا ہے اور بین السطور سے ابھرکر شامل سطور ہو گیا۔ مثلاً جب وہ لکھنؤ کی تعریف میں یہ لکھتے ہیں کہ : "جو گفتگو لکھنؤ میں کو بہ کو ہے؛ کسی نے کبھی سنی ہو سنائے۔ لکھی دیکھی ہو دکھائے۔"

"لکھی دیکھی ہو" سے بھی صاف اشارہ میر امن کی طرف ہے۔ یا مثلا اور لکھنؤ کے جیسے بازاری ہیں کسی شہر کے ایسے ہفت ہزاری ہیں۔ کسی شہر سے صاف صاف دہلی مراد ہے کہ ہفت ہزاری کا منصب وہیں سے ملا کرتا تھا۔ یا مثلا صفحہ 8 پر "گومتی میں غوطہ لگایا دیہاتی بن کے دھبے ہوگئے آدمی ہو گئے" میں بھی کنایہ موجود ہے۔ یہاں گومتی جمنا سے بڑھ گئی ہے۔ بیان لکھنؤ کا اصل مقصد ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ لباس کھانے وغیرہ معاشرت کے جملہ مظاہر میں لکھنؤ کی افضلیت اور یکتائی کو اس طرح بیان کیا جائے کہ یہ صاف صاف معلوم ہو جائے کہ اب یہ شہر دہلی پر افضلیت رکھتا ہے اور یہ بھی فصاحت اور بلاغت کی ٹکسال بھی اب یہیں ہے۔ ناسخ کے لیے انھوں نے جو یہ لکھا ہے کہ شیخ امام بخش ناسخ نے۔۔۔۔ روزمرے کو ایسا فصیح و بلیغ کیا کہ کلام سابقین منسوخ ہوا تو مطلب اس کا یہی ہے کہ وہ دور ختم ہوا جب زبان و شعر میں سند دہلی والوں سے لی جاتی تھی۔

جیسا کے میں نے کہا کہ قافیہ بندی سرور کی تحریر کا خواص چہار ہے ان کا پسندیدہ انداز کو یہ ہے کہ کبھی ایک فطری اور کبھی دو یا زیادہ ٹکڑوں کے بعد وہ ٹکرا آتا ہے جس پر کافیہ کی بنیاد ہوتی ہے اور یہ بھی ایک ہی جملے میں چھوٹا ہو یا بڑا قافیہ بندی کا حسن موجود ہے

یا کسی جملے کسی فصل کے بغیر قافیہ بندی کی بہار دکھاتے ہیں زیادہ مصالحوں کی کوئی گنجائش نہیں۔میں پہلے بار د کر چکرا پیش کرتا ہوں جس میں تینوں انداز موجود ہیں

"یہاں نیند کہاں جیسے سینے میں بے قرار پہلو میں خار ہر دم آہ سرد

دل پر درد سے بلند چشمہ چشم جاری فریاد و زاری دوچند جگر میں سوز فراق

نیا لفظ سے دو پنہاں آیا سینے میں دل و جگر وسفن یہ رباعی و زماں


پیلا ٹکرا مزا بھی ہے اور مفت ابھی ہے اور خوب ہی ٹکڑے کی بنیاد بنتا ہے

یہی اپنے لفظ بنیادی کافی کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بعد ٹکڑے آتے ہیں


جو بیقرار خار کے واسطے سے ہم کافیا ہیں ان درمیانی دو ٹکڑوں کے بعد دوسرا ٹکڑا آتا ہے جس میں پہلے ٹکڑے کی ریاض سے بلند قافیہ بندی کا حسن چمکا رہا ہے

سے پہلے ٹکڑے میں پیار کا توازن جاری وزاری کے واسطے برقرار رکھا گیا ہے اس کے بعد ایک ٹکڑا آتا ہے تو دوچند پر ختم ہوتا ہے اور اس طرح بلند سے کافیہ بندی کا پہلو روشن کو اٹھتا ہے اس کے بعد دو ٹکڑوں کے آخر میں نہاں اور عیاں آتے ہیں جو بنیادی کافیہ کی طرف سے توجہ کو ختم نہیں ہونے دیتے

یہ بھی دیکھیے کہ سفارت کے پہلے ٹکڑے ہیں ہاں نیند کہاں کی عید سے ٹکڑے میں بھی وہی انداز موجود ہے جو پنہاں ایام یعنی دونوں لفظ ہم قافیہ ہیں یہ گویا وزن کو سنبھالنے اور بیان کے تناسب کو برقرار رکھنے کی نہایت کامیاب اور فنکارانہ کوشش ہے اس کے بعد اس کے بعد پھر وہ دو ٹکڑے آتے ہیں یہ دونوں ہم قافیہ نہیں مگر دوسرا "سپند " پر ختم ہوتا ہے جو عبارت کے چوتھے ٹکڑے کے بلند اور چھٹے ٹکڑے دو چند کا ہم قافیہ ہے۔

اور اس طرح بنیادی قافیے کا آہنگ ذہن کو تناسب اور توازن کے احساس سے خالی نہیں ہونے دیتا اور توجہ کو پوری طرح منعطف رکھتا ہے۔ اس عبارت کا اختتام جس ٹکڑے پر ہوتا ہے وہ پہلے ٹکڑوں کی طرح دو اجزا کا مجموعہ نہیں ہے، یہاں ایک ہی جز ہے، مگر اس کے آخر میں "برزباں" آتا ہے، جو پہلے ٹکڑے کے بنیادی لفظ کہاں کے آہنگ کو دہراتا ہے۔ اس ٹکڑے میں ایک ہی جز کا ہونا فنکارانہ انداز نگارش کا اچھا نمونہ ہے ، کیونکہ اس طرح ذہن میں ابتدائی اور بنیادی آہنگ کی جھنکار اچانک اور پورے دباؤ کے ساتھ گونج اٹھتی ہے۔ اگر یہاں بھی دو ٹکڑے ہوتے تو یہ جھنکار اس قرد پر شور نہ ہوپاتی تقسیم ہو کر کچھ ہلکا ہو جاتا۔

ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھئے : " اور تو اور شہداء پیر بخارا ک، نماسا سیدالشہدا کا شیدا" [ ص16 [ شُہٌدا "شہداء"، "شیدا" میں صنعت تجنیس میں بیان کا جو حان پیدا کیا ہے، اسے صحیح معنی میں اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب پڑھنے والا اس طرز ادا سے واقف ہو اور اس کا ذہن اس کے پیدا کیے ہوئے خوشی اور لطف کو قبول کرنے کے لیے تیار بھی ہو۔ یحتوی ہوگا جب کلاسیکی اسالیب سے واقفیت ہو۔ اسے ایک ٹکڑے میں تجنیس کے تین روپ نمایاں ہیں، انہیں معلوم اور محسوس کئے بغیر اس کو نہ تو پورے طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ یہ احوال ہے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کا اس صورتحال کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ ہی سرور کی نثر کا حسن۔ مزید مثالوں کی ضرورت نہیں کہ ایک تو یہاں گنجائش نہیں ، دوسرے یہ کہ اس اشارے کی روشنی میں پڑھنے والا خود ہی ایسی جگہ کو منتخب کرتا چلا جائے گا۔ یہ بھی اس کرو کے اس کتاب میں ایسے اجزاء ہیں کمی نہیں جن میں مرصع سازی کا کمال نقطہ عروج پر نظر آتا ہے؛ مگر بات وہی ہے کہ نگارش کے انداز اور ترصیع کے اس فن اور حسن کو سمجھنے کے لئے ذہن کا تربیت یافتہ ہونا اور کلاسیکی اسالیب سے واقفیت ضروری ہے ورنہ یہ سب بے جان لفظوں کا کھیل نظر آئے گا۔


معلوم نہیں یہ خیال ذہنوں میں کیسے سما گیا اور دلوں میں بیٹھ گیا ہے کہ فسانہ عجائب کی نثر بہت مشکل ہے۔ مشکل نثر کا معیار اگر نوطرزِمرصع کو مانا جائے، پھر اس کتاب کو آسان تر کہا جائے گا۔ مشکل نثر کی مثال میں اکثر اس کتاب کے وہ مقامات پیش کیے جاتے ہیں جہاں سے یہ کتاب شروع ہوتی ہے ، نظمیں کہانیاں یا نئے بیانات شروع ہوتے ہیں۔ یعنی تمہیدی مقامات اور یہ بڑی ناانصافی ہے۔ یہ بات ہمارے ذہن میں رہنا چاہیے کہ جس زمانے میں یہ کتاب لکھی گئی تھی ، اس زمانے میں کسو کی تمہید بہت پر تکلف انداز کی ہوا کرتی تھی۔ طلسم ہوش ربا کی زبان کو کون مشکل کہے گا، لیکن تمہیدی مقامات اس میں بھی پرتکلف انداز بیان سے خالی ہے۔

تمہیدی حصوں سے قطع نظر کو روا رکھا جائے ، تو پھر یہ معلوم ہوگا اس کتاب میں زبان اور بیان کے بطور عموم دو رنگ پائے جاتے ہیں۔ کہیں تو ایسا صاف سفاک بیان ہے کہ آج کے اوسط درجے کی استعداد رکھنے والے قاری کو بھی اس کے پڑھنے میں دقت نہیں ہو گی۔ خاص کر جہاں مکالمات ہیں وہ مقامات کو بیان کی شگفتگی اور زبان کی سلاست کے لحاظ سے کسی طرح کم رتبہ نہیں دوسرا اندازہ ہے جہاں علمیت کا رنگ ذرا گہرا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے مقامات پر بیان کند از وہی ہے جو متاثر ہندوستانی فارسی نثر نگاروں کے اثر سے رواج پا گیا تھا۔ ایسے مقامات اگر آج ہمیں کچھ مشکل نظر آتے ہیں تو اس کی اصل وجہ یہ نہیں کہ یہ بجائے خود مشکل ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے ہمارے دور کی عمومی کم استعدادی فارسی زبان سے ناواقفیت اور کلاسیکی اسالیب سے کم آشنائی۔ مصنف جس معاشرے کا فرد تھا اس معاشرے کے ان لوگوں کے لیے جو پڑھنے لکھنے سے تعلقات رکھتے تھے، یہ طرز ادا غیر معمولی نہیں تھا۔ مصنف نے اپنے زمانے کو پیش نظر رکھ کر یہ کتاب لکھی تھی، اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

یہ بات بھی اسی سلسلے میں کہنے کی ہے کہ سرور نے جہاں شادی بیاہ کا یا شاہی جلوس کا احوال لکھا ہے، یا ایسی ہی اوربیانات لکھے ہیں جن میں مختلف اشیاء کے نام آتے ہیں؛ جہاں بھی اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ بیان میں کس طرح کی پیچیدگی یا زبان مغلق ہے؛ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ آج ہم ان بہت سی اشیاء سے


ص 13
واقف ہیں جن کے نام لکھے گئے ہیں اور جن سے متعلق تفصیلات لکھی گئی ہیں۔ یعنی یہ بھی حقیقی مشکل نہیں اس میں ہماری ناواقفیت کا عمل دخل ہے۔


یہ تو بالکل درست ہے کہ زبان کے لحاظ سے باغ وبہار کو اگر معیار مان لیا جائے تو پھر یہ کتاب اس معیار پر پوری نہیں اترے گی؛ لیکن یہ عمل بجائے خود سراسر مصنوعی ہوگا۔ دو مختلف چیزوں کو مقابل رکھ کر ایک کو برتر بتانا قرین انصاف نہیں ہوسکتا۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح باغ و بہار میں ایک اسلوب کی تشکیل دی تھی، اسی طرح فسانہ عجائب میں بھی ایک مختلف اسلوب کی تشکیل کی تھی۔ اپنے اپنے دائرے میں یہ دونوں اسالیب مستقل حیثیت کے مالک ہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سرور کے زمانے میں لکھنؤ کے اس معاشرے میں معیاری حیثیت اسی اسلوب کو حاصل تھی جسے سرور نے اختیار کیا۔ یہاں محض ضمنی طور پر عرض کروں کے سرور نے جن مقامات پر روس کا احوال لکھا ہے، میں شادی بیاہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے ذیل میں رسموں ٹوٹکوں کا بیان آگیا ہے، کیا جیسے ابتدائی داستان میں جوتش کی اصطلاحوں کا مفصل تذکرہ آیا ہے جوتشیوں کی ہی زبان میں، یا مثلا چڑیمار اور اس کی بیوی کی گفتگو لکھی ہے جس میں اس پیشے کے بہت سے اصطلاحی لفظ بھی آگئے ہیں ، یا جہاں کوہ مطلب برآر کے جوگی کا بیان کیا ہے ؛ ایسے سارے مقامات پر دو تین باتیں بطور خاص توجہ طلب ہیں مثلا جہاں شاہی جلوس کا بیان ہے تو وہاں مختلف پوشاکوں ہتھیاروں عہدےداروں کہ اس قدر نام آئے ہیں اور ان سے متعلق اس قدر تفصیلات معرض بیان میں آئی ہیں کی پوری تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے واقعتاً شاہی جلوس و دیکھے تھے اور ان کی تفصیلات کے عکس اس کی آنکھوں میں سمائے ہوئے تھے۔ ان تفصیلات اور انکے داستانیں بیان میں مرقع نگاری کی شان پیدا ہوگئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جلوس کا وسیع اور عریض مرقع وجود میں آتا ہے، ہم جلوس کو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں یہ معمولی کمال نہیں۔ پھر یہ بات کہ ایسے مقامات پر ہر جگہ زبان صاف اور بیان شفاف ہے۔ اخلاق اور اشکال کی پرچھائیاں بھی نہیں پڑی ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ


ص14
آج ہماری ناواقفیت بلکہ آسان پسندی اور اس سے بھی بڑھ کر وہ جو کم فرصتی سے زیادہ عجلت پسندی کا رجحان ہمارے ذہنوں میں سما گیا ہے؛ یہ سب مل کر ہمیں اس مغالطے میں مبتلا کر سکتے ہیں کہ یہ تو بہت مشکل بیان ہے۔ عورتوں کے مکالمے تو ایسی شفاف زبان میں لکھے گئے ہیں کہ نواب مرزا شوق کی مثنوی کے کوٹ شعرر یاد آ جاتے ہیں جوگی کی کٹیا کا حال اور بیان لکھنؤ میں لکھنؤ کے فنکاروں اور پیشہ وروں کا بیان ایسے سارے مقامات پر انداز بیاں میں المیتۃ رنگ تو ہے مگر گہرا نہیں ایسا نہیں کہ اس جرگے کی صدارت والا ان کو نہ سمجھ سکے میں یہ نہیں کہتا کہ مشکل مقامات اس میں ہے ہی نہیں ہیں اور ضرور ہیں لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں

تیسری خاص بات جو ہمہ وقت نظر میں رکھنے کی ہے یہ ہے کہ سرور نے داستان لکھی تھی ناول نہیں لکھا تھا اور وہ داستان فورٹ ولیم کالج میں کل ٹرسٹ کے جدید ذہن اور نئے انداز سے نذر کے بنائے ہوئے خاکے کے تحت نہیں لکھی گئی تھی یہ داستان لکھنو کے اس معاشرے کے لئے لکھی گئی تھی جہاں داستان سرائیکی ظبعیت کو پسندیدگی کی سند حاصل ہورہی تھی اور جہاں مرصع سازی کو کمال فن سمجھا جانے لگا تھا یہ جو مثلا سردی کے بیان میں بہت سی تشبیہیں آگئی ہے یا ستارے آگئے ہیں یا مثلا کھانوں وغیرہ کے بیان میں بہت سے نام پے در پے آتے ہیں چلے جاتے ہیں تو یہ داستان سرائی کا خاص انداز ہے اس قسم کی وغیرہ سے مقامات کے ساتھ انصاف کیا ہی نہیں جاسکتا

یہاں چونکہ لسانی تجزیہ مقصود نہیں اس لئے انہیں شہروں پر اکتفا کرتا ہوں ضرورت اس کی ہے کہ ایک مستقل موضوع کے طور پر کوئی واقف کار اس کتاب کی نثر کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں اور عیب و ہنر دونوں کی تفصیلات مرتب کرے میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں کوثر کا پلڑا بھاری نکلے گا جس زمانے میں نہیں زمانے میں کمال کی نشانی تھا اور جسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور جس کے تجزیے سے آج ہم میں سے بہت سے لوگ شاید سہی طور پر عہدہ برآ نہیں ہو سکے یہ ضمنی گفتگو ختم ہونے کو ایلک نسبت اسے ختم کرنے سے پہلے اسی سلسلے میں عزیز احمد کا


ص 15
ایک اقتباس ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں

طلسماتی داستانوں کے دور میں اور اس کی پیداوار کے طور پر کم سے کم ایک کتاب ایسے ظہور میں آئی جو ناول سے بہت قریب ہے یہ مرزا رجب علی بیگ سرور کا فسانہ عجائب ہے تین خصوصتیں اسے طلسمی ہوشربا اور بوستان خیال جیسی داستانوں سے ممتاز کرتی ہے پی لی تو اس کا اختصار۔۔۔۔۔۔۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ گرد و پیش کے ماحول سے بھی متاثر ہے۔۔۔۔۔۔۔تیسری خصوصیت یہ کہ مصنف قصے سے زیادہ زبانوں سے اسلوب پر توجہ دیتا ہے اور زبان کی داد چاھتا ھے۔۔۔یہ خصوصیت بہت ہی اہم ہے کہ مصنف نے اسلوب کو کتاب کی دلچسپی کی جان بنانا چاہا ہے اور اسطرح رتن ناتھ سرشار کے لیے راستہ صاف کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔سرشار کے یہاں بھی۔۔۔۔۔۔

اصل دلچسپی کے سے سے بھی زیادہ زبان میں واقعات سے زیادہ زبان میں عمل سے زیادہ مکالمے میں ہے (ترقی پسند ادب والے رجب علی بیگ سرور صفحہ 231 (

فسانہ عجائب کینسر میں بہت سے مقامات پر کچہ پن محسوس ہوتا ہے جو اور لفظی رعایتوں کیسر سروری پابندی نے بیٹنگ پر بھی پیدا کیا ہے جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے اس میں ان کی کم مشقیں کا دخل کچھ زیادہ معلوم ہوتا ہے ان کی دوسری کتاب ترجمہ اللہ کو دیکھئے جس کا نام شبستانوں رہے اس میں ایسی خامیاں اس طرح کا کچہ پن نہ ہونے کے برابر ہے۔

رعایت لفظی سرور کینسر کا عام جوہر ہے اور قافیہ بند جملے لکھنا خاص انداز ہے اس میں بجائے خود کچھ ایسی خرابی نہ تھی؛ مگر نظیر حد تک شوق بے حد قافیہ بندی کے شوق بے نہایت میں کچھ مقامات پر عبارت میں خرابی پیدا کردی ہے۔ داستانی انداز یوں ہی تفصیل بلکہ طوالت کا طلبگار رہا ہے۔ داستان میں ایجاز اور اختصار کو دخل حاصل نہیں ہوت، اس کے بیان کا بڑا حصہ بھی مزہ بن کر رہ جائے اگر اس میں مختلف مناظر آسیہ زبان وغیرہ کے سلسلے میں تفسیر نگاری اور عیش پسندی سے کام نہ لیا جائے لیکن سرور کے یہاں تفسیر نگاری کے ذیل میں بعض اوقات لفظ یا اس کے ایسے پھٹے ٹکڑے بھی آجاتے ہیں

ص 16
جو عبارت کو بےکیف بنادیتے ہیں۔ مثالوں کی تو یہاں گنجائش کم سے کم ہے، آپ صرف بطور مثال اس سے وہ دیکھئے جہاں جان عالم انجمن آرا کو ساتھ لے کر بادشاہ سے رخصت لیتا ہے اور عازمِ وطن ہوتا ہے [ ص 178 سے ص 185 ]

رعایت لفظی اور قافیہ بندی کے شوق فضول نے کئی جگہ بدمزگی پیدا کردی ہے۔ صرف ایک مثال "پھر شکار کا سامان میرشکار لائے جیتے جی دشمنوں کا برا چیتے بلکہ لہو پیتے۔ سیاہ گوش در اوس ہرن لڑنے والے خانہ زاد گھر کے پالے" [ ص 181] ایسے کئی جملے اس بیان میں مل سکتے ہیں [ اس کے باوجود اس بیان میں شاہی سازوسامان کا جیسا بیان ہے، مختلف شاہی کارخانوں کا جیسا احوال سامنے آتا ہے اور سامان سفر کا جس طرح بیان ہوا ہے؛ یہ سب بھی اپنی جگہ پر حیرت آفرین اور خوش ربا ہیں۔ شاہی سامان کا تو کیا ذکر، معمولی اشیاء اور افراد کا تذکرہ آج ہمارے لئے معلومات بخش بھی ہے اور اور حیرت آفرین بھی۔ مثلا سقوں کا بیان: " ان کے بعد ہزارہا سقا، خواجہ خضر کا دم بھرتا ، چھڑکاؤ کرتا ۔ کمر میں کھا روے کی لنگیاں ، شانوں پر بادلے کی جھنڈیاں ، مشکوں میں بید مشک بھرا ، دہانے میں ہزارے کا فوارہ چڑھا۔۔۔]

ی مسلم سردی کے بیان کو دیکھئے جو صفحہ 326 سے صفحہ 328 تک پھیلا ہوا ہے۔ اس بیان کے متعدد ٹکڑوں کو غیر ضروری اور غیر متناسب لفظی رعایتوں اور قافیہ بندی کے ہوکوں بے مزہ بلکہ بدمزہ بنا دیا ہے۔ صرف دو جملے بطور نمونہ کافی ہوں گے: " اشکِ شمع انجمن لگن تک گرتے گرتے اولا تھا، پروانوں نے پھرتے پھرتے ٹٹولا تھا"

" بندوق میں لاگ نہ تھی چانپ کے پتھروں میں آگ نہ تھی، توڑا ہر ایک گل تھا، توتے کی جگہ شورِ بلبل تھا۔"
 
آخری تدوین:
ص 101
مخؔمور اکبر آبادی کے مرتب کیے ہوئے ایک نُسخے کا اس سے پہلے ذکر آ چکا ہے۔(ناشر:رام نارائن لال بینی مادھو، الہ اباد)۔ میرے سامنے اس کا دوسرا ایڈیشن ہے جو ۱۹۷۶ میں چھپا ہے۔اِس کا متن کسی ایسے موخّر نول کشوری نسخے پر مبنی معلوم ہوتا ہے جس میں اغلاط اور تحریفات کی کمی نہیں، نتیجہ یہ ہے کہ متن کا احوال سقیم ہے۔ مقدمے میں مرتّب نے خاص بات یہ لکھی ہے کہ سرور اکبر آباد (آگرہ) کے رہنے والے تھے۔ اُن کا یہ قول بھی غیر معتبر ہے۔ اُنھوں نے جس نسخے کو بنیاد بنایا ہے، اُس میں "بیانِ لکھنؤ" کے آغااز میں "متوطن حال" تحریر ہے، غالباََ اسی پر اکبر آبادی ہونے کے ہَوائی دعوے کی بنیاد رکھّی گئی ہے۔ غرض کہ یہ نسخہ ہر لحاظ سے غیر معتبر ہے۔ گیان چند جین صاحب نے ڈاکٹر رفیق حسین کے مرتب کیے ہوئے نسخے کا بھی ذکر کیا(اُردو کی نثری داستانیں)۔ میں نے اُسے نہیں دیکھا۔ خود جین صاحب نے اِس نسخے کے متعلّق جو چند جملے لکھے ہیں، وہی اِسے غیر معتبر مان لینے کے لیے کافی ہیں۔

بنیادی متن
فسانۂ عجائب کا بنیادی متن کے نام سے ڈاکٹر محمود الہیٰ نے ا،س کتاب کی ایک روایت شائع کی ہے (سالِ طبع:۱۹۷۳ء) جس کے متعلّق اُن کا خیال ہے کہ یہ اِس کتاب کی پہلی روایت ہے ۔ مطبوعہ کتاب کے مقابلے میں یہ مختصر ہے۔ اِس میں "بیانِ لکھنؤ" کا حِصہ تھوڑا سا ہے اور میر امن کا مطلق ذکر نہیں۔ اُن کو اِس کا مخطوطہ ملا تھا، جو ۱۲۵۵ھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے متن کی بنیاد بنایا ہے، اِس لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اِسی کو نقل کرتے۔ اُنھوں نے یہی کیا، اور یہ جُملہ جو اصلاََ تحریف شدہ تھا، اُن کے متن میں شامل ہو گیا۔ ایک بات اور: مرتّب اپنے مقدّمے میں جہاں زبان و بیان پر گرتگو کی ہے، وہاں ایک عنوان قائم کیا ہے "دہلوی محاورے"۔ اپس کی ذیل میں انھوں نے "دن دیے" بھی لکھا ہے، یعنی یہ دہلوی محاورہ سرؔور کے یہاں موجود ہے اور مثال میں یہی جُملہ نقل کیا ہے:"دن دیے لُٹ گیا عشق کا بیوپاری"(ص۳۱)۔ یہ واقعتاََ اُلجھن میں ڈالنے والی بات ہے۔

ص 107
درمیان ذرا سا فصل پیدا ہو جائے,جو پڑھنے والے کی نظر میں بہ آسانی اور فوری طور پر آ جائے اور وہ سجھ لے کہ یہاں خواندگی میں ان لفظوں کو الگ الگ آنا چاہیے -اسکی وضاحت کے لیے شروع متن ہی سے ایک مثال پیش کروں گا۔"سزاوار حمد و ثنا خالق ارض و سما ،,جل و علیٰ ۔صانع بے چون و چرا ہے“(صٰ) اس جملے میں چار ٹکڑے ہیں۔
ان میں سے دوسرے اور تیسرے ٹکڑے بعد کاما آیا ہے۔مگر پہلے ٹکڑے کے بعد کاما آیا ہے ۔مگر پہلے ٹکڑے {سزاوارِ حمد و ثنا} کے بعد کاما نہیں آسکتا، کیونکہ یہ ٹکڑا اس طرح الگ اور معنوی طور پر خود مکتفی نہیں،جسطرح وہ ٹکڑے ہیں،مگر یہ بھی الگ سا!اس لیے اسے اس طرح لکھا گیا ہے کہ اس کے بعد ذرا سا فصل پیدا ہو گیا ہے۔ اس اندازِ کتابت کو {اور اس کی افادیت کو} ہر جگہ با آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس التزام کو نبھانے میں مشکل تو بہت پیش آئی! مگر بہ حال اسمیں کامیابی حاصل ہوئی اور یہ التزام آخر تک بر قراررہا۔
مشؔدد حرفوں پر تشدید ضرور لگائی گئی ہے۔اسی طرح اضافت کے زیر بھی پابندی سے لگائے گئے ہیں۔اس التزام کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔اضافت کا مسلئہ بعض مقامات پر خاصہ پریشان کن ہوتا ہے، ویسے بھی یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے،ان دونوں باتوں کو ذہن نشین کد لیا گیا تھا اور پیشِ نظر رکھا گیا۔اس سلسلے میں

————————————————
؀۱
قاضی عبد الودود صاحب نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ جو لوگ کسی متن کو مرتب کرتے ہیں اور اسکا مسودہ کسی دوسرے شخص سے لکھواتے یا ٹائپ کراتے ہیں،تو وہ تدوین کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔یہ لازم ہے کہ مرتب اپنے سے پورے متن کو نقل کرے،تاکہ مشخصات متن {بشمول املائے الفاظ} برقرار رہ سکیں۔میں نے اس قول کو گرہ میں باندھ لیا تھا اور اس پر پابندی سے عمل کرتا ہوں۔ اس کتاب کا مکمل مسودہ میں نے اپنے قلم سے لکھا اور ایسے مقامات پر ،جہاں کاما کے بجائے دو لفظوں کے درمیان فصل رکھنا تھا،ایسے دو لفظوں کے درمیا ترچھا خط سرخ روشنائی سے کھینچا گیا ۔اس طرح التزام رہ پایا{اس کے باوجود تحسین کے اصل مستحق زیدی صاحب ہیں ،جنہوں نے اس متن کی کتابت کی ہے}۔
 
آخری تدوین:
صفحہ 109
نمبر شمار ڈالنا پڑے تھے؛ انتسابِ اشعار کے نمبر شمار کو اُن سے الگ رکھنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ بعد میں اختلافِ نسخ والے ہندسے تو ہر صفحے سے مٹا دیے گئے، یہ انگریزی ہندسے باقی رہ گئے۔ ان کو بدلنے میں مزید طویل عمل تھا، یو انھیں برقرار رکھا گیا۔
میر سوز کے اشعار کے لئے اُن کے دیوان کا کئی جگہ حوالہ دیا گیا ہے؛ اس سے مراد وہ دیوان ہے جو رسالہٰ اردوئے معلّیٰ (دہلی یونیورسٹی) کے "میر سوز نمبر" میں شائع ہوا تھا۔
میر تقی میر کے اشعار کے لئے کلّیاتِ میر مرتّبہٰ آسی کا حوالہ دیا گیا ہے؛ "کلّیات" سے یہی مراد ہے۔
نوازش کے اشعار کا مقابلہ اُن کے خطّی دیوان مخزونہ خدا بخش لائبریری پٹنہ سے کیا گیا ہے۔ میرے علم میں یہ اس دیوان کا واحد نسخہ ہے۔ (یہ دیوان اب تک غیر مطبوعہ ہے)۔
ناسخ کے اشعار کے لئے کلّیاتِ ناسخ طبعِ اوّل (1254ھ) اعر طبعِ ثانی (1262ھ) دونوں نسخے پیشِ نظر رہے۔

(4) دیباچہ کتاب میں (ص ا سے ص 31 تک) افراد، مقامات، عمارات (وغیرہ) کے جو نام آئے ہیں (اس میں شعراء کے تخلص بھی شامل ہیں) چوتھے ضمیمے میں انکو شامل کیا گیا ہے۔ البتہ چار نام ایسے ہیں جو دیباچہ کتاب میں شامل نہیں، اصل کتاب میں ہیں؛ یہ نام ہیں: مرزا حسین بیگ، درگا پرشاد مدہوش، للّو جی اور گھنٹا بیگ کی گڑھیّا۔
اوّل الذّکر سرور کے خاص دوست تھے اور باشندہ لکھنؤ۔ مدہوش نے اس کتاب کی تاریخ لکھی ہے جو شامل کتاب ہے اور یہ بھی سرور کے احباب میں سے تھے۔ لکھنؤ میں للّو جی اپنے زمانے کے کتھک کے باکمال فن کار تھے اور آخر الذّکر لکھنؤ کے ایک محلے کا نام ہے؛ اس بنا پر ان ناموں کی شمولیت ضروری سمجھی گئی؛ اسے استثنا سمجھا جائے۔
دیباچہ کتاب (اور کتاب) میں جمشید، رستم، اسفندریار، حاتم جیسے متعدّد نام آئے ہیں؛ لیکن یہ نام عموماً صفاتی حیثیت میں آئے ہیں (جیسے؛ جم شوکت) ایسے ناموں کو فرہنگ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ کتاب میں معروف شعراء کے جو نام (یا تخلص) آئے ہیں؛ (جیسے انشا، مصحفی وغیرہ) ان سے لوگ عموماً واقف ہی ہیں، اس لئے اِن کو اس ضمیمے میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہی صورت معروف شہروں کے ناموں کی ہے (جیسے؛
 
ص 110

کلکتہ، ملتان، کان پور، دہلی وغیرہ) سرور کے رکھّے ہوئے 'نام' جیسے: انجمن آرا، زر نگار، فسحت آباد بھی اسی ذیل میں آتے ہیں، کیوں کہ یہ نام محض علامتی حیثیت رکھتے ہیں۔
(۵) پانچواں ضمیمہ تلفّظ اور املا سے متعلّق ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ خاص خاص الفاظ پر جو اعراب لگائے گئے ہیں یا جو املا اختیار کیا گیا ہے، اُس کی وجہ اور بُنیاد کیا ہے۔

(۶) چھٹا ضمیمہ "الفاظ اور طریقِ استعمال" پر مشتمل ہے۔ اس میں ایسے لفظوں اور عبارت کے ٹکڑوں کو یک جا کر دیا گیا ہے جو اُس عہد کی زبان پر کام کرنے والوں کے مفید مطلب ہو سکتے ہیں۔ اس ضمیمے کے اندراجات سے اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سُرور کی زبان کا احوال کیا ہے، اس میں کس قدر پُرانا پن ہے اور کچھ لفظوں کو اُنہوں نے کیسے عجب ڈھنگ سے استعمال کیا ہے، جمع الجمع، عدد معدود میں واحد اور جمع کی نسبت کا احوال کیا ہے اور مبیّنہ متروک لفظوں کا کس قدر ذخیرہ اُن کی اِس کتاب میں محفوظ ہے (یعنی ایسے لفظ اور ایسا طریقِ استعمال، جسے بعد والوں نے متروک اور غیر مستحسن قرار دیا)۔

(۷) ساتواں ضمیمہ اختلافِ نسخ کا ہے۔ اس ضمیمے کے سلسلے میں دو وضاحتیں ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یہ ضمیمه صرف دیباچۂ 'فسانۂ عجائب' پر مشتمل ہے (یعنی ص ۱ سے ص ۳۱ تک) دوسری بات یہ ہے کہ ابتدا میں جب اس کام کا خاکہ بنایا گیا تھا تو یہ طے کر دیا گیا تھا کہ مکمل متن پر مشتمل ضمیمۂ اختلافِ نسخ تیّار کیا جائے گا۔ خاص کر اِسی کام کے لیے وہ سارے نسخے ڈھونڈے گئے جن کی شمولیت ضروری تھی۔ بہت کچھ دیدہ ریزی کے بعد مکمّل اختلافِ نسخ کا ضمیمہ تیّار کر لیا گیا۔ اس کے لیے ہر صفحے پر متن میں نمبر شمار بھی ڈالے گئے۔ یہ ضمیمہ پچاسی (۵۵) صفحات میں سما پایا تھا۔ (اُس وقت تک نسخۂ د کی اطّلاع نہیں تھی اور ن کی پہلی اشاعت [۱۲۸۳ھ] نہیں ملی تھی، دوسری اشاعت سے کام لیا گیا تھا۔ باقی سب نسخے یعنی ح، م، ض، ک، ف، ل موجود تھے۔ اِن سات (۷) نسخوں کی مدد سے اختلافِ نسخ تیّار کیا گیا تھا)۔ جب سب کام مکمّل ہو گیا تو معلوم ہوا کہ زیادہ ضخامت کی وجہ سے یہ کتاب نہیں چھپ سکتی [وہی پرانی بات، دفتری خامہ فرسائی)۔ مشورہ کیا گیا، طے یہ ہوا کہ اختلافِ نسخ کے اس حصّے کو شامل نہ کیا جائے، اِس طرح کچھ تو ضخامت
 

شمشاد

لائبریرین
مقدمہ فسانہ عجائب از رشید حسن خاں

صفحہ ۱۵

مقدمہ

مرزا رجب علی بیگ سرور 1 کی کتاب فسانہ عجائب مختصر داستانوں کے سلسلے کی مشہور کتاب ہے۔ یہ ہمارے کلاسیکی ادب کا حصہ بن چکی ہے۔ آج اس کتاب کے متعلق [تاریخی حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کرکے] بعض حضرات جو رائے بھی ظاہر کریں اور اس پر جس قدر اعتراضات کریں ؛ لیکن یہ واقعہ ہے کہ جس زمانے میں یہ کتاب سامنے آئی تھی، اس زمانے میں اس کی یکتائی کی دھوم مچ گئی تھی اور بہت جلد اس کو دبستان لکھنو کی نمایندہ تصنیف کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا۔

صرف داستان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں بہت سی خامیاں نکالی جاسکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر تو یہی بات کہ داستان کا ہیرو ان صفات سے بڑی حد تک محروم ہے جو کسی مرکزی کردار میں دلکشی کی چمک پیدا کیا کرتی ہیں۔ کئی ضمنی کہانیوں کے جوڑ پیوند لگی ہوئی اس داستان کے بوجھ کو سہارنے کی سکت اس میں نظر نہیں آتی۔ سادہ لوحی میں بھی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جان عالم کی تخصیص نہیں، ضمنی کہانیوں کے نمایاں افراد بھی ایسے ہی ہیں۔ مثلا وہ بادشاہ جو ادنا تامل کے بغیر اپنی بیوی کو ایک ان جان سوداگر کے ساتھ بھیج دیتا ہے، جس نے یہ جھوٹ بولا ہے کہ میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے اور وہ سوداگر اسے اپنے ساتھ اپنے
----------------------------------------------------------------
1 فسانہ عجائب کی اشاعت اول (1259ھ) اور اشاعت ثانی (1263ھ) (یعنی نسخہ ح اور نسخہ ض) میں "بیان لکھنو" کے آغاز میں مصنف نے اپنا نام "رجب علی بیگ" لکھا ہے۔ اشاعت 1267ھ (نسخہ ک) اور اشاعت 1280ھ (نسخہ ل) میں "مرزا رجب علی" ملتا ہے۔ اس لیے میں نے مکمل نام "مرزا رجب علی بیگ" لکھا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶

ساتھ اپنے ملک لے جاتا ہے۔ معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی اس قدر کم فہمی کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ اس لیے تو خود سرور نے لکھا ہے کہ "یہ بیچارے اللہ کے ولی"۔ یا مثلا وہ سوداگر جس نے بندر کی صورت میں جان عالم کو اپنے ساتھ رکھا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بادشاہ بندروں کو پکڑوا رہا ہے اور مروا رہا ہے ، اس کے باوجود وہ آنے جانے والوں کو بندر کی باتیں سنواتا ہے۔ اتنا بڑا سوداگر اور اس قدر سادہ لوح! یا مثلا مجسٹن کا لڑکا کہ وہ بھی جان عالم کی طرح سادہ لوحی کا مارا ہوا ہے۔ اسے بھی سرور نے خود ہی بڑھاپے کی اولاد کہا ہے۔ یا وہ بادشاہ جس سے آخر میں جان عالم کی لڑائی ہوتی ہے۔ وہ تو اس قدر احمق ہے کہ اس کی فوج جانِ عالم سے مل گئی ہے، اکیلا رہ گیا ہے لیکن لڑنے چلا آتا ہے تلوار چلا آتا ہے اور قید کر لیا جاتا ہے۔ غرض کہ نمایاں کردار کے مرد تقریبا سب کے سب جان عالم ہی جیسے ہیں۔

یہ بات اگر نظر کے سامنے ہو کہ اودھ کی حکومت میں آصف الدولہ کے زمانے سے مجہولیت نے جس طرح چھاؤنی چھالی تھی اور "شہ زادگان کرام" جس طرح حکم رانی کی صلاحیت اور صفات سے تہی دامن تھے تو پھر اس کی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے۔ سرور نے کہانی کسی بھی خیالی دنیا کی کہی ہو ، داستان کی فضا اور اس کے کردار انھی کے زمانے کے ہیں، اور ان کے زمانے میں اکثر امراء اور ولی عہد صاحبان کا احوال یہی تھا 1۔ البتہ یہ دلچسپ بات ہے کہ اکثر عورتیں سوجھ بوجھ سے اس طرح خالی نہیں : بلکہ نواب مرزا شوق کی مثنویوں کی فعال اور طرار خواتین کی طرح ہیں۔ وجہ اس کی بھی اسی معاشرے کے احوال و کردار میں باآسانی تلاش کی جاسکتی ہے۔

زبان کے لحاظ سے بھی اس میں بہت سے جھول تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اکھڑے اکھڑے جملے تو اچھی خاصی تعداد میں مل جائیں گے۔ حُسن بیان کا رنگ بھی کئی جگہ اُڑا ہوا
-------------------------------------------------------------------------
1 دہلی میں بھی مغلوں کی حکومت کے آخری زمانے میں یہی احوال تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ پچھلی شاندار روایت کا عکس وہاں آنکھوں میں بسا ہوا اور دلوں میں سمایا ہوا تھا، جس کے اثر سے بیرونی سطح پر کچھ نہ کچھ بھرم رہ گیا تھا۔ لکھنؤ میں یہ بڑی کمی تھی یہاں ایسی کوئی روایت سایہ فگن نہیں تھی۔ اس کے اثرات کئی صورتوں میں نمایاں ہوئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷

دکھائی دے گا۔ لفظوں کا بے محل صرف بھی ملے گا اور ایسا پیرایہ بیان بھی ملے گا جس کو بے کمالی کی نشانی کہا جاسکتا ہے۔ یہ سب مسلم اور برحق مگر بات وہی ہے کہ یہ کتاب محض ایک داستان نہیں صرف زبان کا نگارخانہ نہیں؛ یہ دراصل ایک اسلوب کا دوسرا نام ہے اور اصل حیثیت اس اسلوب کی تھی اور ہے۔ آج ہم اپنے زمانے اور ذہن کے لحاظ سے جو بھی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کے لکھنؤ کا وہ معاشرہ اسی انداز کا پرستار اور اسی اسلوب کا دل دادہ تھا۔ چکبست کے الفاظ میں "اودھ پنچ کے پہلے رجب علی بیگ سرور کی طرز تحریر کی پرستش ہوتی تھی" (مضامین چک بست انڈین پریس الہ آباد، سال طبع ۱۹۴۰، صفحہ ۲۲۹)

زمانہ بدل گیا ذہن بدل گئے انداز نظر بدل گیا؛ ان بہت سی تبدیلیوں کے باوصف یہ کتاب اپنی حیثیت کو اب بھی برقرار رکھے ہوئے ہے [ کلاسکی ادب کی شاید یہی سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے] اب بھی یہ چھپتی رہتی ہے اور پچھلی تین دہائیوں میں تو اس کے متن کو نئے انداز سے پیش کرنے کی کئی قابل ذکر کوششیں بھی کی گئیں ہیں۔ مصنف کے زمانے سے اب تک یہ کتاب اتنی بار اور اتنے اہتمام کے ساتھ چھپی ہے کہ داستانی سلسلے کی کم کتابیں اس باب میں اس کی برابری کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔ باغ و بہار سے مقابلہ کرنا مقصود نہیں رخ روشن کے آگے شمع کون رکھے گا؛ اس کو چھوڑ کر اس انداز کے باقی سبھی داستانی قصوں کو ادبی حیثیت سے بھی اس کے برابر شاید ہی رکھا جاسکے۔

اس کتاب کو ایسے باقی قصصوں کے مقابلے میں ایک اور افضیلت بھی حاصل ہے، کہ اس کی حیثیت صرف ادبی نہیں تاریخی بھی ہے اور یہ تاریخی حیثیت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ دہلی و لکھنؤ کی دبستانی بحث کے فروغ میں اس کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ سرور نے دیباچے میں میر امن اور دہلی دونوں کے متعلق جو کچھ لکھا تھا، اس نے باضابطہ اعلان جنگ کا کام کیا۔ دنوں تک یہ بحث چلتی رہی اور اب بھی اس کی بازگشت سنائی دے جاتی ہے [ مثلا جوش ملیح آبادی اور شاہد احمد دہلوی میں پچھلے دنوں جو بحث چلی تھی اس میں اس پرانے جھگڑے کا بھی حوالہ موجود ہے رسالہ نقوش(لاہور) کے "ادبی معرکے نمبر میں اسے دیکھا جا سکتا ہے]۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸

یہاں ضمنی طور پر [اور بطور جملہ معترضہ] یہ وضاحت ضروری ہے کہ دہلی اور لکھنو کا جھگڑا فسانہ عجائب سے شروع نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ یہ کتاب نہ لکھی جاتی تب بھی اختلافات ابھر کر سامنے آتے ضرور۔ اصلاً یہ سیاسی قضیہ تھا۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے ہی سے اختلافات کی بنیاد گہری ہونے لگی تھی۔ پھر جب نواب غازی الدین حیدر نے انگریزوں کے اشارے پر بادشاہت کا اعلان کیا، اس وقت سے وہ جو ایک ظاہری پردہ سا تھا وہ بھی اٹھ گیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اختلافات کی نمود شدت اور وسعت کے ساتھ تہذیبی اور ادبی سطح پر ہوئی۔ چونکہ سیاسی سطح پر مقامی حکومت اگرچہ نام کی خود مختار تھی ، لیکن عملی طور پر وہ بے اختیاری کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی اور دوسری طرف وہ نیا معاشرہ اپنے امتیاز اور اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنے کا بے طرح آرزو مند تھا اسلئے تہذیبی اور ادبی سطحوں ہی پر ایسے اختلافات کی نشونما ہونا تھی اور یہی ہوا۔ ادبی سطح پر اختلافات نے زیادہ شہرت پائی [ دریائے لطافت میں سید انشاء نے جہاں دہلی اور لکھنو کا موازنہ کیا ہے، وہاں بین السطور بہت کچھ پڑھا جا سکتا ہے اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ذہنوں میں کس طرح کے خیالات نشوونما پا رہے تھے]۔

دہلی والوں کو اپنی زبان اور اپنی ادبی روایت پر بہت ناز تھا۔ اس وقت تک سند بھی وہیں سے لی جاتی تھی۔ اگرچہ اجڑی ہوئی دہلی سے ترک وطن کرکے اس شاد و آباد مملکت میں بہت سے دہلی والوں کو پناہ لینا پڑی تھی اس کے باوجود وہ مہاجرین یہاں والوں کو پورب والے کہتے تھے، ان کی نظر میں نا یہاں کی تہذیبی روایت کی کوئی حیثیت تھی نہ یہاں کی زبان کی۔ اب تک اس مملکت کو اسی نظر سے دیکھتے تھے جس نظر سے ایک خودمختار سلطنت اپنے کسی زیرِ نگیں علاقے والوں کو دیکھا کرتی تھی۔ مرزا غالب نے اپنی پنشن کے قضیے میں کلکتہ جاتے ہوئے لکھنؤ میں بھی قیام کیا تھا۔ اس وقت غازی الدین حیدر نواب وزیر نہیں اودھ کے بادشاہ تھے اور معتمدالدولہ آغامیر ان کے وزیراعظم اور نائب السلطنت تھے۔ مرزا صاحب ان سے ملاقات کی خواہش مند ضرور تھے ان کی مدح میں قصیدہ بھی کہ رہے تھے، ایک فارسی نثر بھی لکھی تھی، اور ایک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹

غزل میں تین شعر بھی مدھیہ انداز کے کہے تھے جس کے دو شعر یہ تھے:

لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو

لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید
جادہ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو

غرض ملاقات طے ہوگئی لیکن ہو نہیں پائی۔ وجہ یہ ہوئی کہ " مرزا صاحب نے ملاقات سے پہلے دو شرطیں ایسی پیش کیں، جو منظور نہ ہوئیں: ایک تو یہ کہ نائب میری تعظیم دیں دوسرے نذر سے مجھے معاف رکھا جائے" [ یادگار غالب، طبع اوّل ، ص 27 ]، یہ دراصل اسی روایتی احساس برتری کا مظاہرہ تھا۔ اآپ دیکھیے تو مرزا صاحب مالی امداد کے متمنی ہیں، چاہتی ہیں کہ صلہ ملے، ضرورت مند بھی ہیں؛ لیکن ملاقات کے لیئے اپنی طرف سے یہ شرط لگا دیتے ہیں کہ وزیراعظم ان کی تعظیم کریں۔ اور وہ وزیراعظم کی خدمت میں دستور کے مطابق نذر پیش نہیں کریں گے۔ نذر پیش کرنے کا مطلب ہوتا ہے بالادستی اور برتری کا اعتراف اور اظہار؛ مرزا صاحب اس کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ تھی نا عجیب بلکہ عجیب تر بات! بات وہی تھی کہ دہلی والے آخر تک یہی سمجھتے رہے کہ بادشاہت تو دہلی میں تھی اور وہیں ہے۔ یہاں والوں کو تو سند حکومت اسی دروازے سے ملتی رہی ہے۔

بادشاہت کی طرح زبان کا مرکز بھی دہلی کو مانا جاتا تھا، سند بھی دہلی والوں سے لی جاتی تھی۔ اس کا ردعمل تو ہونا تھا۔ سرور نے دہلی اور میر امن کےمتعلق جو کچھ لکھا ، اس کو اس رد عمل کے فروغ میں بڑا حصہ مل گیا اور اسی نسبت سے شہرت ملی۔ یہ واقعہ ہے کہ سرور سے پہلے لکھنو کے کسی ادیب [ اور شاعر نے اور اس میں ناسخ بھی شامل ہیں ] دہلی اور اہل دہلی کی لسانی بالادستی اور وہاں کی یکتائی اور استناد سے اس طرح علی الاعلان انکار نہیں کیا تھا۔ احتشام صاحب نے بجا طور پر لکھا ہے کہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 بعد میں مرزا صاحب نے اس مصرعے کواس طرح بدل دیا : لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب۔ متداول دیوان میں یہ اسی طرح ہے۔
2 میر مہدی مجروح نے مرزا غالب کو جو یہ لکھا تھا کہ " اگر شرم آئی تو رجب علی سرور کو آئے ۔۔۔۔ ان سے کہا چاہیے کہ ارے بندہ خدا، خدا سے ڈر! لکھنؤ کس بادشاہ کا دارالخلافہ رہا ہے؟"
[رجب علی بیگ سرور، ص 354 [ تو یہ اسی طرف اشارہ تھا۔
3 "عہدِ دولت بابر شاہ سے تا سلطنت اکبر ثانی کہ مثل مشہور ہے: نہ چولھے آگ ، نہ گھڑے میں پانی ، دہلی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۰

"تاریخی اعتبار سے سرور کی ادبی زندگی لکھنؤ کی اس عہد سے تعلق رکھتی ہے جب وہاں برائے نام سہی، ایک خود مختار بادشاہت قائم ہو چکی تھی اور وہ اپنی زبان، ادب معاشرت اور طرز فکر میں دہلی سے آزادی حاصل کر رہا تھا۔ لسانی اور ادبی خودمختاری کی خواہش نے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر لکھنو اور دہلی کے اس فرق کو اور زیادہ نمایاں کر دیا جس کے ہلکے نقوش اس سے پہلے ہی ابھرنے لگے تھے۔ رجب علی بیگ سرور کو اس حیثیت سے نئے لکھنوی ادب کا پہلا اہم نمائندہ کہا جا سکتا ہے، جس نے نہ صرف ایک مخصوص اسلوب پیش کرکے اس تفریق اور خودمختاری پر مہر لگا دی،
-----------------------------------------------------------
پچھلے صفحے کے حاشیے کا بقیہ :

اس سلسلے میں عام طور پر وہ عبارت نظر میں رہتی ہے جس میں میرامن کا نام آیا ہے : "اس ہیچ میرز کو یہ یارا نہیں کہ دعوی اردو زبان پر لائے ۔۔۔۔ اپنے منہ سے دھنا بائی ( ص 30 ( لیکن واقعہ یہ ہے کہ پورا بیان لکھنؤ اسی جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ جگہ جگہ یہ جذبہ جذبہ بے اختیار بن کر سطح پر ابھر آیا ہے اور بین السطور سے ابھرکر شامل سطور ہو گیا۔ مثلاً جب وہ لکھنؤ کی تعریف میں یہ لکھتے ہیں کہ : "جو گفتگو لکھنؤ میں کو بہ کو ہے؛ کسی نے کبھی سنی ہو سنائے۔ لکھی دیکھی ہو دکھائے۔"

"لکھی دیکھی ہو" سے بھی صاف اشارہ میر امن کی طرف ہے۔ یا مثلا اور لکھنؤ کے جیسے بازاری ہیں کسی شہر کے ایسے ہفت ہزاری ہیں۔ کسی شہر سے صاف صاف دہلی مراد ہے کہ ہفت ہزاری کا منصب وہیں سے ملا کرتا تھا۔ یا مثلا صفحہ 8 پر "گومتی میں غوطہ لگایا دیہاتی بن کے دھبے ہوگئے آدمی ہو گئے" میں بھی کنایہ موجود ہے۔ یہاں گومتی جمنا سے بڑھ گئی ہے۔ بیان لکھنؤ کا اصل مقصد ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ لباس کھانے وغیرہ معاشرت کے جملہ مظاہر میں لکھنؤ کی افضلیت اور یکتائی کو اس طرح بیان کیا جائے کہ یہ صاف صاف معلوم ہو جائے کہ اب یہ شہر دہلی پر افضلیت رکھتا ہے اور یہ بھی فصاحت اور بلاغت کی ٹکسال بھی اب یہیں ہے۔ ناسخ کے لیے انھوں نے جو یہ لکھا ہے کہ شیخ امام بخش ناسخ نے۔۔۔۔ روزمرے کو ایسا فصیح و بلیغ کیا کہ کلام سابقین منسوخ ہوا تو مطلب اس کا یہی ہے کہ وہ دور ختم ہوا جب زبان و شعر میں سند دہلی والوں سے لی جاتی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۱

بلکہ واضح طور پر دہلی کے ادبی انداز کو سخن گسترانہ چشمک کا موضوع بھی بنایا۔ اس حیثیت سے بھی سرور کا مطالعہ بڑی تنقیدی اہمیت رکھتا ہے۔"
[ رجب علی بیگ سرور، ص 14]

جس طرح ناسک کی شاعری کی اندرونی فضا اور اس کا مزاج لکھنو کی حسنِ معاشرت کا آئینہ دار ہے؛ اسی طرح سرور کی نثر آرائش پسندی کے وسیلے سے اس معاشرت کے انداز و اطوار کی آئینہ داری کرتی ہے ناسخ اور سرور دونوں اپنے اسالیب بیان کے واسطے سے دبستان لکھنؤ کے نمائندہ افراد ہیں۔ ایک کی شاعری لکھنؤ کی نئی شاعری روایت کا نقطہ آغاز بنی اور دوسرے کیی نثر فسانہ عجائب کی صورت میں وہاں کے خاص اندازکا پہلا نقش بن کر سامنے آئی یہ دوسری بات ہے کہ شعری روایت نے بہت فروغ پایا اور وہ ایک زمانے تک معیار اور مثال بنی رہی۔ناسخ نے کبھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا لیکن اس مملکت کے لیے جسے نئی نئی بادشاہت ملی تھی نئی شعری روایت اور نئے لسانی تصور کی بنیاد رکھی_ نئی حکومت کے لیے جس طرح نیا سکہ ضروری ہوتا ہے اسی طرح اس نئے معاشرے کو نئی ادبی روایت کی ضرورت تھی جو اس کی پہچان بھی ہو اور جو اس علاقے کو ایک دوسرے ادبی علاقے کی بالادستی سے بھی چھٹکارا دلاکر مستقل لسانی مرکز کی حیثیت دلاسکے_ یہ تاریخ ساز کام تھا اس میں نہ ناسخ اور سرور دونوں شریک تھے البتہ ناسک کی حیثیت شریک غالب کی تھی۔

فسانہ عجائب سے جس نثری روایت کا آغاز ہوا تھا اس نے شہرت تو بہت پائی صحیح معنی میں قبول عام بھی پایا وہ بھی مثال اور معیار بن کر ذہنوں کو متاثر کرتی رہی۔لیکن شعری روایت کے مقابلے میں اس کے اثرات کی حکمرانی کی مدت کم رہی۔ اس فرق کے باوجود تاریخ ادب میں ان دونوں روایتوں کے اثرات ہمیشہ کے لیے اس طرح محفوظ ہوگئے ہیں کہ ان کو معلوم کئے بغیر ان کو سمجھے بغیر ان کا جائزہ لیے بغیر تاریخ ادب کے اس باب کو نہیں سمجھا جا سکتا جو دبستان لکھنو سے متعلق ہے اس لحاظ سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ فسانہ عجائب کی اہمیت اپنی جگہ پر برقرار ہے اور رہے گی۔ اور ادب کے اچھے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲

طالب علموں کے لیے اِس کتاب کا مطالعہ بھی ناگزیر قرار پائے گا۔

باغ و بہار کی طرح یہ کتاب ھی اعلا نصابی ادب کا حصہ رہی ہے اور رہنا چاہیے۔ تاکہ طالب علم اُس عہد کی نثری روایتوں کو صحیح طور پر سمجھ سکیں۔ یہ بات خاص طور کر ہمارے ذہن میں رہنا چاہیے کہ یہ صرف ایک قصہ یا ایک مختصر داستان نہیں، یہ ایک روایت کا نقطہ آغاز ہے اور یہ دہلی و لکھنؤ کے لسانی جھگڑے کا بھی پہلا باب ہے۔ باغ و بہار اور فسانۂ عجائب صرف دو (۲) کتابیں نہیں، یہ دو (۲) مختلف اور مستقل اسلوب ہیں اور تقابلی مطالعے کے بغیر ان دو (۲) اہم اسالیب کو اور ان کے پس منظر کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ اِسی اہمیت کے پیش نظر اس کتاب کا انتخاب کیا گیا ہے۔

اوپر جو کچھ لکھا گیا، اُس کا مقصد یہ نہیں کہ تنقیدی نقظۂ نظر سے بھی اس کتاب کا جائزہ لیا جائے۔ تنقیدی جائزہ ایک مختلف چیز ہے۔ تدوین میں اصل بات متن کی صحت اور متعلقاتِ متن کی وضاحت ہوتی ہے۔ مقصود اس مختصر سی گفتگو سے صرف یہ ہے کہ اس کتاب کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا جائے، یہ واضح کرنے کے لیے کہ کلاسکی متنوں کی تدوین کے اس حاص سلسلے میں اس کتاب کو کیوں شامل کیا گیا اور کیوں ترجیح کا مستحق سمجھا گیا۔

اس کتاب کے متن کو کس طرح پیش کیا گیا ہے، تصحیح متن میں کن نسخوں سے کام لیا گیا ہے، اُن نسخوں کا احوال کیا ہے؛ ان سب ضروری مباحث سے پہلے، یہ ضروری ہے کہ اس کام کی حدود کا تعین کر لیا جائے، اور اس کی وضاحت کر دی جائے کہ اس کتاب [اور اس سلسلے کی دوسری کتابوں] کی تدوین میں کس اندازِ نظر سے کام لیا گیا ہے۔

تدوین کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی متن کو ممکن حد تک منشاے مصنف کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس میں بنیادی حیثیت صحتِ متن کی ہوتی ہے۔ مصنف نے آخری بار عبارت کس طرح لکھی تھی، یہ سب سے اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بنیادی بات ضرور ذہن میں رہنا چاہیے کہ عبارت ہو یا ایک جملہ یا جملے کا ایک ٹکڑا؛ یہ سب الفاظ کا مجموعہ ہوتے ہیں، اس اعتبار سے ہر لفظ کا تعین مرتب کی ذمے داری ہے۔ لفظ مجموعہ ہوتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳

حرفوں کا، اور یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر حرف کا تعین اس ذمے داری میں شامل ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ الفاظ کے تعین اور اُن کی صورت نگاری کی صحتِ متن میں اصل حیثیت ہوتی ہے۔

کسی کتاب کے مختلف نسخوں کو [اگر وہ موجود ہوں] سامنے رکھنا از بس ضروری، بل کہ لازم ہے۔ جب بھی مختلف نسخوں کو پیشِ نظر رکھ کر [منشاے مصنف کے مطابق پیش کرنے کے لیے] عبارت کی تصحیح کی جائے گی، اور اس سلسلے میں لفظوں کا تعین کیا جائے گا اور لفظوں کی شکل صورت کا تعین کیا جائے گا [یعنی کسی لفظ کو کس طرح لکھا جائے] تو بہت سے مسائل پیدا ہونے لگیں گے۔ یوں یہ ضروری ہو گا کہ حواشی میں ایسے ہر لفظ سے متعلق ضروری تفصیلات درج کی جائیں۔ بہت سے جملوں کی ترتیب اور معنویت بھی وضاحت کی محتاج نظر آئے گی؛ حواشی میں اُن سے متعلق وضاحتوں کا پیش کرنا بھی ضروری قرار پائے گا۔

وہ متن اگر شامل نصاب بھی ہے، تو ایک اور مسئلہ بھی سامنے آئے گا؛ تدوین سے جس کا حقیقی طور پر تعلق تو نہیں، مگر صحتِ متن کی تکمیل اور خواندگی کی آسانی کے لحاظ سے اُس کی حیثیت اب کچھ کم نہیں۔ "اب" کی تخصیص یوں کی گئی کہ ہمارے زمانے میں حالات کے اثر سے زبان کی تعلیم کا معیار پست ہو چکا ہے، فارسی سے عام طور پر ناواقفیت پائی جاتی ہے اور اب یہ بہت مشکل [اور بہت سے صورتوں میں ناممکن] معلوم ہوتا ہے کہ طالبِ علم [اور بہت سے اساتذہ بھی] بہت سے لفظوں کے تلفظ سے واقف ہوں۔ یہی احوال اضافت اور تشدید کا ہے۔ قواعدِ زبان سے نا واقفیت عام ہے اور مشکل متنوں کو پڑھنے کا سلیقہ گویا اُٹھتا جا رہا ہے اور صلاحیت مرحوم ہوتی جا رہی ہے۔ جملے میں ذرا سا اُلجھاوا ہو، تو طالبِ علم بہت زیادہ اُلجھتا ہے [اور بجا طور پر، یہ اُس کی مجبوری ہے اور حالات کا جبر]۔ اس صورت حال میں مشچکل کلاسکی متنوں کو جو شاملِ نصاب بھی ہوں، بہتر طور پر اور مفید طور پر پیش کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہو گیا ہے کہ منتخب لفظوں پر اعراب ضرور لگائے جائیں، اضافت کے زیر لازماً لگائے جائیں۔ تشدید ضرور لگائی جائے۔ معروف و مجہول اور غنہ آوازوں کے تعین کے لیے علامات سے کام لیا جائے۔ اسی کے ساتھ توقیف نگاری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴

[پنکچویشن] کا اہتمام بھی بہ طور خاص ملحوظ رکھا جائے؛ تاکہ اجزاے جملہ کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا جا سکے اور معنویت روشن ہو سکے۔ جب یہ سارے باتیں ملحوظ رکھی جائیں گی، تو مُرتب کے سامنے اور بہت سی اُلجھنیں آ کھڑی ہوں گی، اور بالآخر یہ ضروری قرار پائے گا کہ حواشی میں وسعت پیدا کی جائے تاکہ تلفظ، اضافت، تشدید، تذکیر و تانیث، اور اجزاے جملہ کے تعین سے متعلق ضروری وضاحتیں پیش کی جا سکیں اور حسبِ ضرورت اُلجھے ہوئے جملوں کی معنویت پر بھی کچھ گفتگو کی جائے۔ یہ سب کچھ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی وضاحتوں کے بغیر وہ کام ادھورا اور غیر مفید معلوم ہو گا۔ پڑھنے والوں کی نظر جگہ جبہ رُکے گی، ذہن میں اُلجھن بھی پیدا ہو سکتی ہے اور ایک اچھے طالبِ علم کی نقطۂ نظر سے جو معلومات ازبس ضروری ہو سکتی ہے، وہ موجود نہیں ہو گی۔

ایسے مفصل حواشی کی ضرورت ایک او روجہ سے بھی ہوتی ہے۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ بہت سے لفظ متروک ہو جاتے ہیں اور کچھ لفظوں کی شکل صورت میں کسی طور پر تبدیلی راہ پا لیتی ہے۔ افعال کی کچھ شکلیں بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ تذکیر و تانیث میں بھی تغیرات ہوتے رہے ہیں۔ پھر دبستانی اختلافات ہیں کہ ایک لفظ کو دہلی والے ایک طرح بولتے ہیں اور اہلِ لکھنؤ اُس لفظ کا تلفظ ایک اور طرح کرتے ہیں۔ یہی اختلاف بہت سے لفظوں کی تذکیر و تانیث میں بھی ہے۔ کچھ جملوں کی ترتیب اور ترکیب میں بھی اب اجنبی پن محسوس ہوتا ہے۔ یہ ساری مشکلیں حل طلب ہوتی ہیں۔ مرتب کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ [ممکن حد تک] ہر مصنف کے مختارات اور اُس عہد کے چلن سے خوب واقف ہو اور اُس واقفیت کے بل پر اُس خاص متن میں امکان بھر صحیح صورتوں کا تعین کرے، اور اُن کی وضاحت کے لیے حواشی میں ضروری تفصیلات درج کرے۔

میں صرف ایک مثال سے اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا: اس کتاب میں ص ۱۰ پر ایک جملہ یوں ہے: "باغ میں کوئل، پپہیے، مُور کا شُور۔ جھؤلے پر گھٹا رہی اؤ بھی گھنگور۔ اس جملے میں "اؤبھی" ایسا لفظ ہے جو عام اُردو والوں کے لیے اب اجنبی ہے۔ نہ اس کے تلفظ کا صحیح طور پر علم ہے [یعنی یہ کہ اس میں واو معروف ہے یا مجہول] اور نہ اس کے معنی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵

معلوم ہیں۔ فرہنگ میں اٹکل سے صرف اس کے معنی لکھ دینا کافی نہیں۔ یہ لازم ہو گا کہ حاشیے میں اس لفظ کے جملہ متعلقات کو بیان کیا جائے۔ اس کے بغیر طالبِ علم اس لفظ کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا [اور ہاں، اس جملے میں "گھٹا رہی" بھی بحث طلب ہے]۔

اس سلسلے میں ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے۔ یہ کہا گیا ہے [اور بجا طور پر] کہ جو کتابیں بہت مقبول ہوتی ہیں اور بار بار چھپتی ہیں [یا اُن کے خطی نسخے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں] اُن کے مختلف نسخوں میں بہت سے اختلافات ملتے ہیں۔ فسانۂ عجائب بھی بار بار چھپی ہے، اتنی بار چھپی ہے کہ اس کی سب اشاعتوں کا گوشوارہ تیار کرنا مشکل ہے۔ اس کتاب کے متن کے سلسلے میں صورت حال کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ مصنف نے اپنے زمانے کے مطبوعہ نسخوں کے متعلق لکھا ہے: "یہ نسخہ اور بزرگواروں نے بھی طبع کیا، اِلا بہ طرزِ زمانہ، کہ ایک حال پر نہیں رہتا، کم و بیش ہو گیا۔ جو فقرہ نہ پڑھا گیا، وہ اپنے طور پر گڑھا گیا۔" یہ عبارت اُس "نثرِ خاتمہ" میں ہے جو سُرورؔ نے نسخۂ مطبوعۂ مطبعِ میر حسن رضوی [سال طبع ۱۲۶۳ھ] کے لیے لکھی تھی۔ ۱۲۵۹ھ؁ میں یہ کتاب پہلی بار چھپی تھی؛ ۱۲۵۹ میں سے ۱۲۶۳ تک کم و بیش پانچ برس کی مدت ہے، مصنف زندہ موجود ہے اور اُس کو یہ شکایت ہے کہ چھاپنے والوں نے فقرے گڑھ لیے ہیں، یعنی متن میں تغیرات نے راہ پالی ہے۔

یہ تو ہوئی عام بات؛ اس کتاب کے ساتھ ایک اور مشکل اور بھی ہے، اور وہ یہہے کہ سُرورؔ نے پہلی اشاعت [۱۲۵۹ھ] کے بعد کئی بار اس پر نظرِ ثانی کی ہے اور ہر بار بہت سے لفظوں کو، فقروں کو اور بہت سی عبارتوں کو بدل دیا ہے۔ اُنھوں نے خود ہی لکھا ہے: "جب مصنف کی نظر سے یہ کتاب گزر جاتی ہے، زیورِ بیانِ تازہ کی چمک سے دونہ رونق پاتی ہے" [نثرِ خاتمۂ نسخۂ مطبوعہ ۱۲۸۰ھ]۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایسی تبدیلیوں کا کوئی ایک انداز نہیں۔ اس کو یوں دیکھیے کہ "حاجی حرمین مولوی محمد حسین" کی فرمایش پر جب اس کتاب پر نظرِ ثانی کی، تو گویا پوری کتاب کو بدل دیا۔ اس قدر تبدیلیاں کیں اور اتنی زیادہ عبارتیں بدلیں کہ یہ ایک نیا نسخہ بن گیا۔ ۱۲۶۷ھ میں یہ نسخہ مطبعِ محمدی کان پور میں چھپا؛ مگر اس کے بعد
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶

مولوی محمد یعقوب انصاری کی فرمایش پر سُرورؔ نے جب پھر اس پر نظرِ ثانی کی، تو اس ۱۲۶۷ھ والے نسخے کو گویا سرے سے کالعدم قرار دے دیا اور اب جو متن طباعت کے لیے دیا، وہ اشاعتِ ثانی (۱۲۶۳ھ) کے مطابق تھا [بعض ضمنی تبدیلیوں کے ساتھ]۔ یہ نسخہ ۱۲۷۶ھ میں شائع ہوا تھا۔ انھی مولوی محمد یعقوب انصاری کی فرمایش پر ایک بار پھر اس اشاعت پر نظرِ ثانی کی گئی، اس بار بعض ایسی عبارتوں کا اضافہ کیا گیا جو اس سے پہلے کسی نسخے میں نہیں پائی جاتیں۔ یہ نسخہ ۱۲۸۰ھ میں چھپا۔ [یہ مصنف کا نظرِ ثانی کیا ہوا آخری اڈیشن ہے، مگر اس کی کم یابی کا احوال یہ ہے کہ عام طور پر سُرورؔ اور فسانۂ عجائب سے متعلق تحقیقی کام کرنے والے اس نسخے کے وجود سے بے خبر رہے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ اصولِ تدوین کے مطابق مصنف کے آخری نظر کردہ متن کو ترتیبِ نو کی بنیاد نہیں بنایا جا سکا، اُس سے پہلے کے نسخوں سے کام لیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں منشاے مصنف کے مطابق اس کتاب کے متن کو پیش نہیں کیا جا سکا۔ یہ اُسی وقت ہو سکتا تھا جب ۱۲۸۰ھ کے نسخے کو بنیاد بنایا جاتا، کہ وہ مصنف کا نظرِ ثانی کیا ہوا آخری نسخہ ہے]۔

یہ اُلجھن کی بات تو تھی ہی، اس میں مزید اضافہ اس طرح ہوا کہ منشی نول کشور نے سُرورؔ سے اس کا حقِ اشاعت باضابطہ خرید لیا تھا۔ اس کے بعد ۱۸۸۳ء میں اس کا پہلا اڈیشن وہاں سے شائع ہوا [اس سے پہلے بھی یہ کتاب اس مطبعے سے چھپ چکی تھی، اخذِ حقوق کے بعد یہ گویا پہلا باضابطہ اڈیشن تھا]۔ اس کے بعد سے تو نول کشوری نسخوں سے بازار گویا بھر گیا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ اس باضابطہ نول کشوری اشاعتِ اول پر سُرورؔ نے نظرِ ثانی نہیں کی تھی؛ لیکن صاحبانِ مطبع نے نثرِ خاتمتُ الطبع میں ایسا مبہم اندازِ بیان اختیار کیا، جس سے یہ خیال بہ آسانی پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ نظرِ ثانی شدہ اڈیشن ہے۔ یوں یہ خیال کچھ لوگوں کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ یہ اس کتاب کا آخری مستند اڈیشن ہے، یعنی سُرورؔ نے اس خاص اشاعت کے لیے اس کتاب [اپنے معمول کے مطابق] نظرِ ثانی کی تھی؛ حالاں کہ یہ محض مفروضہ ہے۔ سُرورؔ نے حقوقِ اشاعت ضرور فروخت کیے تھے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷

لیکن اُس اشاعت کے لیے متن پر نظرِ ثانی نہیں کی تھی [اس کی ضروری تفصیل اس اشاعت کے تعارف کے ذیل میں آگے آئے گی]۔ اس غلط فہمی کو یوں بھی فروغ ملا کہ وہ خاص اشاعتِ اول اس قدر کم یاب ہے کہ آٹھ دس سال کی مسلسل تلاش کے بعد، جب میں گویا مایوس ہو چکا تھا، اچانک یہ نسخہ مل گیا اور یہ محض اتفاق تھا۔ اس مدتِ تلاش میں مجھے ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو یہ کہہ سکے کہ اُس نے اس اشاعت کو دیکھا ہے۔ اس اشاعتِ اول کی تفصیلات جن لوگوں نے لکھی ہیں، بیش تر نے دراصل مُوخر اشاعت کو دیکھا ہے، جس نے اُس اشاعتِ اول کی ایسی تفصیلات کو لکھ دیا گیا ہے اور وہیں سے اُن کو نقل کر لیا ہے۔ ڈاکٹر نیر مسعود کی کتاب رجب علی بیگ سرور میں بھی اشاعتِ اول کی تفصیلات مندرج ہیں اور اُنھوں نے مجھے خود بتایا کہ یہ تفصیلات دراصل مُوخر اشاعت سے منقول ہیں، اشاعتِ اول اُن کی نظر سےبھی نہیں گزری۔

بعد کی اکثر نول کشوری اشاعتوں کا احوال یہ ہے کہ اُن میں اختلافاتِ متن پیدا ہوتے گئے ہیں اور تحریفات بھی ملتی ہیں۔ میں اس مقام پر ایسی صرف ایک مثال پیش کروں گا، جس سے صورتِ حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عہدِ مصنف کے جس قدر مطبوعہ نسخے جمیری نظر سے گزرے ہیں، اُن میں "بیانِ لکھنؤ" کے آغاز میں "مرزا رجب علی تخلص سرور متوطن خطۂ بے نظیر دل پذیر" ملتا ہے۔ اُس نول کشوری اشاعتِ اول [اور اشاعتِ ثانی] میں بھی یہ ٹکڑا اِسی طرح ہے؛ لیکن ۱۸۸۲ء کی ایک نول کشوری اشاعت میرے سامنے ہے، اُس میں یہ فقرہ یوں چھپا ہوا ہے: "رجب علی بیگ تخلص سرور متوطن حال خطۂ بے نظیر دل پذیر۔" یعنی اُس میں لفظ "حال" کا اضافہ ہے۔ ظاہر ہے کہ کہ کُھلی ہوئی تحریف ہے اور بہ ظاہر مطبعے کے کسی کارکُن کی کارگزاری ہے۔ ہاں ڈاکٹر گیان چند جین نے مئی ۱۹۱۲ء کے ایک نول کشوری اڈیشن کا حوالہ دیا ہے کہ اُس میں بھی لفظِ "حال" موجود ہے [اُردو کی نثری داستانیں، اتر پردیش اُردو اکیڈمی اڈیشن، ص ۵۰۶]۔ اس سلسلے میں یہ دل چسپ بات سامنے آئی کہ میرے پاس ۱۸۶۲ء کی ایک نول کشوری اشاعت ہے، اُس میں لفظِ "حال" موجود نہیں۔ اس سے بہ ظاہر یہ نتیجہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸

نکالا جا سکتا ہے کہ لفظِ "حال" کا اضافہ اُس خاص اشاعتِ اول کے بعد سے (۱) شروع ہوتا ہے۔ کس نول کشوری اشاعت سے شروع ہوتا ہے، اس سلسلے میں یقین کے ساتھ اُسی وقت کچھ کہا جا سکتا ہے جب اُس زمانے کی، یعنی ۱۹۰۰ء سے پہلے کی سب، یا کم از کم بیش تر اشاعتیں سامنے ہوں۔

کہنے کو یہ ایک لفظ کا اضافہ ہے، لیکن اس تحریف نے سُرورؔ کی وطنیت کا مسئلہ خواہ مخواہ پیدا کر دیا۔ جناب مخمورؔ اکبر آبادی کا مرتب کیا ہوا نسخۂ فسانۂ عجائب، جو الٰہ آباد سے شائع (۲) ہوا تھا، اُس نسخے میں اس مقام پر "متوطن حال" ہی (۳) ہے۔ مخمورؔ صاحب نے اپنے مقدمے میں لکھا ہے: "سُرورؔ کی تصانیف میں اس قسم کی شہادت موجود ہے کہ وہ لکھنؤ کے باشندے نہیں تھے، اس لیے ظاہر ہے کہ اُن کا آبائی وطن اکبر آباد تھا" (س ۴)۔ بہ ظاہر اس غلط دعوے کی بنیاد اسی تحریف "متوطنِ حال" پر معلوم ہوتی ہے۔ (۴)
------------------------------------------------------------
(۱) خاتمتُ الطبع کی جو عبارت ۱۸۶۲ء کے نسخے کے آخر میں ہے، اُس کی آخری دو (۲) سطریں یہ ہیں :

"غرض یہ شاہد معنی شہر لکھنؤ محلہ رکاب گنج مہاراجہ مان سنگھ کے مکان میں زیور طبع سے محلی ہوا۔ ۲۰ نومبر ۱۸۶۲ء؁ کو کارگزاران مطبع نول کشور کی آرایش سے مطبوع بطائع ہو کر جلوہ نما ہوا۔" آخر میں اصغر علی خاں نسیمؔ کا قطعۂ تاریخِ طبع ہے، جس کے ایک شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس مطبعے سے چوتھی بار چھپی ہے، شعر یہ ہے :

"بسکہ چارم بار حُکمت طبعِ افسانہ نمود
بہرِ سالش ہر کسے بابِ سخن را در کشود"

یعنی ۱۸۶۲ء کی اس اشاعت سے پہلے یہ کتاب تین بار اور اسی مطبعے سے چھپ چکی تھی۔

(۲) ناشر: رام نرائن لال بینی مادھو۔ میرے سامنے جو نسخہ ہے، وہ ۱۹۷۶ء کا چھپا ہوا ہے اور اس پر "بارِ دوم" لکھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر نیر مسعودؔ نے اسی نسخے کی اشاعتِ ۱۹۲۸ء کا حوالہ دیا ہے [رجب علی بیگ سرور، ص ۷۷] غالباً یہی پہلی اشاعت ہو گی۔

(۳) اس سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی غیر معتبر اشاعت، اغلباً کسی موخر نول کشوری اشاعت جپر یہ نسخہ مبنی ہے۔

(۴) جین صاحب نے لکھا ہے کہ "مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی نے بھی "بیگماتِ اودھ کے خطوط" کے دیباچے میں سُرورؔ کو اکبر آبادی قرار دیا ہے" [ص ۵۰۵]۔ مفتی صاحب کے متعلق تو اب یہ بات عام طور پر معلوم ہو چکی ہے کہ روایتیں گڑھنے اور بے بنیاد دعوے کرنے میں اُن کو درجۂ کمال حاصل تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹

میرا خیال ہے کہ یہ بات واضح ہو چکی ہو گی کہ کلاسکی متنوں کے اس سلسلے میں اس کتاب کو شامل کرنا کیوں ضروری تھا، اور یہ کیوں ضرورت تھا کہ اس کتاب کے اُس نسخے کو تلاش کیا جائے، جس پر مصنف نے آخری بار نظرِ ثانی کی تھی؛ اور اُس نسخے کو بنیاد بنا کر، اور دوسرے اہم نسخوں کو سامنے رکھ کر اس کتاب کا متن اُس طرح تیار کیا جائے جس طرح آخری بار مصنف نے اُسے پیش کیا تھا اور مفصل حواشی کو بھی شاملِ کتاب کیا جائے۔

متن کی کما حقہ تصحیح اور متعلقاتِ متن کی ترتیب کےلیے یہ بھی ضروری سمجھا گیا کہ تنقدیدی مباحث کو شاملِ کتاب نہ کیا جائے۔ ویسے بھی تنقید اور تدوین، دو (۲) الگ موضوع ہیں۔ متضاد تو نہیں، لیکن مختلف ضرور ہیں۔ دونوں کےدائرے الگ الگ ہیں اور دونوں کے مباحث بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ان دونوں مختلفُ الاحوال موضوعات کا حق ادا کر سکے اور اس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوں موضوعات دو (۲) محتلف انداز نظر، طریقِ کار اور طرزِ فکت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس خلطِ مبحث سے، یعنی مقدمۂ کتاب میں طویل تنقیدی مباحث کو شامل کرنے سے یہ نقصان ضرور ہوتا ہے کہ دونوں موضوعات کا حق ادا نہیں ہو پاتا، اور سب سے بڑھ کر یہ ہوتا ہے کہ متعلقاتِ متن کی ضروری تفصیلات زیرِ بحث نہیں آ پاتیں۔ مرتب کا اصل کام یہ ہے کہ وہ متن کو صحیح طور پر پیش کرے اور اُس متن سے متعلق بحثوں کو مناسب تفصیل کے ساتھ لکھے، جس میں قابل ذکر حصہ لسانی مباحث کا ہو گا۔ اُس کے فرائض میں یہ شامل نہیں کہ وہ تنقیدی راے بھی دے۔ اسی لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس سلسلے کی زیرِ ترتیب کتابوں کے مقدمےمیں تنقیدی مباحث کو شامل نہ کیا جائے۔

تحقیق اور تدوین کا چولی دامن کا ساتھ ہے؛ مگر اس سلسلے میں ایک بات خاص کر پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ کسی متن کی تدوین کے سلسلے میں، اور کسی مصنف پر مستقل طور پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے سلسلے میں جو تحقیقی بحثیں کی جائیں گی، اُن کی وسعت کا دائرہ مختلف ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اسی طرح جو تحقیقی بحثیں اُس سے پہلے کی جا چکی ہوں، اور وہ قابلِ قبول بھی ہوں، اور اُن پر اضافہ بھی نہ کیا سکتا ہو؛ تو یہ ضروری نہیں [بل کہ مناسب بھی نہیں]
 
Top