ناصر علی مرزا
معطل
ناامیدی گناہ نہ ہوتی تو پھر تو موجودہ صورتحال کو دیکھ کر نا امید ہونا تو بنتا ہے بہرحال بظاہر لگتا ہے کچھ باقی نہیں رہا ، نئی نسل کدہر جا رہی ہے، ایک سیلاب ہے لگتا ہے سب اس میں بہہ جائے گا،جن کو احساس وہ کچھ کر نہیں سکتے اور جو کر سکتے ہیں اور وہ غلط سمت میں اقدامات کر رہے ہیں ، جس کے بس میں جو ہے کرے اور پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہے تو ۔۔۔۔ہم ایم اے میں تحقیق کر رہے تھے۔ موضوع تھا"مدرسوں میں بچوں کے ساتھ مظالم"(انگریزی میں بڑا سا موضوع تھا)۔لاہور میں بڑے،چھوٹے بہت مدرسوں میں گئے۔ سوائے چند بڑے مدرسوں کے بہت سے مدرسوں میں کسی نہ کسی طرح کی abuseہوتی تھی۔ کسی بھی طرح کی تفریح بالکل نہیں تھی بچے کھانا لینے باہر جاتے تھے۔مار تو عام تھی۔۔۔ ۔لمبی تفصیل ہے ۔۔۔ ۔ چند مدرسوں میں اساتذہ بہت کم البتہ بچے آپس میں نسبتاََ زیادہ۔۔۔ ۔۔تھے۔ دو زنجیربندھےدیکھے۔یہ ہیں ہمارے مولوی بنانے کے کارخانے(یقیناََ سب مدرسے ایسے نہیں ہیں۔ بہت اچھے ماحول والے بھی دیکھے ہیں)
ایسے ماحول میں نشونما لینے والوں کا ذہن کیسا ہو گا؟؟؟
ان کارخانوں سے نکلنے والے جنت،جہنم،گناہ،قبر کا عذاب،بیوی کے فرائض، وغیرہ وغیرہ پڑھ کر آتے ہیں۔انھوں نے قرآن رٹا ہوتا ہے،سیکھا نہیں ہوتا۔ کسی نے انھیں مارتے ہوئے یہ کبھی نہیں بتایا تھا
کہ اللہ بار بار رحم کرنے والا ہے۔ کسی نے ان کو زنجیروں سے باندھتے ہوئے یہ کبھی نہیں بتایا تھا کہ اللہ نے اس کتاب کو صرف رٹنے(نعوذ بااللہ) کے لئے نہیں بھیجا۔ یہ تو راہِ ہدایت ہے پیارے بچو۔ بچوں کے لئے کوئی عذاب نہیں ہے۔ اللہ بچوں سے پیار کرتا ہے۔ آؤ میرے ننھے فرشتو تمہارے سر پہ ہاتھ رکھوں۔ سبق یاد نہیں ،پھر کیا ہؤا، چلو ہم کھیلیں ،تھوڑی دیر بعد پھر سے دیکھتے ہیں ہمارا اللہ ہم سے کیا کہتا ہے۔
یہ تو خواب ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہے۔ ان کارخانوں سے جو روایتی مولوی نکلتے ہیں وہ گھٹے ہوئے ماحول کے عادی خود بھی ایسا ماحول وضع کرتے ہیں۔غربت،بھیک،معاشرے کا تحقیر وترحم والا رویہ،تفریح کے نام پہ صرف بیوی اور وہ بھی بچوں کی پیدائش،پرورش،گھر کے دھندوں میں الجھی ایک تھکی ہوئی عورت،جس میں چند سالوں بعد کوئی کشش نہیں رہتی۔ باہر ون سونی عورتیں سرِ عام گھومتی نظر آتی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ گندی کتابیں لوگ اِس خوف سے نہیں رکھتے تھے کہ کوئی دیکھ نہ لے،اب موبائل اور نیٹ نے یہ ڈر ختم کر دیا ہے۔ایک دیکھتا ہے تو اپنے جیسوں کو شیئر کراتا ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنے سے ایک دنیا خلاف ہو سکتی ہے، ہو جائے ، ہمیں پروا نہیں ،پروا ہے تو اللہ اور اس کے رسول کی سنت اور اسلامی اصولوں اور شریعت کے احکام کی -
ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہو کر رہ گئی۔ اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے ردِ عمل سُنے اور اُسے آگاہ کرے۔
1- اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا، یہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے ہر اُس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔
2- اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
3- اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
4- اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ وہاں سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔
کیا خیال ہے آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
تو پھر کیا خیال ہے شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا؟