مجھے سزاؤں کے بارے تو اتنا علم نہیں بہر حال اللہ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اجماع اور قیاس کی روشنی دکھائی ہے۔
مجھے جیلوں کے وزٹ کرنے کا اکثر موقع ملتا ہے۔ بڑوں کی جیلوں کے علاوہ بچوں کی بورسٹل انسٹی ٹیوشن اینڈ جے جیل بہاولپور میں بھی زنا کے مجرموں کی تعداد ہر وزٹ میں زیادہ نظر آتی ہے۔ اور اُن کے چہرے!!!استغفر اللہ! اِتنے مکروہ کہ وحشی جانور بھی اُن کے آگے اچھے لگیں۔حد یہ کہ نو سال ،دس سال کے بچے۔
ہم نے سوچا یہ کیوں ہے؟ ایک بار میں نے اپنے طلباء سے پوچھا " بچو !روڑی بھی کسی کو اچھی لگی ہے؟کیچڑ کے قریب سے گذرہو توآپ میں سے کون اُس میں لت پت ہونا چاہے گا؟سب نے کہا کہ کوئی بھی نہیں۔ آج کل کیچڑ آپ کی اُنگلی کے نیچے ہے۔ایک بٹن کی دُوری پر۔ بٹن دباتے جاؤ اور مزید کیچڑ میں دھنستے جاؤ،روڑی اور کیچڑ دیکھنا تو کراہیت کو بڑھاتا ہے۔بچو! یاد رکھو کیچڑ میں لت پت بندہ کی آنکھ میں وہ سب غلاظت آجائے گی اور جب وہ باہر نکلے گا تو اُسے ساٹھ،ستر سال کی امّاں بھی عورت لگے گی اور چند ماہ کی بچی بھی عورت دکھائی دے گی۔اور اگر اُس کی پہنچ ہو تو بتائیں اُسے کون روک سکے گا؟
لڑکے تو لڑکے اب لڑکیوں کو سنبھالنا اوکھا ہوتا جا رہا ہے۔اللہ سے کون ڈرتا ہے؟ نہیں ہم معاشرے سے ڈرنے والے لوگ ہیں۔ اور فیملی پلاننگ نے یہ رہا سہا ڈر بھی ختم کر دیا ہے۔
ذرا سکولوں کے کالجوں کےحالات تو معلوم کریں رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ایک گورنمنٹ گرلزکالج کے طالبات کے واش روم میں"نائٹ ڈیوٹی کرنے والی لڑکیاں اِن نمبرز پر رابطہ کریں"
ساتویںجماعت کی بچی ایک میڈیکل سٹور پہ جاتی تھی۔ سٹور کے مالک سے اُس کے دوست نے پوچھا کہ یہ بچی کس لئے یہ خریداری کرتی ہے؟ مالک نے کہا کہ اِس کے والدین منگواتے ہوں گے۔ دوست کو تجسس ہؤا تو معلوم ہؤا کہ وہ بچی اور نویں جماعت کا لڑکا۔
وہ سب جو کل ہم مغربی معاشروں کے بارے میں پڑھتے تھے وہ اب ہمارے معاشرے میں بتدریج عام ہوتا جا رہا ہے۔یونیورسٹیوں کے حالات! استغفراللہ۔۔
میرے شہر جل رہے ہیں
میں یہ کس کے نام لکھوں جو عالم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھیں نازل اس خطہ زمیں پر
وہی خطہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے بس خنجر آزما ئی
ہم ہی قتل کر رہے ہیں ہم ہی قتل ہو رہے ہیں
میں یہ کس کے نام لکھوں اے میرے وطن کے معصوم لوگو!
اے مہنگائی میں پسنے والو!
بھوک سے بچوں کو بیچنے والو!
اے ڈرون حملوں اور میزائلوں کا نشانہ بننے والو!
تم آخر چپ کیوں ہو؟کیوں تم نے اپنی زبان کو تالا لگا لیا ہی؟
کیا تم یہ ظلم سہنے کے لیے پیدا ہوئے ہو؟
یا پھر تمہاری ذہنیت بھی اپنے حکمرانوں کی طرح غلامانہ ہوگئی ہی؟
زر خرید غلام، غیروں کی خاطر اپنے ہی لوگوں کو مارنے والے غلام….
جن کی غیرت اور عزت ختم ہو چکی ہے
جو اپنے ہی ملک کو غیروں کے ہاتھ بیچنا چاہتے ہیں
اپنے ہی لوگوں میں موت تقسیم کررہے ہیں۔
تم اُٹھو اور توڑ ڈالو یہ زنجیریں….
غلامی کی زنجیریں….
اور
انکار کر دو طاغوت کا
ہر طرح کا ظلم سہنے سے ….
اور
بدل ڈالو
یہ چہرہ یہ نظام….
کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن میں فرماتا ہے
”نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ،اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو“۔
آج ہماری جو حالت ہے وہ ہماری اپنی بنائی ہوئی ہے
آج ہم نے قرآن سے دوری اختیار کر رکھی ہے
اور
اس کی تعلیمات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے
جس کی وجہ سے آج ہم راستہ بھٹک گئے
اگر آج بھی ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب لے آئیں تو اجتماعی طور پر بہت بڑی مثبت تبدیلی آ سکتی ہے
علامہ اقبال نے بھی فرمایا
”نہ ہو جس میں انقلاب موت ہے وہ زندگی“
ہمارے پیارے نبی جنہوں نے اپنی پوری زندگی دعوت ِدین میں گزاری
آج ہم نے اسے چھوڑ دیا اور اپنے پیٹوں کو بھرنے میں لگ گئے….
کیا ہم نے اپنی زندگیوں کا حق ادا کردیا ہے؟
انبیاءکرام علیہ السلام کے بعد اللہ نے یہ ذمہ داری مسلمانوں کو سونپی کہ وہ نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں….
کیا آج ہم نے فریضہ ادا کیا ہے
آؤ تم لوگ بھی آگے بڑھو اور اللہ کے اس گروہ کا ساتھ دو،
تمام تر نسلی اور قومی امتیازات کو بھلا کر اس ظالمانہ نظام کے خلاف باہر نکل آؤ
آو ہم سب مل کر اللہ کا رنگ اختیار کریں کہ سب سے اچھا رنگ اسی کا ہے
آؤ ہم سب مل کر ایک ہوجائیں اور ایک آواز بلند کریں
اس ظالمانہ نظام کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کا آغاز کریں
کیوں کہ تمام جہانوں کے اس رب کے سامنے جو یوم حشر کا بھی مالک ہے
جوابدہی تو کرنی ہے۔