سید ذیشان
محفلین
میں تو سوچ رہا تھا کہ مبادا آپ الف کو اضافی نہ قرار دے ڈالیں۔
بہت نازک صورت حال ہے۔
میں تو سوچ رہا تھا کہ مبادا آپ الف کو اضافی نہ قرار دے ڈالیں۔
یہ تو کسرِ نفسی سے کام لے رہےہیں اب آپ، علم کے بغیر منطق کو رائج کرنا کہاں ممکن ہے؟مجھے عروض کا علم ہوتا تو سافٹوئر تھوڑی بناتا۔
آئی کانٹ سٹاپ لافنگبہت نازک صورت حال ہے۔
یہ تو کچھ بھی نہیں جناب جو کل آپ نے امیر اور غریب کی وضاحت فرمائی تھی وہ اس سے زیادہ پُر مزاح تھیآئی کانٹ سٹاپ لافنگ
جی درست فرمایا آپ نے، لیکن میری اس بات کے مخاطب دراصل وہ لوگ تھے جنہوں نے اس خبر کو مذاق میں اڑایاآپ یہ دیکھیئے کہ ایک علاقے کے مسلمان ہندو مسلم فسادات کی وجہ سے علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔ اب مسجد سے اگر اذان بفرضِ محال سنائی بھی تو کیا وہ ہندو فرقے والے جنہوں نے بزورِ طاقت مسلمانوں کو بھگا دیا ہے، وہ اس کی تشہیر کرنا پسند کریں گے کہ مسلمانوں کی مسجد سے اذان ہو رہی ہے؟ کیا اس سورس کی تصدیق کے لئے مزید بھی کوئی عقلی دلیل درکار ہے؟
خدا کے وجود کی کوئی سائنسی دلیل موجود نہیں ہے لیکن یہ زمین اور اسمیں موجود انتہائی ذہانت رکھنے والی مخلوق (انسان) کا خودکار طور پر لامتناہی قدرتی حادثات یا واقعات کے بعد وجود میں آجانا اور اپنے آپ کو قائم رکھنا سائنسی ریاضیاتی بنیادوں پر ناممکن ہے۔لگے ہاتھوں ایک اور سوال میری طرفسے بھی خدا کے وجود کی سائنسی دلیل کیا ہے؟
یہ کام فلسفی کا نہیں ماہر ریاضیات کا ہے۔ سائنس کی تھیوری غلط ہو سکتی ہے۔ ریاضیات کا احتمال نہیں۔اس بات پر فلسفی ہزاروں سالوں سے لگے ہوئے ہیں۔ اکبر آلہ آبادی کے مطابق:
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
جناب یہ کام سرے سے فلسفیوں کا ہے ہی نہیں۔ سائنس فلسفانہ سوچ کو نہیں مانتی البتہ ریاضیات سے کام چل جائے گا۔اگر فلسفی ہزاروں سالون سے اس قسم کہ سوالوں کی گھتیوں کو نہیں سلجھا سکے تےفیر اسیں سارے ایتھے انب لین لگے آں ؟؟؟ للوز
سردی توانائی کا نہ ہونا ہے۔ یہ ایک ایسی طبیعاتی حالت ہے جسمیں ایٹم متحرک نہیں ہوتے اور اپنی قدرتی حالت میں ہوتے ہیں:استاد محترم ایک سوال میرا بھی جسٹ فار حصول علم اگر گرمی انرجی ہے تو پھر سردی کیا ہے ؟؟؟ کیا وہ انرجی نہیں ؟ کیا اسے ہم انرجی نہیں کہہ سکتے اور یہ کہ گرمی یعنی انرجی کا اپوزٹ کیا ہے ؟؟ انرجی کا عدم وجود یعنی گرمی کا نہ ہونا یا پھر کچھ اور؟؟؟
یہ کام فلسفی کا نہیں ماہر ریاضیات کا ہے۔ سائنس کی تھیوری غلط ہو سکتی ہے۔ ریاضیات کا احتمال نہیں۔
ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن ملحدین اور دہریوں کو باور کروایا جا سکتا تھا کہ انکی سوچ کس قدر غلط ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ زندگی محض قدرتی ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو زندگی ارب ہا سال کے خود مختار ارتقائی عمل کے بعد بہت ہیبت ناک شکل اختیار کر سکتی تھی لیکن اسنے انسان جیسی اشرف المخلوقات کو کیسے جنم دیا اسکا کوئی سائنسی اور ریاضیاتی جواب موجود نہیں ہے ان جاہلین کے پاس!ریاضی سے خدا کے وجود کو کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟
یہ بحث جنات کے وجود کے بارہ میں ہے ہی نہیں۔ دھاگے کا عنوان چیک کریں۔لیکن یہ بحث جنات سے ہٹ رہی ہے۔۔۔
ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن ملحدین اور دہریوں کو باور کروایا جا سکتا تھا کہ انکی سوچ کس قدر غلط ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ زندگی محض قدرتی ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو زندگی ارب ہا سال کے خود مختار ارتقائی عمل کے بعد بہت ہیبت ناک شکل اختیار کر سکتی تھی لیکن اسنے انسان جیسی اشرف المخلوقات کو کیسے جنم دیا اسکا کوئی سائنسی اور ریاضیاتی جواب موجود نہیں ہے ان جاہلین کے پاس!
خدا کے وجود کو اگر سائنسی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا تو جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔
جانتا ہوں،یہ بحث جنات کے وجود کے بارہ میں ہے ہی نہیں۔ دھاگے کا عنوان چیک کریں۔
جناب یہ کام سرے سے فلسفیوں کا ہے ہی نہیں۔ سائنس فلسفانہ سوچ کو نہیں مانتی البتہ ریاضیات سے کام چل جائے گا۔
تمہارے حسن میں سائنس کا بھی دل الجھتا ہےریاضی سے خدا کے وجود کو کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟
ایمان اور یقین کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے نہ کہ انکے پس پردہ حقائق سے۔ خدا، جنات، ارواح تو بہت لمبی بحث ہو جائے گی، ہم صرف یہاں مادی ظاہری و باطنی معاشی نظام کی بات کر لیتے ہیں۔ سارا زمانہ جانتا ہے کہ کاغذی نوٹ، کرنسی، اکاؤنٹ بیلنس محض فرضی اعداد ہیں۔ انکی اپنی ذات میں کوئی قدر مطلق نہیں ہے۔ لیکن اسکے باوجود چونکہ سارا زمانہ انکی بدولت معاش و تجارت کرتا ہے اسلئے ایک بالغ اور صحت مند انسان کیلئے یہ عجیب سی بات نہیں ہے کیونکہ وہ بچپن ہی سے اس غیر فطری چیز کا عادی ہوتا ہے۔ اگر انسان بالغ پیدا ہوتے اور انکو اس کاغذی ردی نوٹوں اور اے ٹی ایم کے استعمال پر مجبور کیا جاتا تو وہ پاگل ہو کر جنگلوں میں بھاگ جاتے! سائنس دانوں نے بندروں پر تجربات کرکے یہ ثابت کیا کہ کس طرح یہ معاشی نظام انسانیت کو تباہ کر رہا ہے جب ایک قسم کے بندروں کو کرنسی کا استعمال سکھایا گیا جسکے بعد ان کے معاشرہ میں انسانی معاشرے جیسا تہلکہ مچ گیا:پھر اس کا مطلب تو یہی ہے کہ سائنس اور ریاضی اس مقصد کے لئے مناسب ٹول نہیں ہے۔
آپ کے عقیدہ کرنسی پر بات کرنے کو تو یہ دھاگہ موزوں نہیں۔ البتہ یہ کہتا چلوں کہ تصور خدا اور سپرنیچرل پر اعتقاد انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے میں یہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔ایمان اور یقین کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے نہ کہ انکے پس پردہ حقائق سے۔ خدا، جنات، ارواح تو بہت لمبی بحث ہو جائے گی، ہم صرف یہاں مادی ظاہری و باطنی معاشی نظام کی بات کر لیتے ہیں۔ سارا زمانہ جانتا ہے کہ کاغذی نوٹ، کرنسی، اکاؤنٹ بیلنس محض فرضی اعداد ہیں۔ انکی اپنی ذات میں کوئی قدر مطلق نہیں ہے۔ لیکن اسکے باوجود چونکہ سارا زمانہ انکی بدولت معاش و تجارت کرتا ہے اسلئے ایک بالغ اور صحت مند انسان کیلئے یہ عجیب سی بات نہیں ہے کیونکہ وہ بچپن ہی سے اس غیر فطری چیز کا عادی ہوتا ہے۔ اگر انسان بالغ پیدا ہوتے اور انکو اس کاغذی ردی نوٹوں اور اے ٹی ایم کے استعمال پر مجبور کیا جاتا تو وہ پاگل ہو کر جنگلوں میں بھاگ جاتے! سائنس دانوں نے بندروں پر تجربات کرکے یہ ثابت کیا کہ کس طرح یہ معاشی نظام انسانیت کو تباہ کر رہا ہے جب ایک قسم کے بندروں کو کرنسی کا استعمال سکھایا گیا جسکے بعد ان کے معاشرہ میں انسانی معاشرے جیسا تہلکہ مچ گیا:
پس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا، ارواح، جنات کے تصورات چونکہ بچپن ہی سے ہمارے معصوم اور کند ذہنوں میں ڈال دئے جاتے ہیں یوں بڑھتے بڑھتے بالغ ہونے تک ہمیں ان پر یقین کامل ہونے لگتا ہے اور ہم دانستہ سوچتے ہی نہیں کہ انکے پیچھے حقائق بھی ہیں یا نہیں۔
آپ کی بات کو ہی قرآن کے حوالے سے تھوڑا آگے بڑھاؤں گا کہ قرآن میں ذکر ہے کہ میں نے روحوں سے پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں تو انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ یعنی انسان کی فطرت میں ہی خدا کی طرف سے یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی جستجو کرے اور اسکا دماغ اس طرف متوجہ رہتا ہے کہ کوئی تو ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور دراز جزائر اور جنگلوں میں بھی آپ چلے جائیں جہاں جدید مذاہب کا تصور بھی نہ پہنچا ہو تو وہاں بھی رب کا تصور کسی نہ کسی رنگ میں پایا جاتا ہے۔تصور خدا اور سپرنیچرل پر اعتقاد انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے میں یہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔