پنجاب کا سفرمختصرتھا اوراس میں اپنے دیرینہ سماجی ویب سائیٹ اورفورم کے دوست کاشف اکرم وارثی جوکویت میں ملازمت کرتے ہیں اورلاہورسےتعلق رکھتے ہیں
چھٹی پرآئے ہوئے تھے سے ملاقات کاموقع بھی ملا- ہم حافظ آبادسے بذریعہ بس لاہورآئے جہاں داتا صاحب حاضری دینا اولین ترجیح تھی وہیں ایک باریش
خوبصورت جوان سفید لباس پہنے ہمارے سامنے تھے کاشف صاحب -کاشف کوصبر وحوصلے کا اعلٰی اعزاز ملنا چاہیے کہ ہم سے آدمی کے اتنے عرصے سے دوست ہیں
کاشف کے ہمراہ دیگر احباب سے ملنے کے لیے پاک ٹی ہاؤس روانہ ہوئے لیکن نہ کاشف کو پاک ٹی ہاؤس کا علم تھا نہ ہمیں فون پرفلک شیر رہنمائی کرتے رہے
اور ہم ان سے کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کے سامنے ملے جہاں سے وہ ہمیں مطلوبہ مقام پر لے گئے-
فلک شیرسے آبائی علاقے کارشتہ ہے ، قلب کا تعلق ہے اور اُن ناموں کا سلسلہ جُڑا جو گھرمیںبڑے پیارسے ، احترام سے لیے جاتے ہیں -
پاک ٹی ہاؤس کی بالائی منزل پر ہم نے میز منتخب کی اور کاشف، فلک شیر اور اپنے بھانجے سرمد کے ساتھ اپنی کرسیاں سنبھالیں-
چند ہی منٹوں میں باباجی بھی آملے جن کی دل آویز شخصیت تصاویر سے کہیں بڑھ کر نظرآتی ہے -
ہم تو داتا صاحب سے لنگرکھاکے آئے تھے لہذا ان صاحبان پر کھانے کا انتخاب چھوڑا جو بریانی کے صورت سامنے آیا- کھانا کھایا گیا ساتھ ہی باباجی
کی پنجابی اُردو مکس گفتگو اور فلک شیر کے علمی تبصرے اور ہماری نوک جھونک بھی چلتی رہی - کاشف صاحب بھی لقمے دیتے رہے- میں نے توبریانی
چکھی اور پلیٹ اپنے بھانجے کے سامنے رکھ دی
- پھرچائے کا دور چلا کھانے کے بعد ہم چائے کے بناء نہیں رہ سکتے خواہ موسم کتنا ہی گرم کیوں نہ ہو-
دوران گفتگو لاہور کی گرمی کا ذکر بھی آیا تپش اور حبس کا ذکرچلا جس سے احباب بولائے ہوئے تھے
(ہم نہیں کیونکہ ہمارا تو یہ پسندیدہ موسم ہے
)
یوں بھی گرمیوں میں گرمی ہی پڑتی ہے ہاں اس موسم میں سردی ہو تو پریشانی کی بات ہوگی-
یہ طے تھا کے ہمیں سنگِ میل پبلیکشن جانا ہے لہذا وہاں چلا جائے ، کاشف معذرت کرکے رُخصت ہوئے ان کے والد صاحب کی طبعیت صحیح نہیں تھی-
سنگِ میل پر باباجی ، فلک شیراور ہم کتابوں پر تبصرے کرتے رہے اپنی پسند کی کتابیں لے جاکر کاونٹرپررکھتے رہے کیفیت بلکل کھلونوں کی دوکان میں
بچوں سی تھی ، مند پسند دوست بہت سی کتابیں مسکراہٹے دباتے کھلکلاتے رہے - کچھ دیر وہاں موجود صوفے پر بیٹھ کر گفتگو کی تو کبھی کسی کتاب کے
پاکے چہکے - ہمیں حافظ آباد سے فون موصول ہوا کہ ہم لاہور آرہے لہذا واپس ہمارے ساتھ ہی گھر چلیں-
ہمیں ایک کتاب فلک شیر نے تحفہ میں دی - یوں ہم باہر آئے اور لوداعی کلمات کہنے سننے شروع کیا باباجی نے اسٹائل سے سگریٹ نوشی کا شغل فرمایا
ان کی خوش لباسی اور اسٹائل کے ہم گرویدہ ہوئےان کی صوفی منش طبعیت کو تو ہم ستائش کی نظر سے دیکھتے ہی تھے -
یوں یہ ملاقات یادگار رہی توقع سے بڑھ کر دلچسپ اور پُرلطف اور محبت سے بھرپور-
نوٹ -
نیرنگ خیال سے ہونے والی لاہور اسٹیشن پر ملاقات کا احوال بعد میں-