ملاقاتیں

زبیر مرزا

محفلین
اس سے بڑھ کر کیا حسین تحفہ ہو:)
1939975_333926640107020_6797663466018235454_n.jpg
 

فلک شیر

محفلین
پنجاب کا سفرمختصرتھا اوراس میں اپنے دیرینہ سماجی ویب سائیٹ اورفورم کے دوست کاشف اکرم وارثی جوکویت میں ملازمت کرتے ہیں اورلاہورسےتعلق رکھتے ہیں
چھٹی پرآئے ہوئے تھے سے ملاقات کاموقع بھی ملا- ہم حافظ آبادسے بذریعہ بس لاہورآئے جہاں داتا صاحب حاضری دینا اولین ترجیح تھی وہیں ایک باریش
خوبصورت جوان سفید لباس پہنے ہمارے سامنے تھے کاشف صاحب -کاشف کوصبر وحوصلے کا اعلٰی اعزاز ملنا چاہیے کہ ہم سے آدمی کے اتنے عرصے سے دوست ہیں :)
کاشف کے ہمراہ دیگر احباب سے ملنے کے لیے پاک ٹی ہاؤس روانہ ہوئے لیکن نہ کاشف کو پاک ٹی ہاؤس کا علم تھا نہ ہمیں فون پرفلک شیر رہنمائی کرتے رہے
اور ہم ان سے کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کے سامنے ملے جہاں سے وہ ہمیں مطلوبہ مقام پر لے گئے-
فلک شیرسے آبائی علاقے کارشتہ ہے ، قلب کا تعلق ہے اور اُن ناموں کا سلسلہ جُڑا جو گھرمیںبڑے پیارسے ، احترام سے لیے جاتے ہیں -
پاک ٹی ہاؤس کی بالائی منزل پر ہم نے میز منتخب کی اور کاشف، فلک شیر اور اپنے بھانجے سرمد کے ساتھ اپنی کرسیاں سنبھالیں-
چند ہی منٹوں میں باباجی بھی آملے جن کی دل آویز شخصیت تصاویر سے کہیں بڑھ کر نظرآتی ہے -
ہم تو داتا صاحب سے لنگرکھاکے آئے تھے لہذا ان صاحبان پر کھانے کا انتخاب چھوڑا جو بریانی کے صورت سامنے آیا- کھانا کھایا گیا ساتھ ہی باباجی
کی پنجابی اُردو مکس گفتگو اور فلک شیر کے علمی تبصرے اور ہماری نوک جھونک بھی چلتی رہی - کاشف صاحب بھی لقمے دیتے رہے- میں نے توبریانی
چکھی اور پلیٹ اپنے بھانجے کے سامنے رکھ دی :)- پھرچائے کا دور چلا کھانے کے بعد ہم چائے کے بناء نہیں رہ سکتے خواہ موسم کتنا ہی گرم کیوں نہ ہو-
دوران گفتگو لاہور کی گرمی کا ذکر بھی آیا تپش اور حبس کا ذکرچلا جس سے احباب بولائے ہوئے تھے :) (ہم نہیں کیونکہ ہمارا تو یہ پسندیدہ موسم ہے:))
یوں بھی گرمیوں میں گرمی ہی پڑتی ہے ہاں اس موسم میں سردی ہو تو پریشانی کی بات ہوگی-
یہ طے تھا کے ہمیں سنگِ میل پبلیکشن جانا ہے لہذا وہاں چلا جائے ، کاشف معذرت کرکے رُخصت ہوئے ان کے والد صاحب کی طبعیت صحیح نہیں تھی-
سنگِ میل پر باباجی ، فلک شیراور ہم کتابوں پر تبصرے کرتے رہے اپنی پسند کی کتابیں لے جاکر کاونٹرپررکھتے رہے کیفیت بلکل کھلونوں کی دوکان میں
بچوں سی تھی ، مند پسند دوست بہت سی کتابیں مسکراہٹے دباتے کھلکلاتے رہے - کچھ دیر وہاں موجود صوفے پر بیٹھ کر گفتگو کی تو کبھی کسی کتاب کے
پاکے چہکے - ہمیں حافظ آباد سے فون موصول ہوا کہ ہم لاہور آرہے لہذا واپس ہمارے ساتھ ہی گھر چلیں-
ہمیں ایک کتاب فلک شیر نے تحفہ میں دی - یوں ہم باہر آئے اور لوداعی کلمات کہنے سننے شروع کیا باباجی نے اسٹائل سے سگریٹ نوشی کا شغل فرمایا
ان کی خوش لباسی اور اسٹائل کے ہم گرویدہ ہوئےان کی صوفی منش طبعیت کو تو ہم ستائش کی نظر سے دیکھتے ہی تھے -
یوں یہ ملاقات یادگار رہی توقع سے بڑھ کر دلچسپ اور پُرلطف اور محبت سے بھرپور-
نوٹ - نیرنگ خیال سے ہونے والی لاہور اسٹیشن پر ملاقات کا احوال بعد میں-
زبیر بھائی کی محبت کا اس سارے قصے میں تذکرہ نہیں، حالانکہ یہ سارا کچھ اسی کی تفسیر ہے :)
شکریہ بھائی جان ۔ اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے قدم قدم پہ آسانیاں اور راحتیں چاہتے ہیں ہم سب :)
 

زبیر مرزا

محفلین
نیرنگ خیال سے اگرچہ ملاقات تو باقی دوستوں کے ساتھ 6 اگست کوطے تھی لیکن وہ چشتیاں روانہ ہوگئے ان کو فون کیا 5 اگست کو تو
ان کے بھائی نے فون پر کہا وہ اس وقت سلون میں آرائشِ حسن میں مصروف ہیں لہذا بات نہیں کرسکتے کل اُن کو چشتیاں جانا ہے -
بات ہماری سمجھ میں آگئی چشتیاں وہ دولہا بن کر گئے تھے لہذا اب وہ ہمیشہ وہاں اسی تیاری سے جاتے ہیں - ہم نے کہا جب وہ کھارے چڑھ جائیں
تو ہمارا پیغام دے دیجئے گا- رات کو نین کا فون آیا کے وہ کل لاہور نہیں آسکیں گے -
نین سے ملاقات کا امکان نہیں رہا تھا - 10 اگست کو ہمیں اسلام آباد جاناتھا اس دوران بھی وہ چشتیاں میں ہی مقیم تھے- 11 اگست کو ہماری
روانگی تھی کراچی جس کے لیے گوجرانوالہ سے لاہور جاناتھا یہ بات نین کے علم میں تھی تو ان کا فون آیا میں 11 اگست کو لاہور میں ہوں گا
تو ملاقات ہوسکتی ہے ان سے عرض کی جناب دیکھ لیجئے گا اس دن وقت ذرا کم ہوگا کیونکہ ہمیں ٹرین پکڑنی ہے-
خیر جناب 11 اگست کا تاریخی دن آپہنچا اور ہم نے صبح سے تیارلگے انتظار کرنے اتنے میں نین کا فون آیا لاہور میں داخل ہونے کے رستے بند ہورہے ہیں
اور وہ بس میں بیٹھے منتظر ہیں کے لاہور پہنچ سکیں-
ہم نے اپنے چچا زاد بھائی کو یہ بتایا لاہور کے لیے ہم لوگ جلدی نکلیں تو بہتر ہے کہیں تمام راستے بند نہ ہوجائیں- نین کا فون آیا کے کچھ تاخیر اور بس کو
روکنے کے بعد وہ لاہور داخل ہوگئے ہیں- اس کے ایک گھنٹے بعد جب ہم گوجرانوالہ سے نکلے اور لاہور کی جانب روانہ ہوئے تو تمام روڈ کنٹنروں سے بند پائے
ہمیں مطلوبہ ٹرین لاہور سے ہی ملنی تھی اور اس پر ہماری نشستیں مخصوص تھیں - اب ایک ہی صورت نظرآئی کے گوجرانوالہ اسٹیشن سے لاہور کے لیے ٹرین پکڑی جائے
جب اسٹیشن پہنچے تو ایک ہجوم وہ موجود تھا وجہ وہی لاہور داخل ہونے کا ذریعہ صرف یہی تھا- ٹکٹ لیے اور پیلٹ فارم پر اپنے سامان کے ساتھ کھڑنے ہونے بلکہ پاؤں رکھنے کو
جگہ بنائی اور لوگوں کے جمِ غفیر میں شامل ہوگئے-
جعفرایکسپرس آئی جس میں ہمیں لاہور تک جانا تھا - ٹرین میں لوگ چھت تک سوار تھے ایسے میں مزید لوگوں کا سوار ہونا ناممکن تھا- لیکن لوگ سوار ہورہے تھے چھت پر کھڑکیوں سے
اندر جارہے تھے کہ دروازوں میں سے جانا ناممکن تھا- ہم میں نجانے کہاں سے ہمت آگئی کے ہم بھی بعذریعہ کھڑکی سوار ہوگئے اپنی اسکنی جین اور سلیم شاہی جوتی کو نظر انداز کرتےہوئے:)
اس دوئم درجے میں جہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ہم نے اپنے لیے کیسے جگہ بنائی جب کہ ایک صاحب ہمارے کندھے پر سوار تھے- یوں ہم نے اپنے ماتھے سے جہاز پہ سفر کرنے والے ٹرین وہ بھی
دوئم درجے میں سفر کرنا کیا جانے(کاشف اکرم وارثی کا ایک پُرانا طعنہ) بھی دھوڈالا-
خیر جناب ہم لاہور اسٹیشن آنے پر ہم نے کمالِ ماہرت سے بذریعہ کھڑکی ٹرین سے نکلے ہاں احتیاطَ سیلم شاہی جوتی اُتار کے ہاتھ میں پکڑلی ، جین کے پائنچے چڑھائے اور کود گئے:)
نین کا فون ہمیں لاہور پہنچتے ہی موصول ہوا ہم عرض کی جناب ہم اپنی کراچی جانے والے ٹرین پکڑنے جارہے اور وقت کی قلت ہے انھوں نے کہاں وہ پہنچ رہے ہیں - ہم اپنی مطلوبہ ٹرین
میں پہنچے حواس بحال کیے بیگ سے چپل نکالی ذرا حلیہ درست کیا اور نین کا انتظار کرنے لگے-
پھر شُبھ گھڑی آئی اور نین نے فرمایا وہ پلیٹ فارم پر پہنچ چکے ہیں ہم ٹرین سے نکلے اور نین کے دیدار میں اُچک اُچک کے لوگوں کے کندھوں سے دیکھنے لگے -
شاہانہ چال جس کو دیکھ کر کلیجہ ہل جائے اور مست نینوں کے تیر چلاتے نین آرہے تھے نیلے رنگ کا شلوار قیمض پہنے جانِ محفل ، روحِ فیس بُک ، شانِ چشتیاں
فخرِ صادق آباد اور رونقِ اسلام آباد ہمارے سامنے تھے- وقت کم تھا باتیں بہت جلدی جلدی مسکراہٹوں میں باتیں کیں اس مختصر ملاقات کو محفوظ کرنے کے لیے فون کیمرے سے ایک تصویر
بنوائی اور ٹرین کی سیٹی نے وقتِ ملاقات ختم ہونے کا اعلان کیا- یوں ہم نین کی ملاقات سے مسرور کراچی روانہ ہوئے-

16689_334138510085833_994439043685716699_n.jpg
 
آخری تدوین:

زبیر مرزا

محفلین
ہمیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان تمام ملاقاتوں کے احوال علیحدہ لڑیوں کے مستحق ہیں؟ :) :) :)
جی اب فلک شیر حسان خان امجد میانداد باباجی نیرنگ خیال اظہار فرمائیں ہم تو اتنا ہی لکھ سکتے تھے اوربھی خیال رکھ کر کہ ہماری روکھی پھیکی تحریر محفلین پر گراں نہ گذرے
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت خوب، پڑھ کر مزہ آگیا۔ مرزا صاحب۔ میں تو کہتا ہوں، یہ نین کے مقابلے کی تحریر ہے اور آپ کے قلم مین برابر کی تاثیر ہے۔ چلیں، اسی بہانے آپ کو وطنِ عزیز میں عام آدمی کی زندگی کے حالات کا عملی مشاہدہ تو ہوا۔ ذرا امریکہ کی زندگی کے ساتھ اس کا موازنہ کریں تو آپ یقیناً یہی کہیں گے یہ پاکستانیوں کی ہی حوصلہ ہے جو ان حالات کا سامنا کررہے ہیں۔
نین جی کی محبت بھی قابل ستائش ہے جس کے بل پر وہ تمام جوکھم سے گزر کر آپ سے ملنےمیں کامیاب ہو گئے۔
اللہ آپ دونوں کو خوش وخرم رکھے اور کامیابیاں عطا فرمائے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیرنگ خیال سے اگرچہ ملاقات تو باقی دوستوں کے ساتھ 6 اگست کوطے تھی لیکن وہ چشتیاں روانہ ہوگئے ان کو فون کیا 5 اگست کو تو
ان کے بھائی نے فون پر کہا وہ اس وقت سلون میں آرائشِ حسن میں مصروف ہیں لہذا بات نہیں کرسکتے کل اُن کو چشتیاں جانا ہے -
بات ہماری سمجھ میں آگئی چشتیاں وہ دولہا بن کر گئے تھے لہذا اب وہ ہمیشہ وہاں اسی تیاری سے جاتے ہیں - ہم نے کہا جب وہ کھارے چڑھ جائیں
تو ہمارا پیغام دے دیجئے گا- رات کو نین کا فون آیا کے وہ کل لاہور نہیں آسکیں گے -
نین سے ملاقات کا امکان نہیں رہا تھا - 10 اگست کو ہمیں اسلام آباد جاناتھا اس دوران بھی وہ چشتیاں میں ہی مقیم تھے- 11 اگست کو ہماری
روانگی تھی کراچی جس کے لیے گوجرانوالہ سے لاہور جاناتھا یہ بات نین کے علم میں تھی تو ان کا فون آیا میں 11 اگست کو لاہور میں ہوں گا
تو ملاقات ہوسکتی ہے ان سے عرض کی جناب دیکھ لیجئے گا اس دن وقت ذرا کم ہوگا کیونکہ ہمیں ٹرین پکڑنی ہے-
خیر جناب 11 اگست کا تاریخی دن آپہنچا اور ہم نے صبح سے تیارلگے انتظار کرنے اتنے میں نین کا فون آیا لاہور میں داخل ہونے کے رستے بند ہورہے ہیں
اور وہ بس میں بیٹھے منتظر ہیں کے لاہور پہنچ سکیں-
ہم نے اپنے چچا زاد بھائی کو یہ بتایا لاہور کے لیے ہم لوگ جلدی نکلیں تو بہتر ہے کہیں تمام راستے بند نہ ہوجائیں- نین کا فون آیا کے کچھ تاخیر اور بس کو
روکنے کے بعد وہ لاہور داخل ہوگئے ہیں- اس کے ایک گھنٹے بعد جب ہم گوجرانوالہ سے نکلے اور لاہور کی جانب روانہ ہوئے تو تمام روڈ کنٹنروں سے بند پائے
ہمیں مطلوبہ ٹرین لاہور سے ہی ملنی تھی اور اس پر ہماری نشستیں مخصوص تھیں - اب ایک ہی صورت نظرآئی کے گوجرانوالہ اسٹیشن سے لاہور کے لیے ٹرین پکڑی جائے
جب اسٹیشن پہنچے تو ایک ہجوم وہ موجود تھا وجہ وہی لاہور داخل ہونے کا ذریعہ صرف یہی تھا- ٹکٹ لیے اور پیلٹ فارم پر اپنے سامان کے ساتھ کھڑنے ہونے بلکہ پاؤں رکھنے کو
جگہ بنائی اور لوگوں کے جمِ غفیر میں شامل ہوگئے-
جعفرایکسپرس آئی جس میں ہمیں لاہور تک جانا تھا - ٹرین میں لوگ چھت تک سوار تھے ایسے میں مزید لوگوں کا سوار ہونا ناممکن تھا- لیکن لوگ سوار ہورہے تھے چھت پر کھڑکیوں سے
اندر جارہے تھے کہ دروازوں میں سے جانا ناممکن تھا- ہم میں نجانے کہاں سے ہمت آگئی کے ہم بھی بعذریعہ کھڑکی سوار ہوگئے اپنی اسکنی جین اور سلیم شاہی جوتی کو نظر انداز کرتےہوئے:)
اس دوئم درجے میں جہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ہم نے اپنے لیے کیسے جگہ بنائی جب کہ ایک صاحب ہمارے کندھے پر سوار تھے- یوں ہم نے اپنے ماتھے سے جہاز پہ سفر کرنے والے ٹرین وہ بھی
دوئم درجے میں سفر کرنا کیا جانے(کاشف اکرم وارثی کا ایک پُرانا طعنہ) بھی دھوڈالا-
خیر جناب ہم لاہور اسٹیشن آنے پر ہم نے کمالِ ماہرت سے بذریعہ کھڑکی ٹرین سے نکلے ہاں احتیاطَ سیلم شاہی جوتی اُتار کے ہاتھ میں پکڑلی ، جین کے پائنچے چڑھائے اور کود گئے:)
نین کا فون ہمیں لاہور پہنچتے ہی موصول ہوا ہم عرض کی جناب ہم اپنی کراچی جانے والے ٹرین پکڑنے جارہے اور وقت کی قلت ہے انھوں نے کہاں وہ پہنچ رہے ہیں - ہم اپنی مطلوبہ ٹرین
میں پہنچے حواس بحال کیے بیگ سے چپل نکالی ذرا حلیہ درست کیا اور نین کا انتظار کرنے لگے-
پھر شُبھ گھڑی آئی اور نین نے فرمایا وہ پلیٹ فارم پر پہنچ چکے ہیں ہم ٹرین سے نکلے اور نین کے دیدار میں اُچک اُچک کے لوگوں کے کندھوں سے دیکھنے لگے -
شاہانہ چال جس کو دیکھ کر کلیجہ ہل جائے اور مست نینوں کے تیر چلاتے نین آرہے تھے نیلے رنگ کا شلوار قیمض پہنے جانِ محفل ، روحِ فیس بُک ، شانِ چشتیاں
فخرِ صادق آباد اور رونقِ اسلام آباد ہمارے سامنے تھے- وقت کم تھا باتیں بہت جلدی جلدی مسکراہٹوں میں باتیں کیں اس مختصر ملاقات کو محفوظ کرنے کے لیے فون کیمرے سے ایک تصویر
بنوائی اور ٹرین کی سیٹی نے وقتِ ملاقات ختم ہونے کا اعلان کیا- یوں ہم نین کی ملاقات سے مسرور کراچی روانہ ہوئے-

16689_334138510085833_994439043685716699_n.jpg
بہت ہی اعلیٰ روداد لکھی زبیر بھائی آپ نے۔۔۔ زبردست ترین۔۔۔ اور آپ اتنے نفیس آدمی ہیں۔۔۔ بہت اچھا لگا آپ سے ملکر۔۔۔ احباب ہمارے ہاتھوں میں زبیر بھائی کا دیا گفٹ بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ اگر حسد کا شکار نہ ہوں تو۔۔۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوب، پڑھ کر مزہ آگیا۔ مرزا صاحب۔ میں تو کہتا ہوں، یہ نین کے مقابلے کی تحریر ہے اور آپ کے قلم مین برابر کی تاثیر ہے۔ چلیں، اسی بہانے آپ کو وطنِ عزیز میں عام آدمی کی زندگی کے حالات کا عملی مشاہدہ تو ہوا۔ ذرا امریکہ کی زندگی کے ساتھ اس کا موازنہ کریں تو آپ یقیناً یہی کہیں گے یہ پاکستانیوں کی ہی حوصلہ ہے جو ان حالات کا سامنا کررہے ہیں۔
نین جی کی محبت بھی قابل ستائش ہے جس کے بل پر وہ تمام جوکھم سے گزر کر آپ سے ملنےمیں کامیاب ہو گئے۔
اللہ آپ دونوں کو خوش وخرم رکھے اور کامیابیاں عطا فرمائے۔
سر ہمارا تو اس دن کا مشن ہی یہی تھا کہ مرزا بھائی سے ملنا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو۔ اور مرزا بھائی تو ہم سے کہیں زیادہ بہتر اور عمدہ لکھتے ہیں۔ بس ذرا انکسار حاوی رہتا ہے ان پر۔ :)
 

صائمہ شاہ

محفلین
نیرنگ خیال سے اگرچہ ملاقات تو باقی دوستوں کے ساتھ 6 اگست کوطے تھی لیکن وہ چشتیاں روانہ ہوگئے ان کو فون کیا 5 اگست کو تو
ان کے بھائی نے فون پر کہا وہ اس وقت سلون میں آرائشِ حسن میں مصروف ہیں لہذا بات نہیں کرسکتے کل اُن کو چشتیاں جانا ہے -
بات ہماری سمجھ میں آگئی چشتیاں وہ دولہا بن کر گئے تھے لہذا اب وہ ہمیشہ وہاں اسی تیاری سے جاتے ہیں - ہم نے کہا جب وہ کھارے چڑھ جائیں
تو ہمارا پیغام دے دیجئے گا- رات کو نین کا فون آیا کے وہ کل لاہور نہیں آسکیں گے -
نین سے ملاقات کا امکان نہیں رہا تھا - 10 اگست کو ہمیں اسلام آباد جاناتھا اس دوران بھی وہ چشتیاں میں ہی مقیم تھے- 11 اگست کو ہماری
روانگی تھی کراچی جس کے لیے گوجرانوالہ سے لاہور جاناتھا یہ بات نین کے علم میں تھی تو ان کا فون آیا میں 11 اگست کو لاہور میں ہوں گا
تو ملاقات ہوسکتی ہے ان سے عرض کی جناب دیکھ لیجئے گا اس دن وقت ذرا کم ہوگا کیونکہ ہمیں ٹرین پکڑنی ہے-
خیر جناب 11 اگست کا تاریخی دن آپہنچا اور ہم نے صبح سے تیارلگے انتظار کرنے اتنے میں نین کا فون آیا لاہور میں داخل ہونے کے رستے بند ہورہے ہیں
اور وہ بس میں بیٹھے منتظر ہیں کے لاہور پہنچ سکیں-
ہم نے اپنے چچا زاد بھائی کو یہ بتایا لاہور کے لیے ہم لوگ جلدی نکلیں تو بہتر ہے کہیں تمام راستے بند نہ ہوجائیں- نین کا فون آیا کے کچھ تاخیر اور بس کو
روکنے کے بعد وہ لاہور داخل ہوگئے ہیں- اس کے ایک گھنٹے بعد جب ہم گوجرانوالہ سے نکلے اور لاہور کی جانب روانہ ہوئے تو تمام روڈ کنٹنروں سے بند پائے
ہمیں مطلوبہ ٹرین لاہور سے ہی ملنی تھی اور اس پر ہماری نشستیں مخصوص تھیں - اب ایک ہی صورت نظرآئی کے گوجرانوالہ اسٹیشن سے لاہور کے لیے ٹرین پکڑی جائے
جب اسٹیشن پہنچے تو ایک ہجوم وہ موجود تھا وجہ وہی لاہور داخل ہونے کا ذریعہ صرف یہی تھا- ٹکٹ لیے اور پیلٹ فارم پر اپنے سامان کے ساتھ کھڑنے ہونے بلکہ پاؤں رکھنے کو
جگہ بنائی اور لوگوں کے جمِ غفیر میں شامل ہوگئے-
جعفرایکسپرس آئی جس میں ہمیں لاہور تک جانا تھا - ٹرین میں لوگ چھت تک سوار تھے ایسے میں مزید لوگوں کا سوار ہونا ناممکن تھا- لیکن لوگ سوار ہورہے تھے چھت پر کھڑکیوں سے
اندر جارہے تھے کہ دروازوں میں سے جانا ناممکن تھا- ہم میں نجانے کہاں سے ہمت آگئی کے ہم بھی بعذریعہ کھڑکی سوار ہوگئے اپنی اسکنی جین اور سلیم شاہی جوتی کو نظر انداز کرتےہوئے:)
اس دوئم درجے میں جہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ہم نے اپنے لیے کیسے جگہ بنائی جب کہ ایک صاحب ہمارے کندھے پر سوار تھے- یوں ہم نے اپنے ماتھے سے جہاز پہ سفر کرنے والے ٹرین وہ بھی
دوئم درجے میں سفر کرنا کیا جانے(کاشف اکرم وارثی کا ایک پُرانا طعنہ) بھی دھوڈالا-
خیر جناب ہم لاہور اسٹیشن آنے پر ہم نے کمالِ ماہرت سے بذریعہ کھڑکی ٹرین سے نکلے ہاں احتیاطَ سیلم شاہی جوتی اُتار کے ہاتھ میں پکڑلی ، جین کے پائنچے چڑھائے اور کود گئے:)
نین کا فون ہمیں لاہور پہنچتے ہی موصول ہوا ہم عرض کی جناب ہم اپنی کراچی جانے والے ٹرین پکڑنے جارہے اور وقت کی قلت ہے انھوں نے کہاں وہ پہنچ رہے ہیں - ہم اپنی مطلوبہ ٹرین
میں پہنچے حواس بحال کیے بیگ سے چپل نکالی ذرا حلیہ درست کیا اور نین کا انتظار کرنے لگے-
پھر شُبھ گھڑی آئی اور نین نے فرمایا وہ پلیٹ فارم پر پہنچ چکے ہیں ہم ٹرین سے نکلے اور نین کے دیدار میں اُچک اُچک کے لوگوں کے کندھوں سے دیکھنے لگے -
شاہانہ چال جس کو دیکھ کر کلیجہ ہل جائے اور مست نینوں کے تیر چلاتے نین آرہے تھے نیلے رنگ کا شلوار قیمض پہنے جانِ محفل ، روحِ فیس بُک ، شانِ چشتیاں
فخرِ صادق آباد اور رونقِ اسلام آباد ہمارے سامنے تھے- وقت کم تھا باتیں بہت جلدی جلدی مسکراہٹوں میں باتیں کیں اس مختصر ملاقات کو محفوظ کرنے کے لیے فون کیمرے سے ایک تصویر
بنوائی اور ٹرین کی سیٹی نے وقتِ ملاقات ختم ہونے کا اعلان کیا- یوں ہم نین کی ملاقات سے مسرور کراچی روانہ ہوئے-

16689_334138510085833_994439043685716699_n.jpg
تصویر سامنے آتے ہی پہلی نظر " سلیم شاہی " جوتے کی طرف گئی :)
جانِ محفل ، روحِ فیس بُک ، شانِ چشتیاں فخرِ صادق آباد اور رونقِ اسلام آباد
بہت عمدگی سے قلمبند کی گئی روداد
 

زبیر مرزا

محفلین
تقریریں ہی تقریں کب
تصویر سامنے آتے ہی پہلی نظر " سلیم شاہی " جوتے کی طرف گئی :)
جانِ محفل ، روحِ فیس بُک ، شانِ چشتیاں فخرِ صادق آباد اور رونقِ اسلام آباد
بہت عمدگی سے قلمبند کی گئی روداد
سیلم شاہی جوتی اُتار کے بیگ میں رکھ دی تھی اور چپل نکال کے پہن لی تھی کہ نین سے بھاگ کے ملنا تھا :)
ہاتھ کی گھڑی شبھ نہیں تھی تو وہ ٹوٹ کر کہیں رستے (ٹرین میں )گرگئی تھی:)-
 
Top