جیہ
لائبریرین
ملم جبہ کی سیر
جویریہ مسعود
جویریہ مسعود
جمعہ کا دن تھا۔ 11 بجے کے قریب عبد اللہ نیند سے جاگا۔ ابھی ناشتہ کیا بھی نہیں تھا کہ فرمائش داغ دی۔ مما ! یہ عید ہم نے گھر پر ہی گزار دی۔ آج باہر چلتے ہیں۔ میرا موڈ نہیں تھا گھر سے نکلے کو مگر بابا نے عبداللہ کی بھولی صورت دیکھ کر کہا۔ ہاں کیوں نہیں۔ چلو ملم جبہ چلتے ہیں۔ تم کچھ تیار کرلو۔ کھانا وہی کھا لیں گے۔ پکنک بھی ہو جائے گی۔ ایک بجے جمعہ کی نماز پڑھ کر نکل پڑیں گے۔
وہ تو یہ نادر شاہی حکم سنا کر باہر چلے گئے اور میری جان پر بن آئی کہ اس مختصر سے وقت میں کیا تیار کروں؟ خیر قہر درویش بر جانِ درویش۔ جلدی جلدی ایک مرغِ فارمی فریزر سے بر آمد کیا اور روسٹ بنانے کی تیاری شروع کی۔ کچھ میکرونی بنائے۔ کچھ سلاد سے کام چلا لیا۔ فروٹ اور کولڈ ڈرنک بازار سے منگوا کر فریج میں رکھ دئیے۔
کھانا بنانے سے فارغ ہوئی تو نماز کا وقت ہو رہا تھا۔ عبد اللہ کو نہلا دھلا کر مسجد جمعہ پڑھنے بھیج دیا اور خود جلدی جلدی نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی۔ نمازپڑھ کر فارغ ہوئی ہی تھی نانا اور نواسا بھی پہنچ گئے۔ سب کچھ تیار تھا۔ گاڑی میں رکھوا کر پونے دو بجے گھر سے ملم جبہ کے لئے نکل پڑے۔
ملم جبہ جسے عام طور پر مالم جبہ لکھا جاتا ہے، منگورہ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ کالام کے بعد سوات کا سب سے اونچااور ٹھنڈا ترین مقام ہے ۔ اس کی بلندی 8530 فٹ ہے۔ منگورہ سے فضا گٹ پارک کے راستے بحرین اور کالام جاتے ہوئے منگلور کے تاریخی گاؤں کے مقام پر ملم جبہ کے لئے سڑک جدا ہوجاتی ہے۔ یہاں سے ملم جبہ صرف 32 کلومیٹر ہے مگر اس 32 کلومیٹرکو طے کرنے مین تقریباً سوا گھنٹہ لگتا ہے۔ کیوں کہ سڑک تنگ بھی ہے اور پر پیچ موڑوں کی وجہ سے خطر ناک بھی۔
گھر سے نکلے تو مدین روڈ، شاہدرہ اور حیات آباد سے ہوتے ہوئے فضا گٹ پارک کے ساتھ دریائے سوات کے کنارے سنگوٹہ پہنچے ، سنگوٹہ وہی جگہ ہے جہاں سنگوٹہ پبلک سکول میں ہم نے چند سال پڑھائی کی۔ 2008 میں طالبان نے یہ کانونٹ سکول تباہ کر دیا ۔ اس کا نوحہ میں نے محفل پر کسی جگہ لکھا تھا۔ اب اللہ کا شکر ہے کہ یہ سکول اُسی آئریش انتظامیہ کے زیر انتظام دوبارہ کھل گیا ہے۔
سنگوٹہ سے ایک کلومیٹر آگے منگلور کے تاریخی گاو ں کا پل پار کیا کالام روڈ کو چھوڑ کر ملم جبہ روڈ پر موڑ گئے۔ تھوڑی دیر میں ہم جہان آباد گاؤں پہنچے۔ یہاں سے عبد اللہ کو سامنے پہاڑ پر گوتم بدھ کا مجسمہ دِکھایا جو کہ کچھ اس طرح نظر آرہا تھا۔
یہ مجسمہ پاکستان میں بدھ کا سب سے بڑاچٹان پر کندہ کیا ہوا مجسمہ ہے۔ اسے دیکھ کر عبد اللہ مچلنے لگا کہ مجھے قریب سے دیکھنا ہے۔ اس کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ سڑک کے کنارے گاڑی پارک کر کے پہاڑ پر لگے چڑھنے۔ کوئی 20 منٹ میں بدھ کے چرنوں میں پہنچ گئے۔ مگر دیکھ کر افسوس ہوا کہ ظالموں (طالبان) نے ڈائنامائٹ سے مجسمے کو کتنا بڑا نقصان پہنچایا ہے اس کا انداز یہ تصویر دیکھ کر بہ خوبی کیا جاسکتا ہے۔
واپسی پر ملم جبہ کا سفر دوبارہ شروع ہوا۔ تلیگرام گاؤں سے خطرناک چڑھائی شروع ہو گئی۔ پر پیچ سڑک کسی سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی پہاڑ کے اوپر جارہی تھی۔ عبد اللہ خوب محظوظ ہو رہا تھا اور میں اسے دیکھ کرمحظوظ ہو رہی تھی اور بابا مجھے خوش دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ تقریباً 4000 فٹ کی بلندی پر کشورہ Kishawra گاؤں پہنچ گئے۔ یہاں آرمی چیک پوسٹ پر تفشیش سے گزرنا پڑا۔ کشورہ سے سفر سپینے اوبہ کاؤں تک جاری رہا۔ سپینے اوبہ کا مطلب ہے ‘سفید پانی‘ مگر یہاں کوئی ندی یا دریا نہیں۔ بہت نیچے گھاٹیوں میں ہو تو ہو۔
سپینے اوبہ سے گھنے جنگلات شروع ہو گئے اور ہوا جو پہلے ہی سرد تھی سرد تر ہو گئی۔ ہمیں مجبوراً گاڑی کے شیشے چڑھانے پڑے۔ عبداللہ وقفے وقفے سے شگوفے چھوڑ رہا تھا۔ سڑک کے کنارے گھنے درختوں کو دیکھ کر چلانے لگا۔ مما مما! یہ دیکھو بہت سے جے Js ہیں۔ غور کیا تو پہاڑ کے کناروں سے درختوں کے تنے جے کی شکل میں سیدھے ہوکر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔ اور واقعی بالکل انگریزی حرف جے کی شکل اختیار کی تھی۔
تھوڑی دیر سفر کے بعد ہم ملم جبہ کی حدود میں پہنچ گئے۔ سڑک کے ایک طرف بلند و بالا پہاڑ اور دوسری طرف وسیع سبزہ زار اور سامنے ملم جبہ کا اونچا اور سٹیپ Steep پہاڑ جو کہ درختوں سے ڈھکا ہوا تھا نظر آرہا تھا۔ بادل اتنے نیچے کہ بعض جگہوں پر ہماری گاڑی بادلوں کے درمیان چھپ جاتی۔الغرض عجیب دلفریب منظر تھا۔ سبحان تیری قدرت۔
یہاں ایک مناسب جگہ دیکھ کر ہم نے گاڑی روکی۔ اور سبزار میں ایک گھنے درخت کے نیچے دری اور دسترخوان بچھا کر کھانا پروسا۔ اس وقت کوئی ساڑھے تین بج رہے تھے۔ ہم نے ڈٹ کر کھانا کھایا ۔ فروٹ کھا ہی رہے تھے کہ 3 گائیں ہمارے سامنے آگئیں۔ میں تو ڈر گئی مگر شاباش ہے گبین پر کہ وہ اٹھ کر گائیوں کے پاس گیا۔ اسے بالکل ہی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ گائیں فروٹ کے چھلکے جو میں نے ایک طرف پھینک دئے تھے، کھا کر خراماں خراماں چلی گئیں۔ واللہ کیا چال تھی۔ اس چال کے سامنے تو ماڈلز کی کیٹ واک کچھ بھی نہیں۔
کھانا اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد ہم واپس گاڑی میں آئے اور ملم جبہ کی چوٹی کی طرف سفر دوبارہ شروع ہوا۔ ٹاپ پر کسی زمانے میں پی ٹی ڈی سی ہوٹل اور چئیر لفٹس میں رونق لگی رہی تھی۔ تصویر ملاحظہ ہو۔
مگر افسوس کہ طالبان نےاس جگہ کو بھی نہیں بخشا ۔ اب اس ہوٹل کی جو صورت ہے یہ تصویر دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے سوات کو کن ظالمان سے پالا پڑا تھا۔
یہاں آکر دل کوایک ٹھیس سی لگی۔ تھوڑ دیر ٹھہر کر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ نیچے آکر سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں چائے پی اور عصر کی نماز پڑھی۔
یہاں ایک لطیفہ ہو گیا۔ بابا کی عمرکوئی پچاس سال ہے مگر بدن چھریرا ہے تو اتنے عمر کے نہیں لگتے۔ جب وہ چائے کا آرڈر دے رہے تھے تو چائے والے نے کہا ۔
صاحب ۔ اپنی ‘کور ودانہ‘ ( کور ودانہ کا لغوی مطلب ہے گھر کی آبادی، خوشی ۔۔مراد اس سے ہے بیوی) کو کمرے میں بٹھائیں میں چائے لے کر آ رہا ہوں۔ بابا بہت ہنسے ۔ ان کو بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے۔ ہوٹل والے نے عجب انداز میں کہا اچھا؟ مگر صاف لگ رہا تھا کہ اس کو بابا کی بات کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔
چائے اور نماز سے فارغ ہوکر ہم نے مینگورہ کا واپسی سفر شروع کیا تھا۔ راستے میں دیکھا کہ ہر طرف سیاحوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی جن میں ہم جیسے مقامیوں سے زیادہ دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے تھے جو سوات کی سیاحت کے لئے آئے تھے۔ سپینے اوبہ سے کشورہ۔ یہاں سے تلیگرام، جہان آباد اور پھر منگلور پہنچے۔ منگلور سے گاڑیوں کا ایسا رش اور ٹریفک جام شروع ہو گیا کہ الامان و الحفیظ۔ منگلور سے سنگوٹہ جب پہنچے تو شام کےسات بج کر آٹھ منٹ ہو رہے تھی۔ یہاں ایسے پھنسے کہ جب ہم سنگوٹہ سے کھر تک 3 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے گھر پہنچے تو رات کے 11 بج رہے تھے۔
مدیر کی آخری تدوین: