جیہ
لائبریرین
ارے سر جی! یہ کیا لکھ دیا آپ نے۔ یہ باتیں تھوڑی لکھنے کی تھیںآہا کیا یاد دلادیا جیہ بٹیا آپ نے اس دلچسپ روداد سے۔ بہت مزیدار لکھا ہے ۔ پڑھتے پڑھتے پہلے تو روسٹڈ چکن کے مزے لیے اور پھر ہم خود ملم جبہ ( جسے ہم خود آج تک مالم جبہ لکھتے اور کہتے آئے ہیں) پہنچ گئے۔ یہ واقعہ آج سے پچیس سال پہلے کا ہے جب ہم چاند کو شہد لگا کر چاٹنے گئے تھے اور مری کی سیر سے فارغ ہوکر پنڈی سے سیدھے سوات کے شہر مینگورہ پہنچے اور ایک خوبصورت ہوٹل میں قیام کیا۔ اس تین روزہ قیام کے دوران ہم میاں بیوی نے ایک دن کالام، ایک دن ملم جبہ اور تیسرے دن والئیِ سوات کا سفید محل دیکھنے گئے۔ ایک دن راستے میں فضا گٹ پارک میں بھی کچھ وقت گزارا تھا۔ ہوا یوں کہ پہنچتے ہی ایک ٹیکسی ڈرائیور نذیر سے ملاقات ہوگئی اور تینوں دن اسی کے ساتھ وادیِ سوات کی سیر کرتے رہے۔
خصوصاً ملم جبہ کا سفر تو بہت ہی یادگار سفر ثابت ہوا۔ پہنچتے ہی ایک نہایت عالیشان زیرِ تعمیر عمارت کے سائے میں گاڑی روکی اور اسے غور سے دیکھا کیے ، نذیر نے بتایا کہ یہ ایک ہوٹل بن رہا ہے ۔ اسی ہوٹک کے قریب کئی کھمبوں پر لفٹ چیر لٹکی ہوئی تھیں ۔ یہ سب ابھی زیرِ تعمیر ہی تھا۔ ان نظاروں کو دیکھتے ہوئے نذیر ہمیں برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ پر چڑھا لے گیا۔ یہ اپریل کا مہینہ تھا۔ سوات میں بھی سوائے کالام کے کہیں اور برف نظر نہیں آئی تھی، لیکن یہ پہاڑ پورے کا پورا برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ برف سے ڈھکے اس پہاڑ پر چڑھنا ہمیں بہت مزیدار لگ رہا تھا لیکن ساتھ ہی یہ ڈر بھی لاحق تھا کہ واپس کیسے اُتریں گے۔ ادھر نذیر ہمیاری ہمت بندھائے ہوئے ہمیں اوپر تک چڑھا لے گیا۔ اوپر پہنچ کر تو ہماری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے ہی رہ گئی۔ اب تو اس ڈھلوان پہاڑ سے نیچے اترنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ کیا نیچے اُترنے کے لیے کوئی اور راستہ ہے؟ ہم نے نذیر سے پوچھا تو وہ ہنسنے لگا۔ اس نے کہا
’’ میں ابھی آپ کو نیچے اُترنے کا ایک آسان راستہ بتا دیتا ہوں۔‘‘
پھر وہ دونوں پاؤں سامنے نیچے کی جانب پھیلاکر برف پر بیٹھ گیا اور ہمیں بھی اسی طرح بیٹھ گئے اور دونوں ہاتھوں کو چپوؤں کی طرح چلاتے ہوئے نیچے کی جانب پھسلنے لگے۔ ہمیں اوپر پہنچنے میں کوئی آدھ گھنٹے سے زیادہ لگ گیا تھا لیکن واپس ہم منٹوں میں اُتر آئے۔
بعد میں خبروں میں پڑھتے کہ ملم جبہ پر اس جگہ پی ٹی ڈی سی کا ایک عالیشان ہوٹل اور اسکی ریسورٹ بن گیا ہے تو پھولے نہ سماتے کہ یہ پہاڑ تو ہم نے زمین پر ہاتھوں پیروں سے اسکی کرتے ہوئے سر کیا ہے۔ دوبارہ ادھر جانا نہ ہوا لیکن یہ علاقہ اپنے حسین ترین نظاروں اور نذیر سمیت بہت یاد آتا ہے۔
پھر طالبان نے اس ہوٹل اور اسکی ریسورٹ کو تباہ کردیا تو ہمیں بہت افسوس ہوا کہ اب کبھی ہم دوبارہ اس جگہ کو نہ دیکھ پائیں گے۔
یہ روداد تو الگ لکھنی ہوگی اور تھوڑی تفصیل سے اپنے شگفتہ انداز میں۔ اب آپ اپنی بیٹی کی فرمائش پوری نہیں کریں گے؟