ممبئی دھماکے اور پاکستانی لنک

حیدرآبادی

محفلین
پوسٹ نمبر:19
کیا یہ نوجوان مسلمان ہے۔
ذرا غور سے دیکھیں۔ آپ نے اسے کسی ٹی وی پر دیکھا ہو گا۔

پوسٹ نمبر:23
ایکسپریس کی خبر یہ رہی:
مبینہ دہشت گرد کی کلائی میں "کلاوا" نے جھوٹ کا پول کھول دیا
کلاوا صرف ہندو باندھتے ہیں

پوسٹ نمبر:28
معلومات فراہم کرنے کا شکریہ طالوت۔ لیکن اس طرح کی تصاویر زیادہ معتبر نہیں مانی جا سکتیں۔ تصاویر کو معلومی ری ٹچ کرکے اس طرح کی تبدیلیاں کرنا مشکل نہیں ہے۔
اوپر کے اقتباسات دوبارہ یاد کریں اور بی۔بی۔سی کی یہ خبر دیکھیں جس میں اسی نوجوان کو "اجمل قصاب" کا نام دیا گیا ہے۔
اب یہ کتنا سچ ہے یا کتنا جھوٹ ، اس پر بحث کا ارادہ نہیں۔
بلکہ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ صرف اتنا کہ ۔۔۔۔
نبیل بھائی نے جو اشارہ کیا ہے ، اس کی طرف سب کو توجہ دینا چاہئے۔

دہشت گرد کو دہشت گرد ہی کہنا چاہئے۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ دہشت گرد انڈیا کا ہندوتوا علمبردار بھی ہو سکتا ہے اور پاکستان کے کسی لشکر کا "مجاہد" بھی۔
ہندوستانی اور پاکستانی برادران کو دہشت گردی کے معاملات پر بحث کرتے ہوئے مذہب کو درمیان میں لانے سے گریز کرنا چاہئے۔

دنیا کے کسی بھی ملک یا کسی بھی قوم میں مبینہ دہشت گرد یقینی پائے جاتے ہیں ، کسی خاص ملک کی تخصیص نہیں ہے۔ اگر کراچی کے کسی نسلی فساد میں کوئی "موومنٹ" ہندوتوا علمبرداروں یا راء کو hire کر سکتی ہے تو اس بات میں بھی شبہ نہ ہونا چاہئے کہ ممبئی دھماکوں میں ہندوتوا قوتوں نے کسی "لشکر" کے "مجاہدین" کو hire کیا ہوگا تاکہ مالیگاؤں دھماکوں کی حقیقت کو (آنجہانی) ہیمنت کرکرے آشکار نہ کر جائے !!
 
آج صبح میں نے ایک اہم خبر دیکھی۔ ایڈووکیٹ سی ایم فاروق نے دعویٰ کیا ہے کہ اجمل قصاب بزنس ویزے پر 2006ء میں نیپال گیا تھا جہاں کھٹمنڈو ہوٹل سے اسے نیپالی پولیس نے گرفتار کرکے بھارتی خفیہ ایجنسی کے حوالے کردیا تھا۔ سی ایم فاروق کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں انہوں نے نیپال کی عدالت میں درخواست بھی دائر کی تھی جس پر عدالت نے بھارتی پولیس سے جواب طلب کیا تھا تاہم اب تک کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی ساری دستاویزات کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کریں گے۔
 
Top