خرم شہزاد خرم
لائبریرین
شادی کا کھانا کھانے کے بعد میں گھر کے لیے تیار ہوا تو میری ایک کزن جو کہ میری سالی بھی ہے ان کی شادی منڈی بہاوالدین میں ہی ہوئی ہے وہ بھی تیار تھی لیکن انھوں نے جہلم جانا تھا بارش بہت تیز ہو رہے تھی ان کے ساتھ ان کی ایک کزن جو ان کے شوہر کی طرف سے کزن لگتی تھی وہ اور ساتھ تین عدد بچے بھی تھے مجھے کہنے لگی خرم تم بھی ہارے ساتھ چلو جہلم ہمارے ساتھ جانے والا کوئی نہیں ہے اور بارش بھی ہو رہی ہے کچھ مسئلہ ہو گیا تو ہم کیا کرے گے۔ اب منڈی جب کے گھر میں ہم رکھے تھے وہ بھی خالہ کا گھر تھا اور جہلم جہاں کزن جانے کا کہہ رہی تھی وہاں بھی خالہ کا گھر تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جہلم والی خالہ کی بیٹی سے میرا رشتہ ہوا تھا ایک تو میں وہاں جانے سے شرما رہا تھا اور دوسرا یہ کے جہلم کوئی پروگرام تھا جس میں کزن جا رہی تھی تو میں جانا نہیں چاہتا تھا لیکن دل کر رہا تھا جانا چاہے دیدارِ یار ہو جائے گا سو پھر دل کی مانی ہو چل پڑے بہت مشکل سے اڈے پر پونچے جب ہم اڈے پر پونچے تو وہاں سے ابھی ابھی گاڑی نکلی تھی اور نئی گاڑی بلکل خالی تھی پہلے ہم بھی بیٹھے تھے ہم تین بندے تھے ساتھ بچے بھی تھی بچے بہت چھوٹے تھے لیکن پھر بھی میں نے سوچا چار والی سیٹ لے لیتے ہیں آرام سے جائے گے لیکن مجھے کیا پتہ تھا یہ پنڈی نہیں ہے منڈی ہے اب ہم نے آگے والی چار سیٹیں لی ہوئی تھی کنڈیکٹر نے بےغیرتی کا مظاہرہ کیا اور سامنے جو تھوڑی سی جگہ تھی وہاں بھی تین سواریاں بیٹھا لی میں نے اس کے ساتھ بحث کی بہت عزت کہ ساتھ کہاں بھائی میرے سات خواتین ہے آپ ان کو یہاں نا بیٹھائے اور ویسے بھی آپ 18 سواریوں سے زیادہ نہیں بیٹھا سکتے ہیں لیکن اس نے ایک نا سنی اور سواریاں بیٹھاتا گیا باقی لوگوں خاموش رہے ان میں سے کوئی بھی ہمارے ساتھ نہیں بولا شاہد کسی کے ساتھ ایسا مسئلہ درپیش نہیں ہوا ہو گا اس لے خیر بہت مشکل سے سفر کیا اور جہلم پونچے اب گھر جانے کے لیے بھی وہاں سے رکشے جاتے ہیں لیکن وہاں کوئی رکشہ نہیں تھا بہت پرشانی ہوئی گھر فون کر کہ کہاں تو کافی دیر کے بعد ایک رکشہ لایا گیا اس میں بیٹھے اور گھر کی طرف سفر شروع ہو گیا ادھے راستے تک پونچا تو کیا دیکھا دور دور تک پانی ہی پانی اف اللہ کیا کرے رکشہ بہت مشکل سے چل رہا تھا کزن کی سب سے چھوٹی بیٹی نے پانی کی وجہ سے شور دال دیا وہ بیچاری ڈر گی تھی ۔ اور مجھے بھی ایک ڈر تھا اور پھر وہی ہوا پانی کے درمیان رکشہ بند ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرتے کیا نا کرتے اب کیا کرنا تھا پانی میں اتر کر رکشہ کو دکھا لگانا تھا وہ تو اللہ خوش رکھے ان لوگو کو جو پہلے ہی پانی میں چل رہے تھی مجھے نیچے اترنے نہیں دیا اور رکشے کو پانی سے باہر نکالا اللہ اللہ کر کے گھر پونچے مجھے تو سردی لگنا شروع ہو گی طبیعت بھی کچھ خراب خراب لگ رہی تھی اب سب سے مل چکا تھا بس صرف منگیتر سے ملنا رہ گیا تھا اب اس انتظار میں تھا ابھی آئے گی ابھی آگے لیکن مجھے پتہ تھا جب تک میرے پاس سارے بیٹھے ہیں وہ اندر نہیں آئے گی اور پھر ایسا ہی ہوا میرے پاس سے کوئی اٹھا ہی نہیں اور بجلی چلی گھی کھانا کھایا اور پھر وہی رات کو سو گیا دوسرے دن 11 بجے جاگا کسی نے جگایا ہی نہیںشاہد ان کو پتہ چل گیا تھا کہ طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے جب اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں مہمان ہی مہمان حسرت بس حسرت ہی رہی شام تک رش لگی رہی اور پھر شام کو مجھے گھر واپس آنا تھا پھر کیا تھا اپنا بوری بستر باندہ اور گھر کی طرف سفر شروع کر دیا یہ سفر مجھے ایسا لگا جیسے میں نا معلوم مقام کی طرف جا رہا ہوں
ان حسرتوں سے کہ دو کہی اور جا بسیں
خرم شہزاد خرم
ان حسرتوں سے کہ دو کہی اور جا بسیں
خرم شہزاد خرم