منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
خلش ہجر دائمی نہ گئی
تیرے رخ سے یہ بے رخی نہ گئی
ہوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی
سر سے سودا گیا محبت کا
دل سے پر اس کی بے کلی نہ گئی
اور سب کی حکائتیں کہہ دیں
بات اپنی کبھی کہی نہ گئی
ہم بھی گھر سے منیر تب نکلے
بات اپنوں کی جب سہی نہ گئی​
 

عرفان سرور

محفلین
افق کو افق سے ملا دینے والے
یہ رستے ہیں کتنے تھکا دینے والے
یہ دن ہیں نئے اپنی خاصیتوں میں
کئی نام دل سے بھلا دینے والے
بتا دینا عمریں اسے کھوجنے میں
جو مل جائے اس کو گنوا دینے والے
پھر اپنے کیے پر پشیمان رہنا
یہ ہم ہی ہیں خود کو سزا دینے والے
منیر اس زمانے میں رہبر بہت ہیں
حقیقت کو الجھن بنا دینے والے​
 

عرفان سرور

محفلین
کھل گئے ہیں بہار کے رستے
ایک دلکش دیار کے رستے
ہم پہنچے کسی حقیقت تک
اک مسلسل خمار کے رستے
منزل عشق کی حدوں پر ھیں
دائمی انتظار کے رستے
اس کے ہونے سے یہ سفر بھی ہے
سارے رستے ہیں یار کے رستے
جانے کس شہر کو منیر گئے
اپنی بستی کے پار کے رستے​
 

عرفان سرور

محفلین
کسی خوشی کے سراغ جیسا
وہ رخ ہے، ہستی کے باغ جیسا
بہت سے پردوں میں نور جیسے
حجاب شب میں چراغ جیسا
خیال جاتے ہوئے دنوں کا
ہے حقیقت کے داغ جیسا
اثر ہے اس کی نظر کا مجھ پر
شراب گل کے ایاغ جیسا
منیر تنگی میں خواب آیا
کھلی زمیں کے فراغ جیسا​
 

عرفان سرور

محفلین
خیال میں خواب اتنے
سوال تنہا جواب اتنے
کبھی نہ خوبی کا دھیان آیا
ہوئے جہاں میں خراب اتنے
حساب دینا پڑا ہمیں بھی
کہ جو ہم تھے بے حساب اتنے
بس ایک نظر میں ھزار باتیں
پھر اس سے آگے حجاب اتنے
مہک اٹھے رنگ سرخ جیسے
کھلے چمن میں گلاب اتنے
منیر آئے کہاں سے دل میں
نئے نئے اضطراب اتنے​
 

عرفان سرور

محفلین
اتنے خاموش بھی رہا نہ کرو
غم جدائی میں یوں کیا نہ کرو
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رھا نہ کرو
کچھ نہ ہو گا گلہ بھی کرنے سے
ظالموں سے گلہ کیا نہ کرو
ان سے نکلیں حکائتیں شاید
حرف لکھ کر مٹا دیا نہ کرو
اپنے رتبے کا کچھ لحاظ منیر
یار سب کو بنا لیا نہ کرو​
 

عرفان سرور

محفلین
جتنے دن اس بت کو سنانے میں لگے
سال کتنے ان دنوں کے آنے جانے میں لگے
راستے ہی راستے تھے آخر منزل تلک
رنچ کتنے ایک خوشی کا خواب آنے میں لگے
یاد آئی صبح کوئی ابتدائے عمر کی
وہ گل تازہ کی صورت مسکرانے میں لگے
ہے بسنت آنے کو اڑتی پھر رہی ہیں باغ میں
تتلیوں کو رنگ کیسے اس زمانے میں لگے
کس محبت سے ہوا تعمیر مدت میں منیر
چند لمحے جس نگر کی خاک میں لگے​
 

عرفان سرور

محفلین
زور پیدا جسم و جاں کی نا توانی سے ہوا
شور شہروں میں مسلسل بے زبانی سے ہوا
دیر تک کی زندگی کی خواہش اس بت کو ہے
شوق اس کو انتہا کا عمر فانی سے ہوا
میں ہوں ناکام اپنی بے یقینی کے سبب
جو ہوا سب میرے دل کی بدگمانی سے ہوا
ہے نشاں میرا بھی شاید شش جہت اہر میں
یہ گماں مجھ کو خود اپنی بے نشانی میں ہوا
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائگانی سے ہوا​
 

عرفان سرور

محفلین
ہے میرے گرد کثرت شہر جفا پرست
تنہا ہوں اس لیے ہوں میں اتنا آنا پرست
صحن بہار گل میں کف گل فروش ہے
شام وصال یار میں دست حنا پرست
تھا ابتدائے شوق میں آرام جاں بہت
پر ہم تھے اپنی دھن میں انتہا پرست
بام بلند یار پہ خاموشیاں سی ہیں
اس وقت وہ کہاں ہے یار ہوا پرست
گمراہیوں کا شکوہ نہ کر اب تو اے منیر
تو ہی تھا سب سے بڑھ کے یہاں رہنما پرست​
 

عرفان سرور

محفلین
عبوری دور کا سٹیچ
.
اس سفر کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا
یہ تماشا تھا، کوئی خواب، دیوانے کا تھا
سارے کرداروں میں بے رشتہ تعلق کا تھا کوئی
ان کی بے ہوشی میں خدشہ ہوش آ جانے کا تھا​
 

عرفان سرور

محفلین
اِک دن رہیں بسنت میں
.
اِک دن رہیں بسنت میں
اِک دن جیتیں بہار میں
اِک دن پھریں بے انت میں
اک دن چلیں خمار میں
دو دن رکیں گرہست میں
اِک دن کسی دیار میں​
 

عرفان سرور

محفلین
دن کی دوڑ دھوپ کے بعد
.
آرام بزم شام کی گنجائشیں بھی ہیں
کار جہاں کے بعد کی آسائشیں بھی ہیں
ہیں رونقیں بھی محفل یاران شہر میں
قصر بتاں میں حسن کی آرائشیں بھی ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
گیت
.
نہیں ہے رت یہ ملنے کی وہ موسم اور ہی ہو گا
تیرے آنے کی گھڑیوں کا وہ عالم اور ہی ہو گا
کوئی مدہم مہک آ کر گلے کا ہار بنتی ہے
اداسی ہجر کی جیسے وصال یار بنتی ہے
تیرے پھولوں سے ہونٹوں پر تبسم اور ہی ہو گا
نہیں ہے رت یہ ملنے کی وہ موسم اور ہی ہو گا
تیرے آنے کی گھڑیوں کا وہ عالم اور ہی ہو گا
جہاں جس میں رفاقت کی خوشی محسوس ہوتی ہے
محبت جس میں ہر شے دائمی محسوس ہوتی ہے
ہمارے حال کے رازوں کا محرم اور ہی ہو گا
نہیں ہے رت یہ ملنے کی وہ موسم اور ہی ہو گا
تیرے آنے کی گھڑیوں کا وہ عالم اور ہی ہو گا​
 

عرفان سرور

محفلین
یہ گزرتے دن ہمارے
.
نرم بوندوں میں مسلسل بارشوں کے سامنے
آسماں کے نیل میں کومل سروں کے سامنے
یہ گزرتے دن ہمارے پنچھیوں کے روپ میں
تنگ شاخوں میں کبھی خوابیدگی کی دھوپ میں
ہے کبھی اوجھل کبھی سکھ کی حدوں کے سامنے
چہچہاتے گیت گاتے بادلوں کے شہر میں
کوئے جاناں کی ہوا میں گل رخوں کے شہر میں
اک جمال بے سکوں کی حسرتوں کے سامنے
سبز میداں میں، بنوں میں، کوہساروں میں کبھی
زرد پتوں میں کبھی، اجلی بہاروں میں کبھی
قید غم میں یا کھلی آزادیوں کے سامنے​
 

عرفان سرور

محفلین
میں بھی کسی خیال سے کچھ رک گیا وہاں
.
دیکھی ہوئی جگہ تھی کسی گزرے دور کی
میری صدا کے ساتھ صدا ایک اور تھی
آغاز عہد سرد کے پت جھڑ کی شام تھی
بس اتنی بات یاد رہی اس مقام کی
 

عرفان سرور

محفلین
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
.
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
کسی موت سے پہلے کسی غم کو بچانا ہو
حقیقت اور بھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام میں​
 

عرفان سرور

محفلین
موسم ہے رنگیلا، گیلا اور ہوا دار
.
موسم ہے رنگیلا، گیلا اور ہوا دار
گلشن ہے بھر کیلا، نیلا اور خوشبو دار
عورت ہے شرمیلی، پیلی اور طرحدار
اس کی آنکھیں ہیں چمکیلی، گیلی اور مزیدار​
 

عرفان سرور

محفلین
موسم نے ہم کو منظروں کی طرح پریشان کر دیا ہے
.
کہیں پر ایک آبادی کا ٹکڑا ہے
اور کہیں پر سبز قطعہ اراضی
خالی زمیں کا ایک وسیع رقبہ ہے
جس پر رات کی بوندا باندی کے نشان ہے
اس رتبے پر دو حاملہ عورتیں چلی جا رہی ہیں
ایک خاموش خاموش اور ایک شوق اور ہنس مکھ
ایک آدمی ان سے کچھ فاصلے پر ان کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے
ایک طرف درختوں کے جھنڈ میں
ایک خانقاہ کے آثار ہیں
دوسری طرف سرسوں کے کھیت کی پیلاہٹ کی مہک​
 

عرفان سرور

محفلین
کوئی زمانہ ہو
.
کوئی زمانہ ہو کوئی شہر ہو
میں اسی طرح ان سے گزرتا رہتا ہوں
اسی رفتار سے
مضافات کے کچے راستے ہوتے ہیں
اور شام پڑنے کا قریب وقت
مجھے کہیں جانا ہے
بس یہی دھیان مجھے رہتا ہے
میرے دور دور تک آشیاں کی طرف لوٹتا پرندہ
کوئی اور راہرو نہیں ہوتا
کوئی زمانہ ہو کوئی شہر ہو​
 

عرفان سرور

محفلین
اے سریر آرائے اورنگ حسن
.
اک بے رخی سی ربطہ محبت میں ہے کہیں
اک شک کا روگ شوق کی جنت میں ہے کہیں
کیا بات اس کے دل میں ہے کہتا نہیں کوئی
الجھن ہے کس طرح کی بتاتا نہیں کوئی
بس چپ سی لگ گئی ہے جوانان شہر کو
کچھ ہو گیا ہے روح خیابان شہر کو
ہر اہل دل کو جان سے بیزار کر دیا
تو نے تو یار شہر کو بیمار کر دیا​
 
Top