محمد وارث
لائبریرین
پچھلے دنوں یوٹیوب پر فارسی کلام ڈھونڈتے ڈھونڈتے مولانا رومی کی ایک غزل تک پہنچ گیا جو استاد نصرت فتح علی خان قوّال نے گائی ہے۔ سوچا فارسی، شاعری، رومی، موسیقی، قوّالی، نصرت یا فقط 'یو ٹیوب' کو پسند کرنے والے احباب کی خدمت میں پیش کر دوں۔
میں اس غزل کے سحر میں کئی دنوں سے گرفتار ہوں اور اس اسیری سے رہائی بھی نہیں چاہتا، فقط ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ اس غزل کے صرف وہی پانچ اشعار مل سکے جو نصرت نے گائے ہیں۔ رومی ایسے شعراء کیلیے پندرہ بیس اشعار کی غزل کہنا ایک عام بات تھی، تین تو مطلعے ہیں اس غزل کے۔
آن لائن یونی کوڈ دیوانِ شمس (مولانا رومی کا دیوان جو انہوں نے اپنے مرشد شمس تبریز کے نام کیا ہے) میں بھی یہ غزل نہیں ملی۔ کہتے ہیں کہ سلامِ دہقانی خالی از مطلب نیست سو اس غزل کو یہاں پوسٹ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوست کو یہ غزل کہیں سے مل سکے تو ضرور شیئر کریں۔
اس غزل کی ردیف، می گردم (میں گھومتا ہوں) میں مولوی رومی یا سلسلۂ مولویہ کا فلسفہ مضمر ہے، اس سلسلے کے ترک درویش سماع کے وقت ایک مخصوص اندازمیں گھومتے ہیں۔ اسطرح کے گھومنے سے انکی مراد کائنات کی گردش کے ساتھ مطابقت یا synchronization ہے۔ ہاتھوں اور سر کا انداز بھی مخصوص ہوتا ہے، عموماً دایاں ہاتھ اوپر کی طرف اور بایاں نیچے کی طرف ہوتا کہ اوپر والے ہاتھ سے کائنات یا آسمان سے مطابقت اور نیچے والے سے زمین کے ساتھ ہو رہی ہے، سر کا جھکاؤ دائیں طرف یعنی نگاہیں دل کی طرف ہوتی ہیں۔ کمال اتا ترک کے انقلاب سے پہلے یہ مخصوص رقص ترکی میں بہت عام تھا اور ہر خانقاہ اور زاویے پر اسکی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں، اتا ترک نے اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ اس سماع اور رقص کو بھی بند کرا دیا تھا اور اسکی اجازت فقط مولانا کے عرس کے موقعے پر قونیہ میں انکے مزار پر تھی۔
تقریباً اسی زمین میں شیخ سیّد عثمان شاہ مروندی معروف بہ لال شہاز قلندر کی بھی ایک خوبصورت غزل ہے
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ آں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
تقریباً اس لیے کہا کہ کسی شاعر کی زمین میں غزل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف اسکی بحر بلکہ قافیہ اور ردیف (ردیف اگر ہے) بھی ایک جیسی ہونی چاہیے، یہ دونوں غزلیں ایک ہی بحر میں، ایک ہی قافیے کے ساتھ ہیں لیکن ردیف مختلف ہے، مولانا رومی کی ردیف اگر انکے سلسلے کے رقص و سماع کی آئینہ دار ہے تو شیخ عثمان کی ردیف، می رقصم (میں رقص کرتا ہوں) انکے سلسلے کی، قلندری دھمال کی شہرت چہار دانگ عالم ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پہلے کس نے غزل کہی اور کس نے دوسرے کی زمین استعمال کی کہ دونوں بزرگ ہمعصر تھے اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ انکے روابط بھی تھے۔
اور دھمال سے ایک واقعہ یاد آ گیا، پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کے نصف کی بات ہے، خاکسار لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور جائے رہائش گلبرگ مین مارکیٹ تھی، ایک دن وہاں شاہ جمال کے عرس کیلیے چندہ جمع کرنے کیلیے ایک 'چادر' نکلی جس میں پپو سائیں ڈھول بجا رہا تھا اور ساتھ میں دھمال پارٹی تھی۔ پپو سائیں اب تو پوری دنیا میں اپنے ڈھول بجانے کے فن کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے لیکن اس وقت اس کی مقامی شہرت کا آغاز ہو رہا تھا۔ اسی شہرت کو 'کیش' کرانے کے متعلق کچھ رازِ ہائے درونِ خانہ بھی اس خاکسار کے سینے میں ہیں کہ اسی وجہ سے اب تک ایک نوجوان کسی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ خیر ذکر دھمال کا تھا، شام کو جب سب دوست کمرے میں اکھٹے ہوئے تو اس بات کا ذکر ہوا، خوشاب کے ایک دوست نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سیالکوٹی دوست سے کہا کہ اگر آج یہ دھمال کہیں اور ہو رہی ہوتی تو اسکی دھمال بھی دیکھنے والی ہوتی مگر یہ اس وجہ سے رک گیا کہ یہاں اسکے کچھ شناسا موجود تھے۔
اور میں اس دوست کی بات سن کر حیران پریشان رہ گیا کہ اس کو میرے دل کی منافت کا کیسے علم ہو گیا گو یہ منافقت بہت سالوں بعد ختم ضرور ہوئی۔ 'می رقصم' کی تو یہ رہی، 'می گردم' نے بھی لاہور کی گلیوں اور کوچہ بازاروں کے بہت چکر لگوائے ہیں، خیر جانے دیجیئے، آپ بھی کیا کہیں گے کہ یہ غزل سے غزالاں تک جا پہنچا۔
غزل پیشِ خدمت ہے
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم
میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔
خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم
میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔
گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔
بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم
اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔
میں اس غزل کے سحر میں کئی دنوں سے گرفتار ہوں اور اس اسیری سے رہائی بھی نہیں چاہتا، فقط ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ اس غزل کے صرف وہی پانچ اشعار مل سکے جو نصرت نے گائے ہیں۔ رومی ایسے شعراء کیلیے پندرہ بیس اشعار کی غزل کہنا ایک عام بات تھی، تین تو مطلعے ہیں اس غزل کے۔
آن لائن یونی کوڈ دیوانِ شمس (مولانا رومی کا دیوان جو انہوں نے اپنے مرشد شمس تبریز کے نام کیا ہے) میں بھی یہ غزل نہیں ملی۔ کہتے ہیں کہ سلامِ دہقانی خالی از مطلب نیست سو اس غزل کو یہاں پوسٹ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوست کو یہ غزل کہیں سے مل سکے تو ضرور شیئر کریں۔
اس غزل کی ردیف، می گردم (میں گھومتا ہوں) میں مولوی رومی یا سلسلۂ مولویہ کا فلسفہ مضمر ہے، اس سلسلے کے ترک درویش سماع کے وقت ایک مخصوص اندازمیں گھومتے ہیں۔ اسطرح کے گھومنے سے انکی مراد کائنات کی گردش کے ساتھ مطابقت یا synchronization ہے۔ ہاتھوں اور سر کا انداز بھی مخصوص ہوتا ہے، عموماً دایاں ہاتھ اوپر کی طرف اور بایاں نیچے کی طرف ہوتا کہ اوپر والے ہاتھ سے کائنات یا آسمان سے مطابقت اور نیچے والے سے زمین کے ساتھ ہو رہی ہے، سر کا جھکاؤ دائیں طرف یعنی نگاہیں دل کی طرف ہوتی ہیں۔ کمال اتا ترک کے انقلاب سے پہلے یہ مخصوص رقص ترکی میں بہت عام تھا اور ہر خانقاہ اور زاویے پر اسکی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں، اتا ترک نے اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ اس سماع اور رقص کو بھی بند کرا دیا تھا اور اسکی اجازت فقط مولانا کے عرس کے موقعے پر قونیہ میں انکے مزار پر تھی۔
تقریباً اسی زمین میں شیخ سیّد عثمان شاہ مروندی معروف بہ لال شہاز قلندر کی بھی ایک خوبصورت غزل ہے
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ آں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
تقریباً اس لیے کہا کہ کسی شاعر کی زمین میں غزل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف اسکی بحر بلکہ قافیہ اور ردیف (ردیف اگر ہے) بھی ایک جیسی ہونی چاہیے، یہ دونوں غزلیں ایک ہی بحر میں، ایک ہی قافیے کے ساتھ ہیں لیکن ردیف مختلف ہے، مولانا رومی کی ردیف اگر انکے سلسلے کے رقص و سماع کی آئینہ دار ہے تو شیخ عثمان کی ردیف، می رقصم (میں رقص کرتا ہوں) انکے سلسلے کی، قلندری دھمال کی شہرت چہار دانگ عالم ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پہلے کس نے غزل کہی اور کس نے دوسرے کی زمین استعمال کی کہ دونوں بزرگ ہمعصر تھے اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ انکے روابط بھی تھے۔
اور دھمال سے ایک واقعہ یاد آ گیا، پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کے نصف کی بات ہے، خاکسار لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور جائے رہائش گلبرگ مین مارکیٹ تھی، ایک دن وہاں شاہ جمال کے عرس کیلیے چندہ جمع کرنے کیلیے ایک 'چادر' نکلی جس میں پپو سائیں ڈھول بجا رہا تھا اور ساتھ میں دھمال پارٹی تھی۔ پپو سائیں اب تو پوری دنیا میں اپنے ڈھول بجانے کے فن کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے لیکن اس وقت اس کی مقامی شہرت کا آغاز ہو رہا تھا۔ اسی شہرت کو 'کیش' کرانے کے متعلق کچھ رازِ ہائے درونِ خانہ بھی اس خاکسار کے سینے میں ہیں کہ اسی وجہ سے اب تک ایک نوجوان کسی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ خیر ذکر دھمال کا تھا، شام کو جب سب دوست کمرے میں اکھٹے ہوئے تو اس بات کا ذکر ہوا، خوشاب کے ایک دوست نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سیالکوٹی دوست سے کہا کہ اگر آج یہ دھمال کہیں اور ہو رہی ہوتی تو اسکی دھمال بھی دیکھنے والی ہوتی مگر یہ اس وجہ سے رک گیا کہ یہاں اسکے کچھ شناسا موجود تھے۔
اور میں اس دوست کی بات سن کر حیران پریشان رہ گیا کہ اس کو میرے دل کی منافت کا کیسے علم ہو گیا گو یہ منافقت بہت سالوں بعد ختم ضرور ہوئی۔ 'می رقصم' کی تو یہ رہی، 'می گردم' نے بھی لاہور کی گلیوں اور کوچہ بازاروں کے بہت چکر لگوائے ہیں، خیر جانے دیجیئے، آپ بھی کیا کہیں گے کہ یہ غزل سے غزالاں تک جا پہنچا۔
غزل پیشِ خدمت ہے
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم
میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔
خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم
میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔
گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔
بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم
اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔