فارسی شاعری مولانا رومی کی ایک غزل - نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم مع تعارف و ترجمہ

محمد وارث

لائبریرین
پچھلے دنوں یوٹیوب پر فارسی کلام ڈھونڈتے ڈھونڈتے مولانا رومی کی ایک غزل تک پہنچ گیا جو استاد نصرت فتح علی خان قوّال نے گائی ہے۔ سوچا فارسی، شاعری، رومی، موسیقی، قوّالی، نصرت یا فقط 'یو ٹیوب' کو پسند کرنے والے احباب کی خدمت میں پیش کر دوں۔

میں اس غزل کے سحر میں کئی دنوں سے گرفتار ہوں اور اس اسیری سے رہائی بھی نہیں چاہتا، فقط ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ اس غزل کے صرف وہی پانچ اشعار مل سکے جو نصرت نے گائے ہیں۔ رومی ایسے شعراء کیلیے پندرہ بیس اشعار کی غزل کہنا ایک عام بات تھی، تین تو مطلعے ہیں اس غزل کے۔

آن لائن یونی کوڈ دیوانِ شمس (مولانا رومی کا دیوان جو انہوں نے اپنے مرشد شمس تبریز کے نام کیا ہے) میں بھی یہ غزل نہیں ملی۔ کہتے ہیں کہ سلامِ دہقانی خالی از مطلب نیست سو اس غزل کو یہاں پوسٹ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوست کو یہ غزل کہیں سے مل سکے تو ضرور شیئر کریں۔

اس غزل کی ردیف، می گردم (میں گھومتا ہوں) میں مولوی رومی یا سلسلۂ مولویہ کا فلسفہ مضمر ہے، اس سلسلے کے ترک درویش سماع کے وقت ایک مخصوص اندازمیں گھومتے ہیں۔ اسطرح کے گھومنے سے انکی مراد کائنات کی گردش کے ساتھ مطابقت یا synchronization ہے۔ ہاتھوں اور سر کا انداز بھی مخصوص ہوتا ہے، عموماً دایاں ہاتھ اوپر کی طرف اور بایاں نیچے کی طرف ہوتا کہ اوپر والے ہاتھ سے کائنات یا آسمان سے مطابقت اور نیچے والے سے زمین کے ساتھ ہو رہی ہے، سر کا جھکاؤ دائیں طرف یعنی نگاہیں دل کی طرف ہوتی ہیں۔ کمال اتا ترک کے انقلاب سے پہلے یہ مخصوص رقص ترکی میں بہت عام تھا اور ہر خانقاہ اور زاویے پر اسکی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں، اتا ترک نے اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ اس سماع اور رقص کو بھی بند کرا دیا تھا اور اسکی اجازت فقط مولانا کے عرس کے موقعے پر قونیہ میں انکے مزار پر تھی۔

تقریباً اسی زمین میں شیخ سیّد عثمان شاہ مروندی معروف بہ لال شہاز قلندر کی بھی ایک خوبصورت غزل ہے

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ آں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم


تقریباً اس لیے کہا کہ کسی شاعر کی زمین میں غزل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف اسکی بحر بلکہ قافیہ اور ردیف (ردیف اگر ہے) بھی ایک جیسی ہونی چاہیے، یہ دونوں غزلیں ایک ہی بحر میں، ایک ہی قافیے کے ساتھ ہیں لیکن ردیف مختلف ہے، مولانا رومی کی ردیف اگر انکے سلسلے کے رقص و سماع کی آئینہ دار ہے تو شیخ عثمان کی ردیف، می رقصم (میں رقص کرتا ہوں) انکے سلسلے کی، قلندری دھمال کی شہرت چہار دانگ عالم ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پہلے کس نے غزل کہی اور کس نے دوسرے کی زمین استعمال کی کہ دونوں بزرگ ہمعصر تھے اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ انکے روابط بھی تھے۔

اور دھمال سے ایک واقعہ یاد آ گیا، پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کے نصف کی بات ہے، خاکسار لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور جائے رہائش گلبرگ مین مارکیٹ تھی، ایک دن وہاں شاہ جمال کے عرس کیلیے چندہ جمع کرنے کیلیے ایک 'چادر' نکلی جس میں پپو سائیں ڈھول بجا رہا تھا اور ساتھ میں دھمال پارٹی تھی۔ پپو سائیں اب تو پوری دنیا میں اپنے ڈھول بجانے کے فن کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے لیکن اس وقت اس کی مقامی شہرت کا آغاز ہو رہا تھا۔ اسی شہرت کو 'کیش' کرانے کے متعلق کچھ رازِ ہائے درونِ خانہ بھی اس خاکسار کے سینے میں ہیں کہ اسی وجہ سے اب تک ایک نوجوان کسی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ خیر ذکر دھمال کا تھا، شام کو جب سب دوست کمرے میں اکھٹے ہوئے تو اس بات کا ذکر ہوا، خوشاب کے ایک دوست نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سیالکوٹی دوست سے کہا کہ اگر آج یہ دھمال کہیں اور ہو رہی ہوتی تو اسکی دھمال بھی دیکھنے والی ہوتی مگر یہ اس وجہ سے رک گیا کہ یہاں اسکے کچھ شناسا موجود تھے۔

اور میں اس دوست کی بات سن کر حیران پریشان رہ گیا کہ اس کو میرے دل کی منافت کا کیسے علم ہو گیا گو یہ منافقت بہت سالوں بعد ختم ضرور ہوئی۔ 'می رقصم' کی تو یہ رہی، 'می گردم' نے بھی لاہور کی گلیوں اور کوچہ بازاروں کے بہت چکر لگوائے ہیں، خیر جانے دیجیئے، آپ بھی کیا کہیں گے کہ یہ غزل سے غزالاں تک جا پہنچا۔

غزل پیشِ خدمت ہے

نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم


میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔

خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم


اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔

شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم


میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔

گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم


اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔

بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم


اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔
 
پچھلے اس غزل کی ردیف، می گردم (میں گھومتا ہوں) میں مولوی رومی یا سلسلۂ مولویہ کا فلسفہ مضمر ہے، اس سلسلے کے ترک درویش سماع کے وقت ایک مخصوص اندازمیں گھومتے ہیں۔ اسطرح کے گھومنے سے انکی مراد کائنات کی گردش کے ساتھ مطابقت یا synchronization ہے۔ ہاتھوں اور سر کا انداز بھی مخصوص ہوتا ہے، عموماً دایاں ہاتھ اوپر کی طرف اور بایاں نیچے کی طرف ہوتا کہ اوپر والے ہاتھ سے کائنات یا آسمان سے مطابقت اور نیچے والے سے زمین کے ساتھ ہو رہی ہے، سر کا جھکاؤ دائیں طرف یعنی نگاہیں دل کی طرف ہوتی ہیں۔ کمال اتا ترک کے انقلاب سے پہلے یہ مخصوص رقص ترکی میں بہت عام تھا اور ہر خانقاہ اور زاویے پر اسکی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں، اتا ترک نے اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ اس سماع اور رقص کو بھی بند کرا دیا تھا اور اسکی اجازت فقط مولانا کے عرس کے موقعے پر قونیہ میں انکے مزار پر تھی۔

یہ رقص اور سلسلہ مولویہ مولاناروم پر تہمت ہے۔ مولانا نےکبھی طریقہ تبلیغ نہیں کیا۔ میرے خیال میں‌ مولانا کے کلام کو سمجھنا ہر ایک کے بس میں‌نہیں بہتے ظاہری معنوں میں مارے جاتے ہیں جیسے یہ فرقہ مولویہ۔
 
بہت خوبصورت غزل ہے، اور استاد نصرت فتح علی خان نے تو چارچاند لگادیے ہیں۔
حضور، میں بھی آپ کی طرح پوری غزل کا مشتاق ہوں۔ جب استاد نصرت فتح علی خان کی زبانی یہ غزل سنی تو پوری غزل کے شوق میں کلیات شمس خرید لایا۔
کافی ڈھونڈا، لیکن افسوس کے ساتھ یہ غزل نہ ملی۔ لیکن اسی ردیف اور قافیے کی ایک اور لمبی غزل ہے، اگر حکم فرمائیں تو بھیج دوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ شاہ صاحب اور نقوی صاحب، اور شکریہ ادا کرنے والے احباب کا بھی شکریہ :)
مولانا کے آن لائن دیوان میں مجھے بھی اس سے ملتی جلتی ایک غزل ملی تھی، بہرحال نقوی صاحب آپ ضرور پوسٹ کریں مولانا کی غزل!
 
شکریہ شاہ صاحب اور نقوی صاحب، اور شکریہ ادا کرنے والے احباب کا بھی شکریہ :)
مولانا کے آن لائن دیوان میں مجھے بھی اس سے ملتی جلتی ایک غزل ملی تھی، بہرحال نقوی صاحب آپ ضرور پوسٹ کریں مولانا کی غزل!


غزل تھوڑی لمبی ہے، ان شاء اللہ ٹائپ کرکے بھیج دوں گا۔
اس غزل کے بارے میں اپنے ایک شعر آشنا دوست سے سوال کیا تھا، انہوں نے فرمایا، کہ میں نے بھی صرف استاد نصرت فتح علی خاں سے سنی ہے، اس کے علاوہ نہیں دیکھی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ غزل مولانا کے نام سے کہی گئی ہے، ان کی زمین میں۔ اور وہ فرمارہے تھے کہ یہ غزل مولانا کی نہیں ہے۔
یہ ان کی رای ہے، صرف ان کی بات نقل کررہا ہوں، میں خود ابھی تک اس بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔ اس کے بارے میں مزید تحقیق کرنی چاہیے، اگر موقع ملا تو اپنے اساتذہ سے اس بارے میں معلوم کرکے بتاوں گا۔

القلم فورم پر اس غزل کا یک اور شعر بھی لکھا ہے:

ہزاراں غوطہ ہا خوردم دریں دریائے بے پایاں
برائے گوہر معنی بدریا پار می گردم

اگر یہ شعر اس غزل کا ہی ہو، تو اس سے ان صاحب کے نظر کی تقویت ہوتی ہے، کیونکہ فارسی میں "پار" اس معنا میں استعمال نہیں ہوتا۔
اگر کوئی ان سے معلوم کرکے بتا سکے کہ یہ شعر کہاں سے لائے ہیں، تو شاید اس بارے میں مزید معلوم ہو سکے۔

شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
قوّال حضرات نے اس طرح بہت سے شعرا کا کلام گایا اور ملایا ہے کہ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ بورے والا کا شاعر کہاں شروع ہوا اور رومی کہاں ختم۔ اس لئے قوالوں پر کچھ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ رومی کا کلام کہہ کر کسی میرے جیسے شاعر کا کلام گا دیں۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
حضرت وارث صاحب، لطف آ گیا کلام سن کر اور آپ کے ترجمہ کے ساتھ اسے پڑھ کر۔ اس پر مزید کئی چاند اسے آپ کی پر معانی گفتگو اور تعارف نے لگا دیے۔
نقوی صاحب اور فرخ صاحب کا بھی شکریہ۔
اور ہاں نقوی صاحب! آپ ٹائپنگ کی زحمت سے بچنا چاہیں تو ریرا کی ویب سائٹ پر مکمل دیوانِ شمس موجود ہے جس کا ربط وارث صاحب نے دیا ہے، وہاں سے کاپی کر کے یہاں پیسٹ کر دیجیے۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے، اور استاد نصرت فتح علی خان نے تو چارچاند لگادیے ہیں۔
حضور، میں بھی آپ کی طرح پوری غزل کا مشتاق ہوں۔ جب استاد نصرت فتح علی خان کی زبانی یہ غزل سنی تو پوری غزل کے شوق میں کلیات شمس خرید لایا۔
کافی ڈھونڈا، لیکن افسوس کے ساتھ یہ غزل نہ ملی۔ لیکن اسی ردیف اور قافیے کی ایک اور لمبی غزل ہے، اگر حکم فرمائیں تو بھیج دوں۔

شاید اس غزل کی بات کر رہے ہیں آپ:confused:

طواف حاجیان دارم بگرد یار می گردم
نہ اخلاق سگان دارم نہ بر مردار می گردم

مثال باغبانانم ناردہ بیل بر گردن
برای خوشہ خرما بہ گرد خار می گردم

نہ آن خرما کہ چون خوردی شود بلغم کند صفرا
ولینہ پر برویاند کہ چون طیار می گردم

جاین مارست و زیر او ییر گنجی است بس پنامن
سر گنجستم و بر وی چو دم مار می گردم

ندارم غصہ دانہ اگر چہ گرد این خانہ
فرورفتہ بہ اندیشہ چو بوتیمار می گردم

نخواہم خانہ‌ای در دہ نہ گاو و گلہ فربہ
ولینف مست سالارم پی سالار می گردم

رفیق خضرم و ہر دم قدوم خضر را جویان
قدم برجا و سرگردان کہ چون پرگار می گردم

نمی‌دانی کہ رنجورم کہ جالینوس می جویم
نمی‌بینی کہ مخمورم کہ بر خمار می گردم

نمی‌دانی کہ سیمرغم کہ گرد قاف می پرم
نمی‌دانی کہ بو بردم کہ بر گلزار می گردم

مرا زین مردمان مشمر خیالی دان کہ می گردد
خیال ار نیستم ای جان چہ بر اسرار می گردم

چرا ساکن نمی‌گردم بر این و آن ہمی‌گویم
کہ عقلم برد و مستم کرد ناہموار می گردم

مرا گویی مرو شپشپ کہ حرمت را زیان دارد
ز حرمت عار می دارم از آن بر عار می گردم

باانہ کردہ‌ام نان را ولینز مست خبازم
نہ بر دینار می گردم کہ بر دیدار می گردم

ہر آن نقشی کہ پیش آید در او نقاش می بینم
برای عشق لیلی دان کہ مجنون وار می گردم

در این ایوان سربازان کہ سر ہم در نمی‌گنجد
من سرگشتہ معذورم کہ بی‌دستار می گردم

نیم پروانہ آتش کہ پر و بال خود سوزم
منم پروانہ سلطان کہ بر انوار می گردم

چہ لب را می گزی پناون کہ خامش باش و کمتر گوی
نہ فعل و مری توست این ہم کہ بر گفتار می گردم

بیا ای شمس تبریزی شفق وار ار چہ بگریزی
شفق وار از پی شمست بر این اقطار می گردم
 
شاید اس غزل کی بات کر رہے ہیں آپ:confused:

طواف حاجیان دارم بگرد یار می گردم
نہ اخلاق سگان دارم نہ بر مردار می گردم

مثال باغبانانم ناردہ بیل بر گردن
برای خوشہ خرما بہ گرد خار می گردم

نہ آن خرما کہ چون خوردی شود بلغم کند صفرا
ولینہ پر برویاند کہ چون طیار می گردم

جاین مارست و زیر او ییر گنجی است بس پنامن
سر گنجستم و بر وی چو دم مار می گردم

ندارم غصہ دانہ اگر چہ گرد این خانہ
فرورفتہ بہ اندیشہ چو بوتیمار می گردم

نخواہم خانہ‌ای در دہ نہ گاو و گلہ فربہ
ولینف مست سالارم پی سالار می گردم

رفیق خضرم و ہر دم قدوم خضر را جویان
قدم برجا و سرگردان کہ چون پرگار می گردم

نمی‌دانی کہ رنجورم کہ جالینوس می جویم
نمی‌بینی کہ مخمورم کہ بر خمار می گردم

نمی‌دانی کہ سیمرغم کہ گرد قاف می پرم
نمی‌دانی کہ بو بردم کہ بر گلزار می گردم

مرا زین مردمان مشمر خیالی دان کہ می گردد
خیال ار نیستم ای جان چہ بر اسرار می گردم

چرا ساکن نمی‌گردم بر این و آن ہمی‌گویم
کہ عقلم برد و مستم کرد ناہموار می گردم

مرا گویی مرو شپشپ کہ حرمت را زیان دارد
ز حرمت عار می دارم از آن بر عار می گردم

باانہ کردہ‌ام نان را ولینز مست خبازم
نہ بر دینار می گردم کہ بر دیدار می گردم

ہر آن نقشی کہ پیش آید در او نقاش می بینم
برای عشق لیلی دان کہ مجنون وار می گردم

در این ایوان سربازان کہ سر ہم در نمی‌گنجد
من سرگشتہ معذورم کہ بی‌دستار می گردم

نیم پروانہ آتش کہ پر و بال خود سوزم
منم پروانہ سلطان کہ بر انوار می گردم

چہ لب را می گزی پناون کہ خامش باش و کمتر گوی
نہ فعل و مری توست این ہم کہ بر گفتار می گردم

بیا ای شمس تبریزی شفق وار ار چہ بگریزی
شفق وار از پی شمست بر این اقطار می گردم


شکریہ
جی جناب اسی کی بات کررہا تھا۔ میرے پاس ری را کا سرچ کام نہیں کررہا، کافی کوشش کی اس پر ڈھونڈنے کی لیکن ہر دفعہ سرچ ناکام ہوجاتی تھی۔ شاید فلٹرینگ کی وجہ سے ہو، یہاں تو یہ حال ہے کہ محفل پر پوسٹ کرنے کے لیے بھی اینٹی فلٹر استعمال کرنا پڑتا ہے، اسکے بغیر پوسٹس بھیجی نہیں جاتیں۔ اللہ ہدایت کرے ۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ
جی جناب اسی کی بات کررہا تھا۔ میرے پاس ری را کا سرچ کام نہیں کررہا، کافی کوشش کی اس پر ڈھونڈنے کی لیکن ہر دفعہ سرچ ناکام ہوجاتی تھی۔ شاید فلٹرینگ کی وجہ سے ہو، یہاں تو یہ حال ہے کہ محفل پر پوسٹ کرنے کے لیے بھی اینٹی فلٹر استعمال کرنا پڑتا ہے، اسکے بغیر پوسٹس بھیجی نہیں جاتیں۔ اللہ ہدایت کرے ۔۔۔

ری را کی سرچ میرے پاس بھی اکثر گڑبڑ کرتی ہے۔۔۔ میں نے تو غزلیات کی فہرست میں سے م کی ردیف کی غزلیات کے مصرع ہائے اولیٰ دیکھے اور اس زمین میں یہی غزل ملی تو کاپی کر کے ہ اور کاف وغیرہ کو فائنڈ ری پلیس کیا اور یہاں ارسال کر دی۔
 

arifkarim

معطل
رومی کی کیا شان ہے!
کاش برصغیر میں سوفزم دوبارہ زندہ ہو جائے، تو مادیت پرستی سے تو معاشرہ پاک ہو!
 

محمد وارث

لائبریرین
غزل تھوڑی لمبی ہے، ان شاء اللہ ٹائپ کرکے بھیج دوں گا۔
اس غزل کے بارے میں اپنے ایک شعر آشنا دوست سے سوال کیا تھا، انہوں نے فرمایا، کہ میں نے بھی صرف استاد نصرت فتح علی خاں سے سنی ہے، اس کے علاوہ نہیں دیکھی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ غزل مولانا کے نام سے کہی گئی ہے، ان کی زمین میں۔ اور وہ فرمارہے تھے کہ یہ غزل مولانا کی نہیں ہے۔
یہ ان کی رای ہے، صرف ان کی بات نقل کررہا ہوں، میں خود ابھی تک اس بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔ اس کے بارے میں مزید تحقیق کرنی چاہیے، اگر موقع ملا تو اپنے اساتذہ سے اس بارے میں معلوم کرکے بتاوں گا۔

القلم فورم پر اس غزل کا یک اور شعر بھی لکھا ہے:

ہزاراں غوطہ ہا خوردم دریں دریائے بے پایاں
برائے گوہر معنی بدریا پار می گردم

اگر یہ شعر اس غزل کا ہی ہو، تو اس سے ان صاحب کے نظر کی تقویت ہوتی ہے، کیونکہ فارسی میں "پار" اس معنا میں استعمال نہیں ہوتا۔
اگر کوئی ان سے معلوم کرکے بتا سکے کہ یہ شعر کہاں سے لائے ہیں، تو شاید اس بارے میں مزید معلوم ہو سکے۔

شکریہ

قوّال حضرات نے اس طرح بہت سے شعرا کا کلام گایا اور ملایا ہے کہ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ بورے والا کا شاعر کہاں شروع ہوا اور رومی کہاں ختم۔ اس لئے قوالوں پر کچھ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ رومی کا کلام کہہ کر کسی میرے جیسے شاعر کا کلام گا دیں۔ :)


بہت شکریہ نقوی صاحب اس پر مزید تحقیق ہونی چاہیے۔

رہی بات قوالوں کی، تو یہ بات عام ہے مثلاً امیر خسرو کی مشہور نعت 'شب جائے کہ من بودم' قوالوں تو کیا کہ ہر کسی نے گائی ہے اور پڑھی ہے اور مخلتف انتخابات میں چھپی بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نعتیہ غزل خسرو کے پانچوں دواوین میں نہیں ہے لیکن اسے متفقہ طور پر خسرو کا کلام مانا جاتا ہے :)
 

سعدی غالب

محفلین
یہ رقص اور سلسلہ مولویہ مولاناروم پر تہمت ہے۔ مولانا نےکبھی طریقہ تبلیغ نہیں کیا۔ میرے خیال میں‌ مولانا کے کلام کو سمجھنا ہر ایک کے بس میں‌نہیں بہتے ظاہری معنوں میں مارے جاتے ہیں جیسے یہ فرقہ مولویہ۔
آپ کو شاید لفظ "رقص" کی وجہ سے اعتراض ہے
مگر حقیقت یہی ہے، "رقصاں درویش" مولانا رومؒ کے حلقہ ارادت کے درویشوں کو ہی کہا جاتا تھا اور کہا جاتاہے
بے شک مولانا رومؒ کے کلام کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بقول غالبؔ "سلطنت دست بدست آئی ہے"
فرقہ اور سلسلہ میں بہت فرق ہے، بلکہ زمین آسمان کا فرق ہے، سمجھنے کا مسئلہ آپ کو درپیش ہے
 

عاطف بٹ

محفلین
نہ من بے ہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم
مذاقِ عاشقی دارم پئے دیدار می گردم

خدایا رحم کن بر من پریشان وار می گردم
خطا کارم، گناہ گارم، بہ حالِ زار می گردم

شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم

ہزاراں غوطہ ہا خوردم دریں دریائے بے پایاں
برائے گوہرِ معنی بدریا پار می گردم

گہے خندم، گہے گریم، گہے افتم، گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم

بیا جاناں عنایت کن تو مولانائے رومی را
غلامِ شمس تبریزم قلندر وار می گردم
 

طارق شاہ

محفلین
جناب خالد بٹ صاحب
مولانا رومی کی اس سادہ غزل کے لئے بہت سی داد قبول کیجیے
بہت تشکّر
.........


غزل مولانا رومی
(ترجمہ)

نہ میں بیہودہ گلیاں اور نہ ہی بازار پھرتا ہوں
مزاجِ عاشقی میں، طالبِ دیدار پھرتا ہوں

خدایا رحم کرمجھ پر، پریشاں خوار پھرتا ہوں
بدولت میں گناہوں کی بہ حالِ زار پھرتا ہوں

شرابِ شوق پیتا ہوں، میں گردِ یار پھرتا ہوں
کروں مستانوں سی باتیں، مگر ہشیار پھرتا ہوں
ہزاروں کھا چُکا غوطےمیں اِس دریائے وُسْعَت میں
مگر معنی کی موتی کو، میں اِس کے پار پھرتا ہوں

کبھی ہنسنا کبھی رونا، کبھی گِرنا کبھی اُٹھنا
مَسِیحا کی نَمُود اِس دل میں! میں بیمار پھرتا ہوں

مری جاں آ، عنایت کرتومولانا ئے رومی کو
غلامِ شمس تبریزی، قلندروار پھرتا ہوں

 

نایاب

لائبریرین
جناب خالد بٹ صاحب
مولانا رومی کی اس سادہ غزل کے لئے بہت سی داد قبول کیجیے
بہت تشکّر
.........

غزل مولانا رومی
(ترجمہ)

نہ میں بیہودہ گلیاں اور نہ ہی بازار پھرتا ہوں
مزاجِ عاشقی میں، طالبِ دیدار پھرتا ہوں

خدایا رحم کرمجھ پر، پریشاں خوار پھرتا ہوں
بدولت میں گناہوں کی بہ حالِ زار پھرتا ہوں

شرابِ شوق پیتا ہوں، میں گردِ یار پھرتا ہوں
کروں مستانوں سی باتیں، مگر ہشیار پھرتا ہوں
ہزاروں کھا چُکا غوطےمیں اِس دریائے وُسْعَت میں
مگر معنی کی موتی کو، میں اِس کے پار پھرتا ہوں

کبھی ہنسنا کبھی رونا، کبھی گِرنا کبھی اُٹھنا
مَسِیحا کی نَمُود اِس دل میں! میں بیمار پھرتا ہوں

مری جاں آ، عنایت کرتومولانا ئے رومی کو
غلامِ شمس تبریزی، قلندروار پھرتا ہوں
بہت شکریہ محترم طارق شاہ بھائی
 
Top