بہت خوب!صرف این آر او نہ دینے کی باتیں کرنا اور نیب کو انتقامی کاروائیوں کے لیے استعمال کرنا اور سب سے بڑھ کر بلا امتیاز احتساب کی طرف نہ بڑھنا ملک میں انارکی اور افراتفری کو پیدا کرنے کا باعث ہے
- اپوزیشن کو آن بورڈ لینا چاہیے
- تمام اسٹیک ہولڈرز کو اہم ملکی معاملات میں شامل کرنا چاہیے۔
اگر نواز شریف، زرداری جیسی مفاہمت کی سیاست ہی کرنی تھی تو 22 سال بعد عمران خان کو لانے کی کیا ضرورت تھی؟جیسے حکومت والے پاکستانی ہیں اسی طرح دھرنے والے بھی پاکستانی ہیں۔ دونوں کے مابین صلح ہونی چاہیے اور مولانا فضل الرحمن کو چئیرمین کشمیر کمیٹی اور ان کے بھائی کو مشیر مذہبی امور بنا دینا چاہیے۔ باقی تمام اپوزیشن لیڈران کو بھی کسی طرح اکاموڈیٹ کر لیا جائے۔ یوں سب خوش اور پاکستان بھی خوشحال!
کم دھرنے ، خوشحال پاکستان
میثاق معیشت کر لیتے تو پیسے مل جاتے اب تو وہ دونوں ویسے ہی قریب المرگ ہیں اور قید بھی کافی کاٹ لی ، پیسے بھی بیرون ملک سے نہیں مل سکتے۔ اب بھی میثاق معیشت کریں اور آئندہ الیکشن سے انتخابی اصلاحات پر عمل کیا جائے۔اگر نواز شریف، زرداری جیسی مفاہمت کی سیاست ہی کرنی تھی تو 22 سال بعد عمران خان کو لانے کی کیا ضرورت تھی؟
بے سمت معیشتی نظام سے کیا مراد ہے؟ کیا پچھلی حکومتوں کے چھوڑے گئے ریکارڈ خسارے اس حکومت نے کم نہیں کئے؟ ملک کو بزنس فرینڈلی بنانے کی کوشش نہیں کر رہی؟ ایکسپورٹس نہیں بڑھ رہی؟ اگر یہ سب ہو رہا ہے تو ملک کی معاشی سمت بالکل درست ہے۔تاہم، مسئلے کی اصل جڑ بے سمت معیشتی نظام ہے۔
حکومت نے آتے ساتھ ان قومی چوروں کے ساتھ میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی۔ یعنی ریاست سے پلی بارگین کریں، لوٹا ہوا پیسا واپس کریں، اپنے جرائم کا اعتراف کریں، جس کےبعد وہ سیاسی میدان میں مکمل آزاد ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اس کی بجائے سیاسی شہید بننے والا راستہ اپنایا۔میثاق معیشت کر لیتے تو پیسے مل جاتے اب تو وہ دونوں ویسے ہی قریب المرگ ہیں اور قید بھی کافی کاٹ لی ، پیسے بھی بیرون ملک سے نہیں مل سکتے۔ اب بھی میثاق معیشت کریں
پلی بارگین تو وہ کر چکے ہیں انڈر دی ٹیبل۔ صرف ڈیل منظور کرو تحریک کے ڈرامے میں رنگ بھرنے کے لیے دھرنا ہو رہا ہے۔حکومت نے آتے ساتھ ان قومی چوروں کے ساتھ میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی۔ یعنی ریاست سے پلی بارگین کریں، لوٹا ہوا پیسا واپس کریں، اپنے جرائم کا اعتراف کریں، جس کےبعد وہ سیاسی میدان میں مکمل آزاد ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اس کی بجائے سیاسی شہید بننے والا راستہ اپنایا۔
جیسے حکومت والے پاکستانی ہیں اسی طرح دھرنے والے بھی پاکستانی ہیں۔ دونوں کے مابین صلح ہونی چاہیے اور مولانا فضل الرحمن کو چئیرمین کشمیر کمیٹی اور ان کے بھائی کو مشیر مذہبی امور بنا دینا چاہیے۔ باقی تمام اپوزیشن لیڈران کو بھی کسی طرح اکاموڈیٹ کر لیا جائے۔ یوں سب خوش اور پاکستان بھی خوشحال!
کم دھرنے ، خوشحال پاکستان
پہلے اینہاں کولوں پیسے پھڑ لے فیر جو مرضی کر۔اپوزیشن کو این آر او دینے کا مطلب ملک سے غداری ہوگا، وزیراعظم
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
اپوزیشن میرے منہ سے 3 الفاظ این آر او سننا چاہتی ہے، وزیراعظم عمران خان۔ فوٹو: فائل۔ فوٹو : فائل
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن میرے منہ سے 3 الفاظ این آر او سننا چاہتی ہے تاہم ان کو این آر او دینے کا مطلب ملک سے غداری ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ اپوزیشن میرے منہ سے تین الفاظ سننا چاہتے ہیں اور وہ این آر او ہے تاہم میں ان کو کبھی این آر او نہیں دوں گا، ان کو این آر او دینے کا مطلب ملک سے غداری ہوگا، جب تک ان کو زمہ دار نہ ٹھہرایا جائے ملک ترقی کی راہ پرنہیں آسکتا۔
کیونکہ دھرنے والوں کے لیڈر الیکشن ہار گئے تھے۔ اب یہ چاہتے ہیں کہ جو جیتے وہ بھی استعفیٰ دیں اور فی الفور نئے الیکشن کروائے جائیںویسے یہ دھرنا استعفے کی مانگ کیوں کر رہا ہے؟
پاکستان قائم ہونے کے بعد قائدم اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا جھنڈا مولانا شبیر احمد عثمانی کو لہرانے کے لیے دیا اور جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کے کہنے پر رکھی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام محب وطن جماعت ہے اس کو پاکستان کا مخالف کہنے والے تاریخ سے بے بہرہ ہیں۔ قیام پاکستان کی مخالف جماعت کا نام جمعیت علمائے ہند تھا جب کہ جمعیت علمائے اسلام قائداعظم کی ایماء پر قائم کی گئی تھی۔
متحدہ قومیت One Nation theory کی حمایت کے حوالے سے 1942 میں جمعیت علماء ہند میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا اور مولانا شبیر احمد عثمانی جمیعت علماء ہند سے علیحدہ ہوگئے۔
1946 میں مسلم لیگ کے تعاون سے قائد اعظم کی سوچ کے مطابق کلکتہ میں ایک نئی جماعت کی بنیاد ڈالی گئی جس کا نام جمعیت علماء اسلام تھا ، جے یو آئی کے قیام میں قائد اعظم کا بنیادی کردار تھا اور اس کے قیام کو قائد محترم کی مکمل حمایت حاصل تھا۔ اس کے قیام کا مقصد دو قومی نظریہ کی حمایت اور متحدہ قومیت کی مخالفت تھی۔
اس کے پہلے صدر مولانا شبیر احمد عثمانی اور جنرل سیکرٹری اہلسنت کے معروف سیاسی و دینی راہنما مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی تھے جنہوں نے قائد اعظم کی خواہش کے مطابق جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی
(پاکستان کے دینی مسالک از ثاقب اکبر، صفحہ 16)
فوج پوری طرح چنتخب حکومت کے پیچھے کھڑی ہے۔ تکلیف تو آپ کے مولانا کو ہونی چاہئے جو اب ہر لحاظ سے سیاسی یتیم ہو گئے ہیںجاسم صاحب تکلیف ہو رہی ہے نا اپ کو ؟؟ خیر تھوڑی اور ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔