متفق۔ ابھی کچھ ماہ قبل ہی خان صاحب کو حساس اداروں سے معلوم ہوا تھا کہ اندر خانے کوئی ڈیل چل رہی ہے، جس پر خان صاحب نے آرمی چیف کو بلا کر کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو میں مستعفی ہو رہا ہوں۔ تو تو میں میں تک نوبت آگئی۔ پھر بڑی مشکل سے جہاز ترین نے بیچ میں پڑ کر ان کو ٹھنڈا کیا۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس این آر او کے نتیجے میں عمران خان صاحب مائنس ہو جائیں گے یعنی یا تو اِن ہاؤس تبدیلی یا پھر خان صاحب پر کوئی کیس جس کے نتیجے میں وہ نا اہل ہو جائیں۔
ظاہری بات ہے کہ اس این آر او کا ایک ہی مطلب ہے کہ خان صاحب مائنس کر دیے جائیں گے۔متفق۔ ابھی کچھ ماہ قبل ہی خان صاحب کو حساس اداروں سے معلوم ہوا تھا کہ اندر خانے کوئی ڈیل چل رہی ہے، جس پر خان صاحب نے آرمی چیف کو بلا کر کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو میں مستعفی ہو رہا ہوں۔ تو تو میں میں تک نوبت آگئی۔ پھر بڑی مشکل سے جہاز ترین نے بیچ میں پڑ کر ان کو ٹھنڈا کیا۔
ماضی میں کرسی چھن جانے کے خوف سے وزرا اعظم مقتدر حلقوں سے این آر او، ڈیل یا ڈھیل لیتے تھے۔ یہ پہلا وزیر اعظم ہے جو این آر او دینے پر اسٹیبلشمنٹ کو اپنے استعفے سے خوفزدہ کر رہا ہےظاہری بات ہے کہ اس این آر او کا ایک ہی مطلب ہے کہ خان صاحب مائنس کر دیے جائیں گے۔
ملک کی تمام جماعتیں بھی اکھٹی ہو جائیں تب بھی این آر او نہیں ملے گا۔کیا کسی نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ دھرنے میں تحریک لبیک کے کارکن بھی موجود ہیں اور جماعت اسلامی کے بھی۔
مگر وہ زیادہ دیر انتظار نہ کریں گے۔ خان صاحب کی خاطر وہ اس قدر عوامی دباؤ ایک حد تک برداشت کر سکتے ہیں۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا رُخ ہنی مون پیریڈ اوور ہونے کے بعد عمومی طور پر اپوزیشن پارٹیوں کی طرف ہی ہوتا ہے۔ وہ وقت اب زیادہ دُور نہیں لگتا ہے۔ اس لیے الرٹ رہیں۔ماضی میں کرسی چھن جانے کے خوف سے وزرا اعظم مقتدر حلقوں سے این آر او، ڈیل یا ڈھیل لیتے ہیں۔ یہ پہلا وزیر اعظم ہے جو این آر او دینے پر اسٹیبلشمنٹ کو اپنے استعفے سے خوفزدہ کر رہا ہے
عمران خان حکومت کو گرانے کے لیے یہ دھرنا ہے ہی نہیںماضی میں کرسی چھن جانے کے خوف سے وزرا اعظم مقتدر حلقوں سے این آر او، ڈیل یا ڈھیل لیتے تھے۔ یہ پہلا وزیر اعظم ہے جو این آر او دینے پر اسٹیبلشمنٹ کو اپنے استعفے سے خوفزدہ کر رہا ہے
70 سالوں سے مختلف اپوزیشن پارٹیوں کو ڈھوڈھو کر (ڈھیلیں، ڈیلیں، این آر او دے دے کر) اسٹیبلشمنٹ کو بھی اب عقل آ گئی ہے کہ وہ صرف کچرے کا ڈھیر ہیں۔مگر وہ زیادہ دیر انتظار نہ کریں گے۔ خان صاحب کی خاطر وہ اس قدر عوامی دباؤ ایک حد تک برداشت کر سکتے ہیں۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا رُخ ہنی مون پیریڈ اوور ہونے کے بعد عمومی طور پر اپوزیشن پارٹیوں کی طرف ہی ہوتا ہے۔ وہ وقت اب زیادہ دُور نہیں لگتا ہے۔ اس لیے الرٹ رہیں۔
بشمول اسٹیبلشمنٹ کہ یہ اُن کی ہی پیداوار ہیں۔70 سالوں سے مختلف اپوزیشن پارٹیوں کو ڈھوڈھو کر (ڈھیلیں، ڈیلیں، این آر او دے دے کر) اسٹیبلشمنٹ کو بھی اب عقل آ گئی ہے کہ وہ صرف کچرے کا ڈھیر ہیں۔
عملیت پسندی کے لیے خان و مولانا کو مشرفی طرزِ فکر اپنانا ہو گا۔ عمران خان صاحب اپنا سیاسی کیرئیر مولانا صاحب کے ساتھ اتحاد کر کے اس وقت داؤ پر نہیں لگا سکتے ہیں۔ یہ تب ممکن تھا جب حکومت بنانے کے لیے جوڑ توڑ جاری تھا۔ یہ اتحاد فوری طور پر تو وجود میں آنے سے رہا، محترم!جئے عملیت پسندی ، جئے عمران مولانا اتحاد
کے پی کے میں حکومت بنانے کیلئے عمران خان نے عارضی طور پر جماعت اسلامی سے اتحاد کر لیا تھا۔ مولانا کے تو وہ اس وقت بھی شدید مخالف تھے۔ عمران خان اور مولانا کی لڑائی سیاست سے بڑھ کر ذاتی نوعیت کی ہے۔ کیونکہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ مولانا نے پاکستان کو ہی نہیں بلکہ اسلام کو بھی اپنی سیاست سے نقصان پہنچایا ہے۔ ثبوت کیلئے ان کی حالیہ گلگت بلتستان میں کی جانے والی تقریر سن لیں۔ جس میں خان صاحب فرماتے ہیں کہ مولانا ڈیزل جیسے عالم دین کو دیکھ کر کسی نے مسلمان کیا ہونا ہے۔ اُلٹا جو مسلمان ہے وہ دین سے دور چلا جائے گاعملیت پسندی کے لیے خان و مولانا کو مشرفی طرزِ فکر اپنانا ہو گا۔ عمران خان صاحب اپنا سیاسی کیرئیر مولانا صاحب کے ساتھ اتحاد کر کے اس وقت داؤ پر نہیں لگا سکتے ہیں۔ یہ تب ممکن تھا جب حکومت بنانے کے لیے جوڑ توڑ جاری تھا۔ یہ اتحاد فوری طور پر تو وجود میں آنے سے رہا، محترم!
عملیت پسندی کے لیے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا طرز فکر اپنایا جاسکتا ہے۔ مثلا عمران خان سے ملنے میاں نواز شریف بطور وزیر اعظم خود بنی گالہ گئے تھے۔ ویسے اگر عمران خان آصف علی زرداری سے مشاورت کرتے رہیں تو کافی مستخکم ہو سکتے ہیں۔ اتحاد فوری طور پر وجود میں نہیں آتا لیکن اس کے لیے کوشش تو کی جا سکتی ہے بغیر آغاز کیے کیسے کچھ ممکن ہو۔عملیت پسندی کے لیے خان و مولانا کو مشرفی طرزِ فکر اپنانا ہو گا۔ عمران خان صاحب اپنا سیاسی کیرئیر مولانا صاحب کے ساتھ اتحاد کر کے اس وقت داؤ پر نہیں لگا سکتے ہیں۔ یہ تب ممکن تھا جب حکومت بنانے کے لیے جوڑ توڑ جاری تھا۔ یہ اتحاد فوری طور پر تو وجود میں آنے سے رہا