عملیت پسندی ایک حد تک ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ جیسے حالیہ الیکشن کے بعد عمران خان کو مجبورا ایم کیو ایم اور ق لیگ کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا تھا۔ اگر پی ٹی آئی کی سیٹیں 100 سے نیچے ہوتی تو خان صاحب کسی صورت ن لیگ یا پی پی پی سے مل کر حکومت نہ بناتے۔عملیت پسندی کے لیے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا طرز فکر اپنایا جاسکتا ہے۔
مل کر چلنے سے جو ملکی استحکام ہوتا ہے وہ دو تہائی اکثریت کی آمریت سے کئی گنا بہتر ہوتا ہے۔ کولیشن حکومت ملک کے وسیع علاقے کے مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اس میں عوام کی متنوع نمائندگی موجود ہوتی ہے۔عملیت پسندی ایک حد تک ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ جیسے حالیہ الیکشن کے بعد عمران خان کو مجبورا ایم کیو ایم اور ق لیگ کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا تھا۔ اگر پی ٹی آئی کی سیٹیں 100 سے نیچے ہوتی تو خان صاحب کسی صورت ن لیگ یا پی پی پی سے مل کر حکومت نہ بناتے۔
دونوں آپس میں دوست بھی رہے اور خان صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے مولانا صاحب کو ووٹ بھی دیا تھا تاہم سیاست میں یہ کھیل چلتے رہتے ہیں۔ اب خان صاحب وزیراعظم ہیں؛ جب وہ اس منصب سے اتریں گے تو پرانے دوست کو پہچان لیں گے۔اگر شیخ رشید کو چپڑاسی سے ترقی دے کر وزیر ریلوے بنایا جا سکتا ہے تو مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کا رابطہ ہونا بھی ممکن ہے۔
خان صاحب بھی کہاں کے ولی اللہ ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل خورشید شاہ صاحب کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس سے قبل زرداری صاحب کے ساتھ مل کر شاید لاہور میں جلسہ وغیرہ بھی کیا تھا۔ ان واقعات کو ابھی تین برس نہیں ہو گزرے۔عملیت پسندی ایک حد تک ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ جیسے حالیہ الیکشن کے بعد عمران خان کو مجبورا ایم کیو ایم اور ق لیگ کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا تھا۔ اگر پی ٹی آئی کی سیٹیں 100 سے نیچے ہوتی تو خان صاحب کسی صورت ن لیگ یا پی پی پی سے مل کر حکومت نہ بناتے۔
مشرف کے جانے کے بعد کچھ عرصہ کیلئے ن لیگ اور پی پی پی کی کولیشن حکومت بنی تھی۔ اسے قومی حکومت کا خطاب دیا گیا۔ عوام سمجھی اب ملک میں سویلین بالا دستی قائم ہوگی۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پاٹ والا نکلا۔کولیشن حکومت ملک کے وسیع علاقے کے مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اس میں عوام کی متنوع نمائندگی موجود ہوتی ہے۔
کرپٹ+کرپٹ= کرپشن پر اتفاق یا مال تقسیم کرنے پر جھگڑامشرف کے جانے کے بعد کچھ عرصہ کیلئے ن لیگ اور پی پی پی کی کولیشن حکومت بنی تھی۔ اسے عوامی حکومت کا خطاب دیا گیا۔ عوام سمجھی اب ملک میں سویلین بالا دستی قائم ہوگی۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پاٹ والا نکلا۔
یہ آمریت نہیں عمران خان کے قوم سے کئے گئے وعدوں کی پاسبانی ہے۔ تحریک انصاف کرپٹ ٹولے (ن لیگ، پی پی پی اور دیگر جو کنٹینر پر موجود ہیں) کے خلاف اقتدار میں آئی ہے۔ ان کی نااہلی اور کرپشن کا حساب لینے اسے ایوانوں میں بھیجا گیا ہے۔ اور آپ کہتے ہیں ان وعدوں کو پورا کرنے کی بجائے انہی سے مفاہمت کر لیں؟اللہ کا شکر ہے کہ پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت نہیں ملی۔ اِس وقت حکومتی آمریت کا یہ حال ہے تو دو تہائی اکثریت میں نہ جانے کیا حال ہوتا۔
اس کا ایک حل میثاقِ جمہوریت میں چھپا ہوا تھا تاہم وہ مبینہ طور پر زرداری کی کرپشن، شریفوں کی میثاق کے معاہدے کی خلاف ورزی اور خان صاحب کے اسٹیبلشمنٹ کے عطا کردہ 'نورا کشتی' بیانیے کو تقویت دینے کے باعث منطقی انجام کو پہنچا۔ اب یہی ہے کہ نیا عُمرانی معاہدہ طے پائے مگر یہ سب کچھ اس ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہو تو ہو وگرنہ مشکل ہے۔ یہ ملک بدقسمتی سے ہر حوالے سے تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔مشرف کے جانے کے بعد کچھ عرصہ کیلئے ن لیگ اور پی پی پی کی کولیشن حکومت بنی تھی۔ اسے قومی حکومت کا خطاب دیا گیا۔ عوام سمجھی اب ملک میں سویلین بالا دستی قائم ہوگی۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پاٹ والا نکلا۔
دونوں آپس میں دوست بھی رہے اور خان صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے مولانا صاحب کو ووٹ بھی دیا تھا تاہم سیاست میں یہ کھیل چلتے رہتے ہیں۔ اب خان صاحب وزیراعظم ہیں؛ جب وہ اس منصب سے اتریں گے تو پرانے دوست کو پہچان لیں گے۔
دہرائیں گے، جی دہرائیں گے۔ نہ دہرائیں، اُن کے دُشمن!
امید ہے عمران خان ماضی کی غلطیاں اب نہیں دہرائیں گے
سیاست میں گزرتے وقت کے ساتھ یوٹرن لینے والی سڑکیں کم اور بند گلیاں زیادہ بنتی جاتی ہیںدہرائیں گے، جی دہرائیں گے۔ نہ دہرائیں، اُن کے دُشمن!
راستہ بنانے میں مشیرانِ باتدبیر کا اہم کردار ہوتا ہے۔سیاست میں گزرتے وقت کے ساتھ یوٹرن لینے والی سڑکیں کم اور بند گلیاں زیادہ بنتی جاتی ہیں
ریاستی عمارات کے علاوہ پورا اسلام آباد کھلا ہوا ہے۔ دھرنے والے شہر اقتدار کے تفریحی مقامات کی زیارت کر رہے ہیں۔
سمجھ سمجھ کے بھی جو نہ سمجھےریاستی عمارات کے علاوہ پورا اسلام آباد کھلا ہوا ہے۔ دھرنے والے شہر اقتدار کے تفریحی مقامات کی زیارت کر رہے ہیں۔
ہماری سپورٹ چنتخب حکومت کیساتھ ہے، کسی کوبھی کسی صورت ملکی استحکام خراب کرنےکی اجازت نہیں دینگے،میجر جنرل آصف غفورسمجھ سمجھ کے بھی جو نہ سمجھے
مولانا کی نظر میں وہ نا سمجھ ہے