فرقان احمد
محفلین
مولانا کی زنبیل میں اگر یہی استعفے تھے تو ہمیں اُن کی دانش اور فراست پر پہلی مرتبہ شبہ ہونے لگا ہے۔یہ استعفے لینے آئے ہیں یا دینے ؟
مولانا کی زنبیل میں اگر یہی استعفے تھے تو ہمیں اُن کی دانش اور فراست پر پہلی مرتبہ شبہ ہونے لگا ہے۔یہ استعفے لینے آئے ہیں یا دینے ؟
ہفتہ 2 نومبر 2019 23:30
آزادی مارچ میں شامل جے یو آئی ۔ف کی رضاکار فورس کے کارکن (اے ایف پی)
۔
اے مسلمانو!
ایک بنو اور نیک بنو
دشمن کی چال کو سمجھ کر اس کی کھوپڑی پر اتحاد و اتفاق سے ضرب کاری لگاو۔
آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ نے مولانا کو دانش اور فراست والا سیاست دان سمجھ رکھا تھا۔ خیر چلیں اس دھرنے کی برکت سے یہ تاثر بھی ختم ہو گیا۔مولانا کی زنبیل میں اگر یہی استعفے تھے تو ہمیں اُن کی دانش اور فراست پر پہلی مرتبہ شبہ ہونے لگا ہے۔
چلو شکر ہے مولانا نے مان لیا گیا کہ وہ نہ صرف 2014 میں ان چور، کرپٹ جماعتوں کے نمائندے تھے بلکہ آج بھی ہیں۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ سال 2014ء کے دھرنے میں تمام جماعتیں ایک طرف تھیں اور عمران خان ایک طرف تھا جب کہ آج بھی تمام جماعتیں ایک طرف اور عمران خان ایک طرف تنہا ہے، وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف میں تنہا ہی رہتا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وہ یہاں کسی کا نمائندہ نہیں بیرونی نمائندہ ہے، معاملہ سلیکٹڈ سے آگے نکل گیا ہے عمران خان سلیکٹڈ نہیں رجیکٹڈ ہے۔
آپ بالکل صحیح نکتہ پر پہنچے ہیں۔ پاکستان میں نظریات کی نہیں شخصیات کی سیاست ہوتی تھی۔ اسے مائنس کردو، اسے شامل کر لو۔ ہر الیکشن میں ہوا کا رُخ کر دیکھ روایتی سیاسی لوٹے آپس میں گٹھ جوڑ کر حکومتیں بنا لیتے۔ پانچ سال سرکاری خزانہ پر عیاشی کرتے اور پھر پارٹیاں بدل کر دوبارہ دھیاڑی لگانے کیلئے تیار ہو جاتے۔ان "لبرل مولویوں" کی منطق بھی عجب تضادات سے بھری ہوئی منطق ہے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے کچھ بھی کہنے کو تیار ہو جاتے ہیں:
مثال کے طور پر کبھی یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی اصل طاقت کے محور ہیں، ہر 'سلیکشن' یہی کرتے ہیں ان کی مرضی کے بغیر پاکستان میں پرندہ بھی پر نہیں مارتا۔ انہوں نے 1988ء کے الیکشن کے بعد بے نظیر کو سمجھوتوں پر مجبور کیا، بے نظیر کو ادھورا اقتدار دیا، بے نظیر سےزبردستی صدر کا عہدہ اور حکومت کی اہم عہدے وزاتیں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو دلوائیں، بے نظیر کو سیکورٹی رسک قرار دیا، بے نظیر کو کبھی کہوٹہ لیبارٹری نہ جانے دیا وغیرہ وغیرہ۔
اور کبھی فرماتے ہیں کہ بے نظیر 1988ء میں اقتدار میں آنے کے بعد چند مہینوں ہی میں اتنی طاقتور تھی کہ زبردستی آئی ایس آئی چیف سے اس کی مخالفت اور مرضی کے بغیر جلال آباد آپریشن کروا دیا۔
اللہ اکبر۔ پتا نہیں انہوں نے جان کس کو دینی ہے!
فضل الرحمان کو نوازشریف، زرداری، لبرلز، جنگ جیو اور تمام لفافہ صحافیوں نے بری طرح استعمال کیا۔ فضل الرحمان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ بہت کایاں اور زیرک سیاستدان ہے لیکن آزادی مارچ کے حوالے سے فضل الرحمان جس طرح استعمال ہوا، اس سے لگتا ہے کہ وہ زیرک کی نسبت معصوم زیادہ تھا ۔ ۔ ۔مولانا کی زنبیل میں اگر یہی استعفے تھے تو ہمیں اُن کی دانش اور فراست پر پہلی مرتبہ شبہ ہونے لگا ہے۔
دانش تو خیر اُن میں ہے ہی؛ اس میں اب بھی کوئی شبہ نہیں؛ بلاشبہ وہ ایک زیرک سیاست دان ہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد بھی اُن کے مارچ میں شامل ہوئی تاہم، اگر اُن کا دھرنا کسی منطقی انجام کی طرف نہیں بڑھتا ہے تو پھر، اُن کی فراست پر شبہ تو بنتا ہے۔ البتہ، رات ابھی باقی ہے، بات ابھی باقی ہے۔ دیکھتے جائیے۔آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ نے مولانا کو دانش اور فراست والا سیاست دان سمجھ رکھا تھا۔ خیر چلیں اس دھرنے کی برکت سے یہ تاثر بھی ختم ہو گیا۔
مشترکہ نکات پر اکھٹے ہو جانے میں مضائقہ نہیں ہے۔ خان صاحب نے بھی تو بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھا ہے۔ اُن کے ایک طرف شجاعت و پرویز الٰہی ہیں، تو دوسری جانب، ایم کیو ایم کی قیادت موجود ہے۔آپ بالکل صحیح نکتہ پر پہنچے ہیں۔ پاکستان میں نظریات کی نہیں شخصیات کی سیاست ہوتی تھی۔ اسے مائنس کردو، اسے شامل کر لو۔ ہر الیکشن میں ہوا کا رُخ کر دیکھ روایتی سیاسی لوٹے آپس میں گٹھ جوڑ کر حکومتیں بنا لیتے۔ پانچ سال سرکاری خزانہ پر عیاشی کرتے اور پھر پارٹیاں بدل کر دوبارہ دھیاڑی لگانے کیلئے تیار ہو جاتے۔
عمران خان نے آکر اس کرپٹ روایتی سیاسی کلچر کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جس کا ثبوت آپ کو آجکل کنٹینر پہ موجود بائیں بازو سے لیکر دائیں بازو کی متحدہ اپوزیشن کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔
مولانا کی صورت میں ایک ہیرو مل گیا
بلاشبہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں بہت سے لوگ اکٹھے کر کے ایک بڑا شو کر رہے ہیں لیکن آگے کیا ہوگا: فوٹو اے ایف پی
مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے نجانے کس کس نے اپنی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ نہ صرف تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں مولانا کے ساتھ کھڑی ہیں بلکہ بڑی تعداد میں ہمارے لبرلز بھی مولانا کی کامیابی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ کچھ تو مولانا کے کنٹینر پر بھی چڑھے نظر آئے۔
حکومتی ترجمانوں کے مطابق عمران خان کی مخالفت میں ان لبرلز کو مولانا فضل الرحمٰن کی صورت میں ایک ہیرو مل گیا۔ لبرلز کا ایک طبقہ تو اس صورتحال سے واقعی پریشان اور کنفیوزڈ ہے۔ ہمارے سینئر اور محترم مظہر عباس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی یہ رائے دی کہ اُن کے خیال میں پاکستانی لبرلز اور سیکولرز وہی غلطی کر رہے ہیں جو اُن سے 1977ء میں سرزد ہوئی جب اُنہوں نے پی این اے کو سپورٹ کیا تھا۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ بلاشبہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں بہت سے لوگ اکٹھے کر کے ایک بڑا شو کر رہے ہیں لیکن آگے کیا ہوگا، اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ پاکستانی لبرلز کو ایک عجیب صورتحال کا سامنا ہے جہاں ایک طرف عمران خان کھڑے ہیں جو پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے اصولوں کے مطابق چلانے کا وعدہ کر رہے ہیں اور جنہیں یہ لبرلز تسلیم کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں تو دوسری طرف وہ اُن مولانا فضل الرحمٰن سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں جن کی جماعت ہے ہی اسلامی اور جنہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر نہ صرف ’’مذہب کارڈ‘‘ کا دفاع کیا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان اور اسلام کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
اور اب تو بلاول بھٹو جو اب تک پاکستانی لبرلز کی ترجمانی کرتے رہے اور پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی باتیں کرتے رہے، نے بھی مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے ہو کر ’’اسلامی جمہوری پاکستان‘‘ کے وعدے کو پورا کرنے کی بات کر دی ہے جس پر مجھے ذاتی طور پر بہت خوشی ہوئی اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ بلاول بھٹو اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کے روشنی میں اب اسلامی پاکستان کے ایجنڈے پر ہی کاربند رہیں گے۔
جب مولانا اسلام، پاکستان اور پھر آئین پاکستان کے مطابق ’’مذہب کارڈ‘‘ کا دفاع کر رہے تھے تو بلاول بھٹو اُس وقت کنٹینر پر اُن کے ساتھ کھڑے مسکر ا رہے تھے۔ شاید بلاول بھٹو بھی سمجھ گئے ہوں کہ مذہب کارڈ کی تکرار کرنے والوں کا اصل مقصد تو پاکستان کو اسلام سے دور کرنا ہے جو ممکن نہیں اور اس حقیقت کو اُن کے نانا نے بھی تسلیم کیا اور اسی لیے پاکستان کو ایک اسلامی آئین دے کر اپنا نام تاریخ میں لکھوا دیا۔
مولانا فضل الرحمٰن کے جلسے میں کوئی ایک آدھ جھنڈا افغان طالبان کا بھی نظر آیا جس پر حکومت اور میڈیا کے ایک حصہ نے خوب شور مچایا کہ اس سے تو پاکستان کا دنیا میں امیج خراب ہو گا۔ اگرچہ اس پروپیگنڈا پر مولانا نے کڑاکے کا جواب دیا کہ اُن طالبان کی ہی بات ہو رہی ہے نا جن کے ایک وفد کو حکومت پاکستان نے حال ہی میں بڑے پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد میں خوش آمدید کہا اور جن کے ساتھ امریکہ، روس اور دوسرے اہم ممالک بات چیت کر رہے ہیں۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے لبرلز نے سوشل میڈیا کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کے طالبان کے حق میں دیے گئے کچھ پرانے وڈیو کلپ چلا کر تحریک انصاف والوں کو مخاطب کر کے کہا مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں افغان طالبان کے جھنڈے پر سیخ پا ہونے والے ذرا سن لیں عمران خان طالبان کے دفاع میں کیا کچھ کہتے رہے۔ گویا آج مولانا فضل الرحمٰن تو کیا افغان طالبان کے دفاع کے لیے بھی ہمارے لبرلز بھائی سب سے آگے ہیں۔ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ ان لبرلز کی اکثریت بغضِ عمران میں یہ سب کچھ کر رہی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ان میں سے کئی واقعی حق کو پہچان کر ماضی کے اپنے رویے سے شرمندہ ہوں گے اور قیامِ پاکستان کے اصل مقصد کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد کریں گے۔
داڑھی والوں اور جے یو آئی کی رضاکار فورس انصار الاسلام کو ڈنڈا بردار جتھہ اور نجانے کیا کچھ کہنے والے سب حیران و پریشان ہیں کہ مولانا کا کراچی سے اسلام آباد تک مارچ انتہائی منظم رہا، کوئی ایک گملا بھی نہ ٹوٹا بلکہ ٹریفک تک کو نہ روکا گیا، ایمبولنس کو جگہ دی گئی۔ اسلام آباد میں دھرنے میں جانے والے میڈیا نمائندگان بھی شرکاء کے رویے سے بہت متاثر نظر آئے۔ ایک چینل کے ڈائریکٹر نیوز کے مطابق اُن کے رپوٹرز تو مولانا کے مارچ کے نظم اور دوستانہ رویے سے بہت متاثر ہوئے۔
حکومت کی طرف سے ایک خاتون صحافی کو اُس کے لباس پر اعتراض کی وجہ سے دھرنے میں داخل ہونے سے روکنے کی وجہ سے کافی شور کیا گیا اور اسے حقوقِ نسواں کا مسئلہ بنانے کی بھی کوشش کی گئی پروپیگنڈا کرنے والوں کا یہ سودا بھی نہ بکا بلکہ دھرنے والوں نے خواتین صحافیوں کو ویلکم کیا اور اُن سے بہت عزت کے ساتھ پیش آئے۔ اکثر خواتین اینکرز نے دھرنے والوں کے احترام میں خود چادریں اوڑھ لیں۔
سیاسی میدان میں کیا ہوتا ہے، ایک استعفیٰ آتا ہے یا کسی دوسرے استعفے کی بھی کوئی بات ہے، آنے والے دنوں میں مولانا کیسے کیسے حربے آزما کر وزیراعظم کو چت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سب کا فیصلہ تو آنے والے دن ہی کریں گے لیکن ایک بات کا فیصلہ ہو چکا کہ مولانا آج اپوزیشن کے ساتھ ساتھ لبرلز کی بھی واحد امید بن چکے ہیں۔
مشکل ہے کہ ہائی ویز کو بند کر دیا جائے۔ دھرنا جب اُٹھ گیا، تو بس، اُٹھ گیا ہی سمجھیں۔آزادی مارچ کے بعد ہائی ویز سمیت پورا ملک بند کر دیں گے، اکرم درانی
ویب ڈیسک پير 4 نومبر 2019
ہمارا دھرنا صرف عمران خان کے خلاف ہے کسی اور کے خلاف نہیں، کنوینئررہبر کمیٹی
اسلام آباد: اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے کنوینیئر اکرم درانی کا کہنا ہے کہ آزادی مارچ کے بعد ہائی ویز سمیت پورا ملک بند کر دیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما اکرم درانی نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا 500 لوگ کہیں تو استعفیٰ دے دوں گا، ہم 9 اپوزیشن جماعتوں کے 4 کروڑ 72 لاکھ لوگ لے آئے ہیں، بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف اور دیگر جماعتوں کے قائدین اپنی پارٹی اور ووٹرز کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اکرم درانی کا کہنا تھا کہ پوری اپوزیشن آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرے گی، ہمارا دھرنا عمران خان کے خلاف ہے کسی اور کے خلاف نہیں، ہم جمہوری لوگ ہیں احتجاج کے دوران ایک گملا یا پتہ نہیں ٹوٹا، لوگوں کے اتنے بڑے مجمعے پر طاقت کے استعمال کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، آزادی مارچ کے بعد ہائی ویز سمیت پورا ملک بند کر دیں گے اور جیل بھرو تحریک شروع کریں گے۔
کنوینئر رہبر کمیٹی نے کہا کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی مجبوریاں تھیں، جس وجہ سے وہ آج نہیں آئے، مریم نواز کی ضمانت کے فیصلے کے باعث شہباز شریف کو وہاں جانا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں اپنے اثاثے الیکشن کمیشن میں ظاہر کر چکا ہوں، ایف آئی اے، نیب اور ایجنسیاں ظاہر کردہ اثاثوں سے ایک مرلہ زیادہ زمین یا ایک روپیہ زیادہ لے آئیں تو سیاست چھوڑ دوں گا۔
حکومت بنانے کیلئے ان جماعتوں سے اتحاد تحریک انصاف کی آئینی و قانونی مجبوری ہے۔ اسے بنیاد بنا کر پی پی پی، ن لیگ اور ایم ایم اے سے اتحاد یا مفاہمت کی ترغیب دینا کوئی منطقی دلیل نہیں۔مشترکہ نکات پر اکھٹے ہو جانے میں مضائقہ نہیں ہے۔ خان صاحب نے بھی تو بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھا ہے۔ اُن کے ایک طرف شجاعت و پرویز الٰہی ہیں، تو دوسری جانب، ایم کیو ایم کی قیادت موجود ہے۔
ہم نے ترغیب نہیں دی بلکہ آپ نے ہمارے دیے گئے پھولوں کو تصور ہی تصور میں گملے کے ساتھ کیچ کرنے کی کوشش کی ہے۔حکومت بنانے کیلئے ان جماعتوں سے اتحاد تحریک انصاف کی آئینی و قانونی مجبوری ہے۔ اسے بنیاد بنا کر پی پی پی، ن لیگ اور ایم ایم اے سے اتحاد یا مفاہمت کی ترغیب دینا کوئی دلیل نہیں۔
پنجاب میں تبدیلی کا امکان موجود ہےاگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنا رُخ اپوزیشن کی طرف پھیر لیا۔ اس صورت میں، اگلے تین سے چھ ماہ میں ان ہاؤس تبدیلی کا امکان ہے۔
دھرنے میں لاکھوں لوگ تو موجود نہیں ہیں ہاں یہ فوج اور حکومت مخالف کالم لکھوانے کیلئے لاکھوں کا لفافہ ضرور ملا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست اپنا اخلاقی جواز کھو چکا۔ لاکھوں افرادنے جس طرح دارالحکومت میں جمع ہو کر