مولانا ڈاکٹر منظور مینگل نے 2 ماہ میں پی ایچ ڈی کر لی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عثمان

محفلین
عثمان آپ کا کمنٹس پوسٹ کرنے کا طریقہ ٹھیک نہیں رہا۔۔۔
ناپسندیدگی کے بٹن کا سہارا لیجیے۔ :)


اعتراض مجھے آپ سے زیادہ شدید بھی ہوتا تو میں ایسا جملہ رقم نہ کرتا کہ ’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ بلکہ واضح طور پر بتاتا کہ مجھے کس کس بات پر کیا اعتراض ہے۔ ان اعتراضات کو جاننے کے بعد یہاں چاہے سب کے سب لوگ مجھ سے غیر متفق ہوتے، مگر کسی کو برا ہرگز نہ لگتا کیونکہ بلا شبہ ہم میں سے ہر ایک شخص کی ایک رائے ہے اور دوسرے افراد کو اس کا احترام کرنا چاہئے۔

وہ آپ کا انداز تبصرہ ہوتا۔ آپ میری رائے کا احترام کیجیے چاہے رائے پسند آئے نہ آئے۔
نیز تبصرہ اس لیے مختصر رکھا ہے کہ مولانا محبوب افراد کو غم کم سے کم پہنچے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ناپسندیدگی کے بٹن کا سہارا لیجیے۔ :)
یہ مجھے ناپسند ہے۔۔۔
وہ آپ کا انداز تبصرہ ہوتا۔ آپ میری رائے کا احترام کیجیے چاہے رائے پسند آئے نہ آئے۔
نیز تبصرہ اس لیے مختصر رکھا ہے کہ مولانا محبوب افراد کو غم کم سے کم پہنچے۔
نہیں صاحب، پسند یا نا پسند تو وہ ہوتا ہے جو سمجھ میں آئے ۔۔۔ آپ نے تو ’’یہ کیا مذاق ہے‘‘ کہہ کر مذاق ہی اڑایا۔۔۔ یہ رائے تو کہی نہیں جائے گی۔۔ مختصر کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ دو لفظوں میں کسی چیز کو مذاق کہہ دیں جبکہ پہلے جو کچھ لکھا گیا، اس میں بھی تو کتنے لوگوں کی آراء شامل رہی ہیں۔۔۔ آپ نے کس کا احترام کیا؟
 

عثمان

محفلین
یہ مجھے ناپسند ہے۔۔۔

نہیں صاحب، پسند یا نا پسند تو وہ ہوتا ہے جو سمجھ میں آئے ۔۔۔ آپ نے تو ’’یہ کیا مذاق ہے‘‘ کہہ کر مذاق ہی اڑایا۔۔۔ یہ رائے تو کہی نہیں جائے گی۔۔ مختصر کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ دو لفظوں میں کسی چیز کو مذاق کہہ دیں جبکہ پہلے جو کچھ لکھا گیا، اس میں بھی تو کتنے لوگوں کی آراء شامل رہی ہیں۔۔۔ آپ نے کس کا احترام کیا؟

یہ آپ کی رائے ہے کہ کسی دوسرے تبصرہ نگار کا تبصرہ "رائے" ہے یا "مذاق"۔
نیز رائے کا احترام کرنے کی بات آپ نے کی ہے ۔ آپ کے الفاظ آپ کو لوٹا رہا ہوں۔
اتنے ہی پر اکتفا کیجیے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ آپ کی رائے ہے کہ کسی دوسرے تبصرہ نگار کا تبصرہ "رائے" ہے یا "مذاق"۔
نیز رائے کا احترام کرنے کی بات آپ نے کی ہے ۔ آپ کے الفاظ آپ کو لوٹا رہا ہوں۔
اتنے ہی پر اکتفا کیجیے۔
جب آپ رائے کا احترام کرتے ہی نہیں تو بات ہی ختم ۔۔۔
 
یہ خبر کیسے ہے؟ اور 1992 میں کی گئی پی ایچ ڈی (ویسے کمپیوٹر کا مختصر ترین کورس بھی تین ماہ میں مکمل ہوتا ہے) کی ان کو اب یاد آئی ہے؟
آپ کو اگر یہ خبر ہضم نہیں ہورہی تو دوا لےلیں. بھئ اخبار والوں نےانٹرویو لیاہے تو ذکر کردیا. اس میں ایسی کیا بات ہوئ؟ براہ کرم آپ اور آپ جیسے دوسرے ہر وقت تعصب کا جو چشمۂ پہنے ہوتے ہیں کبھی اس کو اتار بھی لیا کریں. اگر کسی طوربھی سمجھ نہیں آتا تو ایران جاکر اپنے "مجتہدین" سے ان کی عظمت کے بارے میں معلوم کرلیں. ذہن تازہ ہوجائے گا.
آئ.کیو کےبارے میں بھی پڑھ لیں.
لو جی سید ذیشان جیسے لبرل اور متحمل مزاج شخص پر بھی رافضی ہونے کا فتویٰ لگ گیا ۔۔۔۔ ذیشان مبارک ہو
 
یہ بھی یوسف-2 صاحب کے "جنوں " کے سلسلے کی ایک کڑی لگ رہی ہے ۔
جناب ۔۔۔ مزاح لکھتے لکھتے یہ کیسے موضوعات کو آپ نے تختہِ مشق بنالیا ۔ ;)
آپ نے جُنوں لکھا ہے یا جِنّوں کی طرف اشارہ کیا ہے؟:D
لکھتے رہے جنّوں کی حکایاتِ خوچکاں:p
ہر چند اس میں ہاتھ بھی انکے قلم ہوئے
 

عبد الرحمن

لائبریرین
عثمان آپ کا کمنٹس پوسٹ کرنے کا طریقہ ٹھیک نہیں رہا۔۔۔ اعتراض مجھے آپ سے زیادہ شدید بھی ہوتا تو میں ایسا جملہ رقم نہ کرتا کہ ’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ بلکہ واضح طور پر بتاتا کہ مجھے کس کس بات پر کیا اعتراض ہے۔ ان اعتراضات کو جاننے کے بعد یہاں چاہے سب کے سب لوگ مجھ سے غیر متفق ہوتے، مگر کسی کو برا ہرگز نہ لگتا کیونکہ بلا شبہ ہم میں سے ہر ایک شخص کی ایک رائے ہے اور دوسرے افراد کو اس کا احترام کرنا چاہئے۔
پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جعلی بھی ہوتی ہیں اور دوسروں کی کتابیں چوری کرنے والوں کو بھی ڈاکٹریٹ کی سند ہمارے تعلیمی ادارے جاری کردیتے ہیں لیکن جس شخصیت کا ذکر اوپر ہوا ہے، میں نہیں سمجھتا جس شخص کی علم کے حصول و تدریس کی تاریخ اتنی طویل ہو، اس کی سند کو بلا تحقیق جھوٹا کہنا کوئی دانشمندی ہوگی۔
رہی بات اتنے کم عرصے میں یہ سند پانے کی تو یہ محض علم کی بات ہے۔۔ کیا جو شخص جانتا ہے اور جو نہیں جانتا، دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔۔
معتدل انداز اور ٹھندے لہجے میں بہت اچھی گفتگو کی آپ نے۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
پی ایچ ڈی کیلئے کسی منظور شدہ موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنا ہوتا ہے۔ اور اس مقالے میں بیان کی گئی ہر بات کا ریفرنس دینا ہوتا ہے۔۔۔ اب ایک شخص کی زندگی کسی موضوع کو پڑھنے اور پڑھانے میں گذری ہو اور اس نے پہلے سے اسکا کافی گہرائی سے مطالعہ کیا ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ اس موضوع پر وہ چند دنوں میں ہی ایک تحقیقی مقالہ لکھ ڈالے۔۔۔ ۔5 سال وغیرہ کی مدت کا تعلق فیلڈ سے بھی ہوتا ہے۔۔اب ایک سائنسدان لیبارٹری میں تجربات کر رہا ہے اور سالہا سال کے تجربات کا نچوڑ اپنے تحقیقی مقالے میں پیش کرتا ہے اور دوسری طرف پنجاب یونیورسٹی سے کوئی صاحب ہیر وارث شاہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کلام میں پائی جانے والی مثالوں، ضرب الامثال، اس زمانے کا پنجاب کا کلچر، داستان کے کرداروں کا تاریخی پس منظر، وارث شاہ کے حالاتِ زندگی اور ہیر وارث شاہ پر مختلف زمانوں میں دی جانے والی آراء اور فوک کلچر پر اسکے اثرات کو باقاعدہ حوالہ جات کے ساتھ ایک کتاب میں درج کریں تو وہ بھی وارث شاہ پر پی ایچ ڈی کے حقدار ہوجاتے ہیں۔۔۔
محمود بھائی! حقیقت لکھی ہے آپ نے۔ واقعی اتنے کم عرصے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلینا کوئی ناممکن بات نہیں۔ وہ بھی ایسے حضرات کے لیےجوہمہ وقت امت کی فکر میں ڈوبے رہتے ہیں۔ ایک معمولی سی بات پر خواہ مخواہ اتنا مناظرہ اچھا نہیں۔
 

دوست

محفلین
دیکھیں جی پی ایچ ڈی کا طریقہ وہی ہے جو اوپر بتایا گیا ہے۔ مقالہ لکھنا ہوتا ہے لیکن آج کل تحقیق کے لیے بہت رگڑا دیا جاتا ہے محققین کو۔ کانفرنس، سیمینار اٹینڈ کرو، تحقیق مضامین لکھو، پھر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر پیش کرو۔ اس کا پئیر ری ویو ہو گا اور آخر میں پبلک ڈیفنس تب جا کر سند ملے گی۔ اب اللہ جانے مولانا نے اپنی فائل کے نیچے پہیے لگوائے تھے، دو ماہ میں تو ادھر پاکستان میں کاغذی کاروائی بھی پوری نہیں ہوتی۔
اور آخری بات، صرف مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کا رجحان اب کم کم ہے، اکثر جگہوں پر ریسرچ میتھڈالوجی جیسے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں کم از کم ایک سمسٹر تاکہ محقق تحقیق کے لوازمات سے لیس ہو سکے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
دیکھیں جی پی ایچ ڈی کا طریقہ وہی ہے جو اوپر بتایا گیا ہے۔ مقالہ لکھنا ہوتا ہے لیکن آج کل تحقیق کے لیے بہت رگڑا دیا جاتا ہے محققین کو۔ کانفرنس، سیمینار اٹینڈ کرو، تحقیق مضامین لکھو، پھر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر پیش کرو۔ اس کا پئیر ری ویو ہو گا اور آخر میں پبلک ڈیفنس تب جا کر سند ملے گی۔ اب اللہ جانے مولانا نے اپنی فائل کے نیچے پہیے لگوائے تھے، دو ماہ میں تو ادھر پاکستان میں کاغذی کاروائی بھی پوری نہیں ہوتی۔
اور آخری بات، صرف مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کا رجحان اب کم کم ہے، اکثر جگہوں پر ریسرچ میتھڈالوجی جیسے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں کم از کم ایک سمسٹر تاکہ محقق تحقیق کے لوازمات سے لیس ہو سکے۔
ہو سکتا ہے وفاق مدارس کے تحت اس سند کےحصول کا طریقہ اور معیارمختلف ہو اور یہ سند بنفسہ پی ایچ ڈی نہ ہو بلکہ اس کی مترادف اور مساوی کوئی دستاویز ہو۔
 
مولانا منظور احمد مینگل صاحب سے ایک ملاقات کا قصہ
ہم نے تمام تر دفتری کاموں کو جلد از جلد نمٹایا اور پانچ بجتے ہی کھڑے ہوگئے۔ نیچے جاکر گاڑی سنبھالی اور کلفٹن سے شاہ فیصل کالونی تک کا راستہ تقریباً آدھے گھنٹے میں طے کرکے جامعہ فاروقیہ پہنچ کردم لیا۔ گاڑی پارک کرکے اندر جانے والے گیٹ تک پہنچے تو امام مسجد جناب مولانا منظور مینگل صاحب گیٹ پر ہی براجمان تھے ۔ ہم نے سلام کیا اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو مولانا نے ہاتھ تھام لیا۔ نام پوچھا، ہم نے اپنا نام بتایا۔ کہنے لگے ’’خلیل بھائی! ایک درخواست ہے۔ کیا آپ ہمیں ٹبا ہسپتال تک لے چلیں گے؟‘‘ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ منظور صاحب نے فوراً ایک لڑکے کو آواز دے کر بلایا ، اسے ماسٹر جی تک ہماری غیر حاضری کا سبب بتلانے کا کہہ کربھیج دیا اور ہمارے ساتھ گاڑی کی جانب چل دئیے۔​
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم جامعہ فاروقیہ سے دراساتِ دینیہ کا تین سالہ کورس کررہے تھے۔ ہر روز پانچ بجے آفس سے فارغ ہوکر نکلتے اور جامعہ کی جانب دوڑ لگادیتے۔ اکثرپھاٹک کی جانب سے پہنچتے اور کبھی کبھی شاہ فیصل کالونی کے پل پر سے ہوتے ہوئے جامعہ پہنچتے۔ شوق مہمیز کا کام دے رہا ہوتا تھا، اس لیے راستے کی طولت کا اندازہ نہ ہوتا۔ عصر سے عشاء تک کلاسیں ہواکرتیں ۔ ہم شوق محبت اور لگن سے پڑھتے۔ اساتذہ کا سلوک بھی دیدنی ہوتا۔ وہ ہمیں جامعہ کے مہمان جان کر بہت نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرتے۔ عصرکی اکثر نمازیں اور مغرب و عشاء کی تقریباً تمام نمازیں ہم جامعہ ہی میں ادا کرتے تھے۔ جامعہ کی مسجد کے امام صاحب لحنِ داؤدی کے مالک تھے اور ایک وجد کے عالم میں قراٗت فرماتے تو مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کا مزہ دوبالا ہوجاتا۔​
ایک دن اطلاع آئی کہ شیخ الجامعہ جناب مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی طبیعت ناساز ہے اور انہیں ٹبا ہارٹ ہسپتال میں داخل کردیا گیا ہے۔ کئی مرتبہ جی للچایاکہ جائیں کسی بہانے ان کی زیارت کرلیں اور طبیعت کے بارے میں پوچھ آئیں لیکن کوئی تدبیر کارگر ہوتی نظر نہ آتی تھی۔ ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ اطلاع ملی کہ حضرت کی انجیو پلاسٹی ہوبھی چکی ۔ اگلے ہی دِن جامعہ پہنچے تو امام صاحب نے یہ درخواست کردی، جو دراصل ہمارے اپنے دِل کی آواز تھی۔ خوشی خوشی گاڑی کا اگلا دروازہ کھول کر انہیں بِٹھایا اور پہچھے ان کے دو اور ساتھیوں کو بٹھا کر ہم ٹبا ہسپتال کی جانب چل دئیے۔​
راستے میں مولا نا صاحب سے باتیں بھی ہوتی رہیں۔ وہ ہمیں خلیل بھائی ہی کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔ تب ہی اُنھوں نے ہمیں اپنے بارے میں بتانا شروع کیا جس میں ان کے مفتی شامزئی شہید صاحب کے ساتھ جامشورو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے حالات بھی شامل تھے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے ساتھ شیخ الجامعہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب بھی پی ایچ ڈی کرنے والوں میں شامل تھے۔ وللہ اعلم۔​
انہوں نے جامعہ صدیقیہ گلشنِ معمار کے متعلق بھی بتایا تھا جس کی بہتری کے ان کی کوششیں جاری تھیں۔ الغرض ہمارے لیے یہ سفر ایک یادگار سفر بن گیا۔​
ہسپتال پہنچے تو نیچے ہی ویٹنگ ہال میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے بڑے صاحبزادے مولانا عادل صاحب ایک صوفے پر براجمان نظر آئے اور ہم سب ادھر ہی دو صوفوں پر گھُس گھُس کر بیٹھ رہے۔ اس دن تقریباً آدھا گھنٹہ انتظار کیا لیکن اوپر جانے کا کوئی راستہ نہ بنا۔ خبر ملی کہ مولانا کے گھر کی خواتین کمرے میں موجود ہیں۔ آدھ گھنٹے بعد ہم سب مولانا عادل سے اجازت لے کر واپسی کے لیے اآٹھ کھڑے ہوئے، اس اطمینان کے ساتھ کہ ماشاء اللہ مولانا سلیم اللہ خان اب تیزی کے ساتھ روبصحت ہیں۔​
ہسپتال سے باہر نکلے تو مولانا نے ہم سے اجازت چاہی اور ٹیکسی کی تلاش کا قصد کیا۔ ہماری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ مولانا کو یوں آدھے راستے میں چھوڑ دیں لہٰذا ان سے درخواست کی کہ وہ واپسی کا سفر بھی ہمارے ساتھ ہی طے کرلیں، ہم بخوشی انہیں واپس جامعہ کے دروازے پر اُتاریں گے۔ وہ مان گئے تو واپسی کا سفر شروع ہوا۔ واپسی کے سفر میں بھی ان سے جی بھر کے باتیں کیں اور حظ اُٹھایا۔ ایک ساتھی راستے میں گلشن اقبال میں سڑک کے کنارے اپنے مدرسے کے قریب اُتر گئے اور ہم مولانا کو لے کر شاہ فیصل کالونی پہنچے اور انہیں جامعہ پہنچادیا۔ یوں یہ سفر جو ہماری زندگی کا ایک یادگار سفربن گیا بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا جو آج بھی ہمیں یاد آتا ہے تو خوشی سے جھوم جاتے ہیں۔​
آج محفل کے اس مراسلے میں مولانا کے تفصیلی حالاتِ زندگی پڑھے تو یقین جانیے لطف آگیا۔ شکریہ جناب یوسف-2 بھائی۔​
ٹیگ مزمل شیخ بسمل
 
مولانا منظور احمد مینگل صاحب سے ایک ملاقات کا قصہ
ہم نے تمام تر دفتری کاموں کو جلد از جلد نمٹایا اور پانچ بجتے ہی کھڑے ہوگئے۔ نیچے جاکر گاڑی سنبھالی اور کلفٹن سے شاہ فیصل کالونی تک کا راستہ تقریباً آدھے گھنٹے میں طے کرکے جامعہ فاروقیہ پہنچ کردم لیا۔ گاڑی پارک کرکے اندر جانے والے گیٹ تک پہنچے تو امام مسجد جناب مولانا منظور مینگل صاحب گیٹ پر ہی براجمان تھے ۔ ہم نے سلام کیا اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو مولانا نے ہاتھ تھام لیا۔ نام پوچھا، ہم نے اپنا نام بتایا۔ کہنے لگے ’’خلیل بھائی! ایک درخواست ہے۔ کیا آپ ہمیں ٹبا ہسپتال تک لے چلیں گے؟‘‘ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ منظور صاحب نے فوراً ایک لڑکے کو آواز دے کر بلایا ، اسے ماسٹر جی تک ہماری غیر حاضری کا سبب بتلانے کا کہہ کربھیج دیا اور ہمارے ساتھ گاڑی کی جانب چل دئیے۔​
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم جامعہ فاروقیہ سے دراساتِ دینیہ کا تین سالہ کورس کررہے تھے۔ ہر روز پانچ بجے آفس سے فارغ ہوکر نکلتے اور جامعہ کی جانب دوڑ لگادیتے۔ اکثرپھاٹک کی جانب سے پہنچتے اور کبھی کبھی شاہ فیصل کالونی کے پل پر سے ہوتے ہوئے جامعہ پہنچتے۔ شوق مہمیز کا کام دے رہا ہوتا تھا، اس لیے راستے کی طولت کا اندازہ نہ ہوتا۔ عصر سے عشاء تک کلاسیں ہواکرتیں ۔ ہم شوق محبت اور لگن سے پڑھتے۔ اساتذہ کا سلوک بھی دیدنی ہوتا۔ وہ ہمیں جامعہ کے مہمان جان کر بہت نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرتے۔ عصرکی اکثر نمازیں اور مغرب و عشاء کی تقریباً تمام نمازیں ہم جامعہ ہی میں ادا کرتے تھے۔ جامعہ کی مسجد کے امام صاحب لحنِ داؤدی کے مالک تھے اور ایک وجد کے عالم میں قراٗت فرماتے تو مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کا مزہ دوبالا ہوجاتا۔​
ایک دن اطلاع آئی کہ شیخ الجامعہ جناب مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی طبیعت ناساز ہے اور انہیں ٹبا ہارٹ ہسپتال میں داخل کردیا گیا ہے۔ کئی مرتبہ جی للچایاکہ جائیں کسی بہانے ان کی زیارت کرلیں اور طبیعت کے بارے میں پوچھ آئیں لیکن کوئی تدبیر کارگر ہوتی نظر نہ آتی تھی۔ ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ اطلاع ملی کہ حضرت کی انجیو پلاسٹی ہوبھی چکی ۔ اگلے ہی دِن جامعہ پہنچے تو امام صاحب نے یہ درخواست کردی، جو دراصل ہمارے اپنے دِل کی آواز تھی۔ خوشی خوشی گاڑی کا اگلا دروازہ کھول کر انہیں بِٹھایا اور پہچھے ان کے دو اور ساتھیوں کو بٹھا کر ہم ٹبا ہسپتال کی جانب چل دئیے۔​
راستے میں مولا نا صاحب سے باتیں بھی ہوتی رہیں۔ وہ ہمیں خلیل بھائی ہی کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔ تب ہی اُنھوں نے ہمیں اپنے بارے میں بتانا شروع کیا جس میں ان کے مفتی شامزئی شہید صاحب کے ساتھ جامشورو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے حالات بھی شامل تھے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے ساتھ شیخ الجامعہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب بھی پی ایچ ڈی کرنے والوں میں شامل تھے۔ وللہ اعلم۔​
انہوں نے جامعہ صدیقیہ گلشنِ معمار کے متعلق بھی بتایا تھا جس کی بہتری کے ان کی کوششیں جاری تھیں۔ الغرض ہمارے لیے یہ سفر ایک یادگار سفر بن گیا۔​
ہسپتال پہنچے تو نیچے ہی ویٹنگ ہال میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے بڑے صاحبزادے مولانا عادل صاحب ایک صوفے پر براجمان نظر آئے اور ہم سب ادھر ہی دو صوفوں پر گھُس گھُس کر بیٹھ رہے۔ اس دن تقریباً آدھا گھنٹہ انتظار کیا لیکن اوپر جانے کا کوئی راستہ نہ بنا۔ خبر ملی کہ مولانا کے گھر کی خواتین کمرے میں موجود ہیں۔ آدھ گھنٹے بعد ہم سب مولانا عادل سے اجازت لے کر واپسی کے لیے اآٹھ کھڑے ہوئے، اس اطمینان کے ساتھ کہ ماشاء اللہ مولانا سلیم اللہ خان اب تیزی کے ساتھ روبصحت ہیں۔​
ہسپتال سے باہر نکلے تو مولانا نے ہم سے اجازت چاہی اور ٹیکسی کی تلاش کا قصد کیا۔ ہماری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ مولانا کو یوں آدھے راستے میں چھوڑ دیں لہٰذا ان سے درخواست کی کہ وہ واپسی کا سفر بھی ہمارے ساتھ ہی طے کرلیں، ہم بخوشی انہیں واپس جامعہ کے دروازے پر اُتاریں گے۔ وہ مان گئے تو واپسی کا سفر شروع ہوا۔ واپسی کے سفر میں بھی ان سے جی بھر کے باتیں کیں اور حظ اُٹھایا۔ ایک ساتھی راستے میں گلشن اقبال میں سڑک کے کنارے اپنے مدرسے کے قریب اُتر گئے اور ہم مولانا کو لے کر شاہ فیصل کالونی پہنچے اور انہیں جامعہ پہنچادیا۔ یوں یہ سفر جو ہماری زندگی کا ایک یادگار سفربن گیا بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا جو آج بھی ہمیں یاد آتا ہے تو خوشی سے جھوم جاتے ہیں۔​
آج محفل کے اس مراسلے میں مولانا کے تفصیلی حالاتِ زندگی پڑھے تو یقین جانیے لطف آگیا۔ شکریہ جناب یوسف-2 بھائی۔​
ٹیگ مزمل شیخ بسمل

بہت خوب جناب! کیا بات ہے!!
ہمیں تو آپ پر رشک آنے لگا ہے۔
 
مولانا منظور احمد مینگل صاحب سے ایک ملاقات کا قصہ
ہم نے تمام تر دفتری کاموں کو جلد از جلد نمٹایا اور پانچ بجتے ہی کھڑے ہوگئے۔ نیچے جاکر گاڑی سنبھالی اور کلفٹن سے شاہ فیصل کالونی تک کا راستہ تقریباً آدھے گھنٹے میں طے کرکے جامعہ فاروقیہ پہنچ کردم لیا۔ گاڑی پارک کرکے اندر جانے والے گیٹ تک پہنچے تو امام مسجد جناب مولانا منظور مینگل صاحب گیٹ پر ہی براجمان تھے ۔ ہم نے سلام کیا اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو مولانا نے ہاتھ تھام لیا۔ نام پوچھا، ہم نے اپنا نام بتایا۔ کہنے لگے ’’خلیل بھائی! ایک درخواست ہے۔ کیا آپ ہمیں ٹبا ہسپتال تک لے چلیں گے؟‘‘ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ منظور صاحب نے فوراً ایک لڑکے کو آواز دے کر بلایا ، اسے ماسٹر جی تک ہماری غیر حاضری کا سبب بتلانے کا کہہ کربھیج دیا اور ہمارے ساتھ گاڑی کی جانب چل دئیے۔​
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم جامعہ فاروقیہ سے دراساتِ دینیہ کا تین سالہ کورس کررہے تھے۔ ہر روز پانچ بجے آفس سے فارغ ہوکر نکلتے اور جامعہ کی جانب دوڑ لگادیتے۔ اکثرپھاٹک کی جانب سے پہنچتے اور کبھی کبھی شاہ فیصل کالونی کے پل پر سے ہوتے ہوئے جامعہ پہنچتے۔ شوق مہمیز کا کام دے رہا ہوتا تھا، اس لیے راستے کی طولت کا اندازہ نہ ہوتا۔ عصر سے عشاء تک کلاسیں ہواکرتیں ۔ ہم شوق محبت اور لگن سے پڑھتے۔ اساتذہ کا سلوک بھی دیدنی ہوتا۔ وہ ہمیں جامعہ کے مہمان جان کر بہت نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرتے۔ عصرکی اکثر نمازیں اور مغرب و عشاء کی تقریباً تمام نمازیں ہم جامعہ ہی میں ادا کرتے تھے۔ جامعہ کی مسجد کے امام صاحب لحنِ داؤدی کے مالک تھے اور ایک وجد کے عالم میں قراٗت فرماتے تو مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کا مزہ دوبالا ہوجاتا۔​
ایک دن اطلاع آئی کہ شیخ الجامعہ جناب مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی طبیعت ناساز ہے اور انہیں ٹبا ہارٹ ہسپتال میں داخل کردیا گیا ہے۔ کئی مرتبہ جی للچایاکہ جائیں کسی بہانے ان کی زیارت کرلیں اور طبیعت کے بارے میں پوچھ آئیں لیکن کوئی تدبیر کارگر ہوتی نظر نہ آتی تھی۔ ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ اطلاع ملی کہ حضرت کی انجیو پلاسٹی ہوبھی چکی ۔ اگلے ہی دِن جامعہ پہنچے تو امام صاحب نے یہ درخواست کردی، جو دراصل ہمارے اپنے دِل کی آواز تھی۔ خوشی خوشی گاڑی کا اگلا دروازہ کھول کر انہیں بِٹھایا اور پہچھے ان کے دو اور ساتھیوں کو بٹھا کر ہم ٹبا ہسپتال کی جانب چل دئیے۔​
راستے میں مولا نا صاحب سے باتیں بھی ہوتی رہیں۔ وہ ہمیں خلیل بھائی ہی کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔ تب ہی اُنھوں نے ہمیں اپنے بارے میں بتانا شروع کیا جس میں ان کے مفتی شامزئی شہید صاحب کے ساتھ جامشورو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے حالات بھی شامل تھے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے ساتھ شیخ الجامعہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب بھی پی ایچ ڈی کرنے والوں میں شامل تھے۔ وللہ اعلم۔​
انہوں نے جامعہ صدیقیہ گلشنِ معمار کے متعلق بھی بتایا تھا جس کی بہتری کے ان کی کوششیں جاری تھیں۔ الغرض ہمارے لیے یہ سفر ایک یادگار سفر بن گیا۔​
ہسپتال پہنچے تو نیچے ہی ویٹنگ ہال میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے بڑے صاحبزادے مولانا عادل صاحب ایک صوفے پر براجمان نظر آئے اور ہم سب ادھر ہی دو صوفوں پر گھُس گھُس کر بیٹھ رہے۔ اس دن تقریباً آدھا گھنٹہ انتظار کیا لیکن اوپر جانے کا کوئی راستہ نہ بنا۔ خبر ملی کہ مولانا کے گھر کی خواتین کمرے میں موجود ہیں۔ آدھ گھنٹے بعد ہم سب مولانا عادل سے اجازت لے کر واپسی کے لیے اآٹھ کھڑے ہوئے، اس اطمینان کے ساتھ کہ ماشاء اللہ مولانا سلیم اللہ خان اب تیزی کے ساتھ روبصحت ہیں۔​
ہسپتال سے باہر نکلے تو مولانا نے ہم سے اجازت چاہی اور ٹیکسی کی تلاش کا قصد کیا۔ ہماری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ مولانا کو یوں آدھے راستے میں چھوڑ دیں لہٰذا ان سے درخواست کی کہ وہ واپسی کا سفر بھی ہمارے ساتھ ہی طے کرلیں، ہم بخوشی انہیں واپس جامعہ کے دروازے پر اُتاریں گے۔ وہ مان گئے تو واپسی کا سفر شروع ہوا۔ واپسی کے سفر میں بھی ان سے جی بھر کے باتیں کیں اور حظ اُٹھایا۔ ایک ساتھی راستے میں گلشن اقبال میں سڑک کے کنارے اپنے مدرسے کے قریب اُتر گئے اور ہم مولانا کو لے کر شاہ فیصل کالونی پہنچے اور انہیں جامعہ پہنچادیا۔ یوں یہ سفر جو ہماری زندگی کا ایک یادگار سفربن گیا بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا جو آج بھی ہمیں یاد آتا ہے تو خوشی سے جھوم جاتے ہیں۔​
آج محفل کے اس مراسلے میں مولانا کے تفصیلی حالاتِ زندگی پڑھے تو یقین جانیے لطف آگیا۔ شکریہ جناب یوسف-2 بھائی۔​
ٹیگ مزمل شیخ بسمل


بہت ہی عمدہ بھائی۔ آپ تو چھپے ”رستم“ نکلے جی۔ :)
اللہم زد فزد۔۔ :)
 

یوسف-2

محفلین
یہی پی ایچ ڈی کی سند اگر کسی ”دنیوی مضمون“ میں اگر کسی ”دنیا دار سیکیولر یا بے دین“ فرد نے ”کم سنی“ میں بھی حاصل کی ہوتی تو یہی ”دین اور عالم بیزار“ احباب واہ واہ کر رہے ہوتے۔:eek: ایک اتنے بڑے عالم دین کا اس قلیل عرصے میں پی ایچ ڈی کرنا اُن لوگوں کو کیسے ہضم ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا بھر کی بہت سی جامعات مختلف شعبہ جات میں نمایاں علمی کام کرنے والوں کو ”اعزازی پی ایچ ڈی کی سند“ بھی عطا کرتی ہے، جس کے لئے کوئی ”مدت“ درکار نہیں ہوتی۔ :p اور یہ اعزازی پی ایچ ڈی کی سند، معمول کی پی ایچ ڈی کی سند سے کسی طور پر بھی ”کم وقعت“ نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک اعتبار سے ”برتر و افضل“ ہوتی ہے کہ ”اعزازی ڈگری“ فرد کا تعاقب کرکے اُسے ”اپنانے“ کی درخواست کرتی ہے، جبکہ ”معمول کی ڈگری“ کا ”تعاقب“ طالب علم (یا طالب ڈگری) خود کرتا ہے اور اس کے حصول کی ”درخواست“ (بصورت انرولمنٹ وغیرہ) کرتا ہے۔ :)
 

سعادت

تکنیکی معاون
[...]
واضح رہے کہ دنیا بھر کی بہت سی جامعات مختلف شعبہ جات میں نمایاں علمی کام کرنے والوں کو ”اعزازی پی ایچ ڈی کی سند“ بھی عطا کرتی ہے، جس کے لئے کوئی ”مدت“ درکار نہیں ہوتی۔ :p اور یہ اعزازی پی ایچ ڈی کی سند، معمول کی پی ایچ ڈی کی سند سے کسی طور پر بھی ”کم وقعت“ نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک اعتبار سے ”برتر و افضل“ ہوتی ہے کہ ”اعزازی ڈگری“ فرد کا تعاقب کرکے اُسے ”اپنانے“ کی درخواست کرتی ہے، جبکہ ”معمول کی ڈگری“ کا ”تعاقب“ طالب علم (یا طالب ڈگری) خود کرتا ہے اور اس کے حصول کی ”درخواست“ (بصورت انرولمنٹ وغیرہ) کرتا ہے۔ :)

اسی لاجک کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو "معمول کی ڈگری" حاصل کرنے کے لیے ایک طالبعلم کئی سال سخت محنت کرتا ہے اور پھر اس کا حقدار ٹھہرتا ہے، لیکن "اعزازی ڈگری" بیٹھے بٹھائے ہی مل جاتی ہے۔ چنانچہ طالبعلم کے لیے اُس معمول کی ڈگری کی وقعت اعزازی ڈگری سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ :)
 

یوسف-2

محفلین
اسی لاجک کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو "معمول کی ڈگری" حاصل کرنے کے لیے ایک طالبعلم کئی سال سخت محنت کرتا ہے اور پھر اس کا حقدار ٹھہرتا ہے، لیکن "اعزازی ڈگری" بیٹھے بٹھائے ہی مل جاتی ہے۔ چنانچہ طالبعلم کے لیے اُس معمول کی ڈگری کی وقعت اعزازی ڈگری سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ :)

لاجک اور زاویے تو بہت سے بن سکتے ہیں۔
لیکن
اعزازی ڈگری ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو نہیں ملا کرتی :D
 

عاطف بٹ

محفلین
جو احباب پی ایچ ڈی کے لمبے چوڑے طریقہء کار پر بحث کررہے ہیں، وہ یہ بھول رہے ہیں کہ مولانا نے پی ایچ ڈی 1992ء میں کی تھی۔ 2002ء میں قائم ہونے والے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے قیام سے قبل یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے تحت ملنے والی تحقیقی ڈگریوں کا طریقہء کار بہت مختلف تھا۔ اس دور میں ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی کی جاسکتی تھی لیکن آج ایچ ای سی کے قواعد و ضوابط اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ اسی طرح اس دور میں کانفرنس، سیمینار، تحقیقی مضامین، کورس ورک اور پبلک ڈیفنس جیسے جھمیلے بھی نہیں ہوتے تھے۔ یو جی سی کے قواعد و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ کوئی بھی شخص ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی کے لئے کسی یونیورسٹی میں رجسٹریشن کروا کے اپنا مقالہ متعلقہ شعبے میں جمع کروا دے جس کو جانچ پڑتال یا بالفاظِ دیگر پیئر ریویو کے لئے بھجوادیا جاتا تھا اور مثبت رپورٹ موصول ہونے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دیدی جاتی تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں شائع شدہ کتابوں پر بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاتی ہے۔ ان ممالک میں کوئی جامعہ ایک طے شدہ طریقہء کار کے مطابق کسی کتاب کی جانچ پڑتال کے بعد مصنف کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی سکتی ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top