فاتح صاحب شکریہ اس مزید معلومات کا۔ لکھا جانا اس وقت عام تھا لیکن کم لوگوں میں۔ یہ آیات دیکھئے۔
نامکمل آیت۔ صرف یہ بتانے کے لئے کہ لکھا جانا عام تھا۔
[AYAH]2:282[/AYAH] اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو ۔۔۔۔۔۔
[AYAH]2:283[/AYAH] اور اگر تم سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو باقبضہ رہن رکھ لیا کرو، ۔۔۔۔۔
آپ نے اس کا حوالہ دیا۔
[AYAH]25:5[/AYAH]
یہ آیت دیکھئے۔
[AYAH]39:23[/AYAH] اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں (جس کی آیتیں) بار بار دہرائی گئی ہیں، جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کی جلدیں اور دل نرم ہو جاتے ہیں (اور رِقّت کے ساتھ) اللہ کے ذکر کی طرف (محو ہو جاتے ہیں)۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے۔ اور اللہ جسے گمراہ کر دیتا (یعنی گمراہ چھوڑ دیتا) ہے تو اُس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوتا
اس کتاب کا لکھا جانا اس آیت سے بھی ظاہر ہے۔
[AYAH]52:2[/AYAH] وَكِتَابٍ مَّسْطُورٍ
اور لکھی ہوئی کتاب کی قَسم
بہت ہی مشکل کام ہے کہ رسول اکرم بناء کسی کتاب کی اس کتاب کی بات کرتے رہیں۔ میں نے ایک اور دھاگے میں ایسی روایات بھی فراہم کی تھیں۔ وہ دھاگہ یہاںہے
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8279
عربی کے الفاظ 'الکتاب' اور کتاب کے معانی میں نمایاں فرق ہے۔ 'الکتاب' قرآن حکیم میں 'قرآن' کے اپنے لئے استعمال ہوا ہے۔
ایک بات واضح کرتا چلوں کہ یہ 4 آرٹیکلز مذہبی سیاسی بازیگری پر لکھے گئے تھے۔ یہ قرآن اور حدیث کا روایتی مقابلہ نہیں تھا۔ میں نے کتب روایات کی صحت کے بارے میں تو لکھا ہے۔ اس لئے کہ خود میرے پاس ایسی کتب ہیں جن میں روایات کی تعداد مختلف ہے۔ ایسی کتب بازار میں عام ملتی ہیں۔ اس کا علم الرجال، اقوال رسول کی صحت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ان مصنفین کا کوئی قصور ہی نہیںجن کی کتب میں کوئی بھی قابل اعتراضمواد ملے۔ اس لئے کہ کسے بھی مصنف کی اصل کتب دستیاب نہیں اور کوئی مستند ذریعہ نہیں کی یہ ثابت کیا جاسکے کہ ایک قابل اعتراضروایت اصل میں اس مصنف نے لکھی بھی تھی یا نہیں۔ بھر بہت سی روایات جن پر ایک مکتبہ اعتراض کرتا ہے، دوسرا اس پر اعتراض نہیں کرتا۔
لہذا، اصل مضمون کی طرف دھیان رکھیں۔ اس میں کسی فرد واحد کا قصور نہیں، ایک نظام ایسا بن گیا تھا کہ یہ وارداتیں ہوتی رہیں۔
والسلام۔
طالب علم۔