مولویت اور کتب مولویت

اجمل صاحب، میر خیال تھا کہ سوال ڈاکٹر شبیر احمد صاحب کے بارے میں تھا دین کے بارے میں‌نہیں۔ آپ بہت ہی کنفیوز نظر آرہے ہیں‌بزرگوار۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اجمل صاحب، میر خیال تھا کہ سوال ڈاکٹر شبیر احمد صاحب کے بارے میں تھا
اچھا یہ وہی ڈاکٹر شبیر احمد صاحب ہیں نا جن کا ترجمہ شاید آپ کی ویب سائٹ پر بھی ہے اور اس کو سرخ رنگ سے دکھایا گیا ہے۔
ایک سوال آپ سے یہ ہے کہ آپ کی ویب سائٹ اوپن برہان پر پاکستان اور دوسرے ممالک میں کیوں نہیں کھلتی؟
کیا اس کا مواد اس قسم کا ہے کہ اس پر پابندی لگائی گئی ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
انگریزی تراجم جن پر اعتراضات اٹھائےجاتے ہیں اور جن کے پڑھنے میں احتیاط کی ضرورت ہے: ڈاکٹر محمد تقی الدین الہلالی/ ڈاکٹر محمد محسن خان (اول)، رشاد خلیفہ، ڈاکٹر شبیر احمد (فلوریڈا) ، مولانا محمد علی( احمدی ترجمہ)
ارشد خلیفہ وہی ہے جس نے قرآن کو الہامی کتاب ماننے سے انکار کیا تھا اور یہ قادیانیوں کو آپ نے اس میں شامل کیا ہوا ہے جس سے آپ کی نیک نیتی ظاہر ہوتی ہے۔
 
اس سائٹ کا مقصد وہاں لکھا ہو ہے۔ اگر ایسی کوئی غلطی ہے کہ کوئی قادیانی ترجمہ اس میں شامل ہیں تو میں اسے بھی مارک کرکے خوشی محسوس کروں گا۔ آپ وضاحت فرمائیں۔ اس میں غیر مسلموں کے تراجم بھی شامل ہیں، جو کہ نام سے ظاہر ہیں اور مناسب لنک فراہم کیا ہوا ہے۔
ڈاکٹر شبیر احمد کا جو ترجمہ اس سائٹ پر موجود ہے وہ پہلا ایڈیشن کا ہے۔ اس کی تصحیح انہوں نے چوتے تھے ایڈیشن میں‌فرما لی ہے۔
جن تراجم پر لوگوں نے مناسب اعتراضات کئے ان کو مناسب طور پر مارک کردیا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر محسن خان کا پہلا اور دوسرا ترجمہ۔ پہلے کی تصحیح‌ کے بعد صحیح کو شامل کیا ہے اور غیر صحیح کو شامل کیا ہے لال رنگ سے۔ آپ غلط یا نامناسب ترجمی کی نشاندہی فرمائیں اسکو درست کردیا جائے گا یا لال رنگ سے مارک کردیا جائے گا۔

اس قرآن کے تراجم میں غیر مسلموں اور مسلمین دونوں کے تراجم شامل ہیں۔ قادیانی غیر مسلمیں ہیں۔ لال نشان صرف آعتراضات والے تراجم پر لگایا گیا ہے۔

یہ سائٹ‌پاکستان میں بین نہیں ہے۔ کسی کسی نیٹ ورک سے اسکو پرابلم ہے آپ چیک کرلیں سایٹ یہ ہے۔ http://www.openburhan.net/
 

فاتح

لائبریرین
یہاں مجھے اپنی ایک غلطی کا اعتراف مقصود ہے جو مجھ سے نادانی اور جہالت کے باعث اپنی گذشتہ پوسٹ میں سر زد ہوئی۔

واضح کرتا چلوں کہ میں کوئی جنگ نہیں لڑ رہا تھا جس میں میری شکست یا فتح کی کوئی اہمیت ہو بلکہ مجھے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی کے بجائے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصحیح کا ذریعہ فرما دیا۔
میری غلطی یہ تھی کہ میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں صرف ہڈیوں، پتھروں اور پتوں پر لکھا ہوا تھا یا حفاظ نے حفظ کیا ہوا تھا اور اسی استدلال کے پیش نظر میں نے اپنی سابقہ پوسٹ میں ایک اعتراض یہ بھی کیا تھا:
غلط بیانی: حضور اکرم صلعم کی وفات سے پہلے، قران صرف پتوں، پتھروں، ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا۔ نعوذ‌ باللہ!
So I started locating Quranic material and collecting it from parchments, scapula, leaf-stalks of date palms .... x​
یہی کتاب روایت دوبارا یہ کہتی ہے کہ قرآن "حفاظ" نے حفظ کر رکھا تھا۔
and from the memories of men​
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.201
کون سی بات درست ہے؟
ان دونوں باتوں میں مجھ سے کم فہم کو تو کوئی اختلاف سرے سے نظر ہی نہیں آتا۔ اور ان دونوں کے ماننے میں کیا مضائقہ ہے؟

اگر قران کتاب کی شکل میں نہیں تھا تو اللہ تعالی قرآن میں 163 مرتبہ کس کتاب کا تذکرہ کرتے ہیں؟ اور ابتدا میں ہی کس کتاب کی قسم کھارہے ہیں؟
[AYAH]2:2[/AYAH][ARABIC] ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ [/ARABIC]
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے
یہاں میں آپ کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر قرآن اس آیت کے نزول کے وقت ظاہری کتاب کی شکل میں تھا یا نزول کے ساتھ ساتھ کتاب بھی ترتیب دی جاتی رہی۔
اگر اس استدلال کو درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت قرآن ایک "کتاب" کی شکل میں موجود تھا اور جب پہلی دفعہ قرآن کے لیے لفظ "کتاب" آیا اس کے بعد کم از کم 162 مرتبہ اس "کتاب" میں ترمیم کی گئی (نعوذ باللہ)؟
بہرحال کچھ علما اور کتب کی مدد سے میں نے یہ جان لیا کہ میں انتہائی خطرناک غلطی پر تھا اور اصل حقیقت جو نہ صرف نظریاتی بلکہ قرآنی دلائل سے بھی آشکار ہے وہ یہ ہے کہ وحیِ قرآن کی کتابت کا اہتمام ابتدائے نزول سے ہی ہو گیا تھا۔ یعنی رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے ابتدائی ایام نبوت میں ہی وحی تحریر کروانا شروع کر دی تھی۔
اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ صرف پہلی وحی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "اقرا باسم ربک الذی خلق" اور "اقرا الکتاب" نہیں فرمایا کہ تب قرآن کی کوئی تحریری شکل نہ تھی لیکن اس کے بعد باقاعدہ کتاب کا لفظ استعمال کیا جانے لگا گویا پہلی وحی کے بعد قرآن کریم کا تحریری وجود تشکیل پانے لگا تھا جس پر لفظ کتاب کا اطلاق ہوتا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ اس زمانے کے کفار نے کبھی یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کتاب کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن فی الحقیقت کوئی کتاب تو موجود ہی نہیں۔

یہ تو منطقی دلیل تھی اور ذیل کی آیت قرآنی گواہی ہے اس امر کی کہ کافروں کی زبان سے بھی یہی کہا گیا کہ قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ نے لکھوا کر محفوظ کیا تھا اور اسی تحریر سے صبح و شام پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔
[ayah]25:5[/ayah] وَقَالُواَسََاطِيرُ الْاوَّلِينَ اكْتَتَبَھَا فَھِيَ تُمْلَى عَلَيْہِ بُكْرَۃً وَاَصِيلًا
ترجمہ: اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) اگلوں کے افسانے ہیں جن کو اس شخص نے لکھوا رکھا ہے پھر وہ (افسانے) اسے صبح و شام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں (تاکہ انہیں یاد کر کے آگے سنا سکے)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ کتابتِ وحی کا تاریخی ثبوت ہے کہ جب وہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلے اور راستہ میں یہ علم ہونے پر کہ ان کی بہن حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور بہنوئی حضرت خباب رضی اللہ تعالٰی عنہ ایمان لا چکے ہیں ان کے گھر کی جانب پلٹتے ہیں تو "شرح القسطلانی" سمیت تاریخ میں یوں مرقوم ہے کہ آپ کے بہنوئی حضرت خباب رضی اللہ تعالٰی عنہ اس وقت قرآن کی تلاوت کر رہے تھے اور آپ کی آمد کی خبر پا کر آپ کی بہن نے جن "اوراق" پر قرآن لکھا ہو اتھا انہیں اور اپنے شوہر کو چھپا دیا۔ اور پھر حضرت عمر نے وہ "اوراق" لے کر پڑھے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ابتدائی زمانہ سے ہی قرآن صحابہ کے پاس تحریری شکل میں موجود تھا۔

احادیث میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں بھی قرآن مجید نسخہ کی شکل میں موجود تھا۔
عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نسخۂ قرآن اپنے ساتھ لے کر دشمن کی سر زمین میں‌سفر کرنے سے منع فرمایا تھا۔ (مسلم کتاب الامارۃ باب النھی)

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اس غلطی کو بھی باقی غلطیوں کے ساتھ معاف فرمائے۔ آمین!
 
فاتح صاحب شکریہ اس مزید معلومات کا۔ لکھا جانا اس وقت عام تھا لیکن کم لوگوں میں۔ یہ آیات دیکھئے۔

نامکمل آیت۔ صرف یہ بتانے کے لئے کہ لکھا جانا عام تھا۔
[AYAH]2:282[/AYAH] اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو ۔۔۔۔۔۔

[AYAH]2:283[/AYAH] اور اگر تم سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو باقبضہ رہن رکھ لیا کرو، ۔۔۔۔۔

آپ نے اس کا حوالہ دیا۔
[AYAH]25:5[/AYAH]

یہ آیت دیکھئے۔
[AYAH]39:23[/AYAH] اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں (جس کی آیتیں) بار بار دہرائی گئی ہیں، جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کی جلدیں اور دل نرم ہو جاتے ہیں (اور رِقّت کے ساتھ) اللہ کے ذکر کی طرف (محو ہو جاتے ہیں)۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے۔ اور اللہ جسے گمراہ کر دیتا (یعنی گمراہ چھوڑ دیتا) ہے تو اُس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوتا

اس کتاب کا لکھا جانا اس آیت سے بھی ظاہر ہے۔
[AYAH]52:2[/AYAH] وَكِتَابٍ مَّسْطُورٍ
اور لکھی ہوئی کتاب کی قَسم

بہت ہی مشکل کام ہے کہ رسول اکرم بناء کسی کتاب کی اس کتاب کی بات کرتے رہیں۔ میں نے ایک اور دھاگے میں ایسی روایات بھی فراہم کی تھیں۔ وہ دھاگہ یہاں‌ہے
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8279

عربی کے الفاظ 'الکتاب' اور کتاب کے معانی میں نمایاں فرق ہے۔ 'الکتاب' قرآن حکیم میں 'قرآن' کے اپنے لئے استعمال ہوا ہے۔

ایک بات واضح کرتا چلوں کہ یہ 4 آرٹیکلز مذہبی سیاسی بازیگری پر لکھے گئے تھے۔ یہ قرآن اور حدیث کا روایتی مقابلہ نہیں تھا۔ میں نے کتب روایات کی صحت کے بارے میں تو لکھا ہے۔ اس لئے کہ خود میرے پاس ایسی کتب ہیں جن میں روایات کی تعداد مختلف ہے۔ ایسی کتب بازار میں عام ملتی ہیں۔ اس کا علم الرجال، اقوال رسول کی صحت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ان مصنفین کا کوئی قصور ہی نہیں‌جن کی کتب میں کوئی بھی قابل اعتراض‌مواد ملے۔ اس لئے کہ کسے بھی مصنف کی اصل کتب دستیاب نہیں اور کوئی مستند ذریعہ نہیں کی یہ ثابت کیا جاسکے کہ ایک قابل اعتراض‌روایت اصل میں اس مصنف نے لکھی بھی تھی یا نہیں۔ بھر بہت سی روایات جن پر ایک مکتبہ اعتراض کرتا ہے، دوسرا اس پر اعتراض نہیں کرتا۔

لہذا، اصل مضمون کی طرف دھیان رکھیں۔ اس میں کسی فرد واحد کا قصور نہیں، ایک نظام ایسا بن گیا تھا کہ یہ وارداتیں ہوتی رہیں۔

والسلام۔
طالب علم۔
 

dxbgraphics

محفلین
فاروق میاں تو آپ انکارِ حدیث کرتے ہیں؟ اتنی لمبی تاویلوں کی کیا ضرورت تھی؟ :)

غامدی صاحب اسی مشن پر گامزن ہیں۔
حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرکے
شاید آگے کسی وقت جاکر کھلم کھلا پرویزیت کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیں
 

dxbgraphics

محفلین
نکل جاتا ہوں ویسے بھی ایسے لوگوں میں رہنا خطرناک ہے جو مذہب کے حوالے سے اعتراضات رکھتے ہیں
 

ظفری

لائبریرین
نکل جاتا ہوں ویسے بھی ایسے لوگوں میں رہنا خطرناک ہے جو مذہب کے حوالے سے اعتراضات رکھتے ہیں

غامدی صاحب اسی مشن پر گامزن ہیں۔
حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرکے
شاید آگے کسی وقت جاکر کھلم کھلا پرویزیت کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیں

یہ آپ نے کسی کرکٹ کے کھلاڑی پر تبصرہ کیا ہے ۔ ؟
 

فاتح

لائبریرین
نکل جاتا ہوں ویسے بھی ایسے لوگوں میں رہنا خطرناک ہے جو مذہب کے حوالے سے اعتراضات رکھتے ہیں

یعنی "قدما" کی طرح آپ کا بھی عقیدہ یہی ہے کہ "آباؤ اجداد کے دین" پر قائم رہیں گے اور کوئی اعتراض برداشت نہیں کریں گے۔:)
 
سنت رسول۔ حضرت محمد رسول صلعم کے اعمال مبارکہ ہیں، جیسےسنت رسول جناب غامدی صاحب نے رسول اللہ کے اعمال کی بنیاد پر بخوبی ڈاکومینٹ کی ہیں ،
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

زیادہ آئیں بائیں شائیں کی کیا ضرورت ہے صرف یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ
میں منکرحدیث ہوں اب میری پیروی کرو بس
بلاوجہ میں اوراق سیاہ کرنا
 

فرخ

محفلین
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

زیادہ آئیں بائیں شائیں کی کیا ضرورت ہے صرف یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ
میں منکرحدیث ہوں اب میری پیروی کرو بس
بلاوجہ میں اوراق سیاہ کرنا

:rollingonthefloor:
 
Top