موویز پلینٹ

اسلام وعلیکم

فلموں سے دلچسپی رکھنے والے محفلین کو میرے مویز پلینٹ پر خوش آمدید:tv:۔ یہاں پر اپ کو ہر طرح کی فلموں کے بارے میں ریوز، ان کی ریٹنگ، اور دیگر وہ سب کچھ جو کہ ایک فلم کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر ضروری ہے ملے گا اور ایک خاص بات آپ خود بھی اپنی پسندیدہ اور ناپسندیدہ فلموں اور ان کی کہانیوں کے بارے میں لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ تو پھر شاباش لگ جایں کام پر اور شروع ہو جائیں۔ میرا انداز بیان کچھ ہٹ کر ہوتا ہے ہر فلم کے بارے میں اس لیے ہر بار کچھ کمال ہو گا۔:angel:
 

یاسر شاہ

محفلین
مجھے پھر ریاض خیر آبادی کا شعر یاد آگیا :


جنابِ شیخ ہیں !!آداب عرض کرتا ہوں
یہ منھ چھپائے ہوئے رات کو کہاں استاد ؟
 
اسلام وعلیکم

فلموں سے دلچسپی رکھنے والے محفلین کو میرے مویز پلینٹ پر خوش آمدید:tv:۔ یہاں پر اپ کو ہر طرح کی فلموں کے بارے میں ریوز، ان کی ریٹنگ، اور دیگر وہ سب کچھ جو کہ ایک فلم کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر ضروری ہے ملے گا اور ایک خاص بات آپ خود بھی اپنی پسندیدہ اور ناپسندیدہ فلموں اور ان کی کہانیوں کے بارے میں لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ تو پھر شاباش لگ جایں کام پر اور شروع ہو جائیں۔ میرا انداز بیان کچھ ہٹ کر ہوتا ہے ہر فلم کے بارے میں اس لیے ہر بار کچھ کمال ہو گا۔:angel:
وعلیکم السلام

ویری گڈ۔

ایک گزارش ہے کہ پہلے رشین موویز کی بابت ریویز، ریٹنگ اور دیگر سب کچھ جو آپ جانتے ہیں لکھیے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام وعلیکم

فلموں سے دلچسپی رکھنے والے محفلین کو میرے مویز پلینٹ پر خوش آمدید:tv:۔ یہاں پر اپ کو ہر طرح کی فلموں کے بارے میں ریوز، ان کی ریٹنگ، اور دیگر وہ سب کچھ جو کہ ایک فلم کو سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر ضروری ہے ملے گا اور ایک خاص بات آپ خود بھی اپنی پسندیدہ اور ناپسندیدہ فلموں اور ان کی کہانیوں کے بارے میں لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ تو پھر شاباش لگ جایں کام پر اور شروع ہو جائیں۔ میرا انداز بیان کچھ ہٹ کر ہوتا ہے ہر فلم کے بارے میں اس لیے ہر بار کچھ کمال ہو گا۔:angel:
شدت سے انتظار ہے
 
یہ کسی فلم کا ریویو نہیں ہے.بلکہ فلمی تاریخ کی ایک عظیم ترین فلم کی داستان ہے.( خصوصا ان کیلیے جو فلم دیکھ چکے اور اس کے فین بھی ہیں) ساٹھ کی دہائی میں ہالی ووڈ نے ایسی کئی تاریخی فلمیں بنائی جن میں ہزاروں اداکاروں نے کام کیا.

بین ہر ( Ben - Hur ) بھی انہی میں سے ایک ہے.یہ فلم لیو والس کے ناول " بین ہر : آ ٹیل اف کرائسٹ " پر بیسڈ ہے.1925 میں اسی ناول پہ پہلے ایک خاموش فلم بن چکی تھی.مصنف لیو والس کو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ ساٹھ ستر سال بعد میرے ناول پہ ایک ایسا شاہکار بنے گا کہ عقل دنگ رہ جائے گی.
آج ٹیکنالوجی نے جس قدر ترقی کی ہے.بڑے سے بڑا سیٹ دیکھ کر بھی حیرانی نہیں ہوتی کیونکہ حقیقت میں وہ ایک ہال پہ مشتمل ہوتا ہے.جسے بعد میں chroma keying کے زریعے بدل دیا جاتا ہے.عکسبندی کے بعد ہی سین میں سڑکیں ،گاڑیاں بلڈنگز وغیرہ ڈالی جاتی ہیں.جو اصل نہیں ہوتیں.حتی کہ موسم بھی مرضی کا ڈالا جاتا ہے.چاہے توبارش والا ایفیکٹ ڈال دو چاہے کڑک دھوپ والا.
کوئی بھی عام شخص نہیں جان سکتا کہ یہ اصل ہے یا نقل.
جس دور میں بین ہر آئی تھی.اس وقت سپیشل ایفیکٹس تو تھے.مگر آج کے سپیشل ایفیکٹس کا 0.01% تھے.
فلم 1959 میں ریلیز ہوئی.مگر اس سے قبل پانچ سال کے عرصے میں اس کے چالیس سکرپٹ لکھے گئے.ناول بہت ضخیم تھا.اسے سکرپٹ میں ڈھالنا بہت مشکل تھا.لہذا چالیس سکرپٹ رد کر دیے گئے.
جب پروڈیوسر نے سکرپٹ کے ساتھ عظیم ہدایتکار سر ولیم وائلر سے رابطہ کیا.تو ولیم وائلر نے صاف انکار کر دیا کہ میں یہ فلم نہیں کر سکتا.اس کی کوئی base ہی نہیں ہے.سکرپٹ میں جان نہیں ہے.اس سے پہلے راک ہڈسن اور مارلن برانڈو بھی بطور اداکار اس فلم میں کام کرنے سے انکار کرچکے تھے.پروڈیوسر سام نے ولیم وائلر کو دس لاکھ ڈالر معاوضے کی پیشکش کی.جو اس سے قبل کسی نے سوچا بھی نہیں.ہوگا.ولیم وائلر نے سکرپٹ پہ نظر ثانی کی ہامی بھر لی.سکرپٹ پر دوبارہ سے کام ہوا.ہر شے اکھاڑ پچھاڑ دی گئی.ایک ماہ کے عرصے میں سکرین پلے تیار تھا.
اب جس قدر بڑا پراجیکٹ یہ تھا.کسی ایک بھی شخص کو امید نہیں تھی کہ یہ فلم بن سکے گی.حتی کہ خود ولیم وائلر کو بھی نہیں.ولیم وائلر خود ایک یہودی تھے.اور وہ مذاقا کہتے " ایک یہودی ایسی فلم بنا رہا ہے جو عیسائیت کو پروموٹ کرتی ہے".
فلم میں سب سے پہلے کشتیوں کی لڑائی والا حصہ فلمایا گیا.فلم میں ایک غلطی تھی جسے بعد میں مورخین نے پوائنٹ آوٹ کیا.کہ رومن یوں مل کر چپو نہیں چلایا کرتے تھے.جیسے تہہ خانے میں سب قیدیوں کو چپو چلاتے دکھایا گیا.
اس چپو والے سین کو ( جس میں سپیڈ اہستہ سے تیز اور بے حد تیز کی گئی ) کو فلمانے میں ایک ماہ کا عرصہ لگا.جو کہ فقط تین چار منٹ کا سین ہے.اس سین کو ایک اسٹنٹ ڈائریکٹر نے ڈائریکٹ کیا.اور مختلف زاویوں سے عجیب و غریب شاٹس لیے.بعد میں raw ریکارڈنگ ضائع کر کے ( جو کئی گھنٹوں پہ مشتمل تھی) یہ تین منٹ کا حصہ رکھ لیا گیا.پھر کشتیوں کی لڑائی والا حصہ ریکارڈ ہوا.جو کشتیاں بین ہر میں استعمال ہوئی.وہ میوزیم میں محفوظ ہیں.
فلم کو عکسبند ہونے میں نو ماہ لگے.اور ہر روز سولہ گھنٹے شوٹنگ ہوتی.اور ہفتے کے چھ دن کام ہوتا تھا.ولیم وائلر نے نو ماہ میں صرف دو چھٹیاں کی.کیونکہ انہیں نزلہ زکام ہوگیا تھا.
فلم میں استعمال ہونے والے چھ کیمروں کی قیمت ایک لاکھ ڈالر تھی.جو آج کے ساڑھے سات لاکھ ڈالر ( تقریبا آٹھ کروڑ پاکستانی روپے ) بنتے ہیں.گھڑ دوڑ کا سین فلماتے ہوئے ایک کیمرہ ٹوٹ گیا تھا جس پر کیمرہ مینوں ( کیمرہ اتنا بڑا تھا کہ اسے چار لوگ مل کر چلاتے تھے) نے ولیم وائلر سے خوب ڈانٹ کھائی ہوگی.
فلم کا جو سیٹ یروشلم میں لگایا گیا اس پر دس لاکھ پاونڈ پلاسٹر اور 250 میل لمبے سریے اور پائپ استعمال ہوئے.
فلم میں استعمال ہونے والے جانور یوگوسلاویہ سمیت دیگر ممالک سے منگوائے گئے.فلم میں چھتیس گھوڑے دکھائے گئے ہیں.ان سب کو ٹرین کرنے اور ان کی حفاظت کیلیے بیس ملازم بھرتی ہوئے.کل گھوڑے سو سے زیادہ تھے.کیونکہ ریس کی شوٹنگ کے دوران ایک ہی گھوڑے مسلسل نہیں بھاگ سکتے تھے.روم میں گرمی بہت تھی.ایک گھوڑا بمشکل آٹھ چکر نکال پاتا تھا.باربار ری ٹیکس لینا پڑتے تھے.گھڑ دوڑ کی شوٹنگ کے دوران پانچ گھوڑے زخمی ہو کر اللہ کو پیارے ہوگئے.ریس کے دوران ہر بگھی میں چار گھوڑے جوتے گئے ہیں مگر ایک بگھی میں تین گھوڑے بھی جوتے گئے.اور چوتھے گھوڑے کی جگہ کیمرہ فٹ کر دیا گیا تا کہ سین قریب سے فلمایا جا سکے.یعنی انگریز بھی جگاڑو ہیں
فلم کا بجٹ اتنا زیادہ تھا کہ فلم ساز کمپنی کے مالکان ہر ہفتے امریکہ سے روم آتے کہ فلم کا کام دیکھ سکیں کتنا ہوا ہے.ایک بار فلم ساز کمپنی کا مالک خود چل کر ولیم وائلر کے پاس آیا اور کہا کہ بجٹ بہت بڑھ گیا ہے.کوئی ہتھ ہولا رکھو..مگر ولیم وائلر " نو - تھینک یو " کہہ کر کام میں مصروف ہو گئے.

فلم کے تین سو سیٹ لگائے گئے.سیٹ ڈیزائن کرنے کیلیے ایک خاکہ بنایا جاتا ہے.لہذا اس فلم کیلیے پندرہ ہزار سکیچ تیار کیے گئے.سیٹ کا کل رقبہ تین سو چالیس ایکڑ بنتا ہے.فلم کیلیے گیارہ ہزار کاسٹیوم خریدے گئے.اور سو کے قریب فوجی لباس.اور اس عظیم وارڈ روب کو سنبھالنے کیلیے سو ملازمین.
گیارہ ہزار کاسٹیوم اس لیے کیونکہ فلم میں کام کرنے والوں کی تعداد دس ہزار تھی.
گھڑ دوڑ میں دکھائی گئی عوام نقل نہیں تھی.بلکہ اس کیلیے پندرہ ہزار ایکسٹرا ہائر کیے گئے.اٹھارہ ایکڑ پہ مشتمل ریس کورس میں دس ہفتے تک گھڑ دوڑ کی شوٹنگ ہوئی.اور سیکڑوں لوگ بسوں پہ روز شوٹنگ دیکھنے آتے.اور ریس کورس کے گیٹ پر اندر انے کیلیے ہنگامہ کرتے جس سے نمٹنے کیلیے خصوصی سیکیورٹی تعینات ہوئی.فلم کے سب سیٹ ڈیزائن کرنے میں پانچ سال تحقیق ہوئی.اور چودہ ماہ میں مزدوروں نے سیٹ تیار کیے.قدیم روم میں گھڑ دوڑ کا اسٹیڈیم کیسا ہوتا تھا.یہ جاننے کیلیے آرکیالوجسٹس اور مورخین نے روم کا دورہ تحقیق کیا.مگر سب ریس کورس نہایت خستہ تھے.لہذا کوئی اندازہ نہ لگایا جا سکا.اور اپنے اندازے سے ہی ریس کورس ڈیزائن کر دیا گیا.مگر وہ حقیقت کے قریب تر تھا.راونڈ پورا ہونے پہ ڈولفن مچھلی اپنا منہ نیچے کرتی ہے.یہ حقیقت میں ایسا ہوتا تھا.اور ریس کورس کے درمیان میں رکھے عظیم بت بھی حقیقت تھے.جن کو تیار کرنے میں کافی وقت لگا.
صحرا والے سب سین لیبیا میں شوٹ ہونے تھے.جب فلم ساز عملہ وہاں پہنچا .تو وہاں کی مسلمان جماعتوں کو علم ہوا کہ یہ فلم عیسائیت کے فروغ کیلیے ہے.تو انہوں نے فلم ساز عملے سے کہا..نکلو ایتھوں تہاڈی پین دی سری.
لہذا عملہ لیبیا سے خالی واپس اگیا.اور سپین کے صحرا میں جا کر شوٹنگ کی.جو یورپ کا واحد صحرا ہے.گھڑ دوڑ کا سین فلمانا عذاب سے کم نہیں تھا.لہذا ولیم وائلر نے سر ڈیوڈ لین سے درخواست کی کہ یہ حصہ اپ فلما دیں.جس پر ڈیوڈ لین نے کہا کہ ٹھیک ہے مگر سکرین پر لکھا ہوا آنا چاہیے کہ یہ حصہ میں نے فلمایا ہے.جس پر ولیم وائلر نے کہا...نہ پائی توں رہن دے..
فلم کا سیٹ نہیں تھا.بلکہ ایک پورا شہربسا ہواتھا.جہاں ہزاروں اداکار کام کر رہے تھے.ایک الگ دنیا تھی.فلم کا سیٹ اتنا بڑا تھا کہ اسے کوریج دینے کیلیے پانچ سو جرنلسٹ سیٹ پہ آئے.جو ایک ریکارڈ ہے.گھڑ دوڑ کی مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سین بناآواز کے فلمایا گیا.کیونکہ کوئی بے وقوف ہی بپھرے ہوئے گھوڑوں کے ساتھ مائیک لے کر دوڑ سکتا تھا.لہذا آواز بعد میں ڈالی گئی. ہیسٹن جس نے یہودا کا کردار نبھایا نے اس سے پہلے اپنی ایک فلم The Ten Commandments میں دو گھوڑوں والی بگھی چلائی تھی.اور اس فلم کیلیے چار گھوڑوں والی بگھی چلانا سیکھی.
ولیم وائلر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میں نے مشکل سے مشکل سین باآسانی فلمایا.مگر جب حضرت عیسی کی پھانسی کا منظر فلمانے کی باری آئی تو میں کئی راتوں تک سو نہیں سکا.مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر حضرت عیسی دکھنے میں تھے کیسے.ہر شخص کے ذہن میں ان کا اپنا امیج تھا.لہذا جو امیج سب سے زیادہ پاپولر تھا.حضرت عیسی کو ویسا ہی دکھا دیا گیا.
فلم میں کچھ چھوٹی چھوٹی تاریخی غلطیاں ہیں.پر وہ ہمیں اب معلوم ہوئی ہیں.اس وقت تک کی دستیاب تاریخ کے حساب سے وہ درست تھیں.یا فلم میں شیخ کے ایک گھوڑے کو ریگل ( چاروں گھوڑوں کے نام مشہور ستاروں کے نام پہ تھے ) بلایا جاتا ہے.جبکہ عربی ریگل کو رجل یا ریجل بلاتے ہیں.آڈیو کی ایک چھوٹی سی غلطی ہے جو پوسٹ پروڈکشن کی وجہ سے ہے.اور کچھ معمولی غلطیاں ہیں.
یہودا گھرمیں داخل ہوتے وقت دیوار میں ایک خانے کو ہاتھ لگاتا ہے.نہیں جانتے وہ کیا ہے؟؟؟؟..وہ توریت کی آیات ہیں.
یہ پہلی فلم تھی جس کو مذہبی حلقوں نے تنقید کا نشانہ نہ بناتے ہوئے قبول بھی کیا.اور تعریف بھی کی.امریکن فلم انسٹیوٹ نے اسے کو عظیم ترین فلموں کی کیٹگری Epic میں دوسرے نمبر پر رکھا ہے.اور imdb کی سو عظیم ترین فلموں میں بھی یہ پانچویں چھٹے نمبر پر موجود ہے.قدیم روم اور اسرائیل کی تاریخ یہ اپ کے سامنے کھول کر رکھ دیتی ہے.عیسائیت یا یہودیت کے خلاف آپ کی نفرت کو کم کرتی ہے.آپ کو لگتا ہے کہ آپ آج سے دو ہزار سال قبل کے زمانے میں گھوم رہے ہیں.فلم چونکہ مذہبی ہے لہذا اس کے احترام میں فلم ساز کمپنی کا ٹریڈ مارک یعنی شیر صرف منہ ہلاتا ہے..اس کی دھاڑ سنائی نہیں دیتی.
یہ سب سے پہلی فلم تھی جس نے گیارہ آسکرز جیتے.جس میں بیسٹ فلم ، بیسٹ ایکٹر ، بیسٹ ڈائریکٹر وغیرہ شامل تھے.اس کے بعد یہ اعزاز تیس چالیس سال بعد titanic نے اپنے نام کیا.

یہ فلم نہیں.ایک بہت بڑے ذہن ، ولیم وائلر کا تیار کیا گیا ایک عہد ہے.ایک آسمانی عکسی صحیفہ ہے.جو اچھے ذوق والے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتا ہے.

Tips :
فلم کو ہندی میں ہرگز نہ دیکھیں.نہایت بکواس ڈبنگ ہے.اگر آپ کو انگریزی نہیں آتی تو براہ مہربانی یہ فلم مت دیکھیں.اس فلم میں استعمال کی گئی انگریزی زبان بے حد دقیق اور مشکل ہے.جسے ولیم وائلر کے کہنے پہ اور بھی مشکل بنایا گیا تا کہ کلاسیکل ٹچ آئے.

اگر آپ چار گھنٹے تک ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے تو بھی مت دیکھیں.کیونکہ فلم کچھ کم چار گھنٹے کی ہے.

اگر آپ قدیم رومی یا اسرائیلی تاریخ سے دلچسپی نہیں رکھتے تو یہ فلم اپ کیلیے بھی نہیں.کیونکہ یہ حضرت عیسی کی کہانی ہے.

یہ ساری گفتگو 1959 والی بین ہر کے بارے میں ہے.نئی مت دیکھ لیجیے گا..

اگر ہو سکے تو فلم سے پہلے ایڈورڈ گبن کی تاریخ زوال روما ( The History of Decline and Fall of Roman Empire ) کی چھ جلدیں پڑھ لیجیے گا

شکریہ
 
طالب علموں کیلئے متاثر کن فلمیں



روایتی کلاس روم تدریس ہر ایک طالب علم میں تعلیم کا شوق وجذبہ نہیں جگا سکتی، اس لیے ایسے طالب علموں میں علم سے محبت پیدا کرنے کیلئے ایسی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں، جن کا موضوع تعلیم و تربیت رہا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال عامر خان کی ’’تارے زمین پر‘‘ اور ’’تھری ایڈیٹس‘‘ تھی، جنہوں نے باکس آفس پر کامیابیوں کے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے مصوری اور انجینئرنگ کی تعلیم میں طالب علموں کے ذوق کو مہمیزدی۔ اس کے علاوہ ہالی ووڈ نے سائنس فکشن فلموں کے ذریعے سائنس سے محبت کا عوامی شعور اُجاگر کیا۔ آج ہمارے پاس پروجیکٹرز اور اسکرینز کے ساتھ اسمارٹ کلاس رومز موجود ہیں، جہاں اساتذہ طالب علموں کو ہالی ووڈ کی متاثر کن تعلیمی فلمیں دکھا کر ان کے جذبۂ شوق کو بڑھا سکتے ہیں۔ ہالی ووڈ کی چند تعلیمی فلموں کا ذکر کرتے ہیں، جن کے ذریعے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔

Good will Hunting (1997)
رابن ولیمز، بین ایفلیک، میٹ ڈیمن اور اسٹیلن اسکارس کارڈ جیسی شاندار کاسٹ پر مبنی اس امریکی فلم کو ایفلیک اور میٹ ڈیمن نے تحریر کیا۔20سالہ نوجوان کا مرکزی کردار میٹ ڈیمن نے ادا کیا۔ ہیرو کو ریاضی اور کیمیا کے مضامین میں قدرتی ذہانت حاصل ہوتی ہے لیکن اس کی یہ صلاحیت کوئی جان نہیں پاتا۔ بچوں میں موجود پوشیدہ صلاحیتوں کو آشکار کرنے میں یہ فلم مرہم سی تاثیر رکھتی ہے۔

(The Paper Chase (1973
اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کبھی کبھی سیکھنے کے لیے ہمیں اپنا موڈ بھی بنانا پڑتا ہے۔ یہ جیمز ٹی ہارٹ کی سخت محنت اور مطالعے پر مبنی کہانی ہے، جنہیں ہارورڈ میں اپنے پہلے سال کے دوران کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ترغیب اور حوصلہ پانے میں دُشواری پیش آنے والے طالب علموں کے لیے اسے تحفہ جانیے۔

(The Great Debaters (2007
ڈیزل واشنگٹن کے مرکزی کردار پر مبنی یہ متاثرکن امریکی فلم 2007ء میں ریلیز ہوئی، جسے بذات خود ڈیزل واشنگٹن نے ڈائریکٹ کیا اور اس فلم کی پروڈیوسر اوپرا ونفرے تھیں۔ یہ فلم ولی کالج ڈیبیٹ ٹیم کے بارے میں لکھے گئے مضمون پر مبنی تھی۔ اساتذہ کی تربیت پر مبنی اور کوچ میلوِن بی ٹولسن کی حقیقی کہانی پر مشتمل اس فلم میں ایسے استاد کی داستان بیان کی گئی ہے ،جس نے اپنے طالب علموں کو چیلنج دیا کہ وہ ہارورڈ ڈیبیٹنگ چیمپئن شپ میں مقابل ٹیم کوہرا کر دکھائیں تو کوئی بات ہے۔ یہ فلم اسکول اور کالج کے طلباء میں مطالعے کا شوق بڑھاتی ہے اور وہ اپنے استاد کو متاثر کرنے کے لیے عظیم مباحث میں حصہ لے کر فاتح قرار پاتے ہیں۔

(2008) 21
21 امریکن فلم ہے، جسے رابرٹ لیوکیٹک نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ یہ فلم ایم آئی ٹی بلیک جیک ٹیم کی حقیقی زندگی پر مبنی ہے۔ اس فلم کی کہانی بیسٹ سیلر بُک ’بین میزرِچ‘ کی حقیقی کہانی پر مبنی ہے۔ ایک باصلاحیت طالب علم ہارورڈ یونیورسٹی میں داخل ہوتا ہے اور اسکالرشپ کے لیے منفرد تجربہ کرتا ہے۔ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ گزشتہ برس یہ اسکالرشپ کوریا سے تعلق رکھنے والےٹانگوں سے محروم طالب علم نے حاصل کی تھی۔ یہ ٹاسک کسی طرح آسان نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے اس طالب علم کی ریاضی کے ٹیچر سے ملاقات ہوتی ہے اور ایک غیرمعمولی ڈیل سامنے آتی ہے۔ جو طالب علم اپنے اساتذہ سے بات کرتے ہوئے جھجکتے ہیں، ان کے لئے یہ فلم انتہائی متاثرکن اور حوصلہ افزا ہوگی۔

(The Social Network (2010
دی سوشل نیٹ ورک، ایرون سورکن کی تحریر کردہ امریکن ڈراما فلم ہے، جسے 2010ء میں ڈیوڈ فنچر نے ڈائریکٹ کیا۔ اس متاثر کن فلم میں مارک زوکر برگ کے بحیثیت ہارورڈ اسٹوڈنٹ سے ملٹی ملین سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’فیس بک‘ کے قیام تک کی زندگی کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔

(Educating Rita (1983
ایجوکیٹنگ ریٹا، لیوس گلبرٹ کی جانب سے ہدایت کردہ برٹش ڈرامہ کامیڈی فلم ہے۔ اس کا اسکرین پلے ولی رسل نے لکھا، جو1980ء کے اسٹیج پلے پر مبنی تھا۔ یہ فلم محنت کش خاندان سے تعلق رکھنے والی’’ریٹا‘‘ نامی ایک لڑکی کے دُکھ پر مبنی ہے، جس کے شوہر کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنی تعلیمی جستجو چھوڑ دے۔ لیکن ریٹا کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ غربت کے دنوں میں بھی علم سے محبت کی شمع روشن رہےگی۔ نامساعد حالات میں گھرے بے سہارا طالب علموں کے لیے ریٹا رول ماڈل بن سکتی ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
یہ کسی فلم کا ریویو نہیں ہے.بلکہ فلمی تاریخ کی ایک عظیم ترین فلم کی داستان ہے.( خصوصا ان کیلیے جو فلم دیکھ چکے اور اس کے فین بھی ہیں) ساٹھ کی دہائی میں ہالی ووڈ نے ایسی کئی تاریخی فلمیں بنائی جن میں ہزاروں اداکاروں نے کام کیا.

بین ہر ( Ben - Hur ) بھی انہی میں سے ایک ہے.یہ فلم لیو والس کے ناول " بین ہر : آ ٹیل اف کرائسٹ " پر بیسڈ ہے.1925 میں اسی ناول پہ پہلے ایک خاموش فلم بن چکی تھی.مصنف لیو والس کو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ ساٹھ ستر سال بعد میرے ناول پہ ایک ایسا شاہکار بنے گا کہ عقل دنگ رہ جائے گی.
آج ٹیکنالوجی نے جس قدر ترقی کی ہے.بڑے سے بڑا سیٹ دیکھ کر بھی حیرانی نہیں ہوتی کیونکہ حقیقت میں وہ ایک ہال پہ مشتمل ہوتا ہے.جسے بعد میں chroma keying کے زریعے بدل دیا جاتا ہے.عکسبندی کے بعد ہی سین میں سڑکیں ،گاڑیاں بلڈنگز وغیرہ ڈالی جاتی ہیں.جو اصل نہیں ہوتیں.حتی کہ موسم بھی مرضی کا ڈالا جاتا ہے.چاہے توبارش والا ایفیکٹ ڈال دو چاہے کڑک دھوپ والا.
کوئی بھی عام شخص نہیں جان سکتا کہ یہ اصل ہے یا نقل.
جس دور میں بین ہر آئی تھی.اس وقت سپیشل ایفیکٹس تو تھے.مگر آج کے سپیشل ایفیکٹس کا 0.01% تھے.
فلم 1959 میں ریلیز ہوئی.مگر اس سے قبل پانچ سال کے عرصے میں اس کے چالیس سکرپٹ لکھے گئے.ناول بہت ضخیم تھا.اسے سکرپٹ میں ڈھالنا بہت مشکل تھا.لہذا چالیس سکرپٹ رد کر دیے گئے.
جب پروڈیوسر نے سکرپٹ کے ساتھ عظیم ہدایتکار سر ولیم وائلر سے رابطہ کیا.تو ولیم وائلر نے صاف انکار کر دیا کہ میں یہ فلم نہیں کر سکتا.اس کی کوئی base ہی نہیں ہے.سکرپٹ میں جان نہیں ہے.اس سے پہلے راک ہڈسن اور مارلن برانڈو بھی بطور اداکار اس فلم میں کام کرنے سے انکار کرچکے تھے.پروڈیوسر سام نے ولیم وائلر کو دس لاکھ ڈالر معاوضے کی پیشکش کی.جو اس سے قبل کسی نے سوچا بھی نہیں.ہوگا.ولیم وائلر نے سکرپٹ پہ نظر ثانی کی ہامی بھر لی.سکرپٹ پر دوبارہ سے کام ہوا.ہر شے اکھاڑ پچھاڑ دی گئی.ایک ماہ کے عرصے میں سکرین پلے تیار تھا.
اب جس قدر بڑا پراجیکٹ یہ تھا.کسی ایک بھی شخص کو امید نہیں تھی کہ یہ فلم بن سکے گی.حتی کہ خود ولیم وائلر کو بھی نہیں.ولیم وائلر خود ایک یہودی تھے.اور وہ مذاقا کہتے " ایک یہودی ایسی فلم بنا رہا ہے جو عیسائیت کو پروموٹ کرتی ہے".
فلم میں سب سے پہلے کشتیوں کی لڑائی والا حصہ فلمایا گیا.فلم میں ایک غلطی تھی جسے بعد میں مورخین نے پوائنٹ آوٹ کیا.کہ رومن یوں مل کر چپو نہیں چلایا کرتے تھے.جیسے تہہ خانے میں سب قیدیوں کو چپو چلاتے دکھایا گیا.
اس چپو والے سین کو ( جس میں سپیڈ اہستہ سے تیز اور بے حد تیز کی گئی ) کو فلمانے میں ایک ماہ کا عرصہ لگا.جو کہ فقط تین چار منٹ کا سین ہے.اس سین کو ایک اسٹنٹ ڈائریکٹر نے ڈائریکٹ کیا.اور مختلف زاویوں سے عجیب و غریب شاٹس لیے.بعد میں raw ریکارڈنگ ضائع کر کے ( جو کئی گھنٹوں پہ مشتمل تھی) یہ تین منٹ کا حصہ رکھ لیا گیا.پھر کشتیوں کی لڑائی والا حصہ ریکارڈ ہوا.جو کشتیاں بین ہر میں استعمال ہوئی.وہ میوزیم میں محفوظ ہیں.
فلم کو عکسبند ہونے میں نو ماہ لگے.اور ہر روز سولہ گھنٹے شوٹنگ ہوتی.اور ہفتے کے چھ دن کام ہوتا تھا.ولیم وائلر نے نو ماہ میں صرف دو چھٹیاں کی.کیونکہ انہیں نزلہ زکام ہوگیا تھا.
فلم میں استعمال ہونے والے چھ کیمروں کی قیمت ایک لاکھ ڈالر تھی.جو آج کے ساڑھے سات لاکھ ڈالر ( تقریبا آٹھ کروڑ پاکستانی روپے ) بنتے ہیں.گھڑ دوڑ کا سین فلماتے ہوئے ایک کیمرہ ٹوٹ گیا تھا جس پر کیمرہ مینوں ( کیمرہ اتنا بڑا تھا کہ اسے چار لوگ مل کر چلاتے تھے) نے ولیم وائلر سے خوب ڈانٹ کھائی ہوگی.
فلم کا جو سیٹ یروشلم میں لگایا گیا اس پر دس لاکھ پاونڈ پلاسٹر اور 250 میل لمبے سریے اور پائپ استعمال ہوئے.
فلم میں استعمال ہونے والے جانور یوگوسلاویہ سمیت دیگر ممالک سے منگوائے گئے.فلم میں چھتیس گھوڑے دکھائے گئے ہیں.ان سب کو ٹرین کرنے اور ان کی حفاظت کیلیے بیس ملازم بھرتی ہوئے.کل گھوڑے سو سے زیادہ تھے.کیونکہ ریس کی شوٹنگ کے دوران ایک ہی گھوڑے مسلسل نہیں بھاگ سکتے تھے.روم میں گرمی بہت تھی.ایک گھوڑا بمشکل آٹھ چکر نکال پاتا تھا.باربار ری ٹیکس لینا پڑتے تھے.گھڑ دوڑ کی شوٹنگ کے دوران پانچ گھوڑے زخمی ہو کر اللہ کو پیارے ہوگئے.ریس کے دوران ہر بگھی میں چار گھوڑے جوتے گئے ہیں مگر ایک بگھی میں تین گھوڑے بھی جوتے گئے.اور چوتھے گھوڑے کی جگہ کیمرہ فٹ کر دیا گیا تا کہ سین قریب سے فلمایا جا سکے.یعنی انگریز بھی جگاڑو ہیں
فلم کا بجٹ اتنا زیادہ تھا کہ فلم ساز کمپنی کے مالکان ہر ہفتے امریکہ سے روم آتے کہ فلم کا کام دیکھ سکیں کتنا ہوا ہے.ایک بار فلم ساز کمپنی کا مالک خود چل کر ولیم وائلر کے پاس آیا اور کہا کہ بجٹ بہت بڑھ گیا ہے.کوئی ہتھ ہولا رکھو..مگر ولیم وائلر " نو - تھینک یو " کہہ کر کام میں مصروف ہو گئے.

فلم کے تین سو سیٹ لگائے گئے.سیٹ ڈیزائن کرنے کیلیے ایک خاکہ بنایا جاتا ہے.لہذا اس فلم کیلیے پندرہ ہزار سکیچ تیار کیے گئے.سیٹ کا کل رقبہ تین سو چالیس ایکڑ بنتا ہے.فلم کیلیے گیارہ ہزار کاسٹیوم خریدے گئے.اور سو کے قریب فوجی لباس.اور اس عظیم وارڈ روب کو سنبھالنے کیلیے سو ملازمین.
گیارہ ہزار کاسٹیوم اس لیے کیونکہ فلم میں کام کرنے والوں کی تعداد دس ہزار تھی.
گھڑ دوڑ میں دکھائی گئی عوام نقل نہیں تھی.بلکہ اس کیلیے پندرہ ہزار ایکسٹرا ہائر کیے گئے.اٹھارہ ایکڑ پہ مشتمل ریس کورس میں دس ہفتے تک گھڑ دوڑ کی شوٹنگ ہوئی.اور سیکڑوں لوگ بسوں پہ روز شوٹنگ دیکھنے آتے.اور ریس کورس کے گیٹ پر اندر انے کیلیے ہنگامہ کرتے جس سے نمٹنے کیلیے خصوصی سیکیورٹی تعینات ہوئی.فلم کے سب سیٹ ڈیزائن کرنے میں پانچ سال تحقیق ہوئی.اور چودہ ماہ میں مزدوروں نے سیٹ تیار کیے.قدیم روم میں گھڑ دوڑ کا اسٹیڈیم کیسا ہوتا تھا.یہ جاننے کیلیے آرکیالوجسٹس اور مورخین نے روم کا دورہ تحقیق کیا.مگر سب ریس کورس نہایت خستہ تھے.لہذا کوئی اندازہ نہ لگایا جا سکا.اور اپنے اندازے سے ہی ریس کورس ڈیزائن کر دیا گیا.مگر وہ حقیقت کے قریب تر تھا.راونڈ پورا ہونے پہ ڈولفن مچھلی اپنا منہ نیچے کرتی ہے.یہ حقیقت میں ایسا ہوتا تھا.اور ریس کورس کے درمیان میں رکھے عظیم بت بھی حقیقت تھے.جن کو تیار کرنے میں کافی وقت لگا.
صحرا والے سب سین لیبیا میں شوٹ ہونے تھے.جب فلم ساز عملہ وہاں پہنچا .تو وہاں کی مسلمان جماعتوں کو علم ہوا کہ یہ فلم عیسائیت کے فروغ کیلیے ہے.تو انہوں نے فلم ساز عملے سے کہا..نکلو ایتھوں تہاڈی پین دی سری.
لہذا عملہ لیبیا سے خالی واپس اگیا.اور سپین کے صحرا میں جا کر شوٹنگ کی.جو یورپ کا واحد صحرا ہے.گھڑ دوڑ کا سین فلمانا عذاب سے کم نہیں تھا.لہذا ولیم وائلر نے سر ڈیوڈ لین سے درخواست کی کہ یہ حصہ اپ فلما دیں.جس پر ڈیوڈ لین نے کہا کہ ٹھیک ہے مگر سکرین پر لکھا ہوا آنا چاہیے کہ یہ حصہ میں نے فلمایا ہے.جس پر ولیم وائلر نے کہا...نہ پائی توں رہن دے..
فلم کا سیٹ نہیں تھا.بلکہ ایک پورا شہربسا ہواتھا.جہاں ہزاروں اداکار کام کر رہے تھے.ایک الگ دنیا تھی.فلم کا سیٹ اتنا بڑا تھا کہ اسے کوریج دینے کیلیے پانچ سو جرنلسٹ سیٹ پہ آئے.جو ایک ریکارڈ ہے.گھڑ دوڑ کی مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سین بناآواز کے فلمایا گیا.کیونکہ کوئی بے وقوف ہی بپھرے ہوئے گھوڑوں کے ساتھ مائیک لے کر دوڑ سکتا تھا.لہذا آواز بعد میں ڈالی گئی. ہیسٹن جس نے یہودا کا کردار نبھایا نے اس سے پہلے اپنی ایک فلم The Ten Commandments میں دو گھوڑوں والی بگھی چلائی تھی.اور اس فلم کیلیے چار گھوڑوں والی بگھی چلانا سیکھی.
ولیم وائلر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میں نے مشکل سے مشکل سین باآسانی فلمایا.مگر جب حضرت عیسی کی پھانسی کا منظر فلمانے کی باری آئی تو میں کئی راتوں تک سو نہیں سکا.مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر حضرت عیسی دکھنے میں تھے کیسے.ہر شخص کے ذہن میں ان کا اپنا امیج تھا.لہذا جو امیج سب سے زیادہ پاپولر تھا.حضرت عیسی کو ویسا ہی دکھا دیا گیا.
فلم میں کچھ چھوٹی چھوٹی تاریخی غلطیاں ہیں.پر وہ ہمیں اب معلوم ہوئی ہیں.اس وقت تک کی دستیاب تاریخ کے حساب سے وہ درست تھیں.یا فلم میں شیخ کے ایک گھوڑے کو ریگل ( چاروں گھوڑوں کے نام مشہور ستاروں کے نام پہ تھے ) بلایا جاتا ہے.جبکہ عربی ریگل کو رجل یا ریجل بلاتے ہیں.آڈیو کی ایک چھوٹی سی غلطی ہے جو پوسٹ پروڈکشن کی وجہ سے ہے.اور کچھ معمولی غلطیاں ہیں.
یہودا گھرمیں داخل ہوتے وقت دیوار میں ایک خانے کو ہاتھ لگاتا ہے.نہیں جانتے وہ کیا ہے؟؟؟؟..وہ توریت کی آیات ہیں.
یہ پہلی فلم تھی جس کو مذہبی حلقوں نے تنقید کا نشانہ نہ بناتے ہوئے قبول بھی کیا.اور تعریف بھی کی.امریکن فلم انسٹیوٹ نے اسے کو عظیم ترین فلموں کی کیٹگری Epic میں دوسرے نمبر پر رکھا ہے.اور imdb کی سو عظیم ترین فلموں میں بھی یہ پانچویں چھٹے نمبر پر موجود ہے.قدیم روم اور اسرائیل کی تاریخ یہ اپ کے سامنے کھول کر رکھ دیتی ہے.عیسائیت یا یہودیت کے خلاف آپ کی نفرت کو کم کرتی ہے.آپ کو لگتا ہے کہ آپ آج سے دو ہزار سال قبل کے زمانے میں گھوم رہے ہیں.فلم چونکہ مذہبی ہے لہذا اس کے احترام میں فلم ساز کمپنی کا ٹریڈ مارک یعنی شیر صرف منہ ہلاتا ہے..اس کی دھاڑ سنائی نہیں دیتی.
یہ سب سے پہلی فلم تھی جس نے گیارہ آسکرز جیتے.جس میں بیسٹ فلم ، بیسٹ ایکٹر ، بیسٹ ڈائریکٹر وغیرہ شامل تھے.اس کے بعد یہ اعزاز تیس چالیس سال بعد titanic نے اپنے نام کیا.

یہ فلم نہیں.ایک بہت بڑے ذہن ، ولیم وائلر کا تیار کیا گیا ایک عہد ہے.ایک آسمانی عکسی صحیفہ ہے.جو اچھے ذوق والے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتا ہے.

Tips :
فلم کو ہندی میں ہرگز نہ دیکھیں.نہایت بکواس ڈبنگ ہے.اگر آپ کو انگریزی نہیں آتی تو براہ مہربانی یہ فلم مت دیکھیں.اس فلم میں استعمال کی گئی انگریزی زبان بے حد دقیق اور مشکل ہے.جسے ولیم وائلر کے کہنے پہ اور بھی مشکل بنایا گیا تا کہ کلاسیکل ٹچ آئے.

اگر آپ چار گھنٹے تک ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے تو بھی مت دیکھیں.کیونکہ فلم کچھ کم چار گھنٹے کی ہے.

اگر آپ قدیم رومی یا اسرائیلی تاریخ سے دلچسپی نہیں رکھتے تو یہ فلم اپ کیلیے بھی نہیں.کیونکہ یہ حضرت عیسی کی کہانی ہے.

یہ ساری گفتگو 1959 والی بین ہر کے بارے میں ہے.نئی مت دیکھ لیجیے گا..

اگر ہو سکے تو فلم سے پہلے ایڈورڈ گبن کی تاریخ زوال روما ( The History of Decline and Fall of Roman Empire ) کی چھ جلدیں پڑھ لیجیے گا

شکریہ
ہو سکے تو ساتھ میں ڈاؤنلوڈ لنک بھی دے دیا کریں۔
 
ہو سکے تو ساتھ میں ڈاؤنلوڈ لنک بھی دے دیا کریں۔

یعنی نا صرف کھانا تیار کریں بلکہ نوالے بھی توڑ توڑ کر منہ میں ڈالیں۔

نالے چوپڑیاں اتو دو دو


وضاحت کے لیے شکریہ کیا حرج ہے اگر آپ کچھ کتابوں کا بھی مطالعہ کرلیں معلومات میں اضافہ بھی ہو جائے گا ۔

اب ہم ان کی ساری باتیں تو ماننے سے رہے

چلیں کوئی بات نہیں کچھ تو مان ہی جائیں گے
 

محمد وارث

لائبریرین
وضاحت کے لیے شکریہ کیا حرج ہے اگر آپ کچھ کتابوں کا بھی مطالعہ کرلیں معلومات میں اضافہ بھی ہو جائے گا ۔
کیا آپ نے گبن کی مذکورہ کتاب خود پڑھ رکھی ہے؟

محض اطلاع کے لیے کہ میں نے یہ کتاب کم و بیش کوئی دو دہائیاں قبل پڑھی تھی اور میری ذاتی لائبریری میں بھی اس کتاب کی یک جلدی تلخیص موجود ہے۔

مزید برآں یہ کہ بین ہر بھی میری آل ٹائم فیورٹ ہے لیکن آپ نے جس کتاب کا ذکر کر دیا اس سے زیادہ متاثر یہ نیچے والی فلم ہے، اور یہ فلم بھی ایک لاجواب ایپک ہے!

The Fall of the Roman Empire
p318_v_v8_ab.jpg
 
Top