سلمان حمید
محفلین
یہ کوئی دوستی تو نہ ہوئی نا پھرہاہاہاہاہاااا۔۔۔ بڑا چالاک ہے۔۔۔ بہانے بہانے سے بین السطور بیان کردہ راز اگلوانا چاہتا ہے۔ ۔۔۔ نہ بچہ نہ۔۔۔ آج خود ہی ڈھونڈ۔۔۔
یہ کوئی دوستی تو نہ ہوئی نا پھرہاہاہاہاہاااا۔۔۔ بڑا چالاک ہے۔۔۔ بہانے بہانے سے بین السطور بیان کردہ راز اگلوانا چاہتا ہے۔ ۔۔۔ نہ بچہ نہ۔۔۔ آج خود ہی ڈھونڈ۔۔۔
پورا پروگرام بتا۔ آسان الفاظ میں، بھائی کو "پمپ" کرہاہاہاہااااا۔۔۔۔ آجا پاکستان۔۔۔
تسی مچلی پیڈیا نوں جاندے او
دوست دوست نہ رہا۔۔۔۔یہ کوئی دوستی تو نہ ہوئی نا پھر
مچھلیوں کی کچھ اقسام اوپر لکھی ہیں۔ ان کے یا ان کے علاوہ کچھ غیر بیان کردہ مچھلیوں کے شکار کا ارادہ ہے۔ مچھلی پیڈیا کے پاس سامان اور تجربہ موجود ہے۔ اب سب بتا دوں کیا۔۔۔پورا پروگرام بتا۔ آسان الفاظ میں، بھائی کو "پمپ" کر
جی جاندے تے نئیں پر دوست یار پھڑ کے لے جاون تاں حرج وی کوئی نئیں
پورا پروگرام بتا۔ آسان الفاظ میں، بھائی کو "پمپ" کر
جی جاندے تے نئیں پر دوست یار پھڑ کے لے جاون تاں حرج وی کوئی نئیں
ایک بات پوچھوں! کیا سچی مچی ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔ ذبردست مزاحیہ تجزیہ تھا ابنِ انشاء صاحب یاد کروا دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مچھلی کو تاڑنا اور پرکھنا اضافی چیزیں ہیں۔ یہ شکاری کے بس میں نہیں ہوتیں۔ وہ عادت سے مجبور ہوتا ہے۔ اور اگر زیادہ دیر ہو جائے تو مچھلی کے نام پر کیکڑا پھنسنے پر بھی شکر بجا لاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر مچھلیاں گوشت خور ہوتی ہیں۔ اسی مسلم فطرت کو سامنے رکھ کر ان کو حلال نہیں کرنا پڑتا۔ یعنی وہ حلال ہی ہوتی ہیں۔ کیا تمام مچھلیاں ہلال ہوتی ہیں۔ ہم نے ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔ تمام کا شکار تم نہیں کر سکتے۔ مچھلیوں کی بےتحاشہ اقسام ہیں۔سو جن کا شکار تم کر سکو۔ سمجھو وہی حلال ہوتی ہیں، لیکن ہم ان چند کا ہی تذکرہ کریں گے جو یہاں پکڑی جا سکتی ہیں۔ ڈولا مچھلی بغیر ڈولوں کے ہوتی ہیں۔ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا گیا۔
تو پھر اس کو ڈولا کیوں کہتے ہیں۔ ہم نے حیرت سے استفسار کیا۔
۔۔۔۔۔۔
اس کو ڈولا اس لیے نہیں کہتے کہ اس کے بڑے بڑے ڈولے ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ڈولتی رہتی ہے۔ اگر تمہاری مچھلیوں سے سلام دعا نہیں ہے تو اس مچھلی سے بچا کرو۔ اگر یہ مچھلی کنڈی میں پھنس جائے تو بہتر ہے ڈوری توڑ کر کنڈی کا نقصان کر لیا کرو۔ لیکن اس مچھلی سے جتنا ممکن ہو دور رہو۔ اس کا شکار کبھی نہ کرو۔ اس میں گوشت زیادہ اور ٹھوس ہوتا ہے۔اور زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے ہی مفید رہتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ اس کے مقابلے میں پری مچھلی اس بامسمیٰ ہوتی ہے لیکن اس مچھلی میں گوشت نہیں ہوتا۔ بس ذرا پھرتی اور چلبلی سی ہوتی ہے۔ بس کانٹے ہی کانٹے۔ یوں سمجھو کہ اگر ڈولا مچھلی تھیٹر کی ہیروئن ہے تو پری انڈین کرینہ۔ کترینہ کر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی شادی میں اگر تم پہلے میٹھا زردہ پلیٹ میں ڈال لاؤ۔ تو ساتھ والا تمہیں ویسے ہی بار بار پوچھتا رہے گا۔ زردہ اچھا بنا ہوا ہے۔ گلفام مچھلی بھی بالکل زردے کی پلیٹ کی طرح توجہ کھینچتی ہے۔ پیلا سا رنگ ہوتا ہے۔ کچھ بدذوق اس کو یرقان زدہ بھی کہہ دیتے ہیں۔ چال ڈھال پنجابی ہیروئن والی سمجھو۔ تازہ پلی ہوئی۔ لیکن جب منہ مارو۔ میرا مطلب ہے پکا کر کھاؤ تو مزا نہیں آتا۔ بس ایویں عادت پوری کرنے والی بات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ کالکی صرف نام کی کالکی نہیں ہوتی۔ پکی حبشن ہے۔ کالے رنگ پر تو بڑے گانے ہیں ہم نے کہا۔ تو فرمانے لگے او بئی تم نے پنجابی کی مثل سنی ہے۔ "منہ نہ متھا، جن پہاڑوں لتھا"۔ بالکل اس پر صادق آتی ہے۔ بدصورت ایسی کہ بڑے تو بڑے بچے بھی ڈر جائیں۔ اور ایسا نہیں کہ صرف ظاہر کالا ہے۔ باطن بھی سیاہ۔ کاٹو تو گوشت ایسا سیاہ نکلتا ہے کہ الاماں ولحفیظ۔ اور زہریلی ایسی ظالم کہ اول تو کوئی کھاتا نہیں۔ اگر بیچارہ بھوک کا مارا تھوڑا بہت کھا بھی لے تو کئی کئی دن بخار ہی نہیں اترتا۔یا حیرت! جیسا نقشہ آپ نے کھینچا ہے اس کے بعد اس کو کوئی کھاتا بھی ہوگا۔ ہم نے حیرانی سے سوال کیا۔ چھوڑو یار! دنیا میں کیا نہیں ہوتا، بھوک بڑی ظالم چیز ہے۔ ہم نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے اپنا کدو جیسا سر ہلا دیا۔
کھگّا اپنے پہلوانوں کی طرح ہوتی ہے۔ بات بے بات دوسری مچھلیوں سے لڑائی کرنے پر تیار۔ کچھ بھی مل جائے کھا لیتی ہے۔ لیکن ہوتی بہت سست ہے۔ سوائے لڑائی کے اور کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ اس کی شوخی و طراوت دیکھنی ہو تو کسی دوسری مچھلی سے لڑا کر دیکھو۔گوشت بہت ہی عجیب سا ذائقہ رکھتا ہے۔ اور اگر کھا لو تو سمجھو میٹھی لسی پی لی۔ بس سوئے رہو۔ اس کا گوشت کھا کر طبع پر جو سستی چھاتی ہے اس کا اثر مہینوں نہیں جاتا۔ لڑائی بھڑائی پر تیار رہنے کے باوجود یہ کنڈی لگ جانے پربلا چون و چرا کیے کھنچی چلی آتی ہے ۔۔۔۔ اس لیئے اگر یہ کنڈی کے دائیں بائیں نظر آئے تو کنڈی وہاں سے اٹھا کر کہیں اور لگا لینی چاہیے۔
شکرگزار ہوں جاسمن صاحبہ۔ خوشی ہوئی جو تحریر آپ کے معیار ذوق پر پوری اتری۔ایک اور زبردست تحریر۔
آپ کا دل کیا کہتا ہے؟ ایسا ہے کہ نہیں۔۔۔ایک بات پوچھوں! کیا سچی مچی ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔ ذبردست مزاحیہ تجزیہ تھا ابنِ انشاء صاحب یاد کروا دیئے
اوہ نہیں جی! سمجھا ازراہِ مذاق ہے محفوظ کر لیاآپ کا دل کیا کہتا ہے؟ ایسا ہے کہ نہیں۔۔۔
شکریہ جناب عسکری شاد رہیے
جناب۔ ہم بھی ذرا سنجیدگی سے مذاق کر رہے تھے۔اوہ نہیں جی! سمجھا ازراہِ مذاق ہے محفوظ کر لیا
سنجیدگی
وہ مذاق میں سنجیدہ ہے۔کیا آپکی نمائندہ تصویر سنجیدہ ہے؟
آپ لاکھ دعویٰ کریں، ہے تو خاکہ ہی،یہ اور بات ہے کہ آپ کو اس بات کا خوف کھائے جا رہا ہے کہ جن کا خاکہ ہے وہ بزرگوار کہیں ناراض نہ ہو جائیں۔اہم نوٹ: یہ کوئی خاکہ نہیں ہے۔
دوسرا اہم نوٹ: یہ تحریر 18 سال سے کم عمر لوگوں کے لیئے ہے۔ بڑی عمر کے لوگ اگر اس کو پڑھیں تو اپنی طرف سے معانی اخذ کرنے سے گریز کریں۔
تیسرا اہم نوٹ: بقیہ اگلے سال (اگلا سال آنے پر یہی سطر دوبارہ پڑھیں)
یہ تو محبت ہے مرزا بھائی آپ کی۔ وگرنہ ہمارے پاس تو آلو پیاز والا تھیلا ہی ہے۔۔۔یہ نین کا طلسم ہوشربا اور عمرو عیار کی زنبیل میں سے دنیا جہان کی حیران کُن اشیاء برآمد ہوتیں ایسے ہی نین دلدارکی زنبیل بھی خوشگوارحیرتوں اور لاجواب تحریروں سے بھری پڑی ہے-
کون کافر ہے جو ترغیب دے رہا ہے اور کون ظالم ہے جو اس پر عمل پیرا بھی ہے۔۔۔بھئی اب تو آنجناب کی تحریریں پڑھنے کی ترغیب دی جاتی اور کہا جاتا ہے کہ ابھی تک نہیں پڑھا تو ضرور پڑھیں۔
ہاہاہاہاااا۔۔۔ نہیں سرکار۔۔۔ خاکہ نگاری اگر اس طرح ہونے لگی تو لوگ خاکہ لکھوانے سے کترانے لگیں گے۔۔۔ بزرگ کی ناراضی کا ہمیں کوئی ڈر نہ تھا۔ کہ مختار نامہ ہم نے تحریر شروع کرنے سے بھی پہلے لے لیا تھا۔آپ لاکھ دعویٰ کریں، ہے تو خاکہ ہی،یہ اور بات ہے کہ آپ کو اس بات کا خوف کھائے جا رہا ہے کہ جن کا خاکہ ہے وہ بزرگوار کہیں ناراض نہ ہو جائیں۔
تو صاحب ہمیں یقین ہے کہ موصوف بھی اپنی قسمت کی داد دیتے ہوں گے کہ واہ کیا خوب کانٹوں میں گھسیٹا گیا ہے اس رسیدہ عمر میں۔
ارے صاحب ! اس دورِ جدید میں کون سی ادبی صنف اپنے مقررہ عناصر اور معینہ سانچے کی پابند رہ گئی ہے، غزل بھی آزاد ہو چکی اور نظم بھی،ہاہاہاہاااا۔۔۔ نہیں سرکار۔۔۔ خاکہ نگاری اگر اس طرح ہونے لگی تو لوگ خاکہ لکھوانے سے کترانے لگیں گے۔۔۔
بزرگ کی ناراضی کا ہمیں کوئی ڈر نہ تھا۔ کہ مختار نامہ ہم نے تحریر شروع کرنے سے بھی پہلے لے لیا تھا۔
کیوں کہ ہم صحافی نہیں ہیں اس لیئے۔۔۔ارے صاحب ! اس دورِ جدید میں کون سی ادبی صنف اپنے مقررہ عناصر اور معینہ سانچے کی پابند رہ گئی ہے، غزل بھی آزاد ہو چکی اور نظم بھی،
اور تقریبا یہی حال نثری اصناف کا بھی ہے۔ اس طرح کے خاکہ صحافی لوگ لکھتے ہیں۔ اور آپ نے تو صحافت کی بھی ٹانگ توڑ دی، چند قدم آگے
نکل گئے۔