فہیم
لائبریرین
بس کردیں اب۔دل پہ تیر مارا کہ ہائے ہائے
کہیں مجھے نہ گانا پڑے۔
کوئی پتھر سے نہ مارے اس دیوانے کو
بس کردیں اب۔دل پہ تیر مارا کہ ہائے ہائے
بس کردیں اب۔
کہیں مجھے نہ گانا پڑے۔
کوئی پتھر سے نہ مارے اس دیوانے کو
آج گانا سنا ہی دیں۔
ہم نے اک عمر بسر کی ہے غمِ یار کے ساتھ
میر دو دن نہ جیے ہجر کے آزار کے ساتھ
یہ گانا تو میں نے خود نہیں سنا کبھی
سناؤ کیسے بھلا
اور ابھی تو میں
افطار کے لیے چلا
آداب عرض ہے
اجی گانا آپ کے والا سننا ہے،
یہ تو فراز کی ا یک غزل کا شعر تھا، ویسے ہی سنا دیا۔
سنا دو بھئی گانا ایسا بھی کیا بچہ کہہ رہا ہے باربار
کافی شدت والا شعر تھا ویسے
سنا دو بھئی گانا ایسا بھی کیا بچہ کہہ رہا ہے باربار
زحال بھائی بھی کہہ رہے ہیں، اب تو سنا ہی دیں۔
چلیں یہ ہی سنا دی
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
مگر اپنی آواز میں۔
یعنی فراز صاحب کا شمار شدت پسندوں میں ہوتا تھافراز کا شعر تھا، شدت تو ہونی ہی تھی۔
جو مرضی کہیں ایک دفعہ تو سنانا پڑے گا ہی۔یعنی آپ دونوں چاہتے ہیں کہ آئندہ آپ گانے کے نام پر ہی کانوں کو ہاتھ لگائیں
یعنی فراز صاحب کا شمار شدت پسندوں میں ہوتا تھا
جو مرضی کہیں ایک دفعہ تو سنانا پڑے گا ہی۔
جو مرضی کہیں ایک دفعہ تو سنانا پڑے گا ہی۔
یہاں پر آپ بیان کریں گے وہ جملے جسے سن کر آپ کو دفعتا غصہ آجاتا ہو۔
یوں سمجھ لیجئے کہ وہ جملہ آپ نے یہاں کہنا ہے جو آپ سے کسی طور برداشت نہ ہوتا ہو۔
ایک دفعہ غوطہ لگا دیں، پھر "سب اچھا" ہو جاتا ہے۔یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
کتنی دفعہ کہا ہے کہ سر تبدیل کروا لو یا میرا طریقہ علاج آزماؤ۔سر میں درد ہے ۔ جو اکثر میں کسی اور سے نہیں خود سے کہتی ہوں۔
ایک دفعہ غوطہ لگا دیں، پھر "سب اچھا" ہو جاتا ہے۔