تانیہ
محفلین
میرا پاکستان۔۔۔میرا گجرات
محل وقوع
گُجرات دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ لاہور سے120 کلومیٹر جنوب میں ہے ۔ آس پاس کے مشہور شہروں میں وزیرآباد، گوجرانوالہ ، لالہ موسیٰ، جہلم، کوٹلا ، منڈی بہاالدین اور آزاد کشمیر شامل ہیں ۔ شہر سینکڑوں دیہاتوں میں گھِرا ہوا ہے۔ جہاں سے لوگ کام کاج کیلئے شہر کا رخ کرتے ہیں۔ ضلع گُجرات کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔
جغرافیہ
یہ قدیمی شہر دریاؤں دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان واقع ہے۔ اسی وجہ سے یہاں کی زمین بہت ذرخیز ہے، زیادہ تر گندم ، گنے اور چاول کی کاشت کیلئے موزوں ہے۔ گجرات کے شمال مشرق میں جموں کشمیر اور شمال مغرب میں دریائے جہلم واقع ہے جو گجرات کو ضلع جہلم سے علیحدہ کرتا ہے۔ مشرق اور جنوب مشرق میں دریائے چناب جو ضلع گجرات کو ضلع گوجرانوالہ اور سیالکوٹ سے علیحدہ کرتا ہے اور جنوب میں منڈی بہاؤالدین واقع ہے- ضلع گجرات کا رقبہ تقریبا 3192 مربع کلومیٹر ہے اور یہ تین تحصیلوں،جن میں تحصیل گجرات، کھاریاں اور سرائے عالمگیر شامل ہیں۔
گجرات شہر مشہور شاھرا جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ اس ضلع کے جنوب سے دریائےچناب اور شمال سے دریائے جہلم گزرتا ہے۔ اس ضلع کے تین فوجی جوان نشان حیدر حاصل کر چکے ہیں.جن میں میجر عزیز بھٹی،میجر شبیر شریف اور میجر محمد اکرم شامل ہیں۔
شہیدوں کی یادگار کے لیئے بنایا گیا برج
تاریخ
گجرات ایک قدیمی شہر ہے۔ برطانوی تاریخ دان Gen. Cunningham کے مطابق گجرات شہر 460 قبل مسیح میں راجہ بچن پال نے دریافت کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسکندر اعظم کی فوج کو ریاست کے راجہ پورس سے دریائے جہلم کے کنارے زبردست مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ شہر کے محکمانہ نظام کی بنیاد 1900میں برطانوی سامراج نے ڈالی، جو علاقہ کے چوہدری دسوندھی خان، جو محلہ دسوندھی پورہ کے رہنے والے تھے، کی مدد سے شروع کی گئی۔ مغلیہ دور میں، مغل بادشاہوں کا کشمیر جانے کا راستہ گجرات ہی تھا۔ شاہ جہانگیر کا انتقال کشمیر سے واپسی پر راستے میں ہی ہو گیا، ریاست میں بدامنی سے بچنے کیلئے انتقال کی خبر کو چھپایا گیا اور اس کے پیٹ کی انتڑیاں نکال کر گجرات میں ہی دفنا دی گئی، جہاں اب ہر سال شاہ جہانگیر کے نام سے ایک میلہ لگتا ہے۔ انگریزوں اور سکھوں کے درمیان دو بڑی لڑائیاں اسی ضلع میں لڑیں گئیں، جن میں چیلیانوالہ اور گجرات کی لڑائی شامل ہیں۔ اور گجرات کی لڑائی جیتنے کے فورا بعد انگریزوں نے 22فروری 1849 کو پنجاب کی جیت کا اعلان کر دیا۔ گجراتیوں کے بارے میں ایک کہاوت "جوتی چک" کے نام مشہور ہے۔ ہوا یوں کہ ایک ہندو اس راستے سے کہیں جا رہا تھا۔ گجرات سے آگے نکل کر اس کی بیوی گم ہو گئی، اس نے لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ اس کی جوتی چوری ہو گئی ہے۔ "اصل میں پرانی سنسکرت میں "جوتی" بیوی کو کہا جاتا تھا۔"
تاریخی باقیات
ایسی کئی تاریخی عمارتیں اور باقیات کھنڈروں کی شکل میں گجرات کے آس پاس موجود ہیں۔ گرینڈ ٹرنک روڈ جسے "جی ٹی روڈ" بھی کہا جاتا ہے، شیر شاہ سوری نے بنوائی تھی جو گجرات کے پاس سے گزرتی ہے، ابھی تک جوں کی توں موجود ہے- یہاں کے زیادہ تر لوگ آرائیں مہر ،جٹ وڑائچ ہیں۔ قریبی قصبوں میں شادیوال، کالرہ کلاں، کنجاہ، ڈنگہ، کوٹلہ کری شریف, کڑیانوالہ اورجلالپور جٹاں شامل ہیں۔
وجہ شہرت
گجرات معروف رومانى داستان سوہنى ميہنوال كا شہر ہے
گجرات بجلى كےپنكھوں اور جوتوں كي صعنت ميں ايك نام ركھتا ہے
مزید میں گجرات کے کچھ مقامات کے بارے میں بتانا چاہونگی تصاویر کے ساتھ
دریائے چناب گجرات کا خوبصورت منظر
چوک پاکستان گجرات
یہ گجرات شہر کا مشہور چوک شیشہ چوک ہے جہاں کی مٹھائی بہت پسند کی جاتی ہے
یہ گجرات گرلز کالج کی پرانی بلڈنگ ہے لیکن اسکے ساتھ ہی نئی عمارت بھی بنائی گئی ہے
اور اسکے ایک طرف جو لوہے کا جنگلا سا نظر آ رہا ہے یہ گول شکل میں بہت بڑا سا ایک فوارہ ہے اس چوک کو فوارہ چوک بھی کہا جاتا ہے اور اسکی ایک طرف میں بہت ساری نیو بلڈنگز بھی بن چکی ہیں اب
یہ گجرات پیس ہے جو کہ تفریحی مقام بھی ہے اور شاپنگ کے لیئے بھی زبردست ہے
یہ پاسپورٹ آفس گجرات کی بلڈنگ
شاہدولہ دربار گجرات کا منظر
مشہور زمیندار کالج گجرات جو کہ بھمبر روڈ پہ واقع ہے
کانواں والا دربار گجرات
یہ ظہور الہی سٹیڈیم ہے جو کچہری چوک کے پاس ہے
گجرات میں بہت سی نیو بلڈنگز بنائی گئی ہیں ہوٹلز، میرج ہالز ، شاپنگ پلازے، سکولز،کالجز، دفاتر، ہاسپٹلزوغیرہ وغیرہ جن میں سے صرف چند ایک تصاویر سے دیکھیئے
مشہور سروس انڈسٹری کا ہیڈ آفس تو لاہور ہے لیکن انکی فیکٹریز میں سے ایک گجرات میں بھی ہے