انا للہ و انا الیہ راجعون!
رب کریم تمام حسنات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر فرمائے اور اپنی صفت رحمت کے شایانِ شان خصوصی فضل و کرم والا معاملہ فرمائے۔
فاتح بھائی ماں کی جدائی یقینا ناقابل بیان دکھ ہے لیکن سعادت مند اولاد وہی ہے جو روزانہ ایصال ثواب سے یہ رشتہ ٹوٹنے نہ دے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور اپنے والدین کے لیے سرمایہء افتخار اور صدقہء جاریہ بنائے۔ (آمین)
سچ کہا والدین کی موجودگی میں کبھی احمت کے سائے من سے جدائی کا تصور بھی نہیں ہوتا ان کے جانے کے بعد ہی دھوپ کی جھلساہٹ کا صحیع معنوں میں پتا چلتا ہے اللہ پاک آپ کی والدہ کو اپنی رحمت کے سائے تلے محفوظ رکھیں آمینگو کہ میں ظاہر نہیں کرتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے ہمیشہ لاشوں سے ڈر لگتا ہے، مجھے ان کے قریب جاتے ہوئے اندر کہیں خوف سا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ ہلنے جلنے نہ لگیں، کہیں آنکھیں کھول کے مجھے دیکھنے نہ لگ جائیں، کہیں یہ اٹھ نہ جائیں، کہیں ہاتھ بڑھا کر مجھے پکڑ نہ لیں۔۔۔
لیکن اس لاش سے مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا، میں اسے بے تحاشا چوم رہا تھا، اس کے ساتھ لپٹ کر آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا اور مجھے ڈر کی بجائے بے پناہ سکون مل رہا تھا اتنا سکون کہ مجھے نیند آنے لگی۔ میرا بے انتہا جی چاہ رہا تھا کہ کاش یہ ہلنے جلنے لگے، کاش یہ آنکھیں کھول کے مجھے دیکھے، کاش یہ اٹھ کر بیٹھ جائے، کاش یہ ہاتھ بڑھا کر مجھے پکڑ لے، مجھے بھی اپنے ساتھ اسی طرح زور سے چمٹا لے جیسے میں نے اسے چمٹا رکھا ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
میں تو اس لاش کے کان میں سرگوشیاں بھی کر رہا تھا کہ امی جی! آنکھیں تو کھولیں، ہوں ہاں ہی کر دیں، میں آپ کا بیٹا ہوں، بہت پیار کرتا ہوں آپ سے۔۔۔ مجھ سے ناراض ہیں کیا؟ بہت شدت سے دل کر رہا تھا کہ وہی پیار سے بھری آواز آئے "فاتح بیٹے!" لیکن انہوں نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ چپ ہی سادھ لی۔۔۔ ہمیشہ کے لیے۔
ان کی موجودگی میں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ سایہ کتنا گھنا کتنا آرام دہ ہے جو ہمیں میسر ہے۔۔۔ آج ان کا سایہ اٹھنے کے بعد جب جھلسا دینے والی دھوپ جلائے دے رہی ہے تو یہ حقیقت کھلی کہ کیا کھو دیا ہے ہم نے۔۔۔
وہ وجود جس نے کمزور ہو کر بھی ہم سب بہن بھائیوں اور ابو کو بے حد مضبوطی سے اپنے سائے میں چھپا رکھا تھا ، آج خود مٹی میں چھپ گیا ہے۔
یہ کب کی بات ہے؟ اللہ کریم مغفرت فرمائیں۔ اور کوئی تعزیتی کلمہ اس کے علاوہ کہہ بھی نہیں پاؤں گا۔ میرے بس میں ہے ہی نہیں۔گو کہ میں ظاہر نہیں کرتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے ہمیشہ لاشوں سے ڈر لگتا ہے، مجھے ان کے قریب جاتے ہوئے اندر کہیں خوف سا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ ہلنے جلنے نہ لگیں، کہیں آنکھیں کھول کے مجھے دیکھنے نہ لگ جائیں، کہیں یہ اٹھ نہ جائیں، کہیں ہاتھ بڑھا کر مجھے پکڑ نہ لیں۔۔۔
لیکن اس لاش سے مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا، میں اسے بے تحاشا چوم رہا تھا، اس کے ساتھ لپٹ کر آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا اور مجھے ڈر کی بجائے بے پناہ سکون مل رہا تھا اتنا سکون کہ مجھے نیند آنے لگی۔ میرا بے انتہا جی چاہ رہا تھا کہ کاش یہ ہلنے جلنے لگے، کاش یہ آنکھیں کھول کے مجھے دیکھے، کاش یہ اٹھ کر بیٹھ جائے، کاش یہ ہاتھ بڑھا کر مجھے پکڑ لے، مجھے بھی اپنے ساتھ اسی طرح زور سے چمٹا لے جیسے میں نے اسے چمٹا رکھا ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
میں تو اس لاش کے کان میں سرگوشیاں بھی کر رہا تھا کہ امی جی! آنکھیں تو کھولیں، ہوں ہاں ہی کر دیں، میں آپ کا بیٹا ہوں، بہت پیار کرتا ہوں آپ سے۔۔۔ مجھ سے ناراض ہیں کیا؟ بہت شدت سے دل کر رہا تھا کہ وہی پیار سے بھری آواز آئے "فاتح بیٹے!" لیکن انہوں نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ چپ ہی سادھ لی۔۔۔ ہمیشہ کے لیے۔
ان کی موجودگی میں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ سایہ کتنا گھنا کتنا آرام دہ ہے جو ہمیں میسر ہے۔۔۔ آج ان کا سایہ اٹھنے کے بعد جب جھلسا دینے والی دھوپ جلائے دے رہی ہے تو یہ حقیقت کھلی کہ کیا کھو دیا ہے ہم نے۔۔۔
وہ وجود جس نے کمزور ہو کر بھی ہم سب بہن بھائیوں اور ابو کو بے حد مضبوطی سے اپنے سائے میں چھپا رکھا تھا ، آج خود مٹی میں چھپ گیا ہے۔