میری فکری تنہائی کا سدباب کیجیے۔۔۔

ظفری

لائبریرین
مولانا مودودی کی بات جو کی جا رہی ہے اگر سیاق سے ہٹ کر دیکھی جائے تو کوئی قباحت نہیں۔ واقعی ارکان کی وابستگی میں یہ سب سے اہم عامل ہے تاہم اس کا یہ مطلب لینا کہ جب تک سارے کہ سارے لوگ حاجی ثنااللہ کے درجے تک نہیں پہنچتے، کچھ نہیں کیا جا سکتا، میں سمجھتا ہوں کہ غلط ہے۔

جیسا تیسا بھی عمل اور کردار ہے، اگر کچھ کرنے کی تڑپ ہے تو پہلے متحد ہوں۔۔۔ ایسی کسی تنظیم (اسم نہیں صفت کے طور پر لفظ استعمال کر رہا ہوں) کا اپنا مومینٹم یا معیار حرکت ارکان کے نکلے ہوئے کونے بھی درست کر دے گا۔۔۔۔

اگر مگر کی بجائے سفر۔۔۔۔

دیگر تنظیمی امور کی سوجھ بوجھ۔۔۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ دیوار رنگنے کے لیے کلر کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ ہونا ضروری نہیں۔۔۔۔ میں اسی اصول پر کاربند رہا ہوں اور اسے آزمودہ پایا ہے۔۔۔ ورنہ تنظیموں کی تواریخ، ڈھانچے اور حرکیات کے بارے میں مختلف مصنفین کی رائے پڑھتے رہ جائیں گے اور ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

بجا فرمایا حجازی صاحب ۔۔۔۔ میں نے بھی تقریباً یہی بات آپ سے پہلے والی پوسٹ میں کہی ہے ۔ چونکہ بات مولانا صاحب کے حوالے سے تھی اور پھر نظریہ کا پہلو بھی سامنے آیا تو شاید اس لیئے میری بات کچھ زیادہ ہی ثقیل ہوگئی کہ پھر کسی بھائی کا جواب اس کے بعد نہیں آیا ۔ ;)

اور اگر یہی نقطہِ نظر پاکستان کے قیام میں کار فرما ہوتا یعنی سب حاجی امام دین یا حاجی ثناء اللہ ہوتے تو پاکستان کا قیام شاید ممکن نہیں ہوتا کہ بہرحال حاجی ثناء اللہ وغیرہ نے تو قیامِ پاکستان کہ مخالفت ہی کی تھی ۔ ;)
 

ابوشامل

محفلین
مولانا صاحب کی بات اخلاقی اور مذہبی نقطۂ نظر ہی سے ہے، اس لیے میرے خیال میں اس میں مخالفت کا پہلو نہیں نکلتا۔ اور نہ ہی میرے خیال میں مولانا نے تمام افراد کے "حاجی ثناء اللہ" بننے کی بات کی ہے، مولانا کے مخاطبین دین کے داعی حضرات تھے، اور میرے خیال میں قرآن مجید بھی داعیان دین حق سے اسی طرح مخاطب ہے "لم تقولون مالا تفعلون" "تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں۔"
 
بات کے کئی پہلو نکل آئے ہیں۔ سوال صرف اتنا تھا کہ آپ کی ایک تنظیم ہے۔ اور اس تنظیم کے سمجھیئے دس ارکان ہیں۔ اور دس ارکان کو یقین کامل ہے کہ وہ دس ارکان ایک دوسرے کے بہترین رفیق ہیں۔ اب گیارہواں رکن آتا ہے،
1۔ 11واں رکن وہ کون سا ایسا کام کرے کہ باقی کو یقین آجائے کہ وہ اب سچ مچ ان کا ساتھی ہے۔
2۔ اور خود اس 11ویں کو یقین ہوجائے کہ میں اس بینچ مارک پر پورا اترتا ہوں اور لوگ مجھے سچ مچ اپنا ساتھی تصور کرتے ہیں۔

ان سوالوں کے جواب تھوڑی دیر بعد، جب ان سوالات کی اہمیت اجاگر ہو جائے گی۔
ہم بنیادی طور پر ایک ایسی تنظیم کے بارے میں بات کررہے ہیں جس کے اغراض‌و مقاصد واضح ہوں، پر امن ہو اور اس کے دور رس نتائج نکلتے ہوں۔ عام زندگی میں، ملکی سیاست میں۔ کیا ایسی تنظیم کی ضرورت ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں ایسی تنظیمیں موجود رہی ہیں؟ دیکھئے کہ 1730 سے ایسی تنظیمیں موجود رہی ہیں لیکن مسلمانوں کو اس میں داخل ہونے نہیں دیا گیا۔ http://www.masonindia.org/index10.html آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایس تنظیم کا وجود متحدہ ہندوستان میں 1730 سے ہے اور ہندوستان کا چیف جسٹس اس کا ممبر ہے۔ لیکن عام مسلمان نے اس کے بارے نا دیکھا نا سنا۔ کیا ایسی کوئی جماعت یا تنظیم پاکستان میں یا مسلم ممالک میں بھی ہے؟ مجھے نہیں‌یقین کہ ایسی کسی تنظیم کا وجود ہے؟ انگریزوں نے بہت سے انسٹی ٹیوشنز اس ملک میں‌چھوڑے لیکن وہ سب انتظامی، عسکری، سیاسی یا مذہبی ہیں۔ کسی ایسی جماعت کا وجود نہیں جو فلاح‌عامہ کے کئے ایک اجتماعی سوچ فراہم کرتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بیشتر مسائیل ہمیں نطر آتے ہیں جن کا بہت آسان علاج ہے لیکن کوئی کچھ کرتا نہیں ہے۔ البتہ لوگ سوال ضرور کرتے رہتے ہیں کہ کوئی کچھ کرتا کیوں نہیں۔

ایسی تنظیم کا ڈھانچہ کیا ہو اور اغراض مقاصد کیا ہوں؟
ابتدائی طور پر یہ ذہن میں آتا ہے کہ:
لوگ آپسی بھائی چارہ کے لئے ایک دوسرے کے دوست ہوں۔ پرامن ہوں، نیکی مقصد ہو اور اعلی کردار و قدروں کے مالک ہوں۔ یہ ایک غیر سیاسی اور غیر مذہبی جماعت ہو، اور اس کا ڈیزائین ایسا ہو کہ یہ یہ خود بخود پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ جو لوگ اس سے وابستہ ہوجائیں وہ اس کو عمر بھر بناء زبردستی کے خود سے نہ چھوڑیں۔ یہ جغرافیائی حدود سے آزاد ہو۔ ملکی اور عالاقائی قوانین کی خلاف ورزی نہ کرتی ہو۔ مذہب کو بظور نیک گائیڈ لائین استعمال کرتی ہو لیکن مذہب تفرقہ کا باعث نہ ہو۔ اس کی انٹیلی جنس کسی گروپ یا شخص کے پاس نہ ہو بلکہ تمام تر انٹیلی جنس اور ذہانت اس کے مکمل نیٹ ورک میں ہو۔

ایسا کیونکر ہوگا؟
ایسا جب ہوگا جب اراکین کو یقین ہو کہ وہ ایک دوسرے پر انحصار کرسکتے ہیں۔ ایک آواز بن سکتے ہیں۔ اور اس سے وہ بڑی تبدیلیاں‌ ایک باہمی مشورہ یاجمہوری طرز عمل کی مدد سے لا سکتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے کلبوں کی شکل میں‌ہو، جو ایک طرح کے ہوں اور لوکل سطح پر کام کرتے ہوں۔ اور زندگی بھر کی رفاقت کس طرح حاصل ہو؟ ایک ممبر کی وفات کی صورت میں اس کے پیچھے رہ جانے والے ضرورت مند افراد کی کم از کم تعلیم مکمل کرانے کی ذمہ داری باقی کلب کے ممبران اٹھاتے ہوں یا مزید یہ کہ فوت ہوجانے والے کے ضرورت مند لواحقین کی حسب ضرورت مدد کی جائے۔

اب اس وفاداری کے بناء اور اس وفاداری سے حاصل ہونے والے فائیدے کے لئے جو لوگ اس تنظیم کا حصہ بنیں وہ اپنی وفاداری کا خود اپنے آپ کو یقین کس طرح دلائیں؟ اور کیونکر عمر بھر ایسی تنظیم سے وابستہ رہیں۔

ٹوسٹ ماسٹرز یہ کام 10 تقریریں دے کر کرتے ہیں، لیکن چونکہ یہ کسی فائیدہ دینے کا عمل جاری نہیں‌رہتا ہے لہذا ان کی تنظیم کے پرانے ممبر بھاگ جاتے ہیں۔ مسلمان یہی کام کلمہ پڑھ کر کرتے ہیں، اور وفاداری کا یقین نماز پڑھ کر اور دیگر عبادات سے دلاتے ہیں۔ مسلمان اسلام سے آخرت ضائع نہ ہوجائے، اس سے جڑے رہتے ہیں۔ اور اس ظرح آپس میں‌متحد ہوتے ہیں۔ فری میسنز، اسماعیلی میمن اور چند مزید ایسی ہی تنظیموں کے ممبراں، آپس میں کم از کم ایک بار مل کر کھانا کھاتے ہیں اور جو جس کی مرضی ہو اپنے لوکل گروپ میں چندہ دیتے ہیں اور جہاں‌بھی جاتے ہیں وہاں کا لوکل گروپ جوائین کرلیتے ہیں۔ فری میسنز کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اپنا چارٹر زبانی یاد کرکے اپنی تنظیم کو وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔ اسمعیلی حضرات دعائیں یاد کرکے اپنی شمولیت کا یقین دلاتے ہیں۔

تو گویا یہ سامنے آیا کہ لوگوں کے فوری اور جاری انفرادی فائیدہ، ایک تنظیم کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اجتماعی فائیدہ، طویل مدت یا وفات کی صورت میں حاصل ہونے والا کم از کم فائیدہ ان کی طویل وفاداری کو جاری رکھتا ہے۔ آپس میں باقاعدگی سے ملنا، ساتھ کھانا کھانا، چندہ دینا اور اس جمع شدہ رقم کا حساب رکھنا، اور باہمی فائیدہ کے لئے لوکل سطح‌پر استعمال کرنا۔ اور اس طرح سے ایک نیٹ ورک بناتے چلے جانا ایک ایسی تنظیم کی بنیاد ڈال سکتا ہے جو مذہبی اور سیاسی سرحدوں سے آزاد ہو لیکن وسیع پیمانے پر ایک اجتماعی سوچ کو جنم دے اور اس اجتماعی سوچ کو پنپنے کے لئے سازگار حالات فراہم کرے۔

ایسی تنظیم میں رکنیت کے لئے چھوٹا سا ٹیسٹ۔ ملنے کا ریکارڈ اور ہر میٹنگ کا پہلے سے طے شدہ ایجنڈا، اس میٹنگ کے نتائج کا ریکارڈ اور پھر ان گروپس کے درمیان آپس میں دہری اور تہری کمیونیکیشن ایس کسی تنظیم کو پھیلانے کے لئے ضروری ہے۔

اضافی کام جو ایسی کوئی تنظیم کر سکتی ہے وہ ہے فلاح و بہبود کے کام، جیسے مفت ہسپتال کا قیام جہاں بچوں کا مفت علاج کیا جاتا ہو یا دواؤں کی فراہمی کی جاتی ہو۔ یہ ہفتے میں ایک بار بھوکوں کو کھانا فراہم کردیا جاتا ہو۔

یہ تھا وہ لب لباب جو بہت سادہ ہے۔ مقصد نیک ہے۔ وہ یہ کہ آپسی بھائی چارہ، نیکی، انصاف، اتحاد، امن و امان اور غیر سیاسی و غیر مذہبی تنظیم جو ایک ذہانت سے بھرپور رائے عامہ ہموار کرتی ہو اور اس میں اوپر سے لے کر نیچے تک اور نیچے سے لے کر اوپر تک کمیونیکیٹ کرنے کی صلاحیت ہو۔

مسلم لیگ قئم کرنے والے لوگ نہایت تعلیم یافتہ تھے اور باہمی مشورے سے انہوں نے جس تحریک اور جس نظریے کی بنیاد ڈالی وہ خوب پنپا۔ میں نے اپنا خیال ظاہر کیا اب آپ سب اپنی قیمتی آراؤں سے اس نوازیے۔ مجھے یقین ہے کہ دیر یا بدیر ہمارے پاس بھی ایک ایسی تنظیم کا وجود ہوگا جس میں انٹیلیجنس اس کے نیٹ‌ورک میں ہوگی۔ اور ایک یا دو اشخاص اپنی من مانی نہیں کرسکیں گے۔

اب آپ دیکھئے کہ درج ذیل سے مودودی کے کیا معنی ہیں۔ خاور آپ کا مطالعہ بہیت وسیع ہے اور محسن، محب، ظفری، خاور، آپ کی ذہانت بہت زیادہ ہے۔

دنیا میں انقلابی جدو جہد کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ یہاں صحیح نظریہ موجود ہو۔ صحیح نظریے کے ساتھ ایسے لوگ درکار ہیں جو اس نظریے پر سچا ایمان رکھتے ہوں۔ ان کو سب سے پہلے اپنے ایمان کا ثبوت دینا ہوگا اور وہ صرف اسی طرح دیا جاسکتا ہے کہ وہ جس اقتدار کو تسلیم کرتے ہیں اس کے خود مطیع بنیں، جس ضابطے پر ایمان لاتے ہیں اس کے خود پابند ہوں، جس اخلاق کو صحیح کہتے ہیں اس کا خود نمونہ بنیں،


آپ دیکھئے کہ کسی بھی نظریہ پر ایمان کا ثبوت دینے کی ضرورت کو مودودی نے اجاگر کیا اور کہا کہ اس ضابطے پر یہ لوگ یقین رکھتے ہیں اس کا ثبوت فراہم کریں، کسے بھی طور اور جو بھی خود کہتے ہوں وہ ہی کرتے بھی ہوں۔ اوپر میں نے ان تمام باتوں کی تفصیل فراہم کی۔ آپ نوٹ‌کیجئے کہ یہی سب خیلات آپ کے ذہن میں‌بھی حالیہ دور میں گھومتے رہے ہیں اور موجودہ مسائیل کو حل کرنے کا ایک طریقہ ایک مربوط رائے عامہ کو ہموار کرنا اور پھر اس رائے عامہ کو کسی بھی بارود سے بڑھ کر استعمال کرنا -- آپ سب کو بھی -- نظر آتا ہے۔ کہنے دیجئے کہ ان خیالات کا سہرا کسی ایک شخص کے سر نہیں باندھا جاسکتا۔ نہ میرے نہ آپ کے بلکہ یہ ہم سب کے مل کر سوال کرنے کے نتیجہ میں یہ جواب واضح ہورہا ہے۔

والسلام۔
 
اگر مگر کی بجائے سفر۔۔۔۔

دیگر تنظیمی امور کی سوجھ بوجھ۔۔۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ دیوار رنگنے کے لیے کلر کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ ہونا ضروری نہیں۔۔۔۔ میں اسی اصول پر کاربند رہا ہوں اور اسے آزمودہ پایا ہے۔۔۔ ورنہ تنظیموں کی تواریخ، ڈھانچے اور حرکیات کے بارے میں مختلف مصنفین کی رائے پڑھتے رہ جائیں گے اور ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

میں آپ کی بات سے متفق ہوں محسن بھائی! پہلے ایک پلیٹ فارم مہیا ہوجائے، ایک ڈھانچہ نظر آنے لگے، اس کے بعد دوسری باتوں کی طرف توجہ کیا جانا بہتر ہوگا۔
 

محسن حجازی

محفلین
تمام قصے میں سے مذہب کو مکمل طور پر خارج کرنا تو بات ختم کر دینے کے مترادف ہے۔ اگر مذہب کو خارج ہی کرنا ہے تو فری میسن میں شمولیت اختیار کی لی جائے۔

دیگر مذہب کے بارے میں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہر انسانی گروہ کوئی نہ کوئی Code of Conduct رکھتا ہے اور ہم بھی انسان ہی ہیں۔

اور اسلام کے بارے میں بھی توحید اور رسالت سے آگےہم کوئی بات نہیں چھیڑ رہے نہ رفع الیدین کی نہ زکوۃ کی اور نہ ہی یہ مذہبی جماعت ہے۔
 
آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ کہ قران و توحید و رسول اللہ منبع ہدائت ہوں۔ مجھے یہ ظاہر کرنا چاہئیے تھا۔ غیر مذہبی کہنے سے میرا بالکل یہی مطلب تھا جو آپ نے فراہم کیا۔ ورنہ یہ مسلمانوں کی تنظیم نہیں رہے گی۔ آپ نے درست فرمایا۔ مزید یہ بھی مطلب تھا کہ کسی دیوبندی، بریلوی قسم کے فرقہ کہ بنیاد نہیں رکھنی۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
مولانا صاحب کی بات اخلاقی اور مذہبی نقطۂ نظر ہی سے ہے، اس لیے میرے خیال میں اس میں مخالفت کا پہلو نہیں نکلتا۔ اور نہ ہی میرے خیال میں مولانا نے تمام افراد کے "حاجی ثناء اللہ" بننے کی بات کی ہے، مولانا کے مخاطبین دین کے داعی حضرات تھے، اور میرے خیال میں قرآن مجید بھی داعیان دین حق سے اسی طرح مخاطب ہے "لم تقولون مالا تفعلون" "تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں۔"
مولانا صاحب کی بات پر اس حوالے سے نہ کوئی مخالفت کا پہلو نکلتا ہے اور نہ ہی نکالنا چاہیئے ۔ دراصل میں نے یہ کہنے کی جسارت کی تھی کہ جس تنظیم کا ڈھانچہ ہم بنانے کا سوچ رہے ہیں ۔ اس میں صرف وہی نظریاتی پہلو اُجاگر کیئے جائیں ۔ جس کے تحت اس تنظیم کو بنانے کا خیال آیا ہے ۔ مذہبی حوالے سے جیسا کہ محسن بھائی نے کہا کہ ہم توحید اور رسالت سے آگے بات نہیں چھیڑ رہے ۔ کیونکہ اگر مزید نظریات اور عقائد یہاں‌ جمع ہوئے تو یہ تنظیم اپنی افادیت کھو دے گی ، بلکہ افادیت کیا کھوئے گی کہ اس کا وجود آنے سے ہی پہلے اختلافات کا شکار ہوکر ختم ہونے کا خدشہ ہے ۔ لہذا مذہب ہر پہلو سے سامنے اُجاگر رہے گا ۔ مگر جو بنیادی اور اساسی ترجیحات ہیں ان کو اہمیت اس لیئے دی جائے گی کہ وہی اس تنظیم کا قیام ، فعال اور پھر بقاء کی ضامن ہونگیں ۔ ورنہ قائدِ اعظم کے پیچھے اگر سب یہ کہہ کر پڑ جاتے کہ میاں ! پہلے تم خود تو نماز قائم کرو پھر کسی اسلامی مملکت کا سوچنا تو پھر آج معاملہ کچھ اور ہی ہوتا ۔
 

ظفری

لائبریرین
میرا خیال ہے سب کا جوش و خروش اب ٹھنڈا ہو گیا ہے۔۔۔۔ تاوقتیکہ کوئی نئی افتاد آن پڑے!


ہاہاہا ۔۔۔ ویسے حجازی صاحب یہی ہمارا رویہ اور مزاج ہے ہم خوب اچھل اچھل کر ملک کے کونے کونے سے برائیاں ڈھونڈ کر لاتے ہیں ۔ پھر اس پر خوب شور وغل مچاتے ہیں ۔ جب اس کے سدباب کا کہا جاتا ہے تو کسی اور برائی کو ڈھونڈ کر لانے کا کہہ کر چپ چاپ کھسک لیتے ہیں ۔ بہرحال ۔۔ پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہاراں رکھ ۔ ( کچھ ایسا ہی شعر تھا ) ۔ سو ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔شاید رمضان کی وجہ سے بھی وقفہ آگیا ہو کہ دوست یار ابھی مکمل طور پر اسمیں حصہ نہیں لے پا رہے ہوں ۔ انشاءاللہ عید کے بعد امید ہے کہ اس تجویز پر ہم تیزی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں گے ۔:)
 
میرا خیال ہے سب کا جوش و خروش اب ٹھنڈا ہو گیا ہے۔۔۔۔ تاوقتیکہ کوئی نئی افتاد آن پڑے!

میرا جوش و خروش تو بہرحال اب بھی تازہ ہے، اسی طرح جیسا کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہے۔ لیکن یہ جوش و خروش تازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلسل قدم اٹھائے جائیں۔۔۔ ایک جگہ رک کر اگر سوچ میں پڑ گئے یا اپنی حیثیت یا ضرورت کے بارے میں شک ہونے لگے تو حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ ویسے بھی ہماری قوم کی سیاسی تربیت کچھ زیادہ اعلی پائے کی نہیں۔۔۔! جوش و جذبہ ہی ہے جو یک دم گرم ہوجاتا ہے اور یک دم سرد۔
 
میرا خیال ہے کہ صرف ان ہی ساتھیوں تک محدود نہیں رہنا ہے جو ابھی اس حوالہ سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ بہتر ہے کہ ہم جلد سے جلد بنیادی باتیں طے کرلیں تاکہ اپنا پیغامِ امن پھیلایا جاسکے۔۔۔ جتنی زیادہ باریکیوں میں پڑیں گے اور بال کی کھال نکالیں گے، اتنا ہی مقصد سے دور ہوتے جائیں گے۔
 

محسن حجازی

محفلین
میرا جوش و خروش تو بہرحال اب بھی تازہ ہے، اسی طرح جیسا کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہے۔ لیکن یہ جوش و خروش تازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلسل قدم اٹھائے جائیں۔۔۔ ایک جگہ رک کر اگر سوچ میں پڑ گئے یا اپنی حیثیت یا ضرورت کے بارے میں شک ہونے لگے تو حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ ویسے بھی ہماری قوم کی سیاسی تربیت کچھ زیادہ اعلی پائے کی نہیں۔۔۔! جوش و جذبہ ہی ہے جو یک دم گرم ہوجاتا ہے اور یک دم سرد۔
کی بات سے اتفاق ہے۔ کہ قران و توحید و رسول اللہ منبع ہدائت ہوں۔ مجھے یہ ظاہر کرنا چاہئیے تھا۔ غیر مذہبی کہنے سے میرا بالکل یہی مطلب تھا جو آپ نے فراہم کیا۔ ورنہ یہ مسلمانوں کی تنظیم نہیں رہے گی۔ آپ نے درست فرمایا۔ مزید یہ بھی مطلب تھا کہ کسی دیوبندی، بریلوی قسم کے فرقہ کہ بنیاد نہیں رکھنی۔

آپ کے غیر مذہبی کہنے سے میں آپ کا مدعا بخوبی سمجھ گیا تھا تاہم اس واسطے کہ کوئی ابہام نہ رہے، آپ ہی کا موقف قدرے مختلف الفاظ میں دہرا دیا۔

مولانا صاحب کی بات پر اس حوالے سے نہ کوئی مخالفت کا پہلو نکلتا ہے اور نہ ہی نکالنا چاہیئے ۔ دراصل میں نے یہ کہنے کی جسارت کی تھی کہ جس تنظیم کا ڈھانچہ ہم بنانے کا سوچ رہے ہیں ۔ اس میں صرف وہی نظریاتی پہلو اُجاگر کیئے جائیں ۔ جس کے تحت اس تنظیم کو بنانے کا خیال آیا ہے ۔ مذہبی حوالے سے جیسا کہ محسن بھائی نے کہا کہ ہم توحید اور رسالت سے آگے بات نہیں چھیڑ رہے ۔ کیونکہ اگر مزید نظریات اور عقائد یہاں‌ جمع ہوئے تو یہ تنظیم اپنی افادیت کھو دے گی ، بلکہ افادیت کیا کھوئے گی کہ اس کا وجود آنے سے ہی پہلے اختلافات کا شکار ہوکر ختم ہونے کا خدشہ ہے ۔ لہذا مذہب ہر پہلو سے سامنے اُجاگر رہے گا ۔ مگر جو بنیادی اور اساسی ترجیحات ہیں ان کو اہمیت اس لیئے دی جائے گی کہ وہی اس تنظیم کا قیام ، فعال اور پھر بقاء کی ضامن ہونگیں ۔ ورنہ قائدِ اعظم کے پیچھے اگر سب یہ کہہ کر پڑ جاتے کہ میاں ! پہلے تم خود تو نماز قائم کرو پھر کسی اسلامی مملکت کا سوچنا تو پھر آج معاملہ کچھ اور ہی ہوتا ۔

بالکل ظفری بھائی قائد اعظم والی خوب کہی۔۔۔ اور بالکل مذہب کے بارے میں یہی پالیسی ہے کہ فروعات سے صرف نظر کیا جائے۔۔۔۔


ہاہاہا ۔۔۔ ویسے حجازی صاحب یہی ہمارا رویہ اور مزاج ہے ہم خوب اچھل اچھل کر ملک کے کونے کونے سے برائیاں ڈھونڈ کر لاتے ہیں ۔ پھر اس پر خوب شور وغل مچاتے ہیں ۔ جب اس کے سدباب کا کہا جاتا ہے تو کسی اور برائی کو ڈھونڈ کر لانے کا کہہ کر چپ چاپ کھسک لیتے ہیں ۔ بہرحال ۔۔ پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہاراں رکھ ۔ ( کچھ ایسا ہی شعر تھا ) ۔ سو ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔شاید رمضان کی وجہ سے بھی وقفہ آگیا ہو کہ دوست یار ابھی مکمل طور پر اسمیں حصہ نہیں لے پا رہے ہوں ۔ انشاءاللہ عید کے بعد امید ہے کہ اس تجویز پر ہم تیزی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں گے ۔

ظفری بھائی میرے گھر پر فی الوقت فون کنکشن نہیں ہے اس لیے انٹرنیٹ موبائل پر ہی استعمال کرتا ہوں اور موبائل میں اردو فونٹ نہیں اس واسطے محفل کو نہیں دیکھ پاتا۔ سو یہاں پر رابطہ دفتر سے ہی ہو پاتا ہے۔ سوچا تھا کہ ہفتہ اور اتوار خوب بحث ہوئی ہوگی لیکن یہاں تو سناٹا تھا۔
خیر کوئی بات نہیں اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں استقامت اور مستقل مزاجی عطا فرمائے۔۔۔
 

دوست

محفلین
دیکھو جی ایک ڈھانچہ تیار کرلو تو میرے جیسے کئی آجائیں گے۔ بحث کرنی ہے تو کسی کے پاس کچھ نہیں کہنے کے لیے اب۔
 
اپنے ارد گرد دیکھئے، ہر چیز دو بار بنی ہے۔ ایک بار کسی کے ذہن میں اور دوسری بات حقیقت میں۔ اگر ایک شخص ایک خواب، ایک نظریہ، ایک خیال پیش کرسکتا ہے تو ہی دوسرے اس پر عمل کرسکتے ہیں۔ لہذا اگر کسی تنظیم کی تصویر نہیں‌تو کچھ بھی نہیں۔ میں‌ایک ابتدائی خیال پیش کرتا ہوں۔
اس با امن تنظیم کے 1۔ اغراض و مقاصد اور 2۔ ممبران کی ذمہ داریوں کی ایک مختصر لسٹ‌ بنائی جائے۔ اور 3۔ ایک کلب کے کم سے کم ارکان کی تعداد طے کی جائے۔
میری تجویز یہ ہے۔
0۔ اس کلب کےنام کی تجویز طلب کرنا۔
1۔ ایک کلب کے کم سے کم ارکان 3 ہوں۔ ان کی ذمہ داری کیا ہو، یہ کوئی اور تجویز کرے۔
2۔ ابتدائی مقصد، مہینے میں کم سے کم ایک وقت مل کر بیٹھنا، جس کا پہلے سے تعین ہو۔ مثلاَ‌ہر پہلے سنیچر کی شام کو مل کر کھانا کھانا، کھانا اپنے گھر سے لایا جائے :) اور پہلے سے متفقہ ایجنڈے پر خیال آرائی اور جن باتوں پر فیصلہ درکار ہے، ان کا فیصلہ کرنا۔ اور اگر کوئی ذمہ داری کسی ممبر تنظیم کو سونپنی ہے تو وہ سونپنا۔
3۔ اغراض‌مقاصد تحرید کرنا اور اگلی میٹنگ میں اس کو زیر بحث لانا۔
4۔ نئے ممبر کو شامل ہونے کے لئے کیا کرنا ہوگا۔ اس پر تجویز طلب کرنا۔
 
فاروق سرور صاحب! بہت اچھی تجاویز دی ہیں آپ نے۔۔۔۔۔۔ اور یقینا یہ قابلِ عمل ہیں۔
میرے نزدیک، جو سب سے پہلا قدم ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس تنظیم/ تحریک کے مقاصد کا تعین واضح واضح الفاظ میں کرلیں۔ مثلا:
1۔ یہ تنظیم سیاسی ہوگی۔
2۔ اس کی بنیاد اگرچہ دین اسلام پر ہوگی تاہم اس کے دروازے ہر دین و مذہب کے لیے کھلے ہوں گے۔ فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔
3۔ اس تنظیم کے اراکین حتی الامکان پُر امن رہیں گے۔
4۔ ہر رکن خود میں اور دوسروں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی کوشش کرے گا۔ (اس حوالہ سے مختلف معلومات کا آپس میں تبادلہ کیا جاسکتا ہے)
5۔ تمام اراکین آپس میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا لحاظ کریں گے۔
6۔ زیادہ سے زیادہ پڑھے لکھے شریف لوگوں کو اس تنظیم میں شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔ (یہ قدم کچھ بعد کا ہے)
7۔ ہر رکن اپنی استطاعت کے مطابق معاشرے میں علم کی روشنی پھیلانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی فی البدیہہ یہی ذہن میں آئے۔۔۔۔۔ ;) یہ ایک مثال کے طور پر ہیں۔ اس طرح کے نکات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب بنیادی باتیں طے ہوجائیں گی اور یہ بات سامنے آجائے گی کہ کون کون سے اراکین اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔۔۔۔۔ اس کے بعد دوسرے لوگوں کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ باریک باریک باتوں پر بحث کرنے یا بال کی کھال نکالنے سے گریز کرنا مناسب ہوگا کیونکہ یہ عمل ہمیں مزید الجھادے گا۔ اس وقت پاکستانیوں کی جو حالت مجھے نظر آتی ہے، اس کے مطابق وہ اب زیادہ بحث کرنا یا ڈائیلاگ کرنا نہیں چاہتے۔۔۔۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ عملی طور پر کچھ کیا جائے۔ ان میں لاوا بھرا ہے جو پھٹ کر بہنے کو بے تاب ہے۔ (یہ پاکستان میں رہنے والوں کی بات ہے)۔
 

دوست

محفلین
پہاڑ ڈھانے کا خیال دل سے نکال دیں۔ پہلی بات۔ ایک سادہ سی تنظیم جو صفر سے کام شروع کرے۔ بعد میں‌ آہستہ آہستہ مزید گولز شامل کیے جاتے رہیں۔ ایک بات اور فی الحال اس کا قیام ویب پر ہی ممکن ہوگا۔
 
پہاڑ کون ڈھارہا ہے بھئی؟ لیکن کچھ بنیادی باتیں تو طے ہونی ہیں نا۔۔۔۔۔۔ یا وہ بھی نہیں؟
چلیں سب سے پہلے مقصد کا تعین کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!
 

پاکستانی

محفلین
فاروق سرور صاحب! بہت اچھی تجاویز دی ہیں آپ نے۔۔۔۔۔۔ اور یقینا یہ قابلِ عمل ہیں۔
میرے نزدیک، جو سب سے پہلا قدم ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس تنظیم/ تحریک کے مقاصد کا تعین واضح واضح الفاظ میں کرلیں۔ مثلا:
1۔ یہ تنظیم سیاسی ہوگی۔
2۔ اس کی بنیاد اگرچہ دین اسلام پر ہوگی تاہم اس کے دروازے ہر دین و مذہب کے لیے کھلے ہوں گے۔ فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔
3۔ اس تنظیم کے اراکین حتی الامکان پُر امن رہیں گے۔
4۔ ہر رکن خود میں اور دوسروں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی کوشش کرے گا۔ (اس حوالہ سے مختلف معلومات کا آپس میں تبادلہ کیا جاسکتا ہے)
5۔ تمام اراکین آپس میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا لحاظ کریں گے۔
6۔ زیادہ سے زیادہ پڑھے لکھے شریف لوگوں کو اس تنظیم میں شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔ (یہ قدم کچھ بعد کا ہے)
7۔ ہر رکن اپنی استطاعت کے مطابق معاشرے میں علم کی روشنی پھیلانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی فی البدیہہ یہی ذہن میں آئے۔۔۔۔۔ ;) یہ ایک مثال کے طور پر ہیں۔ اس طرح کے نکات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب بنیادی باتیں طے ہوجائیں گی اور یہ بات سامنے آجائے گی کہ کون کون سے اراکین اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔۔۔۔۔ اس کے بعد دوسرے لوگوں کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ باریک باریک باتوں پر بحث کرنے یا بال کی کھال نکالنے سے گریز کرنا مناسب ہوگا کیونکہ یہ عمل ہمیں مزید الجھادے گا۔ اس وقت پاکستانیوں کی جو حالت مجھے نظر آتی ہے، اس کے مطابق وہ اب زیادہ بحث کرنا یا ڈائیلاگ کرنا نہیں چاہتے۔۔۔۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ عملی طور پر کچھ کیا جائے۔ ان میں لاوا بھرا ہے جو پھٹ کر بہنے کو بے تاب ہے۔ (یہ پاکستان میں رہنے والوں کی بات ہے)۔

میرے خیال سے آپ کے یہ سات نکات پہلے ہی محفل کا ہر ممبر اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا رہا ہے۔
نیٹ خیال و خواب کی دنیا ہے یہاں ایسی چیزوں کا بسیرا کہاں، شاکر نے بالکل صحیح کہا ہے کہ '' پہاڑ ڈھانے کا خیال دل سے نکال دیں ''
 
میرے خیال سے آپ کے یہ سات نکات پہلے ہی محفل کا ہر ممبر اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا رہا ہے۔
نیٹ خیال و خواب کی دنیا ہے یہاں ایسی چیزوں کا بسیرا کہاں، شاکر نے بالکل صحیح کہا ہے کہ '' پہاڑ ڈھانے کا خیال دل سے نکال دیں ''

سات نکات میں سے ایک نکتہ جو سب سے پہلا ہے، وہ محفل سے تعلق نہیں رکھتا نا۔۔۔۔۔۔ یعنی سیاسی پہلو۔
نیٹ اگرچہ خیال و خواب کی دنیا ہوگی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس پر دیکھے جانے والے خوابوں کی تعبیر بھی مل سکتی ہے۔۔۔۔ بصورت دیگر اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ہے تو موجودہ سیاسی نظام و افراد پر تنقید کرنے والے جتنے صاحبان بھی ہیں ان کو چاہئے کہ وہ ایسی تحریروں سے دل نہ جلائیں:mad:۔۔۔۔۔۔۔ لکھنا اور کہنا تو آسان ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ کیجئے تو بات ہے۔
 
Top