بات کے کئی پہلو نکل آئے ہیں۔ سوال صرف اتنا تھا کہ آپ کی ایک تنظیم ہے۔ اور اس تنظیم کے سمجھیئے دس ارکان ہیں۔ اور دس ارکان کو یقین کامل ہے کہ وہ دس ارکان ایک دوسرے کے بہترین رفیق ہیں۔ اب گیارہواں رکن آتا ہے،
1۔ 11واں رکن وہ کون سا ایسا کام کرے کہ باقی کو یقین آجائے کہ وہ اب سچ مچ ان کا ساتھی ہے۔
2۔ اور خود اس 11ویں کو یقین ہوجائے کہ میں اس بینچ مارک پر پورا اترتا ہوں اور لوگ مجھے سچ مچ اپنا ساتھی تصور کرتے ہیں۔
ان سوالوں کے جواب تھوڑی دیر بعد، جب ان سوالات کی اہمیت اجاگر ہو جائے گی۔
ہم بنیادی طور پر ایک ایسی تنظیم کے بارے میں بات کررہے ہیں جس کے اغراضو مقاصد واضح ہوں، پر امن ہو اور اس کے دور رس نتائج نکلتے ہوں۔ عام زندگی میں، ملکی سیاست میں۔ کیا ایسی تنظیم کی ضرورت ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں ایسی تنظیمیں موجود رہی ہیں؟ دیکھئے کہ 1730 سے ایسی تنظیمیں موجود رہی ہیں لیکن مسلمانوں کو اس میں داخل ہونے نہیں دیا گیا۔
http://www.masonindia.org/index10.html آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایس تنظیم کا وجود متحدہ ہندوستان میں 1730 سے ہے اور ہندوستان کا چیف جسٹس اس کا ممبر ہے۔ لیکن عام مسلمان نے اس کے بارے نا دیکھا نا سنا۔ کیا ایسی کوئی جماعت یا تنظیم پاکستان میں یا مسلم ممالک میں بھی ہے؟ مجھے نہیںیقین کہ ایسی کسی تنظیم کا وجود ہے؟ انگریزوں نے بہت سے انسٹی ٹیوشنز اس ملک میںچھوڑے لیکن وہ سب انتظامی، عسکری، سیاسی یا مذہبی ہیں۔ کسی ایسی جماعت کا وجود نہیں جو فلاحعامہ کے کئے ایک اجتماعی سوچ فراہم کرتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بیشتر مسائیل ہمیں نطر آتے ہیں جن کا بہت آسان علاج ہے لیکن کوئی کچھ کرتا نہیں ہے۔ البتہ لوگ سوال ضرور کرتے رہتے ہیں کہ کوئی کچھ کرتا کیوں نہیں۔
ایسی تنظیم کا ڈھانچہ کیا ہو اور اغراض مقاصد کیا ہوں؟
ابتدائی طور پر یہ ذہن میں آتا ہے کہ:
لوگ آپسی بھائی چارہ کے لئے ایک دوسرے کے دوست ہوں۔ پرامن ہوں، نیکی مقصد ہو اور اعلی کردار و قدروں کے مالک ہوں۔ یہ ایک غیر سیاسی اور غیر مذہبی جماعت ہو، اور اس کا ڈیزائین ایسا ہو کہ یہ یہ خود بخود پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ جو لوگ اس سے وابستہ ہوجائیں وہ اس کو عمر بھر بناء زبردستی کے خود سے نہ چھوڑیں۔ یہ جغرافیائی حدود سے آزاد ہو۔ ملکی اور عالاقائی قوانین کی خلاف ورزی نہ کرتی ہو۔ مذہب کو بظور نیک گائیڈ لائین استعمال کرتی ہو لیکن مذہب تفرقہ کا باعث نہ ہو۔ اس کی انٹیلی جنس کسی گروپ یا شخص کے پاس نہ ہو بلکہ تمام تر انٹیلی جنس اور ذہانت اس کے مکمل نیٹ ورک میں ہو۔
ایسا کیونکر ہوگا؟
ایسا جب ہوگا جب اراکین کو یقین ہو کہ وہ ایک دوسرے پر انحصار کرسکتے ہیں۔ ایک آواز بن سکتے ہیں۔ اور اس سے وہ بڑی تبدیلیاں ایک باہمی مشورہ یاجمہوری طرز عمل کی مدد سے لا سکتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے کلبوں کی شکل میںہو، جو ایک طرح کے ہوں اور لوکل سطح پر کام کرتے ہوں۔ اور زندگی بھر کی رفاقت کس طرح حاصل ہو؟ ایک ممبر کی وفات کی صورت میں اس کے پیچھے رہ جانے والے ضرورت مند افراد کی کم از کم تعلیم مکمل کرانے کی ذمہ داری باقی کلب کے ممبران اٹھاتے ہوں یا مزید یہ کہ فوت ہوجانے والے کے ضرورت مند لواحقین کی حسب ضرورت مدد کی جائے۔
اب اس وفاداری کے بناء اور اس وفاداری سے حاصل ہونے والے فائیدے کے لئے جو لوگ اس تنظیم کا حصہ بنیں وہ اپنی وفاداری کا خود اپنے آپ کو یقین کس طرح دلائیں؟ اور کیونکر عمر بھر ایسی تنظیم سے وابستہ رہیں۔
ٹوسٹ ماسٹرز یہ کام 10 تقریریں دے کر کرتے ہیں، لیکن چونکہ یہ کسی فائیدہ دینے کا عمل جاری نہیںرہتا ہے لہذا ان کی تنظیم کے پرانے ممبر بھاگ جاتے ہیں۔ مسلمان یہی کام کلمہ پڑھ کر کرتے ہیں، اور وفاداری کا یقین نماز پڑھ کر اور دیگر عبادات سے دلاتے ہیں۔ مسلمان اسلام سے آخرت ضائع نہ ہوجائے، اس سے جڑے رہتے ہیں۔ اور اس ظرح آپس میںمتحد ہوتے ہیں۔ فری میسنز، اسماعیلی میمن اور چند مزید ایسی ہی تنظیموں کے ممبراں، آپس میں کم از کم ایک بار مل کر کھانا کھاتے ہیں اور جو جس کی مرضی ہو اپنے لوکل گروپ میں چندہ دیتے ہیں اور جہاںبھی جاتے ہیں وہاں کا لوکل گروپ جوائین کرلیتے ہیں۔ فری میسنز کے بارے میں سنا ہے کہ وہ اپنا چارٹر زبانی یاد کرکے اپنی تنظیم کو وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔ اسمعیلی حضرات دعائیں یاد کرکے اپنی شمولیت کا یقین دلاتے ہیں۔
تو گویا یہ سامنے آیا کہ لوگوں کے فوری اور جاری انفرادی فائیدہ، ایک تنظیم کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اجتماعی فائیدہ، طویل مدت یا وفات کی صورت میں حاصل ہونے والا کم از کم فائیدہ ان کی طویل وفاداری کو جاری رکھتا ہے۔ آپس میں باقاعدگی سے ملنا، ساتھ کھانا کھانا، چندہ دینا اور اس جمع شدہ رقم کا حساب رکھنا، اور باہمی فائیدہ کے لئے لوکل سطحپر استعمال کرنا۔ اور اس طرح سے ایک نیٹ ورک بناتے چلے جانا ایک ایسی تنظیم کی بنیاد ڈال سکتا ہے جو مذہبی اور سیاسی سرحدوں سے آزاد ہو لیکن وسیع پیمانے پر ایک اجتماعی سوچ کو جنم دے اور اس اجتماعی سوچ کو پنپنے کے لئے سازگار حالات فراہم کرے۔
ایسی تنظیم میں رکنیت کے لئے چھوٹا سا ٹیسٹ۔ ملنے کا ریکارڈ اور ہر میٹنگ کا پہلے سے طے شدہ ایجنڈا، اس میٹنگ کے نتائج کا ریکارڈ اور پھر ان گروپس کے درمیان آپس میں دہری اور تہری کمیونیکیشن ایس کسی تنظیم کو پھیلانے کے لئے ضروری ہے۔
اضافی کام جو ایسی کوئی تنظیم کر سکتی ہے وہ ہے فلاح و بہبود کے کام، جیسے مفت ہسپتال کا قیام جہاں بچوں کا مفت علاج کیا جاتا ہو یا دواؤں کی فراہمی کی جاتی ہو۔ یہ ہفتے میں ایک بار بھوکوں کو کھانا فراہم کردیا جاتا ہو۔
یہ تھا وہ لب لباب جو بہت سادہ ہے۔ مقصد نیک ہے۔ وہ یہ کہ آپسی بھائی چارہ، نیکی، انصاف، اتحاد، امن و امان اور غیر سیاسی و غیر مذہبی تنظیم جو ایک ذہانت سے بھرپور رائے عامہ ہموار کرتی ہو اور اس میں اوپر سے لے کر نیچے تک اور نیچے سے لے کر اوپر تک کمیونیکیٹ کرنے کی صلاحیت ہو۔
مسلم لیگ قئم کرنے والے لوگ نہایت تعلیم یافتہ تھے اور باہمی مشورے سے انہوں نے جس تحریک اور جس نظریے کی بنیاد ڈالی وہ خوب پنپا۔ میں نے اپنا خیال ظاہر کیا اب آپ سب اپنی قیمتی آراؤں سے اس نوازیے۔ مجھے یقین ہے کہ دیر یا بدیر ہمارے پاس بھی ایک ایسی تنظیم کا وجود ہوگا جس میں انٹیلیجنس اس کے نیٹورک میں ہوگی۔ اور ایک یا دو اشخاص اپنی من مانی نہیں کرسکیں گے۔
اب آپ دیکھئے کہ درج ذیل سے مودودی کے کیا معنی ہیں۔ خاور آپ کا مطالعہ بہیت وسیع ہے اور محسن، محب، ظفری، خاور، آپ کی ذہانت بہت زیادہ ہے۔
دنیا میں انقلابی جدو جہد کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ یہاں صحیح نظریہ موجود ہو۔ صحیح نظریے کے ساتھ ایسے لوگ درکار ہیں جو اس نظریے پر سچا ایمان رکھتے ہوں۔ ان کو سب سے پہلے اپنے ایمان کا ثبوت دینا ہوگا اور وہ صرف اسی طرح دیا جاسکتا ہے کہ وہ جس اقتدار کو تسلیم کرتے ہیں اس کے خود مطیع بنیں، جس ضابطے پر ایمان لاتے ہیں اس کے خود پابند ہوں، جس اخلاق کو صحیح کہتے ہیں اس کا خود نمونہ بنیں،
آپ دیکھئے کہ کسی بھی نظریہ پر ایمان کا ثبوت دینے کی ضرورت کو مودودی نے اجاگر کیا اور کہا کہ اس ضابطے پر یہ لوگ یقین رکھتے ہیں اس کا ثبوت فراہم کریں، کسے بھی طور اور جو بھی خود کہتے ہوں وہ ہی کرتے بھی ہوں۔ اوپر میں نے ان تمام باتوں کی تفصیل فراہم کی۔ آپ نوٹکیجئے کہ یہی سب خیلات آپ کے ذہن میںبھی حالیہ دور میں گھومتے رہے ہیں اور موجودہ مسائیل کو حل کرنے کا ایک طریقہ ایک مربوط رائے عامہ کو ہموار کرنا اور پھر اس رائے عامہ کو کسی بھی بارود سے بڑھ کر استعمال کرنا -- آپ سب کو بھی -- نظر آتا ہے۔ کہنے دیجئے کہ ان خیالات کا سہرا کسی ایک شخص کے سر نہیں باندھا جاسکتا۔ نہ میرے نہ آپ کے بلکہ یہ ہم سب کے مل کر سوال کرنے کے نتیجہ میں یہ جواب واضح ہورہا ہے۔
والسلام۔