"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
ہر جنت نگاہ پہ مائل بنا ديا
ميرا ہي مجھ کو مد مقابل بناديا

دکھلا کے ايک جلوہ سراپئے حسن کا
آنکھوں کو اعتبار کے قابل بنا ديا
 

حجاب

محفلین
دل کے سونے آنگن میں
خواہش کا پیڑ لگایا تھا
وہ پیڑ تمہارا میرا تھا
پر ہجر کے لمبے پت جھڑ میں
اُس پیڑ کے جتنے پتّے تھے
اُس پیڑ پہ جتنی شاخیں تھیں
وہ ساری شاخیں ٹوٹ گئیں
وہ سارے پتّے سوکھ گئے
بس ایک ہی ٹہنی باقی ہے
یہ ٹہنی یاد کی ٹہنی ہے
اور ایک ہی پتّہ زندہ ہے
یہ پتّہ آس کا پتّہ ہے
یہ آس کا پتّہ جانے کیوں
اِک آس لگائے بیٹھا ہے
کہ وصل کا ساون آئے گا
تو جتنے پتّے ٹوٹے ہیں
وہ سارے پھر سے نکلیں گے
اور دل کے سونے آنگن میں
پھر سے ہریالی آئے گی
پر وقت کا موسم کہتا ہے
کہ ہجر کی کالی آندھی میں
اِس پیڑ کا بچنا مشکل ہے
اب دل کے سونے آنگن کو
آباد نہیں تم کرسکتے
پر آس کا پتّہ کہتا ہے
کہ دل کا سونا آنگن بھی
اِس پیڑ کے دم سے روشن ہے
یہ پیڑ ہی گر کٹ جائے گا
تو آنگن میں کیا رکھا ہے
دل کے سونے آنگن میں
اِک پیڑ لگا ہے خواہش کا
اُس پیڑ پہ یاد کی ٹہنی پر
ایک آس کا پتّہ زندہ ہے
نہ سوکھا ہے نہ سہما ہے۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

شمشاد

لائبریرین
وہ دن بھي کتنے اچھے تھے
جب جگنو اچھے لگتے تھے
ساون کي بارشوں ميں
ہم سب بھيگا کرتے تھے
انگلي پکڑ کر ايک دوسرے کي
قدم سے قدم ملاکر چلتے تھے
چاند کي کرنوں تلے ہم سب
کسوٹي کسوٹي کھيلا کرتے تھے
چھپ کر گرم آغوش ميں
مستقبل کے فيصلے کيا کرتے تھے
وہ اسکول سے غير حاضر رہنے کے
بہانے کر کے ٹيچرز کو عاجز کيے کرتے تھے
گرميوں کي تپتي دوپہروں ميں
دوستوں کے سنگ چپکے سے گھر سے نکلا کرتے تھے
پريڈ مس کر کے گراؤنڈ ميں بيٹھ کر
دنيا جہاں کي باتيں کيا کرتے تھے
کتابيں سامنے کھول کر
يادوں ميں کھو جايا کرتے تھے
چھو ٹي چھوٹي باتوں پر روتے
بے سبب ہي ہنسا کرتے تھے
کاش پھر لوٹ آئيں وہ فراغت کے دن
جب وقت گزاري کے بہانے ڈھونڈا کرتے تھے​
 

شمشاد

لائبریرین
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر و لیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر!
 

حجاب

محفلین
کچھ گزرے وقت کے قصّے ہیں
اب یہی متاع ہے پاس اپنے
اب باقی یہی تو یادیں ہیں
وہ دور اُمنگوں خوشیوں کا
وہ عہد خیالوں خوابوں کا
جو بیت گیا ہے اِک پل میں
اُس عہد کے کتنے ساتھی تھے
سب اِک اِک کرکے چھوٹ گئے
اب کوئی نہیں ہے ساتھ اپنے
اب باقی یہی تو یادیں ہیں
جو ساتھ گزارے تھے موسم
وہ لوٹ کے اب بھی آتے ہیں
اور ماضی میں لے جاتے ہیں
بیتے لمحوں کی یادوں سے
رہ رہ کے جی تڑپاتے ہیں
پھر یہ کہہ کر اُڑ جاتے ہیں
اب کچھ بھی نہیں ہے پاس اپنے
بس گئے دنوں کی یادیں ہیں۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

شمشاد

لائبریرین
ميري زندگي ميں شامل کئي اور بھي دکھ ہونگے
مگر ان دکھوں سے بڑھ کر تيري دستي کے ہونگے

کل راستے ميں مجھ سے اک سنگ نے کہا يہ
اسي دوستي کے بدلے ہم تيرے سنگ ہونگے

کبھي دوستي سے پہلے کبھي دوستے کے بعد
ميرا دل جو پي رہا ہے يہي زہر جام ہونگے

کہيں قتل زندگي ہے کہيں خون دوستي ہے
يہ جو آرہا ہے موسم يہي کام عام ہونگے

گر کوئي جو مجھ سے پوچھے ميري زندگي کا حاصل
کبھي تير اک خوشي تھا اب اپنے سائے ہونگے
 

ماوراء

محفلین
دنیا کو میرے دل سے شکایات عجب ہیں
میں کیسے بتاؤں میرے حالات عجب ہیں
میں تو وہی کہتا ہوں کہ جو بیت رہا ہو
اور لوگ یہ کہتے ہیں خیالات عجب ہیں
~~

سبھی لوگ تو کبھی بھی اچھے نہیں ہوتے
جن سے سچ سیکھا ہو وہ بھی سچے نہیں رہتے

کیوں ایسا ہوتا ہے کہ اعتبار کی ٹوٹی دہلیز پر
جو بہت اپنے ہوں وہ اپنے نہیں رہتے​
 

شمشاد

لائبریرین
وہ دن کيسے تھے
جب تھا ميں ناداں
بے سمجھ بے خيال
نہ تھے جذبات
اور نہ تھي خواہشات
وہ کيسے تھے
نہ تھا ہوش
اور نہ تھا جوش
نہ پيچھے کا خيال
نہ آگے بڑھنے کا دم
وہ دن کيسے تھے
نہ تھا بوجھ
اور نہ تھي کوئي سوچ
جب تھا پيار
نہ تھي نفرت کي ہار
آخر وہ دن کيسے تھے
 

شمشاد

لائبریرین
کتاب کیا لکھیں وہ پہلے ہی دکھنے آئی ہوئی ہیں :wink:
------------------------------------------------------------------------------------------------------
چھيڑے کبھي میں نے لب و رخسار کے قصے
گاہےگل و بلبل کي حکايات کو نکھارا
گاہے کسي شہزادے کے افسانے سنائے
گاہے کيا دنيائے پرستاں کا نظارا

ميں کھويا رہا جن و ملائک کے جہاں میں
ہر لحظہ اگر چہ مجھے آدم نے پکارا
(احمد فراز)
 

حجاب

محفلین
شمشاد نے کہا:
کتاب کیا لکھیں وہ پہلے ہی دکھنے آئی ہوئی ہیں :wink:
------------------------------------------------------------------------------------------------------
چھيڑے کبھي میں نے لب و رخسار کے قصے
گاہےگل و بلبل کي حکايات کو نکھارا
گاہے کسي شہزادے کے افسانے سنائے
گاہے کيا دنيائے پرستاں کا نظارا

ميں کھويا رہا جن و ملائک کے جہاں میں
ہر لحظہ اگر چہ مجھے آدم نے پکارا
(احمد فراز)
اُسی پر لکھ دیں۔ :p
 

شمشاد

لائبریرین
آنکھوں میں جل رہا ہے کیوں بجھتا نہیں دھواں
اٹھا تو ہے گھٹا سا برستا نہیں دھواں

چولہا نہیں جلایا یا بستی ہی جل گئی
کچھ روز ہو گئے ہیں اب اٹھا نہیں دھواں

آنکھوں سے پونچھنے سے لگا آنچ کا پتہ
یوں چہرہ پڑھ لینے سے چھپتا نہیں دھواں

آنکھوں سے آنسوؤں کے مراسم پرانے ہیں
مہماں یہ گھر میں آئیں تو چھبتا نہیں دھواں
(گلزار)
 

شمشاد

لائبریرین
حجاب نے کہا:
شمشاد نے کہا:
کتاب کیا لکھیں وہ پہلے ہی دکھنے آئی ہوئی ہیں :wink:
------------------------------------------------------------------------------------------------------
چھيڑے کبھي میں نے لب و رخسار کے قصے
گاہےگل و بلبل کي حکايات کو نکھارا
گاہے کسي شہزادے کے افسانے سنائے
گاہے کيا دنيائے پرستاں کا نظارا

ميں کھويا رہا جن و ملائک کے جہاں میں
ہر لحظہ اگر چہ مجھے آدم نے پکارا
(احمد فراز)
اُسی پر لکھ دیں۔ :p

یہ لیں اوپر لکھ دیا ہے۔ اور کچھ ؟
 

توقیر

محفلین
.
سنا ہے اربابِ عقل و دانش ہمیں یوں دادِ کمال دیں گے
جنوں کے دامن سے پھول چن کر خرد کے دامن میں ڈال دیں گے
.
 

شمشاد

لائبریرین
ہوش بھلا بيٹھي میں
تجھ بن ڈھول بلوچا

تيرا حال ہوا کيا
کچھ تو بول بلوچا

ظلم کيا بابل نے
جان لگي ہے رلنے

اب کيسے جيناہے
بھيد يہ کھول بلوچا

قہر يہ مجھ پر ٹوٹا
تيرا ساتھ بھي چھوٹا

ديکھ ليا جگ سارا
تو انمول بلوچا
(صابر ظفر)
 

ماوراء

محفلین
یہ ہے میری کہانی
خاموش زندگانی
سناٹا کہہ رہا ہے
کیوں ظلم سہہ رہا ہے
اک داستاں پرانی
تنہائی کی زبانی
ہر زخم کھل رہا ہے
کچھ مجھ سے کہہ رہا ہے
چھبتے کانٹے یادوں کے
دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں
بس یہ میری کہانی
بے نشاں نشانی
اک درد بہہ رہا ہے
کچھ مجھ سے کہہ رہا ہے
چھبتے کانٹے یادوں کے دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں
بجائے پیار کے شبنم میرے گلستاں میں
برستے رہتے ہیں ہر سمت موت کے سائے
سیاہیوں سے الجھ پڑتی ہیں میری آنکھیں
کوئی نہیں کوئی بھی نہیں جو بتلائے
میں کتنی دیر اجالوں کی راہ دیکھوں گا
کوئی نہیں ہے کوئی بھی نہیں نہ پاس نہ دور
اک پیار ہے دل کی دھڑکن
اپنی چاہت کا جو اعلان کیے جاتی ہے
زندگی ہے جو جیے جاتی ہے
خون کے گھونٹ پیے جاتی ہے
خواب آنکھوں سے سیے جاتی ہے
اب نہ کوئی پاس ہے
پھر بھی احساس ہے
راہیوں میں الجھی پڑی
جینے کی اک آس ہے
یادوں کا جنگل یہ دل
کانٹوں سے جل تھل یہ دل
چھبتے کانٹوں یادوں کے دامن سے چنتا ہوں
گرتی دیواروں کے آنچل میں زندہ ہوں​
 

ماوراء

محفلین
اپنی تنہائیوں میں کوئی سایا بھی نہیں
کوئی اپنا بھی نہیں کوئی پرایا بھی نہیں
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
ساری جھوٹی باتیں ہیں
دن اپنے نہ راتیں ہیں
پل پل ایک کہانی ہے
جو جیون بھر دہرانی ہے
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
چہرے کیا تصویریں ہیں
نہ خواب ہیں نہ تعبیریں ہیں
آس ہے جو کہ جیون ہے
الجھا الجھا بندھن ہے
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں
اپنی تنہائیوں میں کوئی سایا بھی نہیں
کوئی اپنا بھی نہیں کوئی پرایا بھی نہیں
کسے آواز دوں، کسے آواز دوں​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top